*خلافت نبوت سے الگ “الہی منصب” ہے اور اللہ کا بنایا خلیفہ “معصوم” ہوتا ہے: معتبر احادیث اہل سنت سے*
تحقیق و تحریر: سید علی اصدق نقوی اور احمد بابری
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہم سب اللہ تعالی سے ہدایت مانگتے ہیں کہ جیسا کہ قرآن میں ہے:
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمََ ۙ (سورۃ الفاتحه، 6)
ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرما
اللہ تعالی نے انسانوں کی ہدایت کے لیے پچھلی قوموں میں “انبیاء” (ع) کو مبعوث فرمایا اور ان میں اپنی طرف سے “خلفاء” (نائب/جانشین) بنائے یعنی اللہ نے خود خلیفہ مقرر فرمایا یا خود خلیفہ منتخب فرمایا۔ قرآن مجید میں ہے:
وَ اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً ؕ (سورۃ البقرہ، 30)
اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا: میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں
سو خلیفہ بھی اللہ بناتا ہے کہ جیسے اللہ ہی نبی کو مبعوث فرماتا ہے۔ کسی فرد کو نبی یا خلیفہ بنانا اللہ تعالی کا ارادہ تکوینی ہے یعنی کوئی فرد اپنی مرضی سے یا لوگوں کی رائے سے نبی یا خلیفہ نہیں بنتا بلکہ یہ اللہ کا ارادہ ہوتا ہے۔
پچھلی قوموں میں بنی اسرائیل میں اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ (ع) کو مبعوث فرمایا اور یہاں انکی مثال اس لیے ضروری ہے کیونکہ قرآن مجید میں حضرت محمد مصطفی (ص) کو موسی (ع) جیسا نبی کہا گیا ہے (سورۃ المزمل، 15) اور حدیث رسول اکرم (ص) میں مسلمان قوم اور قوم بنی اسرائیل میں کچھ مشابہتوں کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔
قرآن مجید کے مطابق، حضرت موسیٰ (ع) جب کوہ طور پر جانے لگے تو اپنے اہل بیت میں سے اپنے بھائی، حضرت ہارون (ع) کو بنی اسرائیل میں اپنا خلیفہ مقرر فرما کر گئے اور ظاہر ہے کہ حضرت ہارون (ع) کی اس خلافت کی تقرری و انتخاب قوم کے عوام یا خواص کے حوالے نہیں کیا گیا بلکہ حضرت موسیٰ (ع) نے ایسا اللہ ہی کے حکم سے کیا۔ قرآن مجید کی آیت کچھ یوں ہے:
وَ وٰعَدۡنَا مُوۡسٰی ثَلٰثِیۡنَ لَیۡلَۃً وَّ اَتۡمَمۡنٰہَا بِعَشۡرٍ فَتَمَّ مِیۡقَاتُ رَبِّہٖۤ اَرۡبَعِیۡنَ لَیۡلَۃً ۚ وَ قَالَ مُوۡسٰی لِاَخِیۡہِ ہٰرُوۡنَ اخۡلُفۡنِیۡ فِیۡ قَوۡمِیۡ وَ اَصۡلِحۡ وَ لَا تَتَّبِعۡ سَبِیۡلَ الۡمُفۡسِدِیۡنَ (سورۃ الاعراف، 142)
اور ہم نے موسی (ع)ٰ سے تیس(۳۰) راتوں کا وعدہ کیا اور دس(دیگر) راتوں سے اسے پورا کیا اس طرح ان کے رب کی مقررہ میعاد چالیس راتیں پوری ہو گئی اور موسی (ع)ٰ نے اپنے بھائی ہارون (ع) سے کہا: میری قوم میں میرے خلیفہ ہوجاؤ اور اصلاح کرتے رہنا اور مفسدوں کا راستہ اختیار نہ کرنا۔
سو ابھی تک ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اللہ تعالی ہی نبی اور خلیفہ بناتا ہے اور اس انتخاب و تقرری کا زمہ قوم کے عوام و خواص کے حوالے نہیں کیا جاتا (قرآن مجید سے پچھلی امتوں میں ہمیں اسکے واضح ثبوت ملتے ہیں)۔ نتیجتا، ہم یہ کہتے ہیں کہ نبوت ہو یا خلافت، یہ دونوں “الہی منصب” ہیں۔
عصمت کا مسئلہ
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر نبوت اور خلافت دو الہی منصب ہیں تو کیا نبی یا خلیفہ “معصوم” ہوتا ہے؟ یعنی ہم جانتے ہیں کہ انسان ہی نبی یا خلیفہ ہوسکتا ہے اور انسان فرشتہ تو ہے نہیں کہ جس میں اللہ نے خواہش اور خیر و شر کی باطنی قوتیں نہ رکھی ہوں، سو چونکہ ہر نبی اور خلیفہ انسان ہے تو ان میں بھی خیر و شر کی یہ باطنی قوتیں تو موجود ہونگی تو پھر کیا نبی یا خلیفہ بھی عام انسانوں کی طرح شر کی قوت کا شکار ہوکر شیطان کے ہاتھوں مغلوب ہوسکتے ہیں یا پھر نبی اور خلیفہ پر انکی شر کی باطنی قوت غالب نہیں آسکتی اور یوں شیطان ان پر غلبہ نہیں پاسکتا؟؟؟ اگر تو نبی یا خلیفہ پر انکی شر کی باطنی قوت غالب آسکتی ہو تو ان پر شیطان غالب اسکے گا اور یوں وہ گناہ (کبیرہ و صغیرہ)، خدا کی نافرمانی اور برائی کا ارتکاب کر بیٹھیں گے جبکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ اللہ کے خاص ارادے کے سبب نبی یا خلیفہ کی شر کی باطنی قوت ان پر غالب نہیں آسکتی تو ایسی صورت میں وہ ہر گناہ (کبیرہ و صغیرہ)، نافرمانی خدا اور برائی سے دور رہیں گے اور شیطان ان پر غالب نہیں آسکے گا اور حفاظت کے اسی خاص ارادہ خدا کو “عصمت” کہا جاتا ہے اور جسکو عصمت عطاء کی جائے وہ “معصوم” کہلاتا ہے۔
سو عصمت خاص قسم کی عطائے خداوندی متعال ہے جو صرف اللہ ہی عطاء کرسکتا ہے اور اس سے انسان فرشتہ نہیں بن جاتا بلکہ انسان اپنی شر کی باطنی قوت و شیطان کے ہاتھوں مغلوب نہیں ہوتا اور یوں فرشتے سے افضل قرار پاتا ہے۔
تو اس عقلی مقدمے کے بعد اب ہم اپنے سوال کی طرف واپس پلٹتے ہیں کہ کیا دونوں الہی منصب کے اہل یعنی نبی اور خلیفہ “معصوم” ہوتے ہیں؟؟؟ کیا نبی اور خلیفہ پر انکی باطنی قوت شر یا شیطان غلبہ نہیں پاسکتا؟؟؟
قرآن مجید نبی اور خلیفہ کی عصمت پر کیا کہتا ہے؟؟؟
اس سوال کا جواب اگر قرآن مجید میں دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ نے کہیں پر “عصمت یا معصوم” کے الفاظ کی تخصیص کے ساتھ صراحت نہیں فرمائی کہ نبی یا خلیفہ معصوم ہوتے ہیں۔ البتہ اگر ہم عصمت کو شیطان کے غلبے سے محفوظ رہنے کے طور پر دیکھیں تو قرآن مجید میں اس حوالے سے یہ چند آیات ہیں:
شیطان اللہ تعالی سے کہتا ہے کہ میں انسانوں کو ضرور بالضرور بہکاؤں گا مگر ساتھ میں کہتا ہے کہ “مخلصین” پر غلبہ نہ پاسکوں گا…
اِلَّا عِبَادَکَ مِنۡہُمُ الۡمُخۡلَصِیۡنَ (سورۃ الحجر، 40)
ان میں سے سوائے تیرے مخلص بندوں کے
(یہی بات سورۃ ص کی آیت 83 میں بھی ہے)
اللہ تعالی شیطان کو کہتا ہے کہ تیری پیروی کرنے والے بہکیں گے مگر “میرے بندوں” پر تو غالب نہ ہوگا…
اِنَّ عِبَادِیۡ لَیۡسَ لَکَ عَلَیۡہِمۡ سُلۡطٰنٌ (سورۃ الحجر، 42)
جو میرے بندے ہیں ان پر یقینا تیری (شیطان کی) بالادستی نہ ہوگی
(یہی بات سورۃ بنی اسرائیل کی آیت 65 میں بھی ہے)
سو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اگر عصمت سے مراد شیطان کے غلبہ و قابو سے محفوظ ہونا ہے تو اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اس عطاء کو انبیاء (ع) سے خاص نہیں فرمایا بلکہ حقیقی معنوں میں اپنے مخلص بندوں کو اس کا مصداق ٹھہرایا ہے (جو نبی بھی ہوسکتے ہیں اور غیر نبی خلیفہ بھی)۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ ہم مطلق معنوں میں شیطان کے غلبے سے حفاظت کو عصمت کہہ رہے ہیں ورنہ تو مومنین بھی شیطان کے مطلق غلبہ میں نہیں البتہ ان سے گناہ صغیرہ تو سرزرد ہو ہی جاتے ہیں۔ سو معصوم وہ ہے جو اللہ کی خاص عطاء (ارادہ تکوینی) کے تحت شیطان اور باطنی قوت شر کے غلبے سے محفوظ ہے، چاہے نبی ہو یا خلیفہ کیونکہ اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ صرف نبیوں پر شیطان کا غلبہ نہیں، اور چونکہ ہر انسان اس قابل نہیں کہ وہ صرف اپنے ذاتی ارادے سے مطلقا شیطان کے اور باطنی قوت شر کے غلبے سے بچے اور ہر کبیرہ و صغیرہ گناہوں سے پاک رہے، لہذا یہی ماننا پڑے گا کہ عصمت خاص اللہ کی عطاء ہے جو ہر کسی کے لیے نہیں بلکہ صرف اپنے مخلص ترین بندوں (انبیاء و خلفاء) کے لیے اللہ کا اپنا ارادہ کن فیکون ہے۔
آسان ترین الفاظ میں، شیطان اور باطنی قوت شر سے مطلقا وہی بچ سکتا ہے جس کو اللہ کا بچانے کا ارادہ ہو (یعنی عصمت) اور اس بنیاد پر معصوم (گناہ کبیرہ و صغیرہ سے پاک) صرف وہی ہوسکتا ہے جس کو اللہ شیطان و باطنی قوت شر سے بچا رکھے!
احادیث نبی اور خلیفہ کی عصمت پر کیا کہتیں؟؟؟
اہل تشیع کے پاس اس موضوع پر معتبر و صریح احادیث موجود ہیں کہ جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ “نبی اور خلیفہ چونکہ اللہ کے منتخب شدہ افراد ہوتے ہیں، سو یہ اللہ کے حکم سے ہر گناہ کبیرہ و صغیرہ سے معصوم ہوتے ہیں۔ اہل سنت کے ہاں انکی معتبر ترین احادیث میں کہ کن میں نبی و خلیفہ اور انکے اللہ کی جانب سے بنائے جانے اور اپنی باطن قوت شر سے اللہ کے حکم سے حفاظت و بچائے جانے کا تذکرہ آیا ہے اور یہ بھی آیا ہے کہ معصوم صرف اللہ کی وجہ سے یعنی اللہ کے ارادے کے سبب اس باطن قوت شر سے بچا ہوا ہوتا ہے، ایسی معتبر ترین احادیث درج ذیل ہیں:
مگر اس سے پہلے کہ آپ احادیث کا مطالعہ فرمائیں، یہ جان لیں کہ اہل سنت کی یہ معتبر ترین احادیث اس بات پر دلیل ہیں کہ:
(1) نبوت اور خلافت الگ منصب ہیں
(2) نبی اور خلیفہ اللہ بناتا ہے یعنی نبوت اور خلافت الہی منصب ہیں
(3) ہر نبی اور خلیفہ کے ساتھ دو باطنی قوتیں موجود ہوتی ہیں: ایک اچھائی کی اور دوسری برائی کی
(4) اس باطنی قوت شر (برائی) کے غلبے سے بچتا وہی ہے جسے اللہ بچاتا ہے
(5) معصوم یعنی باطنی قوت شر سے مغلوب نہ ہونے والا وہی ہوسکتا ہے جسے اللہ اس قوت کے غلبے سے بچائے
(6) احادیث میں نبی اور خلیفہ، دونوں کے لیے اس باطنی قوت شر سے اللہ کی جانب سے بچائے جانے اور اللہ کی جانب سے معصوم ہونے کا تذکرہ ہے
(7) جس طرح حدیث میں اللہ کی جانب سے عصمت اور باطنی قوت شر سے خدائی تحفظ کے تذکرے میں نبی اور خلیفہ دونوں کے بارے آیا ہے، اللہ کی جانب سے عطاء کردہ عصمت بھی ان دونوں یعنی نبی اور خلیفہ پر صادق آتی ہے
[احادیث نبوی (ص)]
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا وَلَهُ بِطَانَتَانِ: بِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَاهُ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَبِطَانَةٌ لَا تَأْلُوهُ خَبَالًا، فَمَنْ وُقِيَ شَرَّهَا فَقَدْ وُقِيَ»
[صحیح ابن حبان، رقم الحدیث: 6191]
حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم (ص) نے فرمایا:
ہر نبی کے ساتھ دو قوتیں ہوتی ہیں: ایک جو نیکی کی طرف بلاتی ہے اور برائی سے روکتی ہے اور دوسری وہ جو برائی کی طرف بلاتی ہے اور دوسری اسے بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی، پس جس شخص کو اس (دوسری قوت) کے شر سے بچا لیا گیا، اسے بچا لیا گیا۔
(نوٹ: اس حدیث کو البانی نے “صحیح” کہا ہے اور شعیب ارناووط نے اسکی سند کو “بخاری کی شرط پر صحیح” کہا ہے)
عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، أَنَّهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ “مَا بُعِثَ مِنْ نَبِيٍّ وَلاَ كَانَ بَعْدَهُ مِنْ خَلِيفَةٍ إِلاَّ وَلَهُ بِطَانَتَانِ بِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَاهُ عَنِ الْمُنْكَرِ وَبِطَانَةٌ لاَ تَأْلُوهُ خَبَالاً فَمَنْ وُقِيَ بِطَانَةَ السُّوءِ فَقَدْ وُقِيَ” .
[سنن نسائی، رقم الحدیث: 4208]
حضرت ابوایوب سے روایت ہے کہ رسول اکرم (ص) نے فرمایا:
اللہ نے نہ کسی کو نبی مبعوث کیا اور نہ اللہ نے کسی کو اسکے بعد اسکا خلیفہ بنایا مگر یہ کہ اس کے ساتھ دو قوتیں ہوتی ہیں: ایک جو نیکی کی طرف بلاتی ہے اور برائی سے روکتی ہے اور دوسری اسے بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی، پس جس شخص کو اس (دوسری والی) بری قوت سے بچا لیا گیا، اسے بچا لیا گیا۔
(نوٹ: البانی نے اس حدیث کو “صحیح” کہا ہے)
{ضروری نکتہ: اس حدیث میں تو باقائدہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نبی کے بعد اللہ کا کسی کو خلیفہ بنانا، سو اگر ختم نبوت ہوجائے، تب بھی اللہ ہی خلیفہ بنائے گا، قوم کے عوام و خواص نہیں}
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ “مَا بَعَثَ اللَّهُ مِنْ نَبِيٍّ وَلاَ اسْتَخْلَفَ مِنْ خَلِيفَةٍ، إِلاَّ كَانَتْ لَهُ بِطَانَتَانِ، بِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَحُضُّهُ عَلَيْهِ، وَبِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالشَّرِّ وَتَحُضُّهُ عَلَيْهِ، فَالْمَعْصُومُ مَنْ عَصَمَ اللَّهُ تَعَالَى”
[صحیح بخاری، رقم الحدیث: 7198]
حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اکرم (ص) نے فرمایا:
اللہ نے نہ کسی کو نبی مبعوث کیا اور نہ اللہ نے کسی کو خلیفہ بنایا مگر اس میں دو قوتیں رکھیں: ایک جو نیکی کی طرف بلاتی ہے اور اس پر ابھارتی ہے اور دوسری وہ جو شر کی طرف بلاتی ہے اور اس پر ابھارتی ہے، پس معصوم وہ ہے جسے اللہ تعالی (شر کی قوت سے) محفوظ رکھتا ہے۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ “مَا اسْتُخْلِفَ خَلِيفَةٌ إِلاَّ لَهُ بِطَانَتَانِ بِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالْخَيْرِ وَتَحُضُّهُ عَلَيْهِ، وَبِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالشَّرِّ وَتَحُضُّهُ عَلَيْهِ، وَالْمَعْصُومُ مَنْ عَصَمَ اللَّهُ”
[صحیح بخاری، رقم الحدیث: 6611]
حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اکرم (ص) نے فرمایا:
کسی کو خلیفہ نہیں بنایا گیا مگر یہ کہ اسکے ساتھ دو قوتیں ہوتی ہیں: ایک جو خیر کی طرف بلاتی ہے اور اس پر ابھارتی ہے اور دوسری وہ جو شر کی طرف بلاتی ہے اور اس پر ابھارتی ہے، اور معصوم وہ ہے جسے اللہ (شر کی قوت سے) محفوظ رکھتا ہے۔
یہ تمام روایات تین جید صحابی رسول (ص) سے روایت ہیں یعنی حضرت ابو ھریرہ، ابو سعید خدری اور ابو ایوب انصاری۔ اسکے علاوہ مسند احمد (11342)، مسند ابی یعلیٰ (1229)، صحیح ابن حبان (6192) اور امن نسائی (4207) میں دیگر احادیث بھی انہی الفاظ کے ساتھ موجود ہیں اور انکے سکین امیجز پوسٹ کے ساتھ مہیا کئے گئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*ان احادیث سے حاصل ہونے والے منطقی نتائج*
اگر ہم ان احادیث کے ظاہری الفاظ تک خود کو محدود رکھیں اور انکے قضیے قائم کرکے منطقی نتیجے تک پہنچیں، تو استدلال کچھ یوں ہے:
قضیہ 1: نبی اللہ مبعوث کرتا ہے اور اللہ ہی خلیفہ بناتا ہے
قضیہ 2: نبی ہو یا خلیفہ، دونوں کے ساتھ دو باطنی قوتیں ہوتی ہیں؛ ایک باطنی قوت خیر کی طرف بلانے والی اور دوسری، شر کی طرف
قضیہ 3: جس نبی اور خلیفہ کو اللہ نے اس باطنی قوت شر سے بچا لیا، اسے بچا لیا گیا
قضیہ 4: معصوم وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ اس باطنی قوت شر سے محفوظ دکھے
نتیجہ: نبوت و خلافت دو الگ الہی منصب ہیں اور ان دونوں کے پاس خیر و شر کی باطنی طاقتیں ہیں اور نبی و خلیفہ میں سے جس کو اللہ چاہے، باطنی قوت شر سے محفوظ رکھ کر معصوم بنا سکتا ہے اور ایسا فقط اللہ ہی کرسکتا ہے
احادیث میں موجود ظاہری الفاظ پر مبنی قضیوں اور ان سے حاصل ہونے والے نتائج کو سامنے رکھنے سے یہ سوال عقلی طور پر پیدا ہوتا ہے کہ…
کیا اللہ چاہے تو نبی اور خلیفہ کو باطنی قوت شر سے محفوظ رکھ کر معصوم بنا سکتا ہے یا پھر اللہ نے واقعا/عملا ایسا کرتا بھی ہے کہ وہ نبی اور خلیفہ کو باطنی قوت شر سے محفوظ و معصوم بنادیتا ہے (یا اللہ نے واقعا/عملا نبی اور خلیفہ کو باطنی قوت شر سے محفوظ و معصوم بنایا)؟؟؟
کیا رسول اکرم (ص) صرف اللہ کی قدرت و اختیار کی وضاحت فرما رہے تھے کہ اللہ چاہے تو عصمت عطاء کرسکتا ہے یا واقعتا یہ سنت الہی ہے کہ وہ نبی و خلیفہ کو جب خود ہی مقرر کرتا ہے اپنے ارادہ تکوینی سے تو اسی ارادے سے انہیں معصوم (باطنی قوت شر سے محفوظ) بھی بناتا ہے؟؟؟
اگر اسکا جواب یہ ہے کہ یہ صرف اللہ تعالی کا اختیار و قدرت ہے تو ہمیں نعوذ باللہ یہ ماننا پڑے گا کہ پھر ان انبیاء (ع) و خلفاء میں سے جسے اللہ نے چاہا، اسے معصوم بنایا (یعنی کچھ کو نہیں بنایا یا سب انبیاء (ع) معصوم نہیں ۔ نعوذ باللہ)۔ ایسا نہ تو اہل تشیع مانتے ہیں اور نہ ہی اہل سنت۔
سنی و شیعہ، سب کا متفق علیہ عقیدہ ہے کہ “تمام انبیاء (ع) معصوم ہیں یعنی گناہ کبیرہ و صغیرہ اور اپنی باطن قوت شر سے محفوظ…
*سو ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اللہ تعالی عصمت کی عطاء کا صرف اختیار و قدرت نہیں رکھتا بلکہ اللہ اسکو اپنے ارادہ تکوینی سے عملی/واقعی شکل دیتا ہے*
سو اگر یہی بات ایک قضیے کے طور پر استدلال میں انہی پہلے والے قضیات کے ساتھ شامل کی جائے تو نتیجہ یوں نکلے گا:
قضیہ 1: نبی اللہ مبعوث کرتا ہے اور اللہ ہی خلیفہ بناتا ہے
قضیہ 2: نبی ہو یا خلیفہ، دونوں کے ساتھ دو باطنی قوتیں ہوتی ہیں؛ ایک باطنی قوت خیر کی طرف بلانے والی اور دوسری، شر کی طرف
قضیہ 3: جس نبی اور خلیفہ کو اللہ نے اس باطنی قوت شر سے بچا لیا، اسے بچا لیا گیا
قضیہ 4: معصوم وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ اس باطنی قوت شر سے محفوظ دکھے
قضیہ 5: اللہ تعالی نے باطنی قوت شر سے حفاظت اور عصمت کی قدرت و اختیار کو عملی/واقعی شکل دی ہے
نتیجہ: نبوت و خلافت دو الگ الہی منصب ہیں اور ان دونوں کے پاس خیر و شر کی باطنی طاقتیں ہیں اور نبی و خلیفہ میں سے جس کو اللہ چاہے، باطنی قوت شر سے محفوظ رکھ کر معصوم بنا سکتا ہے اور ایسا فقط اللہ ہی کرسکتا ہے اور اللہ نے اپنے اختیار و قدرت کا عملا/واقعا استعمال کیا، لھذا اللہ کی جانب سے مبعوث تمام نبی (ع) اور اللہ کی جانب سے بنائے گئے تمام خلفاء (ع) اپنی باطنی قوت شر سے محفوظ و معصوم ہیں مگر اللہ کی عطاء سے!
—–
جیسا کہ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ نبوت اور خلافت دو الگ الہی منصب ہیں اور نبی و خلیفہ من جانب اللہ، معصوم ہوتا ہے۔ نبوت و خلافت ایک جگہ کسی فرد میں جمع بھی ہوسکتے تھے جیسا کہ حضرت آدم (ع) اور ہارون (ع) وغیرہ کی مثال ہمارے سامنے ہے مگر اب چونکہ رسول اکرم، حضرت محمد مصطفی (ص) پر نبوت کا الہی منصب ختم ہوچکا ہے تو اب یہ دو الہی منصب کسی فرد میں جمع نہیں ہوسکتے!
کیا امت محمدیہ (ص) میں خلافت جاری ہوگی؟؟؟
ختم نبوت کے بعد اب ازروئے قرآن و حدیث، خلافت ابھی بھی امت محمدیہ (ص) کے لیے طے شدہ ہے…
قرآن مجید میں امت محمدیہ (ص) میں اللہ تعالی کی جانب سے بنائے جانے والی خلافت کا وعدہ موجود ہے یعنی یہ الہی منصب ابھی جاری ہے! آیت یوں ہے:
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ (سورۃ النور، 55)
تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح خلیفہ ضرور بنائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو خلیفہ بنایا
اسی طرح اہل سنت کی کتب احادیث میں ان باتوں کی تائید میں معتبر احادیث ہیں کہ:
(1) رسول اکرم (ص) نے حضرت علی (ع) کو ہارون (ع) اور خود کو موسی (ع) سے تشبیہ دے کر فرمایا کہ اے علی (ع) کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تمہاری مجھ سے منزلت وہی ہے جو ہارون (ع) کو موسی (ع) سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ اور اے علی (ع) تم تمام مومنین میں میرے بعد میرے خلیفہ ہو (دلچسپ بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے رسول اکرم (ص) کو موسی (ع) جیسا نبی کہا ہے اور ہارون (ع) کی طرح حضرت علی (ع) بھی نبی (ص) کے بھائی، وزیر اور اہل بیت میں سے تھے اور رسول اکرم (ص) کے بتلائے ہوئے خلیفہ (كتاب السنة، ح 1188)
(2) رسول اکرم (ص) نے باقائدہ اعلان فرما کر ہزاروں صحابہ کرام (رض) تک پہنچایا کہ میں تم میں اپنے دو خلفاء چھوڑ کر جارہا ہوں؛ ایک کتاب اللہ (قرآن) اور دوسرا میری عترت اہل بیت (ع)۔ یعنی خلفاء رسول (ص)، اہل بیت (ع) کے افراد ہیں (مسند احمد، ح 21470)
(3) رسول اکرم (ص) کا مشھور فرمان ہے جو اب مسعود (رض) سے مروی ہے کہ میرے بعد میرے خلفاء کی تعداد بنی اسرائیل کے نقباء کی طرح 12 ہے (مسند احمد، ح 3859)
(4) صحیح مسلم و دیگر کتب ستہ میں یہ حدیث موجود ہے کہ جابر بن سمرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ص) نے حجة الوداع کے موقع پر فرمایا کہ میرے بعد میرے 12 خلفاء ہیں اور انکے ہوتے دین غالب ہے (مسند احمد، ح 21099)
(5) رسول اکرم (ص) نے فرمایا کہ اگر زمین پر 2 قریشی بھی باقی ہونگے تو ان میں سے ایک خلیفہ ہوگا (مسلم، ح 4704)
(6) رسول اکرم (ص) نے اہل بیت (ع) کہ جو خلفائے رسول (ص) ہیں کہ بارے فرمایا کہ قرآن اور اہل بیت (ع) کبھی جدا نہیں ہوسکتے تا قیامت (ترمذی، ح 3788)
*حاصل کلام*
انبیاء (ع) اور انکے خلفاء (ع) صرف اللہ بناتا ہے، قوم کے عوام و خواص نہیں، انبیاء (ع) و خلفاء (ع) اللہ کے حکم تکوینی کے تحت معصوم ہوتے ہیں، رسول اکرم (و) پر ختم نبوت کے بعد اب کوئی نبی خلیفہ نہیں بن سکتا مگر خلافت کا وعدہ اس امت سے قرآن و حدیث میں موجود ہے سو جیسے اللہ اگلوں میں خلیفہ بناتا تھا، اس امت میں بھی ایسے ہی بناتا ہے اور رسول اکرم (ص) نے عملا اللہ کے حکم پر موسی (ع) و ہارون (ع) کی طرح مولا علی (ع) کو اپنا خلیفہ مقرر فرمایا اور صحابہ کرام (رض) پر واضح فرما دیا کہ رسول اکرم (ص) بعد 12 خلفاء ہونگے جو اہل بیت (ع) ہیں اور یہ سب ہمیشہ قرآن کے ساتھ رہیں گے تاقیامت یعنی معصوم ہیں اور انکے سبب ہی دین غالب رہے گا اور اگر زمین پر دو قریشی بھی باقی رہے تو خلافت یعنی فرد اہل بیت (ع) موجود ہوگا کہ جنکے آخری کا سب کو انتظار ہے یعنی خلیفة الله، امام المهدي (عج)…
















شرح احقاق الحق میں شیعہ نقطہ نظر سے امامت کی تعریف یوں کی گئی ہے:
ھِیَ مَنصَبٌ إلٰھیّ حَائزٌ لِجَمیعِ الشوٴونِ الکریمةِ وَالفَضَائلِ إلاَّ النَّبوة و مایلازم تلک المرتبة السّامیة
ترجمہ: “امامت ایک الٰہی منصب اور خدا کی طرف سے ایک ذمہ داری کا نام ہے جو نبوت اور اس سے متعلق دوسرے امور کے علاوہ تمام بلند امور اور فضائل کو شامل ہے”.
(احقاق الحق / جلد ۲ / صفحہ ۳۰۰ (حاشیہ نمبر ایک)
اقتباس کتاب من: احادیث صحیحہ در امامتِ آئمہ اثنا عشریہ

قارئین کرام: منصب امامـت ایک عھـدیٰ الہی ہے جس کے بارے میں اللہ کے رسول (ص) نے اپنی زندگی مبارک میں بتا کہ گے تھے، اس کے ساتھ ساتھ ان ظالـموں اور غاصبوں کے بارے میں بتا گے تھے کہ وہ ظالم لوگ آئمه کفر ہوں گے ظلالت کی طرف دعوات دینے والے ہوں گے ، اللہ کے منتخب کردہ خلفاء پر ظلم کریں گے ( دنیا چاہے ان ظالموں کو کیسے کیسے القاب دئے لیکن ) *وہ مجھ سے نہ ہوگے، میرا ان سے کچھ نہ جائے، میں محمد (ص) اُن سے بیزار رہوں گا*
جیساکہ ہمارےمحدث ثقة الاسلام علامہ یعقوب کلینی (رح) نے اپنی کتاب اصول کافی میں مندرجہ ذیل حدیث کو ذکر کیا ہے، *اس کے ساتھ ساتھ اُسی حدیث پاک کوسـرکـار مجلسی( رح) اپنی کتاب مراة العقول میں حسن کہا ہے*
حدیث ملاحضہ ہو
*مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ غَالِبٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع* قَالَ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ- يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمامِهِمْ قَالَ الْمُسْلِمُونَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَ لَسْتَ إِمَامَ النَّاسِ كُلِّهِمْ أَجْمَعِينَ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص أَنَا رَسُولُ اللَّهِ إِلَى النَّاسِ أَجْمَعِينَ *وَ لَكِنْ سَيَكُونُ مِنْ بَعْدِي أَئِمَّةٌ عَلَى النَّاسِ مِنَ اللَّهِ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يَقُومُونَ فِي النَّاسِ* فَيُكَذَّبُونَ وَ يَظْلِمُهُمْ أَئِمَّةُ الْكُفْرِ وَ الضَّلَالِ وَ أَشْيَاعُهُمْ فَمَنْ وَالاهُمْ وَ اتَّبَعَهُمْ وَ صَدَّقَهُمْ فَهُوَ مِنِّي وَ مَعِي وَ سَيَلْقَانِي أَلَا *وَ مَنْ ظَلَمَهُمْ وَ كَذَّبَهُمْ فَلَيْسَ مِنِّي وَ لَا مَعِي وَ أَنَا مِنْهُ بَرِيءٌ* .
امام جعفر صادق (ع) سے مروی ہے جب یہ آیت نازل ہوئی اس روز ہم ہر گروہ کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے تو مسلمانوں نے کہا ، یارسول اللہ کیا آپ سب لوگوں کے امام نہیں فرمایا میں اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں *تمام لوگوں کی طرف اور میرے بعد امام ہونگے میری اہل بیت سے وہ لوگوں کے درمیان رہیں گے* پس لوگ ان کو جھٹلائیں گے اور آئمہ کفر ان پر ظلم کریں گے اور آئمہ (ع) ضلال اور ان کے تابعین بھی ستائیں گے پس وہ لوگ جنھوں نے ان سے محبت کی اور ان کا اتباع کیا اور ان کی تصدیق کی کہ وہ مجھ سے ہیں اور میرے ساتھ ہیں اور عنقریب مجھ سے ملاقات کریں گے *اور جنھوں نے ان پر ظلم کیا اور ان کو جھٹلایا وہ مجھ سے نہیں ہیں میں ان سے بَری ہوں ۔*
اصول الکافی جلد ۱ ص ۱۲۸
اس حدیث کو علامہ مجلسی نے مراة العقول جلد ۲ ص ۴۴۲ میں لکھا ہے
الحدیث الاول صحیح
یہ پہلی حدیث سند کے اعتبار سے بلکل صحیح ہے
سیف نجفی



.
وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ۔ 124 : البقرہ
اور اس وقت کو یاد کرو جب خدانے چند کلمات کے ذریعے ابراہیم علیہ السّلام کا امتحان لیا اور انہوں نے پورا کردیا تو اس نے کہا کہ ہم تم کو لوگوں کا امام بنا رہے ہیں. انہوں نے عرض کی کہ میری ذریت؟ ارشاد ہوا کہ یہ عہدہ ظالمین تک نہیں جائے گا.
زیر بحث آیت کے علاوہ مندرجہ ذیل آیات میں بھی ایسے اشارات موجود ہیں جو ہماری بات پرشاہد ہیں:
۱۔ و جعلنھم آئمة یھدون بامرنا
اور ہم نے انہیں امام قرار دیا جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے ہیں۔ (انبیا۔ ۷۳)
۲۔ و جعلنا منھم ائمة یھدون بامرنا لما صبروا
جب انہوں نے استقامت دکھائی تو ہم نے انہیں امام قرار دیا جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے ہیں۔ (سجدہ۔۲۴)
زیر بحث آیت سے ضمنا یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ امام (ہر لحاظ سے لوگوں کے رہبر کے مفہوم کے اعتبارسے) خدا کی طرف سے معین ہونا چاہئیے۔ کیونکہ امامت ایک قسم کا خدائی عہد و پیمان ہے اور واضح ہے کہ جسے خدا معین کرے گا اس پیمان کے ایک طرف خود خدا ہوگا۔
یہ بھی ظاہر ہوا کہ جن لوگوں کے ہاتھ ظلم و ستم سے رنگے ہوئے ہیں اور ان کی زندگی میں کہیں ظلم کا نشان موجود ہے۔ چاہے اپنے اوپر ظلم ہی کیوں نہ ہو یہاں تک کہ ایک لحظے کے لئے بت پرستی کی ہو وہ امامت کی اہلیت نہیں رکھتے۔
اصطلاح میں کہتے ہیں کہ امام کو اپنی تمام زندگی میں معصوم ہوناچاہئیے۔
کیا خدا کے سوا کوئی صفت عصمت سے آگاہ ہوسکتاہے:؟؟؟؟
اگر اس معیار پر جانشین پیغمبر کا تعین کیاجائے تو حضرت علی علیہ السلام انکے بیٹوں کے علاوہ کوئی شخصیت اس الہی منصب کے معیار پر پورا اترتی نظر نہیں اتی۔
قرآنی آیات سے واضع ہوا کہ
امامت خدائی عہدہ ہے ۔




واللہ العالم
.
.
.
.
.
امام کا تعین بھی الله تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے
اہلسنت محدث و امام شاہ اسماعیل شہید نے منصبِ امامت میں موضوع امامت پر مفصل بحث کی ہے اور خود وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مقام منصبِ امامت بھی کمالات میں اسی طرح ہے جس طرح مقام منصبِ نبوت ہے البتہ فقط نبوت کا فرق ہے یعنی مقام وہی ھے لیکن فرق صرف نبوت کا ہے اور آگے بعض کاملین کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
“پس جو کوئی مذکورہ کمالات میں انبیاء سے مشابہت رکھتا ہو گا اس کی امامت تمام کاملین سے اکمل ہو گی پس یہ ضرور ہو گا کہ اس امام اکمل اور انبیاء الله کے درمیان سوائے نبوت کے امتیاز ظاہر نہ ہو گا پس ایسے شخص کے حق میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر خاتم الانبیاء ﷺ کے بعد کوئی شخص اگر مرتبہ نبوت سے سرفراز ہوتا تو بیشک یہی اکمل الکاملین سر فراز ہوتا”.
(منصبِ امامت ، صفحہ 85)



.
.