قبروں کا پختہ ہونا اور مسجد بنانا

قبور اصحاب کہف پر مسجد کی تعمیر
📜 وَ کَذٰلِکَ اَعۡثَرۡنَا عَلَیۡہِمۡ لِیَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ اَنَّ السَّاعَۃَ لَا رَیۡبَ فِیۡہَا ۚ اِذۡ یَتَنَازَعُوۡنَ بَیۡنَہُمۡ اَمۡرَہُمۡ فَقَالُوا ابۡنُوۡا عَلَیۡہِمۡ بُنۡیَانًا ؕ رَبُّہُمۡ اَعۡلَمُ بِہِمۡ ؕ قَالَ الَّذِیۡنَ غَلَبُوۡا عَلٰۤی اَمۡرِہِمۡ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیۡہِمۡ مَّسۡجِدًا
📄 21. اور اس طرح ہم نے ان (کے حال) پر ان لوگوں کو (جو چند صدیاں بعد کے تھے) مطلع کردیا تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ (بھی) کہ قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے۔ جب وہ (بستی والے) آپس میں ان کے معاملہ میں جھگڑا کرنے لگے (جب اصحابِ کہف وفات پاگئے) تو انہوں نے کہا کہ ان (کے غار) پر ایک عمارت (بطور یادگار) بنا دو، ان کا رب ان (کے حال) سے خوب واقف ہے، ان (ایمان والوں) نے کہا جنہیں ان کے معاملہ پر غلبہ حاصل تھا کہ ہم ان (کے دروازہ) پر ضرور ایک مسجد بنائیں گے (تاکہ مسلمان اس میں نماز پڑھیں اور ان کی قربت سے خصوصی برکت حاصل کریں)
📚 سوره الکہف
📜 اِنَّمَا یَعۡمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ لَمۡ یَخۡشَ اِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰۤی اُولٰٓئِکَ اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا مِنَ الۡمُہۡتَدِیۡنَ ﴿۱۸﴾
📄 اللہ کی مسجدیں صرف وہی آباد کر سکتا ہے جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لایا اور اس نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی اور اللہ کے سوا (کسی سے) نہ ڈرا۔ سو امید ہے کہ یہی لوگ ہدایت پانے والوں میں ہو جائیں گے
📚 سوره التوبہ
ترجمہ طاہر القادری
.
.
.
.
حرمِ کعبہ اور قبور انبیا ع
حضرت اسماعیل کی قبر میزاب کے نیچے موجود ہے, اسی طرح حجرِ اسود اور چاہِ زمزم کے درمیان 70 انبیاء مدفون ہیں۔
موحدوں کو قبر پرست بولنے والو! کہیں یہ فتوی نبی پاک پہ نہ لگا دینا
نبی پاک نے قبروں والی مسجد میں نماز پڑھی!
مسجد الخیف میں نماز پڑھی جس میں 70 انبیاء ع کی قبریں ہیں!
📜 یزید ابن اسود کہتا ہے کہ میں نے نبی پاک کے ساتھ مسجد الخیف میں نماز پڑھی۔
📚 صحيح وضعيف سنن الترمذي حديث نمبر 219
اور
📜 ابن عمر نے روایت کیا ہے کہ نبی پاک نے فرمایا مسجد الخیف میں ستر انبیاء ع کی قبریں ہیں۔
📚 المعجم الكبير للطبراني (12/ 414)
صحیح اسناد کے ساتھ مکمل روایات اور حوالاجات ملاحظہ فرمائیں
📚 صحيح وضعيف سنن الترمذي حديث نمبر 219
📜 219 حدثنا أحمد بن منيع حدثنا هشيم أخبرنا يعلى بن عطاء حدثنا جابر بن يزيد ابن الأسود العامري عن أبيه قال شهدت مع النبي صلى الله عليه وسلم حجته فصليت معه صلاة الصبح في مسجد الخيف قال فلما قضى صلاته وانحرف إذا هو برجلين في أخرى القوم لم يصليا معه فقال علي بهما فجيء بهما ترعد فرائصهما فقال ما منعكما أن تصليا معنا فقالا يا رسول الله إنا كنا قد صلينا في رحالنا قال فلا تفعلا إذا صليتما في رحالكما ثم أتيتما مسجد جماعة فصليا معهم فإنها لكما نافلة قال وفي الباب عن محجن الديلي ويزيد بن عامر قال أبو عيسى حديث يزيد بن الأسود حديث حسن صحيح وهو قول غير واحد من أهل العلم وبه يقول سفيان الثوري والشافعي وأحمد وإسحق قالوا إذا صلى الرجل وحده ثم أدرك الجماعة فإنه يعيد الصلوات كلها في الجماعة وإذا صلى الرجل المغرب وحده ثم أدرك الجماعة قالوا فإنه يصليها معهم ويشفع بركعة والتي صلى وحده هي المكتوبة عندهم.
تحقيق الألباني:
💯 صحيح، المشكاة (1152) ، صحيح أبي داود (590)
.
📚 المعجم الكبير للطبراني (12/ 414)
باب العين
مُجَاهِدٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ
📜 13525 – حَدَّثَنَا عَبْدَانُ بْنُ أَحْمَدَ،(الحافظ الثقة) ثنا عِيسَى بْنُ شَاذَانَ(ثقة حافظ)، ثنا أَبُو هَمَّامٍ الدَّلَّالُ(ثقة)، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ(بخاري اور مسلم کا راوی)، عَنْ مَنْصُورٍ(بخاري اور مسلم کا راوی)، عَنْ مُجَاهِدٍ(بخاري اور مسلم کا راوی)، عَنِ ابْنِ عُمَرَ(صحابي)، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ قَبْرُ سَبْعِينَ نَبِيًّا»
إسناده متصل ، رجاله ثقات
📚 مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (3/ 297)
[كِتَابُ الْحَجِّ]
[بَابٌ فِي مَقْبَرَةِ مَكَّةَ]
📜 5769 – وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ: ” «فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ قُبِرَ سَبْعُونَ نَبِيًّا» “.
رَوَاهُ الْبَزَّارُ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
📚 أخبار مكة للفاكهي (4/ 237)
📜 2594 – حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحٍ قَالَ: ثنا أَبُو هَمَّامٍ الدَّلَّالُ قَالَ: ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ” فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ قَبْرُ سَبْعِينَ نَبِيًّا “
.
.
*بنو امیہ کا قبر رسول (ص) کی زیارت سے روکنا*
سب سے پہلے جس نے قبر پیغمبرء کی زیارت سے روکا اور اسے پتھر سے تعبیر کیا وہ مروان بن حکم تھا جس کے باپ کو پیغمبر نے جلا وطن کیا تھا۔
جیسا کہ لکھا ہے:
📜 أقبل مروان یوما فوجد رجلا واضعا وجھہ علی القبر .فقال : أتدری ما تصنع ؟ فأقبل علیہ ،فاذا ھو أبو أیوب ؟ فقال: نعم جئت رسول اللہ ولم آت الحجر .سمعت رسول اللہ یقول : لا تبکوا علی الدّین اذا ولیہ أھلہ ولکن أبکوا علیہ اذا ولیہ غیر أھلہ
📄 ایک دن مروان بن حکم نے دیکھا کہ کوئی شخص قبر پیغمبر (ص) پر چہرہ رکھے ہوئے راز ونیاز کر رہاہے تو اس نے اس کی گردن سے پکڑ کر کہا :
کیا تو جانتا ہے کہ کیا کر رہا ہے؟
جب آگے بڑھ کر دیکھا تو وہ ابو ایوب انصاری تھے .
کہنے لگے : ہاں ! میں پیغمبرء کے پاس آیا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا.
اور میں نے پیغمبرء سے سنا ہے آپ (ص)نے فرمایا: جب دین کی سر پرستی اس کے اہل لوگ کر رہے ہوں تو اس پر مت گریہ کروبلکہ دین پر اس وقت روؤ جب اس کی سر پرستی نااہلوں کے ہاتھ میں آجائے .
حاکم نیشاپوری اور ذہبی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے .
ہر جمعہ کے دن اپنے پیاروں کی قبر پر جانا اور نماز پڑھا سنتِ بنت محمد ص ہے
📜 حَدَّثَنَا أَبُو حُمَيْدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَامِدٍ الْعَدْلُ بِالطَّابرَانِ ، ثنا تَمِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، ثنا أَبُو مُصْعَبٍ الزُّهْرِيُّ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي فُدَيْكٍ ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، كَانَتْ ” تَزُورُ قَبْرَ عَمِّهَا حَمْزَةَ كُلَّ جُمُعَةٍ فَتُصَلِّي وَتَبْكِي عِنْدَهُ “
👈🏼 هَذَا الْحَدِيثُ رُوَاتُهُ عَنْ آخِرِهِمْ ثِقَاتٌ
📄 رسول اللّه ص کی صاحبزادی حضرت فاطمہ ص ہر جمعہ کے دن آپ ص کے چچا حمزہ کی قبر کی زیارت کیلئے جاتی تھیں ، (وہاں) آپ نماز بھی پڑھتی اور آپ کی قبر کے پاس روتی بھی تھیں۔
اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں
📚 مستدرک امام حاکم جلد ١ ص ٧۵۴ ح ١٣٩٦
نوٹ: ان روایات سے عورت کا قبرستان جانا بھی ثابت ہے
ابو عبداللہ حاکم نے اپنی سند سے نقل کیا کہ ابن ابی ملکیہ سے روایت ہے کہ ایک دن عائشہ قبرستان سے آئیں تو میں نے پوچھا : اے ام المومنین! آپ کہاں سے آئی ہے؟۔
انہوں نے فرمایا : اپنے بھائی عبدالرحمان بن ابی بکر کی قبر سے۔
میں نے کہا : کیا رسول اللہ ﷺ نے قبروں کی زیارت سے منع نہیں کیا تھا؟
انہوں نے نے فرمایا : جی ہاں آپ نے منع فرمایا تھا لیکن بعد میں زیارت کا حکم دیا تھا۔
حاکم اور ذھبی دونوں نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔
⛔مستدرک علی الصحیحین – حاکم نیساپوری // جلد ۱ // صفحہ ۵۳۲ // رقم ۱۳۹۲ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
حافظ زبیر علی زائی نے بھی اس روایت کو اپنے فتاوی میں نقل کیا اور اسکی تصحیح کردی اور اسکے بعد یوں کہا :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں کے لئے قبرستان جانے کی ممانعت والی حدیث منسوخ ہے۔ لیکن دو باتیں یاد رکھیں :
۱ – رسول اللہ ﷺ نے ان عورتوں پر لعنت بھیجی ہے جو کثرت سے قبروں کی زیارت کرتی ہیں۔ دیکھئے سن الترمذی (۱۰۵۶، وقال : “حسن صحیح” وسند حسن) و صححہ ابن حبان (الاحسان :۳۱۷۸)۔
۲ – اپنے محارم کے علاوہ غیروں کی قبروں کی زیارت کے لئے جائز نہیں ہے۔ (دیکھئے سنن ابو داود : کتاب الجنائز : باب فی التعزیہ ح ۳۱۲۳ و سندہ حسن واخطا من ضعفہ)
⛔فتاوی علمیہ المعروف توضیع الاحکام – زبیر علی زائی // جلد ۱ // صفحہ ۵۶۴ – ۵۶۵ // طبع مکتبہ الفہیم یوپی ھندوستان۔
.
.
.
روایات اہل بیت ع کے مطابق قبر کا پختہ کرنا جائز ہے
.
🖋 تحریر : سید علی حیدر شیرازی
📜 مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ حُسَيْنِ بْنِ عُثْمَانَ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ أَبَانِ بْنِ تَغْلِبَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ‏ جَعَلَ عَلِيٌّ ع عَلَى قَبْرِ رَسُولِ اللَّهِ ص لَبِناً فَقُلْتُ أَ رَأَيْتَ إِنْ جَعَلَ الرَّجُلُ عَلَيْهِ آجُرّاً هَلْ يَضُرُّ الْمَيِّتَ قَالَ لَا-
ابان بن تغلب رض بیان کرتے ہیں کہ میں نے
امام جعفر صادق علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا کہ :
📄 ” حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر پر کچی اینٹ لگائی تھی “.
ابان بن تغلب نے ( امام صادق ع سے ) عرض کیا اگر کوئی شخص قبر پر پختہ (پکی) اینٹ لگائے تو آیا یہ میت کو نقصان پہنچاتی ہے؟
فرمایا: نہیں
📚 فروع کافی ج ۱ ص ۲۹۹
💯 علامہ مجلسی رح فرماتے ہیں حدیث کی سند صحیح ہے-
📚 مراة العقول ج 14 ص 104حديث 3
—————
قبر پر سنگریزے ڈالنا ، قبر پختہ کرنا یا قبر پر ایسی تختی نصب کرنا جس پر میت کا نام کندہ جائز ہے-
📜 حُمَيْدُ بْنُ زِيَادٍ عَنِ اَلْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ أَبَانٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنْ أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ قَالَ:
قَبْرُ رَسُولِ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ مُحَصَّبٌ حَصْبَاءَ حَمْرَاءَ-
📄 ابان بن تغلب رض بعض اصحاب سے اور وہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا:
” حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر پر سرخ رنگ کے سنگریزے ڈالے گئے تھے”.
📚 وسائل الشیعہ ج ۲ ص ۲۶۸ باب ۳۷ ابواب دفن
📜 عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنِ اِبْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَعْقُوبَ قَالَ: لَمَّا رَجَعَ أَبُو اَلْحَسَنِ مُوسَى عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ مِنْ بَغْدَادَ وَ مَضَى إِلَى اَلْمَدِينَةِ مَاتَتْ لَهُ اِبْنَةٌ بِفَيْدَ فَدَفَنَهَا وَ أَمَرَ بَعْضَ مَوَالِيهِ أَنْ يُجَصِّصَ قَبْرَهَا وَ يَكْتُبَ عَلَى لَوْحٍ اِسْمَهَا وَ يَجْعَلَهُ فِي اَلْقَبْرِ .
📄 یونس بن یعقوب رض بیان کرتے ہیں کہ
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام (ایک بار بغداد سے رہائی کے بعد)مدینہ واپس تشریف لائے تو(مکہ کے راستے میں)بمقام ” فید ” آپ علیہ السلام کی بچی کا انتقال ہوگیا۔امام علیہ السلام نے اسے وہیں دفن کیا اور اپنے بعض غلاموں کو حکم دیا کہ اس کی قبر کو چونہ گچ کرکے پختہ کریں اور کسی تختی پر اس کا نام لکھ کر اسے قبر پر آویزاں کریں
📚 وسائل الشیعہ ج ۲ ص ۲۶۹ ابواب دفن

8 شوال سنہ 1345 ہجری مطابق 21 اپریل 1926 عیسوی کو الله سبحانہ تعالی  و اس  کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  بدترین دشمن آل سعود نے  قبرستان جنت البقیع میں اہل بیت علیہم السلام اور صحابہ و صالحین کے مزارات کو منہدم کیا تھا اور اس پر ان کی دلیل ایک جھوٹی روایت تھی  جس پر ان کا  باطل دین  ٹکا ہوا ہے جسکو ان کے ہمنوا نواصب آج بھی بڑے آب و تاب سے بیان کرتے ہیں اور اس کے سبب مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں ۔

تحریر مولانا سید ابوہشام نجفی صاحب قبلہ

مسلم نے ابو الھیاج سے اپنی صحیح میں ایک روایت نقل کی ہے :

ابی  الھیاج اسدی بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ آگاہ رہو میں تم کو اس کام کے لئے بھیجتا ہوں جس کے لئے مجھ کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا وہ یہ کہ میں کسی تصویر کو باقی نہ چھوڑوں مگر یہ کہ اسے مٹا دوں اور نہ کسی اونچی اور ابھری ہوئی قبر کو ،مگر یہ کہ اسے (زمین) کے برابر کر دوں ۔

https://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?flag=1&bk_no=53&ID=2719

اسی روایت کو ابوداؤد نے اپنی سنن، ﺳﻨﻦﺍﺑﻲﺩﺍﻭﺩﻛﺘﺎﺏﺍﻟﺠﻨﺎﺋﺰ – ﺑﺎﺏﻓﻲﺗﺴﻮﻳﺔﺍﻟﻘﺒﺮ‏حدیث نمبر 3218، نسائ نے اپنی سنن، ﺳﻨﻦﻧﺴﺎﺋﻲﻛﺘﺎﺏﺍﻟﺠﻨﺎﺋﺰﺑﺎﺏﺗﺴﻮﻳﺔﺍﻟﻘﺒﻮﺭﺇﺫﺍﺭﻓﻌﺖ، حدیث نمبر 2033 اور  ترمذی نے اپنی سنن، سنن ترمذیﻛﺘﺎﺏﺍﻟﺠﻨﺎﺋﺰﻋﻦﺭﺳﻮﻝﺍﻟﻠﻪﺻﻠﻰﺍﻟﻠﻪﻋﻠﻴﻪﻭﺳﻠﻢ ،ﺑﺎﺏﻣَﺎﺟَﺎﺀَ ﻓِﻲﺗَﺴْﻮِﻳَﺔِ ﺍﻟْﻘُﺒُﻮﺭ حدیث نمبر 1049 پر منقطع سند کے ساتھ روایت کیا ہے (ترمذی کی سند میں ابو وائل ساقط ہو گیا ہے چنانچہ اس کی سند یوں ہے ﺳﻔﻴﺎﻥ ، ﻋﻦﺣﺒﻴﺐﺑﻦﺍﺑﻲﺛﺎﺑﺖ ، ﻋﻦﺍﺑﻲﻭﺍﺋﻞ ، ﺍﻥﻋﻠﻴﺎ ، ﻗﺎﻝ ﻻﺑﻲﺍﻟﻬﻴﺎﺝﺍﻻﺳﺪﻱ )

ان کے علاوہ بھی دیگر ناصبی محدثین نے اس روایت  کواپنی کتب میں نقل کیا ہے مگر سب کی اسناد میں شدید قسم کی خرابی پائی جاتی ہے جس کے سبب روایت غیر قابل احتجاج ہے۔

حدیث کا تنہا راوی حبیب بن ابی ثابت ہے:

 ہمارے علم میں اس روایت کو ابو وائل سے روایت کرنے والا تنہا راوی حبیب بن ابی ثابت ہے  اور اس نے روایت عن سے کی ہے علمائے اہل سنت نے حبیب کو بغیر کسی اختلاف کے  مدلس مانا ہے اور ابن حجر نے اس کو تیسرے طبقہ میں رکھا ہے، تیسرے طبقے کے مدلسین وہ ہیں جن کی “عن” والی روایات مردود ہوتی ہیں ان کی وہی روایات قابل قبول ہیں جن میں انہوں نے سماعت کی تصریح کی ہو۔

(۱)ابن حجر  حبیب ابن ابی ثابت کو مدلس کہا:

حبیب بن ابی ثابت کوفی تابعی ہے بہت زیادہ تدلیس کرنے والا تھا ابن خزیمہ اور دارقطنی وغیرہ نے اس کو اس عیب سے موصوف کیا ہے۔

http://www.shiaonlinelibrary.com/%D8%A7%D9%84%D9%83%D8%AA%D8%A8/3340_%D8%B7%D8%A8%D9%82%D8%A7%D8%AA-%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%AF%D9%84%D8%B3%D9%8A%D9%86-%D8%A7%D8%A8%D9%86-%D8%AD%D8%AC%D8%B1/%D8%A7%D9%84%D8%B5%D9%81%D8%AD%D8%A9_35

(۲)سبط ابن عجمی نے بھی حبیب بن ابی ثابت کومدلس لکھا ہے:

http://www.shiaonlinelibrary.com/%D8%A7%D9%84%D9%83%D8%AA%D8%A8/3315_%D8%A7%D9%84%D8%AA%D8%A8%D9%8A%D9%8A%D9%86-%D9%84%D8%A3%D8%B3%D9%85%D8%A7%D8%A1-%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%AF%D9%84%D8%B3%D9%8A%D9%86-%D8%B3%D8%A8%D8%B7-%D8%A7%D8%A8%D9%86-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D8%AC%D9%85%D9%8A/%D8%A7%D9%84%D8%B5%D9%81%D8%AD%D8%A9_19

(۳)بیہقی نے بھی مدلس تسلیم کیا ہے:

https://ar.lib.efatwa.ir/42094/3/456

ابن خزیمہ، دارقطنی، ابن حبان، بیہقی، ابن حجر، سبط ابن عجمی کے نزدیک حبیب مدلس ہے اور کسی نے بھی ان کی مخالفت نہیں کی لہٰذا جب تک سماعت کی تصریح نہ ہو روایت مردود ہے۔

مدلس کون ہوتا ہے:

مدلس اس راوی کو کہتے ہیں جو حدیث کے عیب کو چھپا کر اس کے حسن کو نمایاں کرتا ہے  ،مثلا کسی سے حدیث نا سنی ہو مگر یوں ظاہر کرے کہ اس نے کسی سے یہ حدیث سنی ہو ،یا کسی ضعیف راوی سے حدیث سنی ہو مگر یہ ظاہر کرے کہ اس ضعیف راوی سے نہیں سنی ہے،یوں راوی حدیث کی اصلیت کے بارے میں قاری کو اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔

تدلیس کی مذمت میں ائمہ نواصب کے بہت سخت اقوال موجود ہیں چنانچہ خطیب نے ناصبیوں کے امیرالمومنین فی الحدیث شعبہ کے مختلف اقوال نقل کئے ہیں:

شافعی نے کہا کہ شعبہ نے کہا تدلیس جھوٹ کا بھائی ہے، غندر کا بیان ہے میں نے شعبہ سے سنا کہ اس نے کہا کہ حدیث میں تدلیس زنا سے بھی زیادہ بری ہے ،مجھے آسمان سے زمین پر گرنا  زیادہ پسند ہے حدیث میں تدلیس کرنے کی نسبت، معافی کا بیان ہے کہ شعبہ نے کہا مجھے زنا کرنا حدیث میں تدلیس کرنے سے زیادہ پسند ہے۔

http://www.shiaonlinelibrary.com/%D8%A7%D9%84%D9%83%D8%AA%D8%A8/2158_%D8%A7%D9%84%D9%83%D9%81%D8%A7%D9%8A%D8%A9-%D9%81%D9%8A-%D8%B9%D9%84%D9%85-%D8%A7%D9%84%D8%B1%D9%88%D8%A7%D9%8A%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D8%AE%D8%B7%D9%8A%D8%A8-%D8%A7%D9%84%D8%A8%D8%BA%D8%AF%D8%A7%D8%AF%D9%8A/%D8%A7%D9%84%D8%B5%D9%81%D8%AD%D8%A9_385

دوسرا راوی (ابو وائل شقیق بن سلمة)دشمن امیرالمومنین (ع)ہے:

دوسرا راوی (ابو وائل شقیق بن سلمة) ہے یہ دشمن خدا منافق تھا پکا دشمن امیرالمومنین علیہ السلام تھا ،اس کا یہ باطل عقیدہ تھا کہ نعوذبااللہ امیرالمومنین علیہ السلام بدعتی تھے ۔

(۱)امیرالمومنین (ع)کو بدعتی کہتا تھا:

چنانچہ بلاذری نے با سند صحیح اس کا قول نقل کیا ہے:

حصین کا بیان ہے کہ میں نے ابو وائل سے پوچھا کہ علی علیہ السلام افضل ہیں یا عثمان؟ اس نے کہا علی نے جب تک کہ بدعت انجام نہیں دی تھی، مگر اب عثمان  ہے۔

https://lib.eshia.ir/40503/5/484

(۲) امیرالمومنین علیہ السلام کو گالیاں دیتا تھا :

نہ فقط آپ علیہ السلام کو بدعتی مانتا تھا بلکہ گالیاں بھی دیتا تھا ابن الحدید معتزلی لکھتا ہے:

وہ عثمانی تھا اور علی علیہ السلام کو گالیاں دیتا تھا۔

http://lib.eshia.ir/15335/4/99/%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%A8%D8%BA%D8%B6%D9%8A%D9%86

قاتل امام حسین علیہ السلام ابن زیاد لعنت اللہ علیہ کا خزانچی بھی تھا :

ذہبی لکھتا ہے:

وہ ابن زیاد کے بیت المال کا خزانچی تھا۔

https://islamweb.net/ar/library/index.php?page=bookcontents&ID=502&bk_no=60&flag=1

کھلم کھلا شریعت کے خلاف کام انجام دیتا تھا:

 چنانچہ ابن قتیبہ لکھتا ہے:

کہ وہ جر یعنی جو کی شراب پیتا اور کسم سے رنگے کپڑے  پہنتا  اور ان کے پہنے کو برا نہیں سمجھتا تھا ۔

https://shamela.ws/book/12129/571

شراب کی حرمت تو بلکل واضح ہے، کسم سے رنگے کپڑوں کی حرمت  بھی صحیح مسلم سے ہی نقل کئے دیتے ہیں۔

چنانچہ مسلم نے اپنی صحیح میں، ﻛِﺘَﺎﺏ ﺍﻟﻠِّﺒَﺎﺱِ ﻭَﺍﻟﺰِّﻳﻨَﺔِ میں اس کی حرمت پر مکمل باب باندھا ہے: ﺑﺎﺏ ﺍﻟﻨَّﻬْﻲِ ﻋَﻦْ ﻟُﺒْﺲِ ﺍﻟﺮَّﺟُﻞِ ﺍﻟﺜَّﻮْﺏَ ﺍﻟْﻤُﻌَﺼْﻔَﺮَ

ہم باب میں سے فقط ایک روایت پر ہی اکتفا کرتے ہیں:

عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے،رسول خدا صلیٰ اللہ علیہ(وآلہ)وسلم  نے مجھ کو دیکھا کسم کے رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوئے تو فرمایا:”یہ کافروں کے کپڑے ہیں ان کو مت پہن”

[الكتاب: صحيح مسلم،المؤلف: أبو الحسين مسلم بن الحجاج القشيري النيسابوري (٢٠٦ – ٢٦١ هـ) ،المحقق: محمد فؤاد عبد الباقي
الناشر: مطبعة عيسى البابي الحلبي وشركاه، القاهرة
(ثم صورته دار إحياء التراث العربي ببيروت، وغيرها)
عام النشر: ١٣٧٤ هـ – ١٩٥٥ م،ج4 ص960]

https://al-maktaba.org/book/33760/6397

أَبُوالهياج حيان بْن حصين ‏اس سے کتب حدیث میں فقط ایک یہی روایت مروی ہے اور اس کی  توثیق فقط عجلی و ابن حبان نے کی ہے اور علماء اہل سنت کے نزدیک یہ دونوں توثیق کرنے میں متساهل ہیں ۔

کوئی یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ اس روایت کو مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اس لئے صحیحین میں مدلس کا عن سے روایت کرنے میں کوئی خرابی نہیں بلکہ اسے سماعت پر ہی محمول کیا جائے گا۔

اس صورت میں  ہمارا جواب یہ ہوگا کہ بخاری و مسلم نے اپنی کسی کتاب میں اس بات کا ذکر  نہیں کیا ہے کہ اگر ہم مدلس سے “عن” والی روایت نقل کریں تو اسے بھی سماعت پر محمول سمجھو، کسی محدث نے بخاری و مسلم سے  کیا ایسا قول نقل کیا ہے؟ اگر نہیں تو پھر بہت بعد میں آنے والے نووی اور اس جیسے مولویوں کے اقوال کی کیا حیثیت ہے، نہ ان کے پاس علم غیب تھا اور  نہ ہی  وہ بخاری و مسلم سے ملے تھے بلکہ یہ بس ان کی خوش فہمی تھی۔

ایک نظر متن حدیث پر:

یہ  تھی سند کی تحقیق اب ذرا متن کو بھی ملاحظہ فرمائیں، ناصبی مترجمین روایت کے ترجمہ میں بھی خیانت کرتے ہیں  چنانچہ غیر مقلد داؤد راز نے (ﻭﻻ ﻗﺒﺮﺍ ﻣﺸﺮﻓﺎ ﺇﻻ ﺳﻮﻳﺘﻪ) کا ترجمہ(کوئی بلند قبر مگر اس کو زمین کے برابر کر دے)کیا ہے جو کہ غلط ہے۔

https://www.urdupoint.com/islam/hadees-detail/sahih-muslim/hadees-no-12501.html

شرف کا معنی بلندی اور اونٹ کا کوہان (یا اس کے جیسی بلندی)  ہے، اور سویتہ کا مفہوم  برابر کرنا ہے تو اگر مطلقا   بلندی مراد لیا جائے تو برابر کرنے کا کیا معنی؟ کیونکہ قبر کو زمین سے ملانے پر تو کسی نے بھی عمل نہیں کیا یہاں تک کہ  مسلم کی تمام روایات کو صحیح ماننے والے نام نہاد فرضی اہل حدیث بھی اس پر عمل نہیں کرتے بلکہ مراد یہ ہے کہ جو قبریں اونٹ کی پشت کی طرح ابھری ہوی ہیں انہیں اکسار کردو، مگر خلاف سنت ناصبی اپنی قبریں اونٹ کی پشت کی طرح بناتے ہیں اور شیعیان حیدر کرار علیہ السلام مطابق سنت قبور کو  بناتے ہیں۔

چنانچہ قسطلانی نے اس امر کا اعتراف کیا ہے:

https://ar.lib.efatwa.ir/45918/2/477/%D9%88%D8%A5%D9%86%D9%85%D8%A7_%D8%A3%D8%B1%D8%A7%D8%AF_%D8%AA%D8%B3%D8%B7%D9%8A%D8%AD%D9%87_%D8%AC%D9%85%D8%B9%D9%8B%D8%A7_%D8%A8%D9%8A%D9%86_%D8%A7%D9%84%D8%A3%D8%AE%D8%A8%D8%A7%D8%B1

اس کی بلند کو برابر کرناافضل ہے ،یہ رافضیوں کا شعار ہے اس سے اسکی بلندی کو برابر کرنے کی افضلیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا،اور یہ قول علی رضی اللہ عنہ(علیہ السلام)کے قول«أَنْ لَا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ»کے منافی نہیںبلکہ اس سے مراد قبروں کو زمین سے ملانے کا نہیں بلکہ بلندی کو برابر کرنے کا حکم سمجھ میں آتا ہے روایت کو جمع کرنے کے بعد۔

خلاصہ یہ کہ روایت سند کے اعتبار سے مردود ہے اور مفہوم بھی وہ نہیں جو نواصب کی ناقص عقلوں میں ہے ۔