ھم نے اکثر دیکھا ہے کہ وہ لوگ جو فلاحی یا غامدی فکر سے تعلق رکھتے ہیں، کتب اھل سنت میں متعہ کے بارے میں جوازیت و عدم جوازیت والی روایات کے بارے میں جان چھڑانے کی یہ کوشش کرتے ہیں کہ نکاح متعہ زمانہ جاھلیت میں رائج تھا۔ جب اسلام آیا تو اسکو پھر آئستہ آئستہ ختم کیا گیا۔ جبکہ حقیقت اسکے برعکس ہے۔ اسلام سے پہلے نکاح متعہ کا کوئی تصور نہیں تھا۔
محمد بن اسماعیل بخاری نے اپنی سند سے بیاں کیا ہے کہ جناب عائشہ بنت ابی بکر نے فرمایا :
زمانہ جاہلیت میں صرف نکاح چار طرح ہوتے تھے۔

ایک صورت تو یہی تھی جیسے آج کل لوگ کرتے ہیں، ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی زیر پرورش لڑکی یا اس کی بیٹی کے نکاح کا پیغام بھیجتا اور اس کا مہر دے کر اس سے نکاح کر لیتا۔

دوسرا نکاح یہ تھا کہ کوئی شوہر اپنی بیوی سے جب وہ حیض سے پاک ہو جاتی تو کہتا تو فلاں شخص کے پاس چلی جا اور اس سے منہ کالا کرا لے اس مدت میں شوہر اس سے جدا رہتا اور اسے چھوتا بھی نہیں۔ پھر جب اس غیر مرد سے اس کا حمل ظاہر ہو جاتا جس سے وہ عارضی طور پر صحبت کرتی رہتی، تو حمل کے ظاہر ہونے کے بعد اس کا شوہر اگر چاہتا تو اس سے صحبت کرتا۔ ایسا اس لیے کرتے تھے تاکہ ان کا لڑکا شریف اور عمدہ پیدا ہو۔ یہ نکاح ”استبضاع“ کہلاتا تھا۔

تیسری قسم نکاح کی یہ تھی کہ چند آدمی جو تعداد میں دس سے کم ہوتے کسی ایک عورت کے پاس آنا جانا رکھتے اور اس سے صحبت کرتے۔ پھر جب وہ عورت حاملہ ہوتی اور بچہ جنتی تو وضع حمل پر چند دن گزرنے کے بعد وہ عورت اپنے ان تمام مردوں کو بلاتی۔ اس موقع پر ان میں سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ وہ سب اس عورت کے پاس جمع ہو جاتے اور وہ ان سے کہتی کہ جو تمہارا معاملہ تھا وہ تمہیں معلوم ہے اور اب میں نے یہ بچہ جنا ہے۔ پھر وہ کہتی کہ اے فلاں! یہ بچہ تمہارا ہے۔ وہ جس کا چاہتی نام لے دیتی اور وہ لڑکا اسی کا سمجھا جاتا، وہ شخص اس سے انکار کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔

چوتھا نکاح اس طور پر تھا کہ بہت سے لوگ کسی عورت کے پاس آیا جایا کرتے تھے۔ عورت اپنے پاس کسی بھی آنے والے کو روکتی نہیں تھی۔ یہ کسبیاں ہوتی تھیں۔ اس طرح کی عورتیں اپنے دروازوں پر جھنڈے لگائے رہتی تھیں جو نشانی سمجھے جاتے تھے۔ جو بھی چاہتا ان کے پاس جاتا۔ اس طرح کی عورت جب حاملہ ہوتی اور بچہ جنتی تو اس کے پاس آنے جانے والے جمع ہوتے اور کسی قیافہ جاننے والے کو بلاتے اور بچہ کا ناک نقشہ جس سے ملتا جلتا ہوتا اس عورت کے اس لڑکے کو اسی کے ساتھ منسوب کر دیتے اور وہ بچہ اسی کا بیٹا کہا جاتا، اس سے کوئی انکار نہیں کرتا تھا۔
پھر جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم حق کے ساتھ رسول ہو کر تشریف لائے آپ نے جاہلیت کے تمام نکاحوں کو باطل قرار دے دیا صرف اس نکاح کو باقی رکھا جس کا آج کل رواج ہے۔

صحیح بخاری – محمد بن اسماعیل بخاری // صفحہ ۹۱۷ // رقم ۵۱۲۷ // طبع دار السلام ریاض سعودیہ۔
اسی روایت کو دارقطنی نے اپنی سنن میں بھی نقل کیا ہے اور کتاب پر تعلیق لکھنے والے مشہور عالم شمس الحق عظیم آبادی نے نے حاشیہ پر یوں لکھا ہے :
اسکو بخاری نے بھی روایت کیا ہے، ابو داود نے، ابو نعیم نے مستخرج میں، اسماعیلی و جوزقی نے بھی اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔

سنن دارقطنی – علی بن عمر دارقطنی // صفحہ ۷۷۰ // باب نکاح // رقم ۱ // طبع دار ابن حزم ریاض سعودیہ۔
ان چاروں قسموں میں سے کوئی بھی نکاح متعہ نہیں ہے بلکہ اسکی اجازت خاص اسلام میں پہلی بار دی گئی تھی جب صحابہ جنگوں میں اپنی بیویوں سے دور تھے اور انکو خطرہ لگا کہ گہیں وہ حرام فعل میں مبطلا نہ ہو جیسا کہ صحیح احادیث میں آیا ہے۔
لہذا وہ لوگ جو عوام الناس کو دھونکے میں رکھتے ہوئے یوں کہتے ہیں کہ نکاح متعہ اسلام سے پہلے رائج تھا جسکو بعد میں حرام قرار دیا گیا بلکل جھوٹ بول رہے ہیں۔