اھل سنت نے جناب عائشہ بنت ابی بکر کے لئے خودساختہ طور پر “صدیقہ” کا لقب دیا ہوا ہے جبکہ یہ قرآن و سنت کے صریح خلاف ہے۔ جناب عائشہ بنت ابی بکر کے جھوٹ کی وجہ سے اللہ نے سورۃ تحریم کی ابتدائی آیات نازل کی تھی۔
اھل سنت مفسر واحدی نیساپوری نے اپنی سند سے نقل کیا ہے عروہ نے بیان کیا ہے :
عائشہ فرماتی ہیں رسول اللہ ﷺ کو حلوہ اور شہد بہت پسند تھا اور آپ صلی ﷺ کی عادت تھی کہ عصر کی نماز پڑھ کر اپنی بیویوں کے پاس جاتے تھے اور ان میں سے کسی سے بوس و کنار بھی کرتے۔ (ایک دن) حفصہ کے پاس گئے اور معمول سے زیادہ ٹھہرے رہے۔ (اس سے) مجھے غیرت آئی اور میں نے اس کا سبب دریافت کیا تو کسی نے مجھ سے کہا کہ ان (حفصہ) کو ان کی قوم کی کسی عورت نے شہد کا ایک ڈبہ بطور تحفہ بھیجا تھا۔ انہوں نے وہ شہد آپ ﷺ کو پلایا (اس وجہ سے دیر ہو گئی)۔ میں نے کہا واللہ! میں تو کچھ حیلہ کروں گی۔ میں نے سودہ سے کہا کہ جب نبی کریم ﷺ تمہارے پاس آئیں تو تم کہنا کہ شاید آپ نے مغافیر (ایک بدبودار چیز) کھایا ہے، نبی کریم ﷺ تجھ سے انکار کریں گے پھر تو یہ کہنا کہ یہ بدبو آپ کے منہ سے مجھے کیسی آتی ہے؟ جب وہ تجھ سے کہیں کہ میں نے حفصہ کے پاس شہد پیا ہے تو تم کہنا کہ شاید اس (شہد) کی مکھیوں نے درخت عرفط کا رس چوسا ہو گا اور میں بھی یہی کہوں گی اور اے صفیہ! تم بھی یہی کہنا۔ عائشہ فرماتی ہیں کہ سودہ کہتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ (آ کر) دروازہ پر کھڑے ہی ہوئے تھے کہ میں نے تیرے خوف کے باعث اس بات کے کہنے کا جو تو نے مجھ سے کہی تھی ارادہ کر لیا۔ عائشہ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ سودہ کے قریب پہنچے اس نے آپ ﷺ سے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں“ وہ بولی پھر آپ کے منہ سے مجھے بدبو کیسی آتی ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ مجھے حفصہ نے تھوڑا سا شہد پلایا ہے، وہ بولی شاید اس کی مکھی نے عرفط کا رس چوسا ہو گا۔ جب آپ میرے پاس آئے تو میں نے بھی آپ ﷺ سے یہی کہا اور جب صفیہ ﷺ کے پاس گئے تو انھوں نے بھی یہی کہا اور جب آپ حفصہ کے پاس دوبارہ تشریف لے گئے تو حفصہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں آپ کے پینے کے لیے شہد لاؤں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے شہد کی حاجت نہیں“۔ عائشہ فرماتی ہیں کہ سودہ نے کہا واللہ! ہم نے رسول اللہ ﷺ کو شہد پینے سے محروم کر دیا ہے۔ میں نے کہا ارے چپ رہو (کہیں رسول اللہ ﷺ کو نہ خبر ہو جائے)۔
محقق نے اسکی سند کو صحیح قرار دیا ہے اور یہ صحیح مسلم میں بھی موجود ہے۔

لہذا اس حدیث سے صاف طور پر ظاھر ہوتا ہے کہ عائشہ نے رسول اللہ ﷺ کو جھوٹ بولا تھا کہ اسکے منہ سے مغافیر کی بدبو آتی ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں تھا اور رسول اللہ ﷺ نے شہد پینا ہی ترک کردیا اور پھر اللہ نے یہ آیات نازل فرمائی اور عائشہ اور اس دوسری زوجہ کو تنبہ کیا اور توبہ کرنے کے لے کہا۔
اب جس سے ایسا جھوٹ ثابت ہے کہ اللہ نے اسکے خلاف آیات نازل فرمائی اسکو صدیقہ لقب دینا کیا معنی رکھتا ہے ؟
اسکے برعکس اب ھم عائشہ بنت ابی بکر کی ہی زبانی سنیں گے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے صادق (سچا) کونسی شخصیت تھی جو “صدیقہ” لقب کی حقدار باقیوں سے زیادہ ہے۔
ابو یعلی موصلی نے اپنی سند سے نقل کیا ہے کہ عمرو بن دینار نے نقل کیا کہ عائشہ نے فرمایا :
میں نے فاطمہ بنت محمد ﷺ سے زیادہ کسی کو سچا نہیں پایا اسکے باپ کے علاوہ۔ ان دونوں کے درمیان کوئی بات تھی۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ان سے پوچھیں کیونکہ یہ جھوٹ نہیں بولتیں۔

حاکم نیساپوری نے اسکو اپنی سند سے نقل کیا ہے اور پھر یوں لکھا :
یہ حدیث مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
ذھبی نے تعلیق میں اسکو مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا۔

نور الدین ھیثمی نے اسکو نقل کرنے کے بعد یوں لکھا :
اسکے تمام راوی صحیح کے راوی ہے۔

ثابت ہوا کہ عائشہ بنت ابی بکر جسکو اھل سنت نے “صدیقہ ” کا لقب دیا ہو ہے وہ خود جناب فاطمہ بنت محمد ﷺ کو رسول اللہ ﷺ کے علاوہ سب سے سچا مانتی تھی۔ لہذا اس لقب “صدیقہ” کی حقیقی حقدار جناب فاطمہ بنت محمد ﷺ ہی ہے۔








