موصوف لکھتے ہیں کہ۔انکے والد کے نام میں 44 اقوال ہیں
مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے کہ
جب ابوھریرہ مسجد میں جاتا تو لوگ جمع ہوتے تھے ایک جوان نے ابوھریرہ سے پوچھا کہ تجھے اللہ کی قسم دلاتا ہوں کیا تم نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے اے اللہ تو ان سے محبت کر جو علی سے محبت کرے اور تو ان سے دشمنی کر جو علی سے دشمنی کرے، ابوھریرہ نے کہا کہ ہاں میں نے یہ رسول اللہ سے سنا ہے، جوان نے کہا کہ میں تجھ سے بیزاری کرتا ہوں تو گواھی دیتا ہوں کہ تم نے علی کے حبداروں سے دشمنی کی ہے اور علی کے دشمنوں سے دوستی اور محبت کی ہے،
مصنف ابن ابی شیبہ جلد 9 کتاب الفضائل ص 509

.
.
حضرت عمر نے حضرت ابوہریرہ کو دشمن خدا کہا اور اب کون کیا ہوا فیصلہ عوام کی عدالت میں۔
عمر نے کہا:-
اے ابوہریرہ تیری ماں نے تجھے کھوتے( گدھے) چرانے کے لئے پیدا کیا تھا۔
اور پھر حضرت عمر نے حضرت ابوہریرہ کو بحرین میں مال کی کرپشن کی وجہ سے خوب پھینٹی لگائی یہاں تک خون نکل آیا۔








اگر کسی نے کسی کو دشمن خدا کہا اور اگر وہ نہ ہوا تو وہ اسکی طرف واپس لوٹ آئیگا۔

المستدرک حاکم جلد ۳ ح ۳۳۲۷ : حضرت عمر نے دو بار ابوھریر کو خیانت کار اور اللہ تعالیٰ دشمن اور اسلام کا دشمن قرار دیا اور طبقات ابن سعد حضہ چہارم صفحہ ۳۶۱ پر حضرت عمرنے فرمایا اے ابوھریرہ اللہ کے دشمن اور کتاب کے دشمن تم نے اللہ کا مال چرایا


.
.
ابوہریرہ کا حدیثِ رسولﷺ میں اضافہ و خیا_نت کرنا

ابوہریرہ نے کہا رسول اللہﷺ نے فرمایا: صدقہ وہ افضل ہے جسکو دے کر صدقہ دینے والا مالدار رہے اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اور پہلے ان لوگوں کا خرچہ دے جن کا تو نگہبان ہے، جورو کہتی ہے مجھ کو خرچ دے نہیں تو طلاق دے دے۔۔۔الخ
لوگوں نے کہا ابوہریرہ تم نے یہ رسولﷺ سے سُنا ہے؟
ابوہریرہ نے کہا نہیں یہ میں نے اپنی طرف سے بڑھا دیا ہے۔
(
صحیح بخاری کتاب النفقات)



ام المومنین حضرت عائشہ نے ابوہریرہ کو بلایا اور کہا
اے ابوہریرہ! بہت ساری احادیث ہیں جن کے بارے میں ہمیں پتہ چلا ہے کہ تم رسول اللہﷺ کے حوالے سے بیان کرتے ہو؟ کیا تم نے ہم سے زیادہ سنا ہے؟ کیا تم نے ہم سے زیادہ رسول اللہﷺ کے افعال دیکھے ہیں؟ ابوہریرہ نے کہا: اے ام المومنین! آپکو تو کنگا شیشہ،تیل سُرمہ اور بناو سنگھار کی مصروفیت ہوتی تھی.
خدا کی قسم! مجھے کسی قسم کی کوئی مصروفیت نہ ہوتی تھی۔
(
مستدرک حاکم 6160 صحیح)

ابوہریرہ نے کہا: میں نے بہت سی باتیں رسولﷺ سے سنیں ہیں
کچھ تو میں تمہارے سامنے بیان کردیتا ہوں اور کچھ تو وہ ہیں کہ اگر میں بیان کروں تو تم مجھے سنگسار کردو گے.
(
مستدرک حاکم 6162)




[
سیر اعلام النبلاء جلد ² ص 606 صحیح]



.
.
ابوہریرہ کسی نبیؑ نےچیونٹی کےکاٹنےپر چیوٹیوں کی رہائشگاہ کو جلا ڈالا۔*



.


امام اہل سنت مالک بن انس (المتوفی ۱۷۹ھ) نے اس طرح نقل کیا ہے :
وعنه انه سمع ابا بكر بن عبد الرحمن يقول: كنت انا وابي عند مروان ابن الحكم وهو امير المدينة، فذكر له ان ابا هريرة يقول: من اصبح جنبا افطر ذلك اليوم، فقال مروان: اقسمت عليك يا ابا عبد الرحمن، لتذهبن إلى امي المؤمنين عائشة وام سلمة فلتسالنهما عن ذلك، قال: فذهب عبد الرحمن وذهبت معه حتى دخلنا على عائشة، فسلم عليها عبد الرحمن ثم قال: يا ام المؤمنين، إنا كنا عند مروان بن الحكم، فذكر له ان ابا هريرة يقول، من اصبح جنبا افطر ذلك اليوم، فقالت عائشة: ليس كما قال ابو هريرة يا عبد الرحمن، اترغب عما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصنع؟، فقال عبد الرحمن: لا والله، فقالت: فاشهد على رسول الله صلى الله عليه وسلم ان كان ليصبح جنبا من جماع غير احتلام ثم يصوم ذلك اليوم؛ قال: ثم خرجنا حتى دخلنا على ام سلمة فسالها، فقالت كما قالت عائشة: قال: فخرجنا حتى جئنا مروان بن الحكم فذكر له عبد الرحمن ما قالتا، فقال له مروان: اقسمت عليك يا ابا محمد، لتركبن دابتي فإنها بالباب، فلتذهبن إلى ابى هريرة فإنه بارضه بالعقيق فلتخبرنه ذلك، قال: فركب، عبد الرحمن وركبت معه حتى اتينا ابا هريرة، فتحدث معه عبد الرحمن ساعة ثم ذكر ذلك له، فقال ابو هريرة: لا علم لي بذلك، إنما اخبرنيه مخبر.
ابوبکر بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ میں اور میرے والد دونوں مروان بن حکم کے پاس، جن دنوں وہ مدینے کے امیر تھے۔ مروان کو بتایا گیا کہ ابوہریرہ کہتے ہیں: جو شخص حالت جنابت میں صبح کرے تو اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ مروان نے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ ام المؤمنین عائشہ اور ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنها کے پاس جا کر ان سے مسئلہ پوچھیں۔ پھر (میرے والد) عبدالرحمٰن اور میں دونوں گئے حتیٰ کہ عائشہ کے پاس پہنچے تو عبدالرحمٰن نے انہیں سلام کیا پھر کہا: اے ام المؤمنین! ہم مروان بن حکم کے پاس تھے کہ اسے بتایا گیا کہ ابوہریرہ فرماتے ہیں: جو شخص حالت جنابت میں صبح کرے تو اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ عائشہ نے فرمایا: اے عبدالرحمٰن! ایسی بات نہیں ہے جیسی کہ ابوہریرہ نے کہی ہے۔ کیا تم اس عمل سے منہ پھیرو گے جو رسول اللہ ﷺ کرتے تھے؟ عبدالرحمٰن نے کہا: اللہ کی قسم! ہرگز نہیں تو انہوں نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ پر گواہی دیتی ہوں کہ آپ احتلام کے بغیر حالت جنابت میں صبح کرتے تھے پھر اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ پھر ہم وہاں سے نکل کر سیدہ ام سلمہؓ کے پاس آئے اور ان سے یہ مسئلہ پوچھا: تو انہوں نے بھی وہی جواب دیا جو عائشہ نے کہا تھا۔ پھر ہم وہاں سے نکل کر مروان بن حکم کے پاس آئے تو عبدالرحمٰن نے انہیں بتایا کہ عائشہ اور ام سلمہؓ نے یہ فرمایا ہے۔ مروان نے کہا: اے ابومحمد! تمہیں قسم دیتا ہوں کہ میرے اس جانور پر سوار ہو جاؤ جو دروازے کے باہر (کھڑا) ہے۔ پھر تم ابوہریرہ کے پاس جاؤ اور انہیں یہ بات بتاؤ، وہ عقیق کے مقام پر اپنی زمین میں (مصروف) ہیں۔ پھر (میرے والد) عبدالرحمٰن اور میں سوار ہو کر ابوہریرہ کے پاس گئے تو کچھ دیر عبدالرحمٰن ان کے ساتھ باتیں کرتے رہے پھر انہیں یہ بات بتائی تو ابوہریرہ نے فرمایا: مجھے اس کا کوئی علم نہیں ہے، مجھے تو یہ بات ایک بتانے والے نے بتائی تھی۔
کتاب کے محقق زبیر علی زائی نے اس پر “اسناد صحیح” کا حکم لگایا ہے۔

اس روایت کو امام شافعی (المتوفی ۲۰۴ھ) نے اپنی سند سے نقل کیا ہے۔

امام طحاوی (المتوفی ۳۶۱ھ) نے اسکو اپنی سند سے دونوں کتابوں میں نقل کیا ہے۔


ابوبکر بہیقی (المتوفی ۴۵۸ھ) نے اسکو اپنی سند سے نقل کیا ہے۔
کتاب کے محقق نے اس روایت پر صحت کا حکم لگایا ہے۔

نوٹ : کچھ طرق میں آیا ہے کہ ابوہریرہ کو خبر دینے والا فضل بن عباس تھا۔
اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ ابوہریرہ بنا تحقیق کے سنی سنائی باتوں کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرتا تھا۔ یہ ایک شخص کے جھوٹے ہونے کی علامت ہے جیسا کہ نبی ﷺ کی ایک حدیث میں آیا ہے جسکا راوی یہ خود ہے۔
محمد بن عبداللہ خطیب تبریزی (المتوفی ۷۴۱ھ) نے صحیح مسلم سے نقل کیا ہے :
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كفى بالمرء كذبا ان يحدث بكل ما سمع۔
رواه مسلم
ابوہریرہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے بس یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کر دے۔
اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
















ابوہریرہ کا اعتراف جرم کہ وہ یہودی کعب الاحبار کی روایات کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرتا تھا
اہل سنت کے یہاں ابوہریرہ کی روایات سب سے زیادہ پائی جاتی ہے باقی صحابہ کے برعکس۔ وہ بھی تب جب ہمیں اس بات کا علم ہے کہ ابوہریرہ نے محض تین سال نبی کریم ﷺ کے ساتھ گزارے۔ لہذا انکا اتنے کم وقت میں اتنی کثیر روایات نقل کرنا قابل تعجب بات ہے۔ اہل سنت علماء اپنی عوام کو اسکا جواب یوں دیتے ہیں کہ ابوہریرہ کے لئے رسول اللہ ﷺ نے خاص دعا کی تھی جبکہ اس دعا کا مقصدر یا ماخذ خود ابوہریرہ ہے۔ لہذا یہ عجیب حسن ظن ہے کہ ہم ملزم کی اسکی اپنی گواہی سے بری کر رہے ہیں۔
محققین ابوہریرہ کی اتنی روایات نقل کرنے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ یہ کثرت سے ایک یہودی کعب الاحبار سے احادیث لیتا تھا۔ زیل میں انکا اعتراف جرم پیش کرتے ہیں :
امام ابوبکر ابن خزیمہ (المتوفی ٣١١ھ) نے اپنی کتاب میں اس طرح لکھا ہے۔
أخبرنا أبو طاهر ، نا أبو بكر ، نا يعقوب بن إبراهيم الدورقي ، حدثنا محمد بن مصعب يعني القرقساني ، ثنا الأوزاعي ، عن أبي عمار ، عن عبد الله بن فروخ ، عن أبي هريرة ، عن النبي – صلى الله عليه وسلم – قال : ” خير يوم طلعت فيه الشمس يوم الجمعة ، فيه خلق آدم ، وفيه أدخل الجنة ، وفيه أخرج منها ، وفيه تقوم الساعة ” .
قال أبو بكر : قد اختلفوا في هذه اللفظة في قوله : ” فيه خلق آدم ” إلى قوله : ” وفيه تقوم الساعة ” ، أهو عن أبي هريرة ، عن النبي – صلى الله عليه وسلم – ؟ أو عن أبي هريرة ، عن كعب الأحبار ؟ قد خرجت هذه الأخبار في كتاب الكبير : من جعل هذا الكلام رواية من أبي هريرة ، عن النبي – صلى الله عليه وسلم – ، ومن جعله عن كعب الأحبار ، والقلب إلى رواية من جعل هذا الكلام عن أبي هريرة ، عن كعب أميل ؛ لأن محمد بن يحيى ، حدثنا قال : نا محمد بن يوسف ، ثنا الأوزاعي ، عن يحيى ، عن أبي سلمة ، عن أبي هريرة : خير يوم طلعت فيه الشمس يوم الجمعة ، فيه خلق آدم ، وفيه أسكن الجنة ، وفيه أخرج منها ، وفيه تقوم الساعة ، قال : قلت له : أشيء سمعته من رسول الله – صلى الله عليه وسلم – ؟ قال : بل شيء حدثناه كعب.
ابوہریرہ سے روایت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان تمام دنوں میں جن میں آفتاب طلوع ہوتا ہے سب سے بہتر اور برتر جمعہ کا دن ہے۔ اس میں آدمؑ کی تخلیق ہوئی، اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا ، اسی دن انہیں جنت سے نکالا گیا اور اسی دن قیامت برپا ہوگی۔
ابوبکر ابن خزیمہ نے کہا : اس میں اختلاف ہوا ہے ان الفاظ ” اس دن آدم کی تخلیق ہوئی” سے لے کر ” اسی دن قیامت برپا ہوگی” تک کہ آیا یہ ابوہریرہ کے الفاظ ہیں یا کعب الاحبار کے۔ میں نے کتاب الکبیر میں سب روایات جمع کی ہے کہ کن کے نزدیک ابوہریرہ نے یہ روایت رسول اللہ ﷺ سے لی اور کن کے مطابق اس نے کعب سے لی۔ جبکہ میرے دل کا زیادہ میلان اس طرف ہے کہ ابوہریرہ نے یہ روایت کعب الاحبار سے سن کر بیان کی کیونکہ محمد بن یحیی نے ہمیں یہی حدیث بیان کی لیکن اسکے بعد ابوسلمہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ سے پوچھا : کیا یہ بات آپ نے نبی ﷺ سے سنی ؟ ابوہریرہ نے جواب دیا : نہیں بلکہ یہ بات مجھے کعب نے بیان کی۔

واضح رہے کہ صحیح مسلم میں بھی یہ روایت موجود ہے وہاں ابوہریرہ اسکو رسول اللہ ﷺ سے نقل کر رہا ہے۔ جبکہ اس نے خود اعتراف جرم کیا ہے کہ اصل میں انہوں نے یہ روایت یہودی کعب الاحبار سے لی تھی۔






.
امام بخاری، مسلم ، ذهبی ، امام ابو جعفر اسکافی ، متقی هندی اور دوسرے محدثین نے نقل کیا هے کہ خلیفہ دوئم حضرت عمر نے ابو هریره کو بے بنیاد روایتوں کو پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم سے منسوب کرنے کے جرم میں کوڑے لگائے هیں اور اپنی حکومت کے آخر تک اسے حدیث نقل کرنے سے منع کیا هے-
حضرت عمر بن خطاب نے ابوھریرہ کو کوڑے کیوں لگوائے ——-“””””””——-
درج ذیل عوامل میں ابوهریره کے بارے میں حضرت عمر کی بے اعتمادی کو تلاش کیا جاسکتا هے۔
اول—— کعب الاحبار نامی یہودی کے ساتھـ اس کی مصاحبت اور اس سے حدیث نقل
کر نا-
دوم —– ایسی روایتوں کا نقل کرنا جو بے بنیاد هو تی تهیں اور اکثر اسرائیلیات کے مطابق بلکہ اسرا ئیلیات کا جزو هوتی تھیں اور اس کے علاوه کچھـ نهیں هوتی تھیں۔
سوم —- صحابیوں کی طرف سے نقل کی گئی روایتوں کے برخلاف روایتوں کو نقل
کر نا-
چہارم —- حضرت علی(ع) اور حضرت ابو بکر جیسے صحابیوں کی طرف سے ابوھریرہ کی مخالفت کر نا-
ابوھریرہ کا ماضی ——-“””””””——-
اسلام سے قبل ابوهریره کی زندگی کے بارے میں کوئی اطلاع نهی هے ، مگر یه کہ اس نے خود نقل کیا هے کہ بچپن سے هی ایک چهوٹی بلی کے ساتھ کهیلتا تھا اور ایک یتیم اور فقیر شخص تھا اور بهوک سے بچنے کے لئے لوگوں کی خد مت کرتا تھا۔
جب ابو ھریرہ نے اسلام قبول کیا تو اپنا نام عبدالرحمن بن صخر ال دوس رکھا۔
سنی امام دینوری نے اپنی کتاب ” المعارف” میں لکها هے کہ وه یمن کے “دوس” نامی ایک قبیلہ سے تعلق رکهتا تھا ، یتیمی کی حالت میں زندگی بسر کرتا تھا اور اس نے خالی هاتھ مہاجرت کی ، تیس سال کی عمر میں مدینہ آ گیا اور تنگ دستی کی وجہ سے صفه کی طرف راهی هوا چونکه فقیر مہاجرین وهاں پر اکٹھا تھے۔
ریفرنس—–
الشیخ محمود ابو ریه ، شیخ المضیره ابو هریره ، ص١٠٣; الشیخ محمود ابوریه ، اضواء علی السنۃ المحمدیۃ ، ص١٩٥; سید شرف الدین موسوی عاملی ،ابوهریره ،ص١٣٦-
خود ابو هریره نے اسلام اور پیغمبر اسلام (ص) پر ایمان لانے کی علت واضح طور پر پیٹ بھرنا اور فقر و تنگدستی سے نجات حاصل کر نا بیان کیا هے، نہ کوئی اور وجہ
ریفرنس ——
ایضا
ابوھریرہ خود کہتا تھا کہ میں همیشه پیٹ بھر نے کی فکر میں هوا کرتا تھا ، یہاں تک که بعض صحابی ، جن کے گهر ، میں کهانا کهانے کے لئے جاتا تھا ، مجھـ سے فرار کرتے تھے۔
ابوھریرہ جعفر بن ابو طالب علیہ السلام کو ان کی مہمان نوازی کرنے کی وجه سے رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے بعد تمام صحابیوں سے برتر جانتا تھا اور ان کے حق میں بہترین جملات بیان کئے هیں۔
ریفرنس—-
فتح الباری شرح صحیح بخاری ،ج٧،ص٦٢-
سنی محدث شیخ تعالبی نے اپنی کتاب ” ثمار القلوب ” میں لکها هے کہ ابوهریره معاویہ بن ابی سفیان کے ساتھ کهانا کهاتا تها اور علی (ع) کے پیچهے نماز پڑهتا اور اس کام کی علت خود بیان کرتا تھا که معاویہ کے هاں کهانا پرچرب اور مزه دار هے لیکن علی علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑهنا افضل هے۔
ریفرنس —-
ثعالبی ، ثمار القلوب فی المضاف والمنسوب ،ص ٨٧- ٧٦
کیا واقعی خلیفہ دوم نے ، ابو هریره کو حدیث گهڑ نے کے الزام میں تازیانے لگائے هیں اور اسے حدیث نقل کر نے سے منع کیا هے؟؟؟؟؟ ——-“””””””——
اس بات پر اتفاق نظر هے کہ ابوهریره صرف ایک سال اور نو ماه پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے همراه تھا، لیکن دوسرے اصحاب کی بہ نسبت آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم سے زیاده احادیث نقل کی هیں۔
ریفرنس—–
محمود ابوریه ، اضواء علی السنۃ المحمدیۃ ،ص٢٠٠
ابن حزم ، نے اس کی نقل کی گئی احادیث کی ایک تعداد کے بارے میں لکھا هے۔
” مسند بقیّ بن مخلد نے ابو هریره سے 10383 حادیث نقل کی هیں اور بخاری نے اس سے 336 احادیث نقل کی هیں۔
ریفرنس —–،
الشیخ محمود ابو ریه ، شیخ المضیره ، ابو هریره ، ص١٢٠-
جیسا کہ بخاری نے ابو هریره سے نقل کیا هے که خود اس نے کہا هے: ” پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے اصحاب میں سے کسی ایک نے آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم سے اتنی احادیث نقل نهی کی هیں ، جتنی میں نے نقل کی هیں مگر یہ کہ عبدالله بن عمرو نے کہ وه احادیث کو لکهتے تھے اور میں نھی لکهتا تھا۔
ریفرنس —–،
حافظ ابن حجر عسقلانی ، فتح الباری ، ج٢،ص١٦٧اس نے لکها هے کہ ابوهریره نہ حدیث لکهتا تها اور نہ حافظ قرآن تھا
ابوهریره کے ذریعہ بڑی تعداد میں روایتیں نقل کر نے پر عمر بن خطاب کو ڈر لگ گیا یہاں تک کہ اسی وجہ سے اس کو کوڑے مارے اور کہا۔
اے ابو هریره حد سے زیاده روایتیں نقل کرتے هو، مجهے ڈر لگتا هے کہ تم رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم پر جھوٹ اور افترا باندهو گے ، اس کے بعد اس کو انتباه کیا کہ اگر رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم سے روایتیں نقل کر نے کو ترک نہ کرے تو اسے اپنے وطن لوٹا دے گا۔
ریفرنس ——
صحیح بخاری ، ج٢، کتاب بدی الخلق ص ١٧١; مسلم بن حجاج نیشا بوری ، صحیح مسلم ، ج١،ص٣٤; ابن ابی الحدید معتزلی ، شرح نهج البلاغه ، ص٣٦٠; ذهبی ، سیر اعلام النبلاء ، ج٢، ص ٤٣٣و ٤٣٤; متقی هندی ، کنز العمال ، ج٥، ص٢٣٩ ;ح ٤٨٥٧;امام ابو جعفر اسکافی ، به نقل از شرح نهج الحمیدی ، ج١،ص٣٦٠-
اسی وجہ سے اس کی نقل کی گئی روایتیں زیاده تر حضرت عمر کی وفات کے بعد کے زمانہ سے مربوط هیں چونکه اس کے بعد وه کسی سے نهیں ڈرتا تھا۔
ابو هریره خود کہتا تھا
“میں آپ کے لئے ایسی احادیث نقل
کرتا هوں که اگر عمر کے زمانہ میں نقل کرتا تو وه مجهے دوبارہ تازیانہ لگاتے۔
ریفرنس ——-
محمود ابو ریه ،اضواء علی السنۃ المحمدیۃ ،ص٢٠١
زهری نے ابن سلمہ سے نقل کیا هے کہ میں نے سنا که ابو هریره کہتا تھا۔
“جب تک عمر اس دنیا سے چلے گئے ،میں نهی کھ سکتا تھا کہ رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم نے یوں فر مایا هے۔
اگر عمر زنده هو تے تو کیا هم یہ احادیث آپ کے لئے نقل کر سکتے تھے؟؟؟ ؟
خدا کی قسم اس وقت بھی میں اپنی پیٹھـ پر پڑے عمر کے کوڑوں کو یاد کر کے گهبراتا هوں۔
ابو هریره پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم سے اتنی روایتیں نقل کر نے کے سلسلہ میں ایک توجیہ بیان کرتا تھا اور کہتا تھا : ” جب کوئی روایت ، کسی حلال کو حرام اور حرام کو حلال نه کرے ، اس روایت کو پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم سے نسبت دینے میں کوئی مشکل نهی هے۔
” اس نےاپنے اس خیالی اصول کے ذریعہ پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم سے نسبت دی گئی اپنی احادیث کو شرعی حیثیت بخشی هے ، من جملہ اس کی نقل کی گئی ایک حدیث هے جسے طبرانی نے ابو هریره سے اور اس نے رسول خدا (ص) سے نقل کیا هے کہ۔
” جب تک کسی حلال کو حرام اور حرام کو حلال نه کرو گے اور حق پر پہنچ گئے اس کو میری طرف نسبت دینے میں کوئی حرج نهیں هے۔ استغفراللہ ربی
” اس کے علاوه نقل کیا هے کہ اس نے پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم سے سنا هے که آپ (ص) فر ماتے تھے۔
” جو بهی کوئی ایسی حدیث نقل کرے جس میں خدا کی رضا هو، پس میں نے اسے کها هے اگرچہ میں نے اسے نہ کہا هو۔
ریفرنس ——-
شاطبی ،الموا فقاتف ج٢،،ص٢٣-
جبکہ حقیقت یه هے کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم سے جو چیز ثابت هے ، وه یہ هے کہ آپ (ص) نے فر مایا هے۔ ” جو بھی کوئی ایسی حدیث مجھـ سے نقل کرے جسے میں نے نہ کہا هو اس کی جگه جهنم میں هے۔
ریفرنس ——-
محمود ابو ریه ،اضواء السنۃ المحمدیۃ ،ص٢٠٢
حضرت عمر نے چونکہ حدیث نقل کرنے میں ابوهریره کی افراط کا مشاهده کیا تھا اس لئے انهوں نے تاکید کی تھی کہ مذ کوره حدیث کے بارے میں اس کو یعنی ابو هریره کو همیشه متوجه کرتے رهیں۔
ریفرنس ———
سید شرف الدین موسوی عا ملی ،ابو هریره ،ص١٤٠
ابو هریره اور تدلیس ( فریب کاری ) ——-“”””””””———
تدلیس (فریب کاری) کے معنی یہ هیں که کسی ایسے شخص سے کوئی چیز نقل کرنا ، جس کو نہ دیکها هو اور اس سے نہ سنا هو یا اپنے کسی هم عصر سے کوئی مطلب نقل کرنا کہ اس نے وه مطلب نه کہا هو اور نقل کر نے میں ایسا ظاهر کرے کہ اس سے وه مطلب سنا هے اور اس نے یه بات کہی هے واضح هے که تدلیس ( فریب کاری ) کی تمام قسمیں قابل مذمت اور حرام هیں اور اسے جھوٹ کا مترادف کها گیا هے۔
حضرت عمر ابو ہریرۃ کو اللہ کا دشمن کہتے تھے۔ اس کو خائن کہتے تھے۔ انہوں نے اس کو کوڑے مارے۔
ابوہریرۃ کی درج ذیل جھوٹی حدیث ملاحظہ کریں جس میں وہ یہ کہتا ہے کہ میں عثمان کی بیوی رقیہ کے پاس گیا، رقیہ کے ہاتھ میں کنگھی تھی۔۔۔ حالانکہ رقیہ جنگ بدر کے موقع پر فوت ہو گئی تھیں، جبکہ ابوھریرہ سات ہجری میں جنگ خیبر کے موقع پر مسلمان ہو کر مدینہ آیا، جب رقیہ کو قبر میں گئے ہوئے پانچ سال ہو چکے تھے۔ تو ابوھریرہ رقیہ کو کیسے ملا اور کس طرح ان کے پاس گیا، ابوھریرہ کے جعل ساز اور جھوٹا ہونے کا ثبوت اس سے بڑا کیا ہو سکتا ہے؟؟؟؟
ابوھریرہ کعب الاحبار یہودی کی باتوں کو حدیث کا نام دے دیتا تھا ——-“””””””——-
حدیث کے ماهرین نے کہا هے کہ اگر ثابت هو جائے کہ کسی نے ایک ایسی روایت تدلیس ( فریب کاری ) کے ذریعہ نقل کی هے، تو اس شخص سے کوئی روایت قبول نھی کرنی چاهئے اگرچہ هم جانتے هوں کہ اس نے صرف ایک بار تدلیس ( فریب کاری ) سے کام لیا هے ۔ دینوری اور ابن کثیر نے ابن سعید کے بیٹے سے نقل کیا هے که وه کہتے تھے۔
” خداوند متعال سے ڈریئے اور حدیث نقل نہ کر نا ، خدا کی قسم میں ابوھریرہ کے پاس بیٹها تھا کہ اس نے رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم سے ایک روایت نقل کی اور ایک روایت کعب الاحبار سے ، اس کے بعد جو لوگ همارے ساتھ تھے ان میں سے بعض کو کہا کہ میں رسول خدا صلی الله علیه ٶآله وسلم کی حدیث کو کعب سے نسبت دیتا هوں اور کعب کی حدیث کو رسول خدا (ص) سے نسبت دیتا هوں۔
ریفرنس ——
امام ابن کثیر ، البدایۃ والنهایۃ ،ج٨،ص١٠٩; ابن قتیبه دینوری ،تاویل مختلف الحدیث ،ص٥٠و ٤
محدثین کا ابوھریرہ اور معاویہ کے مدلس (فریب کار ) ھونے پر اجماع ——-“””””””——-
علمائے حدیث نے متفقہ طور پر کہا هے کہ
” ابوهریره ، عبادلہ ، معاویہ بن ابی سفیان اور انس بن مالک نے کعب الاحبار یہودی سے روایتیں نقل کی هیں ، کعب الاحبار وه شخص هے جس نے مسلمانوں کو دهوکہ دینے کے لئے بظاهر اسلام قبول کیا تھا لیکن باطن میں یہودی تھا ، مذکوره افراد میں سے ابوهریره نے دوسروں کی بہ نسبت کعب الاحبار سے زیاده روایتیں نقل کی هیں اور اس پر اعتماد کیا هے۔
ریفرنس —–
محمود ابو ریه اضواء علی السنۃ المحمدیۃ ،ص٢٠٧
حقیقت میں کعب الاحبار کی چالبازی ابوهریره پر مسلط هو چکی تھی اور وه دین ے اسلام میں خرافات اور توهمات داخل کرنا چاهتا تھا-
کعب کے بارے میں بیان کئے گئے اقوال سے واضح هو تا هے کہ کعب کا اپنا ایک خاص طریقہ کار تھا،
امام ذهبی نے ” طبقات الحفاظ ” میں ابوهریره کے بارے میں لکھا هے
” کعب ابوهریره کے بارے میں کہتا تھا کہ میں نے کسی کو نهیں دیکها هے جو تورات پڑهے بغیر اس کے بارے میں ابوهریره سے عالم تر هو۔
ریفرنس ——-
ذهبی طبقات الحفاظ ، به نقل از محمود ابوریه، اضواء علی السنۃ المحمدیۃ ،ص٢٠٧
” ذرا دیکهئے کہ اس جادوگر نے کیسے ابوهریره کو اپنے شیشے میں اتارا هے ، ابوهریره کیسے سمجھـ چکا تھا کہ تورات میں کیا هے؟؟؟ جبکہ وه تورات کو نهی پہچانتا تھا اور اگر پہچانتا بھی هو اسے پڑھ نهی سکتا تھا چونکہ تورات عبرانی زبان میں تھی اور ابو هریره ، عربی لغت بهی نهیں جانتا تھا ، کیو نکه وه ان پڑھ تھا۔
ریفرنس ——
محمود ابو ریه اضواء علی السنۃ المحمدیۃ ،ص٢٠٧-
ابو ھریرہ نے کبھی تورات نھی پڑھی لیکن تورات کا عالم ھونے کا جھوٹا دعوئ کرتا تھا ——-“””””””——–
بخاری نے ابوهریره سے نقل کیا هے کہ اهل کتاب تورات کو عبرانی زبان میں پڑھتے هیں اور اسے اهل اسلام کے لئے عربی میں تفسیر کرتے هیں اور اگر میں عبرانی زبان جانتا تو میں بهی اس کے مفسرین میں شامل هوتا-
دینوری نے ابو هریره کے بارے میں لکها هے : ” چونکه ابو هریره نے کچھـ ایسی روایتیں نقل کی هیں که اس کے هم عصرساتهیوں اور اصحاب کبار میں سے کسی نے ان کو نقل نهیں کیا هے بلکه اس پر الزام لگاکر اس کی روایتوں سے انکار کیا هے اور کها هے که تم نے کیسے تنهائی میں پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم سے ان روایتوں کو سنا هے جبکه تم کبهی اکیلے آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کی خدمت میں نهیں هوتے تھے۔
ریفرنس———
دینوری تاویل مختلف الحدیث ،ص٥٠
سنی امام دینوری کہتے هیں۔
“عائشه سختی سے اس (ابو هریره ) کا انکار کرتی تھیں اور ابوهریره کو جهوٹا کہنے والوں میں عمر ، عثمان اور علی علیہ السلام وغیره تھے-“
ابو هریره نے رسول اکرم (ص) سے نقل کیا تها کہ
” عورت، گھوڑے اور گهر کے بارے میں طیره (بد شگونی ) صحیح هے- ” جب اس حدیث کو عائشه کے پاس نقل کیا گیا تو انہوں نے کہا۔
” قسم اس خدا کی جس نے قرآن مجید کو ابو القاسم (ص) پر نازل کیا هے ، جو کوئی اس حدیث کو پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم سے نسبت دیدے ، اس نے جهوٹ بولا هے ، بلکه پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے فر مایا هے: ” اهل جاهلیت کہتے تھے ، طیره (بد شگو نی ) گھوڑے ، عورت اور گهر میں هے –”
حضرت علی علیه السلام فر ماتے تهے ۔
” ابوهریره سب سے جهوٹا انسان هے –” اور ایک دوسری جگه پر فر مایا
” رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم پر جهوٹ کی نسبت دینے والوں میں سب سے جهوٹا شخص ابوهریره تها- “
کہتے هیں که ایک دن ابوهریره نے کها ” حدثنی خلیلی، میرے دوست نے میرے لئے حدیث نقل کی۔
” حضرت علی علیه السلام نے فوراً اس کے جواب میں فر مایا ” متی کان النبی خلیلک ، رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کب تیرے دوست تهے۔
ریفرنس ———-
اضواء علی السنۃ المحمدیۃ ،ص٢٠٤-
سنی محدث ابو جعفر اسکافی نقل کرتے هیں۔
معاویہ نےصحابیوں اور تابعین کے ایک گروه کو اکسایا تاکہ علی علیه السلام کے خلاف قبیح اور منفی احادیث گهڑ لیں ، صحابیوں میں سے ابو هریره ، عمر بن عاص ، مغیرۃ بن شعبه اور تابعین میں سے عروۃ بن زبیر تھے جنہوں نے یه کام اپنے ذمہ لیا۔
ریفرنس ——-
محمد عبده ،شرح نهج البلاغه ،ج١،ص٣٥٨-
اس سلسلہ میں ابو هریره کے بارے میں دو الگ کتابیں تالیف کی گئی هیں۔
1- ” ابو هریره “، تالیف سید شرف الدین عاملی مذکوره سوال کے سلسله میں اس کتاب کے صفحه نمبر ١٣٦، ١٦٠ اور ١٨٦کی طرف رجوع کیا جاسکتا هے-
2- ” شیخ المضیره ابو هریره
” تالیف ، محمود ابوریہ مصری.
اھلسنت حضرات سے التماس ھے کہ وہ اپنے مذھب کے بارے تحقیق کریں۔
سنی گھر میں پیدا ھونے کا یہ مطلب نھی کہ آپ سنی سنائ باتوں کو ھی اپنا عقیدہ اور ایمان بنا لیں۔
دین میں تدبر یعنی غور و فکر کا حکم ھے۔
.
.
.
جناب عمر کی ابوھریرہ کو دھمکی کہ حدیث مت لکھیں اور معاویہ کی گواھی
میں نے عمر ابن الخطاب کو ابو ہریرہ سے یہ کہتے سنا:
“تم رسول اللہ (ص) کی حدیث بیان کرنا چھوڑ دو، ورنہ میں تمہیں دوس کی سرزمین میں بھیج دوں گا۔”
اور کعب سے فرمایا:
“تم احادیث بیان کرنا چھوڑ دو، ورنہ میں تمہیں بندروں کی سرزمین میں بھیج دوں گا۔”
تاريخ ابي زرعه الدمشقي ص270 حديث-1475
عبداللہ بن عامر الیحصبی سے روایت کی، انہوں نے کہا:میں نے معاویہ بن ابو سفیان کو دمشق کے منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا: “اے لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث (بیان کرنے) سے بچو، سوائے ان احادیث کے جو عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ذکر کی جاتی تھیں، کیونکہ وہ (عمر) لوگوں کو اللہ کے معاملے میں ڈراتے تھے۔”
پھر میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا:”خبردار! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:’جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے، اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔'”
مستخرج أبي عوانة – كتاب الحدود حدیث نمبر
7504 –





.
.
.