اھلسنت کے کے معروف عالم دین اور علم رجال کے ماھر علامہ ذھبی نے اپنی کتاب سیراعلام النبلا جلد 8 برصفحہ 57 پر امام مالک کے حالات زندگی میں پیغمبر (ص) کے بعد مدینہ منورہ کے علماء کے نام ذکرکیے ھیں جبکہ حضرت علی علیہ السلام کا نام اس لسٹ میں نہیں ھے وہ لکھتے ھیں
رسول گرامی (ص) اسلام کے بعد مدینہ منورہ کے عالم حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت زید بن ثابت ، حضرت عائشہ ، عبداللہ بن عمر، سعید بن مسیب ، زھری ، عبید اللہ بن عمر اور اور امام مالک تھے
کیا عبداللہ بن عمر اور عبیداللہ بن عمر کا نام مدینہ منورہ کے علما میں ذکر کرنا اور حضرت علی کا نام ذکرنہ کرنا یہ چوتھے خلیفہ سے دشمنی کی علامت نہیں ؟
اگرھمارا عقیدہ یہ ھے کہ ان احادیث مبارکہ کے بعد
1۔ “أنا مدينة العلم وعليّ بابها فمن اراد العلم فليأت الباب”۔
میں علم کا شہر ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ہیں پس جو بھی اس شہر میں داخل ہونا چاہتا ہے، دروازے سے آکر داخل ہوجائے(المستدرک علی الصحیحین، حاکم نیشابوری ج3، ص126)
2۔ “أنا مدينة العلم وعليّ بابها فمن اراد العلم فليأته من بابه””۔
میں علم کا شہر ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ہیں، پس جو علم حاصل کرنا چاہے اس کو دروازے سے اس شہر میں داخل ہونا پڑے گا (الاستیعاب، ابن عبد البر، ج3، ص1102۔)
3۔ “انا دار الحكمة وعليّ بابها”۔
میں حکمت کا گھر ہوں اور علی(ع) اس گھر کا دروازہ ہیں (ترمذی، السنن ج5، ص637۔)
4۔ حضرت علی اسلام لانے اور علم کے اعتبار سے پہلے صحابی ھیں
علی(ع) کی اعلمیت پر صحابہ کا اقرار
حضرت عمر بن خطاب
عمر ہمیشہ خدا کی پناہ مانگتے تھے کہ کوئی علمی مشکل پیش آئے اور علی(ع) اس وقت موجود نہ ہوں؛ اور کہا کرتے تھے کہ اگر علی(ع) نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا (الاستیعاب، ابن عبدالبر، ج 3، ص 39۔)
حضرت عائشہ
عائشہ کا کہنا ہے: “آگاہ رہو اور جان لو کہ علی بن ابیطالب سنت کے سب سے بڑے عالم ہیں (ابن عبدالبر، ج 3، ص 462۔)
ابن عباس
ابن عباس کہتے ہیں: “خدا کی قسم! علی بن ابی طالب کو علم کے دس درجات میں سے نو درجات پر فائز کیا گیا اور باقیماندہ ایک حصے میں بھی شریک ہیں (ابن عبدالبر، ج 3، ص 40)
عبداللہ بن مسعود
بےشک قرآن سات حروف پر نازل ہوا، ان حروف میں سے کوئی بھی حرف نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا ایک ظاہر ہو اور ایک باطن، اور علی(ع) کے پاس ظاہر و باطن کا علم ہے فرائض کے لحاظ سے اہل مدینہ کے عالم ترین فرد علی بن ابی طالب ہیں
ابونعیم اصفهانی، ج 1، ص 65۔، امینی، ج3، ص91
معاويہ
جب بھی معاویہ اپنے سامنے پیش آنے والے مسائل کو لکھا کرتا تھا تا کہ علی بن ابی طالب سے پوچھ لے۔ معاویہ کو جب امیرالمؤمنین(ع) کے قتل کی خبر ملی تو اس نے کہا: ابوطالب کے فرزند کی موت کے ساتھ ہی علم و فقہ نے رخت سفر باندھ لیا
ابن عبدالبر، ج 2، ص 463۔
اس طرح کی کئی احادیث اھلسنت کے معتبر منابعہ میں ذکر ھوئی ھیں جو حضرت علی کی شان میں وارد ھوئی ھیں ان کا کیا کریں
یہ ھے امام مالک کی ناصبیت

