*رسول اللّه کی وفات پر حضرت عائشہ نے دیگر دوسری عورتوں کے ساتھ مل کر ماتم کیا (اپنا چہرہ پیٹا)*
طبقات ابن سعد میں لکھا ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ کی وفات میری آغوش اور میری باری میں ہوئی جس میں میں نے کسی پر ظلم نہیں کیا یعنی اور ازواج کی باری نہیں تھی کیونکہ انہوں نے اپنے دن خوشی سے حضرت عائشہ کو ہبہ کر دیے تھے کمسنی سے تعجب ہوا کہ رسول اللہ میری آغوش میں اٹھاے گے میں نے آپ کو اس حالت پر بھی نہ چھوڑا یہاں تک کہ آپ کو غسل دیا گیا لیکن میں نے ایک تکیہ لے کر آپ کے سر کے نیچے رکھ دیا اور *عورتوں کے ساتھ مل کر چیخنے لگی اور منہ سر پیٹنے لگی* میں نے آپ کا سر تکیہ پر رکھ دیا اور آغوش سے سر ہٹا دیا
تاریخ ابن کثیر البدایہ والنھایہ میں لکھا ہے کہ
جب نبی کریم کی وفات ہوئی تو حضرت عائشہ رضی اللہ *اپنے منہ پر تمانچے مارنے لگ پڑی*
شرح سیرت ابن ہشام میں لکھا ہے کہ جب رسالت ماب کی وفات ہوئی تو *حضرت عائشہ رضی اللہ نے اپنے رخسار پر ہاتھ مارنا شروع کر دیے*
اور یہ حرام نہیں ہے
تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ جب رسول اللہ کی وفات ہوئی اور روح قبض ہوئی تو حضرت عائشہ رضی اللہ نے جناب رسالت ماب کا سر تکیہ پر رکھ دیا اور *عورتوں کے ساتھ مل کر اپنا منہ پیٹنے لگی*
اہل سنت کی مشہور کتاب مسند ابو یعلی الموصلی میں لکھا ہے کہ
جب رسول اللہ کی وفات ہوئی اور روح قبض ہوئی تو حضرت عائشہ رضی اللہ نے جناب رسالت ماب کا سر تکیہ پر رکھ دیا اور *عورتوں کے ساتھ مل کر اپنا منہ پیٹنے لگی*
*اسناد حسن*
*ام المومنین کا اپنے چہرے اور سینے پہ ماتم کرنا (اسناد حسن)*
اہل سنت کے امام احمد بن حنبل کی کتاب مسند میں واضح طور پہ صحیح السند روایت میں درج ہے کہ
ام المومنین عائشہ رض فرماتی ہیں کہ جب نبی پاک کی روح پرواز ہوئی تو وہ میرے کمرے میں تھے پھر میں ان کا سر سرہانے پہ رکھا اور اور دوسری عورتوں کے ساتھ مل کر سینے پہ ماتم کرنا شروع کیا اور اپنے چہرے کو پیٹا!


البانی اپنی کتاب إرْوَاءُ الغَلِيْل ،ج7، ص86 میں لکھتے ہیں:
قلْتُ: وَإسْنَادُهُ حَسَنٌ. میں کہتا ہوں: اس کی *سند حسن* ہے۔














.
.
.

اہل سنت کا دعوہ ہے کہ فوت شدگان پر رونا،ماتم، اور نوحہ کرنا جائز نہیں لیکن جب ہم جناب عائشہ بنت ابی بکر کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہے تو ہم پر یہ بات ظاھر ہوتی ہے کہ وہ خود اور اس وقت کی باقی صحابیات اس کو جائز سمجھتی تھی۔
احمد بن حنبل نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ عائشہ نے فرمایا :
رسول اللہ ﷺ کی وفات میرے حلق اور سینے کے درمیان اور میری باری کے دن ہوئی۔ اس میں مئیں نے کسی پر ظلم نہ کیا۔ لیکن یہ میری نا سمجھی یا کم عمری کا نتیجہ تھا کہ نبی ﷺ میری گود میں فوت ہوگئے۔ پھر میں نے آپ ﷺ کا سر اٹھا کر تکیہ پر رکھ دیا اور خود باقی عورتوں کے ساتھ مل کر اپنے چہرے پر ہاتھ مارنے لگی۔
کتاب کے محقق شعیب الارنؤط نے حدیث کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔

ابو یعلی نے بھی اسکو اپنی سند سے نقل کیا ہے۔

ابن ھشام نے اسکو اپنی سیرت کی کتاب میں نقل کیا ہے۔

محمد بن سعد نے بھی اپنی سند دے اس روایت کو نقل کیا ہے۔

جو لفظ اس حدیث میں جناب عائشہ نے استعمال کیا ہے وہ ” التدم” ہے۔
غریب الحدیث کے عالم ابن اثیر جزائری نے اسکی توضیع یوں بیان کی ہے :
التدم – اسکا معنی ہے عورتوں کا اپنے چہرے کو مارنا جب وہ نوحہ کرتی ہیں۔
یہ لفظ عائشہ کی اس روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات میرے حلق اور سینے کے درمیان ہوا۔ پھر میں نے آپ ﷺ کا سر اٹھا کر تکیہ پر رکھ دیا اور خود باقی عورتوں کے ساتھ مل کر اپنے چہرے پر ہاتھ مارنے لگی۔

پاکستان کے ناصبی عالم غلام مصطفیٰ ظہیر امنپوری نے بھی اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے لیکن جناب عائشہ کے اس عمل کے بارے میں یوں کہتا ہے :
ان عورتوں کا یہ اقدام لاعلمی کے بنا پر تھا جن میں عائشہ بھی شامل تھی۔



۱ – پہلی بات جناب عائشہ نے رسول اللہ ﷺ کا اپنی گود میں وفات پانے کو اپنی کم عمری و جہالت پر محمول کیا نہ کہ ماتم کو۔ کیونکہ ماتم میں باقی عورتیں اسکے ساتھ تھی پھر یہاں جمع کا ضیعہ ہوتا۔
۲ – دوسری بات اوپر جو عورتیں ہیں وہ عام و جاھل عورتیں نہیں تھی جنکے عمل کو آپ جہالت پر محمول کر رہے ہو بلکہ رسول اللہ ﷺ کی صحابیات تھی۔ اگر بلفرض ان میں سے ایک عورت مثلاً عائشہ جاہل تھی تو کیا باقی سب عورتیں بھی اس جہالت میں انکے ساتھ تھی۔ کیا آپ لوگ ایسا دعوہ کر رہے ہو کہ تمام صحابیات غلطی یا جہالت پر متفق ہوگیں تھی ؟
۳- تیسری بات یہ دعوہ کرنا کہ عائشہ نے کم علمی میں آیسا کیا خود اہل سنت کی معتبر احادیث کے خلاف ہے۔
حاکم نیساپوری نے اپنی سند سے نقل کیا ہے کہ زھری نے فرمایا :
اگر تمام لوگوں کے علم کو جمع کیا جائے اور دوسری جانت عائشہ کا علم جمع کیا جائے تو جناب عائشہ کا علم زیادہ ہوگا۔
ذھبی نے حاشیہ میں لکھا کہ مسروق نے کہا کہ صحابہ میں مرد بھی اپنے اکثر سوالات عائشہ سے پوچھتے تھے اور پھر ان تمام آثار کی سند کو صحیح علی شرط شیخین قرار دیا۔

۴ – چوتھی بات یہ کہ اس ناصبی کا دعوہ اس بات سے اور زیادہ کمزور ہوتا ہے کہ جناب عائشہ نے یہی عمل دوبارہ اپنے والد کی وفات پر کیا۔
محمد بن سعد نے اپنی سند سے نقل کیا ہے کہ سعید بن مسیب نے فرمایا :
جب ابو بکر کا انتقال ہوا، عائشہ نے ان پر نوحہ کرنے والیوں کو بیٹھایا، عمر ان کے گھر پر آ گئے، اور رونے سے منع کیا۔ انہوں نے رکنے سے انکار کیا تو عمر نے ہشام بن ولید سے کہا کہ تم گھر میں داخل ہو جاو اور ابو قحافہ کی بیٹی اور ابو بکر کی بہن کو باہر نکالو۔ عائشہ نے یہ سن کر ہشام سے کہا کہ میں تمہیں مکان میں داخلے سے منع کرتی ہوں۔ مگر عمر نے ہشام سے کہا کہ میں تمہیں اجازت دے رہا ہوں، اندر جاو۔ پس وہ گیا اور ام فروہ ابو بکر کی بہن کو عمر کے پاس لے آیا۔ عمر نے درہ اٹھایا اور انہیں کئی بار مارا۔ یہ دیکھ کر نوحہ کرنے والیاں چلیں گئیں

ابن حجر نے اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
















