﷽
اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ محمد ص کا ذکر پچھلے کتب میں بھی ہے۔ الله کہتا ہے:
الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ…
وہ جو رسول کی جو نبی اُمی ہیں پیروی کرتے ہیں جن کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔۔۔۔ (1) اور دوسری جگہ یہ بھی ہے کہ:
الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ ۖ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ ان (پیغمبر آخرالزماں) کو اس طرح پہچانتے ہیں، جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانا کرتے ہیں، مگر ایک فریق ان میں سے سچی بات کو جان بوجھ کر چھپا رہا ہے۔ (2)
حالانکہ آج ہمارے پاس اصل تورات و انجیل موجود نہیں کئی تحریفات کے باعث، پاس قدیم نسخے موجود ہیں جیسے عہد عتیق (جس میں تورات، زبور اور انبیاء کت کتب ہیں) کے dead sea scrolls جو کہ عیسیٰ ع کی بعثت سے تین سو سال پہلے کے ہیں اور عہد جدید (4 اناجیل اور بولص کے خطوط) کا codex sinaiticus جو کہ 300 سال بعد از مسیح ع کے نسخے ہیں۔ ان میں اور موجودہ بائبل میں بھی محمد ص کا ذکر دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہم بائبل کی کچھ آیات کا جائزہ کرتے ہیں۔ تورات کی دوسری کتاب تثنیہ میں خدا موسیٰ ع سے فرماتا ہے: “میں اُنکے لیے اُن کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کرونگا اور اپنا کلام اُسکے منہ میں ڈالونگا اور جو کچھ میں اُسے حکم دونگا وہی وہ اُن سے کہے گا۔ اور جو کوئی میری اُن باتوں کو جنکو وہ میرا نام لیکر کہے گا نہ سُنے تو میں اُنکا حساب اُس سے لونگا۔ (3) یہ بات واضح ہے کہ بنی اسرائیل کے بھائی بنی اسماعیل ہیں کیونکہ ابراھیم ع کے دو بیٹے تھے، اسحاق (أبو اسرائیل) اور اسماعیل علیھم السلام لہذا آیت میں “ان کے بھائیوں میں سے” سے مراد بنی اسرائیل کے بھائی بنی اسماعیل یعنی عربیوں میں سے نبی برپا کروں گا۔ اس آیت میں “تیری مانند ایک نبی” کا مطلب موسیٰ ع جیسا نبی۔ موسیٰ ع و محمد ص میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں مثلاَ دونوں اپنے لوگوں کیلئے اللہ سے نئی شریعت لائے، دونوں افواج کے سالار تھے، دونوں نے ھجرت کی۔ اس آیت میں ” اپنا کلام اُسکے منہ میں ڈالونگا” قرآن کے ساتھ متفق ہے۔ قرآن میں اللہ فرماتا ہے: “کہ تمہارے رفیق (محمد ص) نہ رستہ بھولے ہیں نہ بھٹکے ہیں، اور نہ خواہش نفس سے منہ سے بات نکالتے ہیں یہ تو حکم خدا ہے جو (ان کی طرف) بھیجا جاتا ہے۔ (4) تورات کی مندجہ بالا آیت میں لکھا ہے کہ “وہ میرا نام لیکر” بولے گا، اور یہ بات تو واضح ہے کہ قرآن کی ہر سورة اللہ نے نام سے شروع ہوتی ہے (بسم اللہ الرحمان الرحیم)۔ ہم تورات کی کتاب تثنیہ میں دیکھتے ہیں: “اور اُس نے کہا خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے اُن پر آشکارا ہوا ، وہ کوہِ فاران سے جلوہ گر ہوا اور دس ہزار قدسیوں میں سے آیا اُسکے دہنے ہاتھ پر اُنکے لیے آتشی شریعت تھی۔ (5) اس آیت کا پہلا حصہ، سینا (طور سیناء) کی بات کرتا ہے۔ اس پہاڑ پر موسیٰ ع کو وحی ملی۔ پھر پہاڑ شعیر (یا سعیر) پر عیسیٰ ع کو وحی ملی۔ پھر فاران جو کہ مکة میں ایک پہاڑ ہے جس میں غار حرہ واقع ہے جہاں پر محمد ص کو وحی ملی۔ آیت میں مزید لکھا ہے کہ “اور دس ہزار قدسیوں میں سے آیا”، اس کا مطلب فتح مکة کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے جب رسول ص دس ہزار اصحاب سمیت مکة فتح کرنے آئے۔ آیت میں “اسکے دہنے ہاتھ پر اُنکے لیے آتشی شریعت تھی” سے مراد شریعت محمدی ص ہے۔ فاران کا ذکر نبی حبقوق کی کتاب میں بھی ملتا ہے: “خُدا تیمان سے آیا اور قدوس کوہ فاران سے۔ سلاہ : اس کا ہاتھ جلال آسمان پر چھا گیا اور زمین اس کی حمد سے معمور ہو گی۔ (6) آیت میں “قدوس” جو فاران سے آیا سے مراد محمد ص ہی ہو سکتے ہیں کیونکہ فقط انہوں نے ہی فاران سے وحی ملنے کےبعد نبوت کا دعویٰ کیا۔ لفظ محمد کا منعی ہے جس کی حمد کی جائے، اس آیت میں بھی کہا گیا ہے کہ زمین اس کی حمد سے معمور ہوگی۔ نبی حزقیل کی کتاب میں لکھا ہے: “اور خدا کا جلال مشرقی دروازے سے داخل ہوگا۔ (7) بائبل میں بہت سے آیات اس سے مشابہ ہیں اور اسرایئل کے مشرق میں صرف جزیرہ العرب ہی ہے، خدا کا جلال اسلام ہی ہے۔
نبی شعیاء کی کتاب میں ہم دیکھتے ہیں: “عرب کی بابت بار نبوت ۔ تم عرب کے جنگل میں رات کاٹوگے۔ (
ادھر “عرب کی بابت با نبوت” خدا کا عہد ہے جو وہ جزیرہ العرب میں پورا کرے گا اپنا نبی بھیج کر جاہل عربیوں کیلئے۔ نبی شعیاء کی ہی کتاب میں ہے: “اور کتاب اس کو دی جاتی ہے جو پڑھا ہوا نہیں، اور اس کو کہا جاتا ہے اسکو پڑھو، تو وہ کہتا ہے میں پڑھا ہوا نہیں۔ (9) “۔ یہ آیت اس واقعہ کے عین مطابق ہے جب محمد ص پر سورة العلق کی پھلی آیات نازل ہوئیں غار حرہ میں۔ وہ پڑھے ہوئے نہیں تھے (یعنی کسی سے پڑھنا لکھنا نہیں سیکھا)۔ پھر نبی شعیاء کی کتاب میں ہم دیکھتے ہیں: ” دیکھو میرا عبد جسکو میں قائم کرتا ہوں ۔ میرا چنا ہوا جس سے میرا دل خوش ہے میں نے اپنی روح اس پر ڈالی۔ وہ قوموں میں عدالت جاری کرے گا۔ (10)”۔ ادھر خدا کسی کی بات کر رہا ہے جو اسکا عبد ہے (عربی میں عبداللہ)، چنا ہوا ہے (عربی میں مصطفیٰ) اور اس سے اسکا دل خوش ہے (عربی میں حبیب اللہ) جو کہ محمد ص کے نام ہیں۔ اسکی روح، جبرائیل الامین ہیں جو محمد ص کی جانب بھیجے گئے قرآن نازل کرنے کیلئے۔ اس ہی باب 42 کی چھٹی آیت میں ہے: “میں ہی تیرا ہاتھ پکڑونگا اور تیری حفاظت کرونگا اور لوگوں کے عہد اور غیر یھودیوں کا نور تجھے بناؤں گا۔ (11)”۔ ادھر بات چونکہ غیر یھودیوں کی ہوئی ہے تو اس سے مراد عیسیٰ ع نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ فقط بنی اسرائیل کیلئے بھیجے گئے تھے۔ محمد ص کو ساری اقوام کیلئے بھیجا گیا، خصوصاَ غیر یھودی عرب، تو اس سے مراد وہی ہیں۔ پھر آیت 10 اور 11 میں ہے: “اے سمندر پر گذرنے والو اور اس میں بسنے والو! اے جزیرو اور انکے باشندو خداوند کے لیے نیا گیت گاؤ۔ اور زمین پر سر تا سر اسکی ستائش کرو۔ بیابان اور اسکی بستیاں۔ قیدار کے آبادگاؤں اپنی آواز بلند کریں۔ سلع کے بسنے والے گیت گائیں۔ پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے للکاریں۔ (12)”۔ نئے گیت سے مراد عبادت کا نیا طریقہ ہے۔ دنیاء کے ڈھائی ارب مسلمان اپنا کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے کہتے ہیں بسم اللہ الرحمان الرحیم، اسہی گیت کا اس آیت میں ذکر ہے جو خدا کیلئے ہوگا۔ آیت میں قیدار سے مراد اسماعیل ع کے بیٹے ہیں جو کہ عربیوں کے جد ہیں۔ جسکا ذکر تورات کی پہلی کتاب، کتاب تکوین میں ایسے ہے: “اور اِسمعیل کے بیٹوں کے نام یہ ہیں ۔ یہ نام ترتیب وار اُنکی پَیدایش کے مُطابق ہیں ۔ اسمعیل کا پہلوٹھا نبایوت تھا ۔ پھر قیدار اور اوبئیل اور مَسبام”۔ لہذا اوپر والی آیت میں “قیدار کے آبادگاؤں۔ (13)” سے مراد جزیرہ العرب ہے جہاں قیدار کی نسلیں آباد ہیں۔ سلع جسکا ذکر ہے آیت میں وہ مدینہ میں ایک پہاڑ ہے۔ تو آیت کا زور مدینہ پر ہی ہے۔ اسلامی تاریخ میں درج ہے کہ کچھ یھودی مدینہ میں آباد تھے کیونکہ انہوں نے اپنی کتب میں پڑھا تھا کہ ایک نبی آئے گا جو مدینہ میں رہے گا، اس کی طرف اشارہ قرآن میں اس طرح ہے: “اور وہ (یھودی) پہلے کافروں پر فتح مانگا کرتے تھے، تو جس چیز کو وہ خوب پہچانتے تھے، جب ان کے پاس آپہنچی تو اس سے کافر ہو گئے۔ پس کافروں پر الله کی لعنت۔ (14)”۔ پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے للکارنے کا سے مراد حج ہے۔ ایک اور جگہ جہاں حج کا ذکر ہے وہ زبور کے باب 84 آیت 5 سے 6 میں ایسے ہے: ” متبارِک ہے وہ آدمی جِسکی قُوت تجھ سے ہے۔ جِنکے دِل زیارت کیلئے مقرر ہیں۔ وہ وادیِ بکہ سے گُذر کر اُس چشموں کی جگہ بنا لیتے ہیں۔ بلکہ پہلی بارِش اُسے برکتوں سے معمور کر دیتی ہے۔ (15)”۔ بکہ ہی مکة ہے۔ قرآن میں اسکا ثبوت ہے: “پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا تھا وہی ہے جو بکہ میں ہے بابرکت اور جہاں کے لیے موجبِ ہدایت۔ (16)”۔ لہذا زبور کی آیت میں مسلمانوں کے حج کا ہی ذکر ہے۔ کتاب شعیاء میں ہم دیکھتے ہیں: “اس نے سوار دیکھے جو دودوآتے تھے اور گدھوں اور اونٹوں پر سوار۔ (17)”۔ آیت کی بیشن گوئی میں گدھے کے سوار عیسیٰ ع ہیں جیسے کہ انجیل یوحنا میں ہے: “جب یِسُوع (عیسیٰ ع) کو گدھے کا بچہّ مِلا تو اُس پر سوار ہُؤا۔ (18)” اور اونٹ کے سوار محمد ص ہیں۔ بائبل کی کتاب غزل الغزلات سلمیان ع کی غزل میں لکھا ہے: “اُسکا منہ ازبس شیرین ہے۔ ہاں وہ سراپا عشق انگیز ہے۔ اَے یروشلیم کی بیٹیو! یہ ہے میرا محبوب۔ یہ ہے میرا پیارا۔ (19)”۔ آیت میں سراپا عشق انگیز کا عبرانی زبان کے لفظ מַחֲמַדִּ֑ים، مُحَمَّدِم سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ عبرانی عبارت یوں ہے: חִכֹּו֙ מַֽמְתַקִּ֔ים וְכֻלֹּ֖ו מַחֲמַדִּ֑ים זֶ֤ה דֹודִי֙ וְזֶ֣ה רֵעִ֔י בְּנֹ֖ות יְרוּשָׁלִָֽם׃، “ہکو ممتکم و کلُ مُحَمَّدِم زہدودہ و زہریہ بینا یروشلم”۔ عبرانیی زبان میں اِم کا استعمال جمع کیلئے اور عزت دینے کیلئے ہوتا ہے جیسے وہ اِلوہ (خدا) کو اِلوہِم کہتے ہیں، جیسے ہم اردو میں بھی آپ کو ایک سے زیادہ افراد کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں اور ایک فرد کو عزت دینے کیلئے بھی آپ سے مخاطب کرتے ہیں۔ لہذا آیت میں محمد ص کا ذکر نام سے کیا گیا ہے۔ مگر مترجمین نے اسکا ترجمہ سراپا عشق انگیز کیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو آیت کا ترجمہ ہوتا “اسکا منہ ازبس شیرین ہے۔ ہاں وہ محمد ہے”۔

بائبل کے عہد جدید میں انجیل یوحنا میں ہے کہ عیسیٰ ع نے کہا: “مجھے تُم سے اَور بھی بہُت سی باتیں کہنا ہے مگر اَب تُم اُن کی برداشت نہِیں کرسکتے۔ لیکِن جب وہ رُوح حق آئے گا تو تُم کو تمام سَچّائی کی راہ دِکھائے گا۔ اِس لِئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکِن جو کُچھ سُنیگا وُہی کہے گا اور تُمہیں آئیندا کی خَبریں دے گا۔ (20)”۔ عیسیٰ ع روح حق کی بات کر رہے ہیں، ایک اور آیت کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ روح حق (سچی روح) سے کیا مراد۔ ہم بائبل میں 1 یوحنا باب 4 آیت 1 میں پڑھتے ہیں: “اے عِزیزو! ہر ایک رُوح کا یقِین نہ کرو بلکہ رُوحوں کو آزماؤ کہ وہ خُدا کی طرف سے ہیں یا نہِیں کِیُونکہ بہُت سے جھُوٹے نبی دُنیا میں نِکل کھڑے ہُوئے ہیں۔ خُدا کے رُوح کو تُم اِس طرح پہچان سکتے ہو کہ جو کوئی رُوح اِقرار کرے کہ یِسُوع مسِیح مُجّسم ہوکر آیا ہے وہ خُدا کی طرف سے ہے۔ (21)۔” لہذا، اس آیت کے مطابق ایک سچی روح (روح حق) ایک سچا نبی ہے اور جھوٹی روح چھوٹا نبی ہے اور سچا نبی وہ ہے جو عیسیٰ ع کو مسیح تسلیم کرے۔ ہم قرآن میں پڑھتے ہیں: “جب فرشتوں نے کہا: آے مریم، خدا تم کو اپنی طرف سے ایک فیض کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح ہوگا۔ (22)”۔ اوپر مقتبس، انجیل یوحنا والی آیت میں ہے کہ “وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکِن جو کُچھ سُنیگا وُہی کہے گا” اور یہی ہم قرآن میں دیکھتے ہیں: “کہ تمہارے رفیق (محمد ص) نہ رستہ بھولے ہیں نہ بھٹکے ہیں، اور نہ خواہش نفس سے منہ سے بات نکالتے ہیں یہ تو حکم خدا ہے جو (ان کی طرف) بھیجا جاتا ہے۔ (23)”۔ لہذا محمد ص وہی بولتے ہیں جو اللہ سے سنتے ہیں جو کہ انجیل یوحنا کی اس آیت سے متفق ہے۔ انجیل یوحنا میں ہے کہ عیسیٰ ع نے فرمایا: “لیکِن مَیں تُم سے سَچ کہتا ہُوں کہ میرا جانا تُمہارے لئِے فائِدہ مند ہے کِیُونکہ اگر مَیں نہ جاؤُں تو وہ مددگار تُمہارے پاس نہ آئے گا لیکِن اگر جاؤں گا تو اُسے تُمہارے پاس بھیج دُوں گا۔ (24)”۔ ادھر عیسیٰ ع ایک مددگار کی بات کر رہے ہیں جو انکے بعد آئے گا۔ پھر انجیل یوحنا باب 14 آیت 16 میں عیسیٰ فرماتے ہیں: “اور مَیں باپ سے دَرخواست کرُوں گا تو وہ تُمہیں دُوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تُمہارے ساتھ رہے۔ (25)”۔ واضح رہے کہ باپ سے مراد خدا ہے، حقیقی باپ نہیں بلکہ ایسے جیسے ہر انسان خدا کا بیٹا ہے (اگر وہ متقی ہو) جیسے دیگر انبیاء کو بھی خدا کا بیٹا کہا گیا ہے عہد عتیق میں بائبل کے۔ اس آیت میں بھی عیسیٰ ع ایک مددگار بھجوانے کی بات کر رہے ہیں جو انکے بعد آئے گا۔ انجیل یوحنا میں عیسیٰ نے فرمایا: “لیکِن جب وہ مددگار آئے گا جِس کو مَیں تمُہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا یعنی رُوح حق جو باپ سے صادر ہوتا ہے تو وہ میری گواہی دے گا۔ (26)”۔ ہم باپ لفظ کی وضاحت کر چکے ہیں اور روح حق کی تشخیص بھی کر چکے ہیں۔ “میری گواہی دے گا” سے مراد وہ مجھے مسیح مانے گا، جو کہ قرآن و حدیث میں صریحتاَ عیسیٰ ع کو کہا گیا ہے۔ پھر انجیل یوحنا میں ہے کہ: “اور یُوحنّا کی گواہی یہ ہے کہ جب یہُودِیوں کے یروشلِیم سے کاہِن اور لاوی یہ پُوچھنے کو اُس کے پاس بھیجے کہ تُو کَون ہے؟ تو اُس نے اِقرار کِیا اور اِنکار نہ کِیا بلکہ اِقرار کِیا مَیں تو مسِیح نہِیں ہُوں۔ اُنہوں نے اُس سے پُوچھا پھِر کَون ہے؟ کیا تُو ایلِیاہ ہے؟ اُس نے کہا مَیں نہِیں ہُوں۔ کیا تُو وہ نبی ہے؟ اُس نے جواب دِیا کہ نہِیں۔ (27)”۔ اس اقتباس میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یوحنا نے مسیح، “وہ نبی” اور ایلیاء ہونے کا انکار کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یھودی تین افراد کے منتظر تھے۔ مسیح (عیسیٰ ع)، وہ نبی (محمد ص) اور ایلیاء (بعض کے نزدیک نبی الیاس ع)۔ یہ سب اس کو سامنے رکھتے ہوئے ہے کہ ان تحریفات کے باوجود حق کسی نہ کسی صورت میں ان کتب میں بھی موجود ہے، ت انکو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا بلکہ بطور حجت استعمال کیا جا سکتا ہے مخالفین کے ساتھ۔
.
أحقر: سيد علي أصدق نقوي
اللهم صل على محمد ص وآله
مآخذ:
(1) سورة الأعراف، آیت 157
(2) سورة البقرة، آیت 146
(3) تثنیة، باب 18، آیت 18 و 19
(4) سورة النجم، آیات 2 تا 4
(5) تثنیة، باب 33، آیت 2
(6) حبقوق، باب 3، آیت 3
(7) حزقیل، باب 24، آیت 4
(
شعیاء، باب 21، آیت 13 تا 15

(9) شعیاء، باب 29، آیت 12
(10) شعیاء، باب 42، آیت 1
(11) شعیاء، باب 42، آیت 6
(12) شعیاء، باب 42، آیات 10 و 11
(13) تکوین، باب 25، آیت 13
(14) سورة البقرة، آیت 89
(15) زبور، باب 84، آیات 5 و 6
(16) سورة آل عمران، آیت 96
(17) شعیاء، باب 21، آیت 7
(18) یوحنا، باب 12، آیت 14
(19) غزل الغزلات، باب 5، آیت 16
(20) یوحنا کی انجیل، باب 16، آیت 12 و 13
(21) 1 یوحنا، باب 4، آیت 1
(22) سورة آل عمران، آیت 45
(23) سورة النجم، آیت، 2 تا 4
(24) یوحنا، باب 16، آیت 7
(25) یوحنا، باب 14، آیت 16
(26) یوحنا، باب 15، آیت 26
(27) یوحنا، باب 1، آیت 19 و 20