رسول اکرم (ص) کے چچا ابو طالب (ع) نجات یافتہ (جنتی) ہیں

رسول اکرم (ص) کے چچا، ابو طالب (ع) اور آپ (ص) کے والد، عبدالله (ع) سمیت تمام اجداد (ع) نجات یافتہ (جنتی) ہیں: اہل اسلام (اہل سنت) کی احادیث متواترہ کی روشنی میں»
تحریر: سید علی اصدق نقوی اور احمد بابری
— بسم الله الرحمٰن الرحیم —
انیسوی و بیسوی صدی عیسوی کے اہل سنت محدث اور مؤرخ، محمد بن جعفر، الكتاني (1345-1274 هـ = 1927-1857 ع) نے بہت سے اصحاب کرام (رض) سے قطعی و یقینی طور پر مروی 310 “متواتر احادیث” پر مبنی ایک جامع کتاب “نظم المتناثر من الحديث المتواتر” تالیف دی (قارئین کے پیشِ نظر رہے کہ حدیث کے درجات میں سب سے بلند مقام متواتر حدیث کا ہے)۔ اپنی اس کتاب میں الکتاني نے رسول الله (ص) کے چچا، حضرت ابو طالب (ع) کی نجات اور آپ (ص) کے والدین، حضرت عبدالله (ع) و حضرت آمنہ (ع) بلکہ آپ (ص) کے تمام آباؤ اجداد میں تمام مرد و خواتین کے توحید پر ہونے اور نجات یافتہ ہونے بارے “تواتر حدیث” ثابت کیا ہے۔ اس موضوع پر الکتاني اپنی کتاب میں “باب المناقب” میں 2 متواتر احادیث لائے ہیں، جنکا رقم (نمبر) 225 و 226 ہے، ملاحظہ فرمائیں:
[نوٹ: اس کتاب اور اسکے مؤلف کے بارے میں مختصر تعارف اس تحریر کے آخر میں مہیا کردیا گیا ہے، جو قارئین دلچسپی رکھتے ہوں وہ پڑھ سکتے ہیں]
دارالمعارف، حلب، سوریا (شام) سے مطبوعہ نسخے میں یہ دو احادیث (226 و 225) صفحہ نمبر 121-120 پر موجود ہیں:
225- (أحاديث أن جميع آبائه وأمهاته على التوحيد) .
أن جميع آبائه عليه السلام وأمهاته كانوا على التوحيد لم يدخلهم كفر ولا عيب ولا رجس ولا شيء مما كان عليه أهل الجاهلية
– ذكر الباجوري في حاشيته على جوهرة التوحيد أنها بالغة مبلغ التواتر يعني المعنوي.
ترجمہ:
225۔ وہ احادیث جن میں ہے کہ آپ (ص) کے تمام آباء (اجداد میں مرد) اور والدات (اجداد میں خواتین) توحید پر تھے
«کہ آپ (ص) کے تمام آباء (ع) اور والدات (ع) توحید پر تھے اور کبھی کفر نہ کیا تھا، نہ ان میں کوئی عیب تھا، نہ ناپاکی تھی، نہ اہل جاہلیت کے مذہب میں سے کوئی چیز تھی»
– باجوری نے جوہرہ التوحید پر اپنے حاشیے میں ذکر کیا ہے کہ یہ بات تواتر یعنی معنوی (تواتر) کی حد تک ہے۔
226- (أحاديث محبة أبي طالب للنبي صلى الله عليه وسلم) .
أن أبا طالب كان يحب النبي صلى الله عليه وسلم ويحوطه وينصره
– ذكر الشيخ الجليل العلامة السيد محمد بن رسول البرزنجي المدني في تأليف له في نجاة أبويه صلى الله عليه وسلم في خاتمته التي جعلها في نجاة أبي طالب أنها متواترة ونصه تواترت الأخبار أن أبا طالب كان يحب النبي صلى الله عليه وسلم ويحوطه وينصره ويعينه على تبليغ دينه ويصدقه فيما يقوله ويأمر أولاده كجعفر وعلي باتباعه ونصره اهـ وقد نقله في أسنى المطالب في نجاة أبي طالب.
ترجمہ:
226۔ احادیث جو ابو طالب (ع) کی نبی (ص) سے محبت پر، آپ (ص) کو گھیرے رکھنے پر (دفاع و تحفظ کے لئے) اور آپ (ص) کی نصرت (مدد) پر ہیں
شیخ جلیل علامہ سید محمد بن رسول برزنجی مدنی نے اپنی ایک تالیف میں ذکر کیا ہے جس میں آپ (ص) کے والدین (ع) کی نجات کا ذکر ہے، اسکے خاتمے کو انہوں نے ابو طالب (ع) کی نجات پر لکھا ہے کہ یہ بات متواتر ہے اور اسکا نص ہے کہ متواتر روایات میں آیا ہے کہ ابو طالب (ع) نبی (ص) سے محبت کرتے تھے اور انکا دفاع و نصرت کرتے اور آپ (ص) کے دین کی تبلیغ میں آپ (ص) کی مدد فرماتے تھے اور جو کچھ آپ (ص) فرماتے اس میں انکی تصدیق کرتے اور اپنی اولاد جیسے جعفر (ع) اور علی (ع) کو حکم دیتے کہ آپ (ص) کی پیروی کریں اور انکی نصرت فرمائیں، انہوں نے یہ بات “سنى المطالب في نجاة أبي طالب” میں نقل کی ہے۔
[اس کتاب کا دار المعارف، حلب (سوریا) والا یہ نسخہ امیرکن یونیورسٹی آف بیروت (لبنان) لائبریریز (American University of Beirut Libraries) میں موجود ہے اور تحریر کے ساتھ اسکے سکین امیجز مہیا کردئیے گئے ہیں]
اس کتاب سے ان دو احادیث (226 و 225) کو پڑھنے کے لئے اون لائن لنک:
— ان دو احادیث (226 و 225) سے کیا ثابت ہوا؟ —
ان دو احادیث سے یہ باتیں تواتر یعنی بہت سے اصحاب کرام (رض) کے زریعے مروی ہوکر رسول اکرم (ص) سے قطعی و یقینی طور پر ثابت ہوتی ہیں کہ:
١- آپ (ص) کے والد، حضرت عبدالله (ع) اور والدہ، حضرت آمنہ (ع)، سمیت اوپر تک تمام اجداد یعنی مرد و خواتین “توحید” پر تھے، یعنی شرک پر نہیں تھے
٢- آپ (ص) کے والد، حضرت عبدالله (ع) اور والدہ، حضرت آمنہ (ع)، سمیت اوپر تک تمام اجداد یعنی مرد و خواتین نے “کبھی کفر نہیں کیا”، یعنی ہمیشہ الله تعالیٰ کے اطاعت گزار رہے
٣- آپ (ص) کے والد، حضرت عبدالله (ع) اور والدہ، حضرت آمنہ (ع)، سمیت اوپر تک تمام اجداد یعنی مرد و خواتین میں “نہ ان میں کوئی عیب تھا، نہ ناپاکی تھی” یعنی یہ سب بہترین اخلاق و کردار کی حامل ہستیاں تھیں اور اپنے اپنے دور کے پاک و پاکیزہ ترین افراد تھے (روحانی و ظاہری، ہر لحاظ سے)
٤- آپ (ص) کے والد، حضرت عبدالله (ع) اور والدہ، حضرت آمنہ (ع)، سمیت اوپر تک تمام اجداد یعنی مرد و خواتین میں “اہل جاہلیت کے مذہب میں سے کوئی چیز نہ تھی” یعنی یہ سب ہمیشہ زمانی و مکانی لحاظ سے الله تعالیٰ کے حقیقی دین پر تھے، ان میں سے کسی نے کبھی بھی حقیقی دین سے دوری اختیار نہیں کی
٥- حضرت ابو طالب (ص) رسول الله (ص) سے محبت کرتے تھے
٦- حضرت ابو طالب (ص) رسول الله (ص) کے دفاع و تحفظ کے لئے انکو گھیرے رکھتے تھے
٧- حضرت ابو طالب (ص) رسول الله (ص) کی نصرت (مدد) کرتے تھے
٨- حضرت ابو طالب (ص) رسول الله (ص) کی تبلیغِ دین میں آپ (ص) کی مدد فرماتے اور اس ضمن میں رسول الله (ص) جو فرماتے، حضرت ابو طالب (ع) اسکی تصدیق کرتے تھے
٩- حضرت ابو طالب (ص) اپنی اولاد (مثلا حضرت جعفر طیار (ع) و مولا علی (ع) کو باقائدہ حکم دیتے کہ وہ رسول الله (ص) کی پیروی کریں اور رسول الله (ص) کی نصرت کریں
١٠- رسول الله (ص) کے تمام اجداد، بشمول آپ (ص) کو پالنے والے چچا، حضرت ابو طالب (ع)، دادا، حضرت عبد المطلب (ع)، والد، حضرت عبدالله (ع) و والدہ، حضرت آمنہ (ع) سمیت اوپر تک تمام مرد و خواتین “نجات یافتہ” (جنتی) ہیں
— کیا سب مسلمان حضرت آمنہ، عبدالله، ابو طالب، عبد المطلب علیھم الصلواۃ والسلام کو جنتی (نجات یافتہ) مانتے ہیں؟؟؟ —
جی نہیں! اہل اسلام میں سے اہل سنت کا ایک طبقہ اور تمام اہل تشیع ان ہستیوں کو پاک و پاکیزہ، اعلی ترین مومنین و مومنات و جنتی (نجات یافتہ) مانتے ہیں۔ اہل اسلام کا ایک طبقہ ان مقدس ہستیوں کے بارے میں جنتی (نجات یافتہ) ہونے کا عقیدہ/رائے نہیں رکھتا… یہ لوگ کیا عقیدہ و رائے رکھتے ہیں، ہم اسے بعینہ یہاں بیان نہیں کرنا چاہتے… لا حول ولا قوۃ الا بالله… بہرحال اگر قارئین ان لوگوں کی رائے/عقیدے کے بارے جاننا چاہیں تو مختصر یہ کہ یہ لوگ نقل (written transmission) یعنی کتاب میں لکھی گئی تحریر کو من و عن قبول کرنا چاہتے ہیں (بلکہ اس سے چپک جاتے ہیں بطور ظاہر پرست) اور اس سلسلے میں عقل (غور و فکر اور تفکر انتقادی) کے تحت ایسی روایات کا تجزیہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ آیا یہ روایات کہیں عقل سے، تاریخ سے، قرآن مجید سے اور خود دیگر متواتر احادیث سے متصادم (contradictory) تو نہیں؟؟؟ ان لوگوں کی نظر میں درج ذیل روایات رہتی ہیں جسکے سبب یہ لوگ رسول الله (ص) کے اجداد (ع) کو نجات یافتہ/جنتی ماننے والوں یعنی شیعوں اور اہل سنت (کے ایک طبقے) کے برعکس عقیدہ/رائے رکھتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں (قارئین کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے):
نبی (ص) کے والد، حضرت عبدالله علیہ السلام بارے:
نبی (ص) کے چچا، حضرت ابو طالب علیہ السلام بارے:
الله تعالیٰ ہم سب اہل اسلام کو احادیث متواترہ کو تسلیم کرنے اور عقل، تاریخ اور قرآن مجید کو پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم رسول الله (ص) کے اجداد (ع) کے احترام پر باقی رہیں، آمین
— تصویر کا دوسرا رخ —
اہل سنت محدث، الکتاني کی اسی کتاب، “نظم المتناثر من الحديث المتواتر” کی طباعت (publication) مصر (Egypt) کے ناشر، “دار الكتب السلفية” نے بھی کی اور اسکے پہلے “طبع” یعنی First Publication میں یہ دونوں متواتر احادیث (226 و 225) بھی چھاپیں مگر اسکے “دوسرے طبع” یعنی Second Publication سے ان دونوں احادیث کو ناشر (دار الكتب السلفية) نے خود سے “حذف” (delete) کردیا…
دار الكتب السلفية- مصر سے چھپی “نظم المتناثر من الحديث المتواتر” کے دوسرے مطبوعے کے صفحہ نمبر 190 پر آپ کو باب مناقب میں ان دونوں احادیث (226 و 225) کے نمبر تو ملیں گے مگر انکے آگے احادیث نہ ہونگی۔ ان احادیث کے ساتھ ناشر (دار الكتب السلفية- مصر) نے حاشیے میں ان دونوں احادیث متواترہ کو “حذف” (delete) کرنے کی “وجہ” بھی بیان کی ہے، وہ وجہ ملاحظہ فرمائیں:
(١) أمام رقم ٢٢٥ ، ٢٢٦ في ترتيب الأحاديث المتواترة ، نقل المؤلف – عفى الله عنه – عن بعض الروافض (ممن يدعون العلم) تواتر نجاة أبي طالب عم الرسول ونجاة والديه – ولما كانت هذه من الأمور الباطلة حذفناها (الناشر).
ترجمہ:
رقم (حدیث نمبر) 225، 226 کے سامنے، متواتر احادیث کی ترتیب میں، مؤلف – عفى الله عنه (الله انکو معاف فرمائے)- نے بعض روافض (اہل تشیع) سے نقل کیا ہے (جو کہ علم کے دعویدار ہیں) کہ ابو طالب (ع)، نبی (ص) کے چچا کی نجات اور آپ (ص) کے والدین (حضرت آمنہ و عبدالله (ع)) کی نجات متواتر بات ہے، مگر چونکہ یہ باتیں باطل (جھوٹی) ہیں تو ہم نے انکو حذف کردیا ہے (ناشر)۔
[اس کتاب کا “دار الكتب السلفية- مصر” والا نسخہ درج ذیل لنک سے “المكتبة الوقفية” سے ڈاؤنلوڈ کرسکتے ہیں البتہ اس تحریر کے ساتھ اس کے متعلقہ سکین امیجز مہیا کردئیے گئے ہیں]
عنوان الكتاب: نظم المتناثر من الحديث المتواتر
المؤلف: محمد بن جعفر الكتاني أبو عبد الله
الناشر: دار الكتب السلفية
عدد المجلدات: 1
رقم الطبعة: 2
عدد الصفحات: 264
— نتیجہ بحث —
بلا شبہ، اہل اسلام (اہل سنت) کی احادیث متواترہ سے یہ بات تمام اہل اسلام پر واضح ہے کہ رسول الله (ص) کے تمام اجداد (ع) بشمول آپ (ص) کے چچا، حضرت ابو طالب (ع) و والد، حضرت عبدالله (ع) نجات یافتہ/جنتی مومنین تھے کہ انہوں نے نہ کبھی توحید کو چھوڑ کر شرک کیا، نہ کبھی الله کے دین کی اطاعت کو چھوڑ کر کفر کی راہ پکڑی، یہ بے عیب و پاک ہستیاں تھیں جو اعلی ترین کردار و اخلاق کے حامل تھے، ان کے ہاں زمانہ جاھلیت کی جہالت کا کچھ گزر نہ تھا… اسی طرح یہ بات بھی روز روشن کی طرح سب پر عیاں ہے کہ رسول الله (ص) کے چچا، حضرت ابو طالب (ع) آپ (ص) سے بے حد محبت کرتے تھے، آپ (ص) کے دفاع و تحفظ کے لئے آپکا حصار بنے رہتے اور انسانوں میں آپ (ص) کے سب سے پہلے و اہم ناصر و مددگار تھے۔ بھلا کوئی بھی مسلمان جو تاریخ، قرآن مجید اور احادیث رسول (ص) سے واقف ہو اور سب سے بڑھ کر عقلِ سلیم رکھتا ہو، وہ یہ کیسے مان لے کہ رسول الله (ص) کے دین یعنی اسلام کی تبلیغ میں رسول الله (ص) کی نصرت و مدد فرمانے والے، آپ (ص) کی اس ضمن (تبلیغِ دین) میں باتوں کی تصدیق کرنے والے، اور اسی دین اسلام کی تبلیغ میں اپنے بیٹوں (ع) کو رسول الله (ص) کی پیروی و نصرت کا حکم دینے والے چچا رسول (ص)، ابو طالب علیہ السلام خود دین اسلام کے علاؤہ کسی اور دین پر ہونگے اور نجات (جنت) سے محروم رہ جائیں گے؟؟؟
بلا شبہ رسول اکرم (ص) کے والد گرامی، حضرت عبدالله علیہ السلام ہوں یا سب سے بڑے محافظ و مطیع رسول چچا، ابو طالب علیہ السلام، اہل اسلام کا ایک طبقہ انکی نجات کو لے کر بڑا سخت قطعی عقیدہ رکھتا ہے (یا پھر کنفیوژ ہے اور اشتباہ کا شکار ہے)… دار الكتب السلفية اسکی ایک مثال ہے کہ جنہوں نے اس بنیاد پر ان دو احادیث (226 و 225) کو حذف کیا کہ یہ (نعوذ باالله) باطل باتیں ہیں کیونکہ یہ (رسول (ص) کے اجداد (ع) کا نجات یافتہ ہونا) شیعہ راویوں (Shia narrators) سے نقل ہوا ہے…
سو ہماری الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ جو بھی اہل اسلام رسول اکرم (ص) کے اجداد، خاصکر رسول اکرم (ص) کے چچا (ع) اور والد (ع) کی نجات کو لے کر غلط عقیدہ رکھتے ہیں یا کنفیوژ ہیں، اگر وہ جان بوجھ کر ضد میں ایسا نہیں کر رہے تو الله تعالیٰ ان کی ہدایت فرمائے، آمین! بلا شبہ اہل اسلام یعنی اہل تشیع اور اہل سنت (کا ایک طبقہ) اس پر متفق ہیں کہ تمام اجداد رسول (ع) بشمول حضرت ابو طالب و عبدالله علیہم السلام اپنے اپنے وقت کی عظیم ہستیاں و نجات یافتہ شخصیات ہیں۔
وما علینا الا البلاغ المبین
——————- «ختم شد» ——————-
— کتاب کا تعارف —
جمع المؤلف في هذا الكتاب جملة وافرة من الأحاديث المتواترة ورتبه ترتيبًا موضوعيًا، مردفًا كل حديث بما يثبت تواتره من تعدد رواته، ومقرونًا بحكم العلماء عليه، وترجع أهمية الكتاب إلى ضمه لكثير من الأحاديث المتواترة، التي أوجب العلماء العمل بها.
ترجمہ:
مؤلف (الكتاني) نے اس کتاب میں وافر تعداد میں متواتر احادیث جمع کی ہیں اور انکو موضوع کے حساب سے ترتیب دی ہے۔ ہر حدیث کے ذکر کے بعد اسکے متعدد راویان سے اسکے تواتر کا اثبات ہے، اور اس پر علماء کا حکم بھی وہیں لگایا ہے، اس کتاب کی اہمیت اس لئیے ہے کہ اس میں کثرت سے متواتر احادیث ہیں جس پر علماء نے عمل کرنا واجب قرار دیا ہے۔
أعلى درجات الحديث هو الحديث المتواتر الذي بلغت أسانيده عددا كبيرا بأن جاء عن كثير من الصحابة على وجه القطع واليقين . وقد أورد فيه مقدمة في فضل علم الحديث، ومعنى التواتر، أقسام المتواتر، خبر الواحد . وقد أورد فيه 310 أحاديث مرتبة على حسب الموضوع لا الحروف . وهو يشير إلى كون الحديث في ” الأزهار المتناثرة ” للسيوطي إن كان وإلى من عزاه، ويضيف إليهم ما وقف عليه من الطرق الأخرى . فهو من أهم وأجمع كتب الحديث المتواتر
ترجمہ:
حدیث کے درجات میں سب سے بلند مقام متواتر حدیث کا ہے جس کی اسانید بہت بڑا عدد رکھتی ہوں کیونکہ یہ بہت سے صحابہ (رض) سے آئی ہے، قطعی و یقینی طور پر۔ انہوں (مؤلف، الكتاني) نے مقدمہ علم حدیث کی فضیلت پر لکھا ہے اور تواتر کی معنی پر، متواتر کی اقسام پر، اور خبر واحد پر۔ اس میں انہوں (الکتاني) نے موضوع کے حساب سے، نہ کہ حروف کے حساب سے، 310 مرتب احادیث نقل کی ہیں۔ اگر حدیث سیوطی کی کتاب “الأزهار المتناثرة” میں ہو تو تو یہ (الکتاني) وہاں کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور جس سے اسکی نسبت ہو، اور یہ (الکتاني) اس میں مزید طُرُق (سندیں) بھی اضافہ کرتے ہیں جو جو انکو ملتی ہیں۔ پس یہ (کتاب) متواتر حدیث پر سب سے اہم اور جامع ترین کتب میں سے ہے۔
— مؤلف کتاب، الکتاني کا مختصر تعارف —
الکتاني اہل سنت کے ایک محدث اور مؤرخ تھے اور انکا تعلق مراکش سے تھا۔ انکے بارے سلفی/وہابیوں کی ویب سائٹ، شاملہ پر درج ذیل تعارف موجود ہے:
رحل إلى الحجاز مرتين، وهاجر بأهله إلى المدينة سنة 1332 هـ، فأقام إلى سنة 1338 وانتقل إلى دمشق فسكنها إلى سنة 1345 وعاد إلى المغرب، فتوفي في بلده
ترجمہ:
انہوں نے دو مرتبہ حجاز (موجودہ سعودیہ عرب) سفر کیا، اور اپنے گھرانے کے ساتھ مدینہ میں سنہ 1332 ہجری میں ہجرت کی اور سنہ 1337 ہجری تک وہیں رہے، پھر یہ دمشق (شام/سوریا) منتقل ہوئے اور وہاں سنہ 1345 ہجری تک رہے اور پھر مغرب (مراکش) لوٹ گئے اور اپنے علاقے ہی میں وفات پا گئے۔
مؤلفِ کتاب، الکتاني بارے پڑھنا ہو تو اس لنک سے پڑھ لیں: