رسول الله (ص) نے «صدیق الاکبر» اور اس امت کے «فاروق» کے القاب مولا علی (ع) کو عنایت فرمائے [اہل سنت کتب سے]
انتباہ: اس تحریر کا مقصد فقط فضائل مولا علی (ع) بیان کرنا ہے، کسی مکتب کے مقدسات کی توہین یا تنقیص ہرگز نہیں۔ سو براہ کرام، اہل تشیع احباب ایسے کسی کومنٹ سے گریز کریں جس سے کسی دوسرے مسلک کے ماننے والوں کی دل آزاری ہو۔ شکریہ
برادران اسلامی، اہل سنت کے ہاں «صدیق الاکبر» اور «فاروق» کے القاب ان کے مقدسات میں سے دو ہستیوں کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اگر ہم امت مسلمہ کی جانب دیکھیں تو شیعہ اس میں اہل سنت کی نسبت تعداد میں کم ہیں اور ان دونوں کے علمی ماخذ و منابع (sources) بھی جدا جدا ہیں۔ اگر ہم ان دونوں کے منابع سے روایات کا متفق علیہ (mutually agreed upon) بنیادوں پر جائزہ لیں کہ ان دونوں کے ہاں خود رسول الله (ص) سے کس ہستی (یا ہستیوں) کے لئے یہ دو القاب (صدیق الاکبر و فاروق) ثابت ہیں تو وہ ہستی واحد مولا علی (ع) ہیں۔ برادران اہلسنت کے ہاں اگرچہ یہ القاب ان کی دو اہم مذہبی شخصیات و مقدسات کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں تاہم ان میں “بھی” یہ نظریہ پایا جاتا ہے کہ اگرچہ وہ دو ہستیاں بھی صدیق اور فاروق ہیں، تاہم خود رسول الله (ص) سے جس ہستی کے لئے یہ القاب خود حدیث نبوی (ص) میں وارد ہوئے ہیں وہ ذات اقدس مولا علی (ع) کی ہے۔ (اس سلسلے میں پوسٹ کے ساتھ دی گئی وڈیو ضرور ملاحظہ فرمائیں)۔
اس تحریر میں ہم صرف برادران اہل سنت کی کتب سے اس بات کی نشاندہی کریں گے کہ «صدیق الاکبر» اور «فاروق» کے القاب خود رسول الله (ص) نے مولا علی (ع) کو عطا فرمائے اور اس سلسلے میں ہم درج ذیل نکات کو سامنے رکھتے ہوئے پیش رفت کریں گے:
۱- کیا مولا علی (ع) کے لئے کسی معتبر اہل سنت کتاب (یا کتب) میں یہ القاب حدیث نبوی (ص) میں وارد ہوئے ہیں؟
۲- حدیث نبوی (ص) میں لقب «صدیق الاکبر» اور «فاروق» کن معنوں میں وارد ہوئے ہیں؟
۳- کیا «صدیق الاکبر» اور «فاروق» کے جو معنی حدیث نبوی (ص) میں وارد ہوئے ہیں، وہ اہل سنت کی دیگر معتبر روایات میں مولا علی (ع) کے لئے بطور فضائل بیان ہوئے ہیں (تاکہ یہ روایات اس بات کی شہادت میں تقویت کا سبب بنے کے رسول الله (ص) نے مولا علی (ع) کو یہ القاب واقعا عطا فرمائے)؟
١- اہل سنت برادران کی معتبر کتب حدیث میں رسول الله (ص) کا فرمان کہ مولا علی (ع) «صدیق الاکبر» اور «فاروق» ہیں
اہل سنت کے مشہور و معروف محدث، امام طبرانی (المتوفیٰ 360ھ) نے اپنی کتاب “المعجم الکبیر” میں رسول الله (ص) کا فرمان اصحاب رسول (ص)، حضرت ابوذر (رض) و حضرت سلمان (رض) سے یوں نقل کیا ہے:
6184 – حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ الْوَزِيرُ الْأَصْبَهَانِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى السُّدِّيُّ، ثنا عُمَرُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، عَنْ أَبِي سُخَيْلَةَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، وَعَنْ سَلْمَانَ قَالَا: أَخَذَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالَ: «إِنَّ هَذَا أَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِي، وَهُوَ أَوَّلُ مَنْ يُصافِحُنِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَهَذَا الصِّدِّيقُ الْأَكْبَرُ، وَهَذَا فارُوقُ هَذِهِ الْأُمَّةِ، يُفَرَّقُ بَيْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ، وَهَذَا يَعْسُوبُ الْمُؤْمِنِينَ، وَالْمَالُ يَعْسُوبُ الظَّالِمِ»
ترجمہ:
حضرت ابوذر اور حضرت سلمان رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول الله (ص) نے حضرت علی (ع) کا ہاتھ پکڑا، فرمایا: «یہ سب سے پہلے مجھ پر ایمان لائے اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے پہلے مصافحہ کریں گے، یہ صدیق اکبر ہیں، یہ اس امت کے فاروق ہیں، ان کے ذریعے حق اور باطل کے درمیان فرق کیا جاتا ہے، یہ مومنین کے سردار ہیں اور مال ظالم کا سردار ہے۔»
حوالہ:
(عربی) المعجم الكبير – الطبراني – ج 6 – صفحہ 269 – حدیث نمبر 6148
(اردو) المعجم الكبير – الطبراني – ج 4 – صفحہ 507 – حدیث نمبر 6061
اس حدیث نبوی (ص) کو عربی میں اون لائن پڑھنے کا لنک
نوٹ: المعجم الکبیر کے پروگریسو بکس سے چھپے اردو ترجمے میں غلطی سے مترجم نے لقب «صدیق الاکبر» سے پہلے “ابوبکر” لکھ دیا ہے جو کہ اصل عربی عبارت (یا قول رسول (ص)) کا حصہ نہیں۔ (اس حدیث نبوی (ص) کا سکین امیج اس پوسٹ کے ساتھ مہیا کردیا گیا ہے)
اہل سنت عالم دین، امام ابوبکر بزار (المتوفیٰ 292ھ) نے اپنی کتاب “المسند” میں ایسا ہی ملتا جلتا قول رسول (ص) حضرت ابوذر (رض) سے یوں نقل کیا ہے:
3898 – حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ الْعَرْزَمِيُّ، قَالَ: نَا عَلِيُّ بْنُ هَاشِمٍ، قَالَ: نَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ، قَالَ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ: «أَنْتَ أَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِي، وَأَنْتَ أَوَّلُ مَنْ يُصَافِحُنِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَأَنْتَ الصِّدِّيقُ الْأَكْبَرُ، وَأَنْتَ الْفَارُوقُ تَفْرُقُ بَيْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ، وَأَنْتَ يَعْسُوبُ الْمُؤْمِنِينَ، وَالْمَالُ يَعْسُوبُ الْكُفَّارِ»
ترجمہ:
حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول الله (ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا: «آپ (ع) سب سے پہلے مجھ پر ایمان لائے اور آپ (ع) قیامت کے دن مجھ سے سب سے پہلے مصافحہ کریں گے، آپ (ع) صدیق اکبر ہیں،آپ (ع) فاروق ہیں، آپ (ع) کے ذریعے حق اور باطل کے درمیان فرق کیا جاتا ہے، آپ (ع) مومنین کے سردار ہیں اور مال کافروں کا سردار ہے۔»
حوالہ:
مسند البزار = البحر الزخار – ابوبکر البزار – ج 9 – صفحہ 342
اس حدیث نبوی (ص) کو عربی میں اون لائن پڑھنے کا لنک
نوٹ: یہی وہ برادران اہل سنت کی احادیث ہیں کہ جنکے سبب پوسٹ سے ملحقہ وڈیو میں اہل سنت عالم دین نے نشاندہی کی ہے کہ (اہل سنت کے ہاں) احادیث نبوی (ص) میں یہ القاب (صدیق الاکبر و فاروق) مولا علی (ع) کو عطا ہوئے ہیں۔
جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ یہ دو القاب اہل سنت برادران کی معتبر کتب میں رسول الله (ص) سے مولا علی (ع) کو عطا ہوئے ہیں، تو اب یہ دیکھتے ہیں کہ حدیث نبوی (ص) میں ان دو القاب کے کیا معنی وارد ہوئے ہیں۔
٢- حدیث نبوى (ص) میں لقب «صدیق الاکبر» اور لقب «فاروق» کن معنوں میں وارد ہوئے ہیں؟
صدیق کے ایک معنی “بہت زیادہ سچ بولنے والا” ہیں اور ایک “تصدیق (سچائی کی شہادت دینا یا تسلیم کرنا) کرنے والا” کے ہیں۔ چونکہ حدیث نبوی (ص) میں الفاظ «إِنَّ هَذَا أَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِي» (ترجمہ: یہ سب سے پہلے مجھ پر ایمان لائے) وارد ہوئے ہیں، سو «صدیق الاکبر» (سب سے بڑے صدیق) سے یہاں (ظاہری) مراد “سب سے پہلے ایمان/اسلام لانے والا” کے ہیں۔ فاروق کے معنی “فرق کرنے والا ہیں” اور حدیث نبوی (ص) میں الفاظ «يُفَرَّقُ بَيْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ» (ترجمہ: ان کے ذریعے حق اور باطل کے درمیان فرق کیا جاتا ہے) وارد ہوئے ہیں، سو یہاں «فاروق» سے مراد “حق اور باطل میں فرق کرنے والا” ہیں یا “حق کو باطل سے جدا کرنے والا” کے ہیں۔
۳- اہل سنت کی معتبر کتب میں “معتبر روایات” میں معنوی طور پر مولا علی (ع) کے «صدیق الاکبر» (سب سے پہلے تصدیق کرنے والے) اور «فاروق» (حق کو باطل سے جدا کرنے والا) ہونے پر شواہد
«صدیق الاکبر» (سب سے پہلے تصدیق کرنے والے)
اہل سنت کی معتبر کتب کی معتبر سند (صحیح و حسن) سے مروی روایات میں صحابی رسول (ص)، حضرت زید بن ارقم (رض) [۱]، حضرت سلمان فارسی (رض) [۲]، حضرت ابوذر غفاری (رض) [۳]، حضرت ابو رافع (رض) [۴] اور خود مولا علی (ع) [۵] سے اس بات پر واضح شہادتیں ملتی ہیں کہ “سب سے پہلے اسلام (ایمان) لانے والے مرد/ہستی” مولا علی (ع) ہیں اور آپ (ع) ہی نے سب سے پہلے رسول الله (ص) کے ساتھ نماز ادا کی۔
نوٹ: اس سلسلے میں اہل سنت کے ہاں متعدد معتبر روایات و شواہد ہیں اور ہم نے محض اختصار سے کام لیتے ہوئے صرف پانچ معتبر روایات پر اکتفا کیا ہے۔
«فاروق» (حق کو باطل سے جدا کرنے والا)
اہل سنت کی معتبر کتاب کی معتبر سند (صحیح/حسن) میں صحابی رسول (ص)، حضرت ابو سعید خدری (رض) سے قول رسول (ص) نقل ہوا ہے کہ “حق” علی (ع) کے ساتھ ہے۔ [۶] اب چونکہ رسول الله (ص) نے صراحت فرما دی ہے کہ حق مولا علی (ع) کے ساتھ ہے، تو اس سبب مولا علی (ع) وہ فرد ہیں جو حق کو باطل سے جدا کرنے کا سبب ہیں یا حق اور باطل میں فرق کرنے کا سبب ہیں۔ اسی طرح اہل سنت کی معتبر کتاب کی معتبر سند (صحیح) سے ام المومنین، جناب ام سلمہ (ع) سے قول رسول (ص) مروی ہے کہ “علی (ع) قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی (ع) کے ساتھ اور یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ رسول الله (ص) کے پاس حوض کوثر تک پہنچیں” [۷]۔ اب چونکہ رسول الله (ص) نے صراحت فرمادی ہے کہ قرآن و مولا علی (ع) میں جدائی نہیں، تو ان دونوں کی سمت و موقف ایک ہی ہے اور خود قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو “فرقان” (حق کو باطل سے جدا کرنے والا) [۸] اور “حق و باطل میں فرق کا ذریعہ” [۹] بتایا ہے، سو مولا علی (ع) اور فرقان (یعنی قرآن مجید) کی سمت و موقف ایک ہی ہے اور یوں مولا علی (ع) حق کو باطل سے جدا کرنے کا ذریعہ ہیں۔
پس برادران اہل سنت کی معتبر کتب سے حاصل کردہ احادیث نبوی (ص) و معتبر سندوں پر مشتمل روایات و شواہد سے ہم یہاں تک اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ:
– اہل سنت کی معتبر کتب میں احادیث نبوی (ص) میں «صدیق الاکبر» اور «فاروق» کے القاب مولا علی (ع) کے لئے وارد ہوئے ہیں
– اہل سنت کی معتبر کتب میں احادیث نبوی (ص) میں یہ دو القاب (صدیق الاکبر و فاروق) جن معنوں میں استعمال ہوئے ہیں، ان معنوں پر مولا علی (ع) کے لئے متعدد معتبر شواہد (corroborating evidence) بصورت روایات خود بزبان رسول الله (ص)، اور اصحاب کرام (رض) موجود ہیں کہ آپ (ع) ہی سب سے پہلے اسلام (ایمان) لانے والے ہیں اور سب سے پہلے رسول الله (ص) کے ساتھ نماز پڑھنے والے ہیں اور یہ سب آپ (ع) کے «صدیق الاکبر» ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ مزید برآں، آپ (ع) ہی کو رسول الله (ص) نے حق اور قرآن مجید کے ساتھ کہا اور حق اور قرآن (بمعنی فرقان) کا مولا علی (ع) کے ساتھ ہونا مولا علی (ع) کے حق کو باطل سے جدا کرنے کا ذریعہ ہونے کی واضح و روشن دلیل ہے اور یہ سب آپ (ع) کے «فاروق» ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
اب یہاں کوئی یہ سوال لا سکتا ہے کہ خود اس حدیث نبوی (ص) کی سند (chain of narrators) کیسی ہے کہ جو حضرت ابوذر غفاری (رض) اور حضرت سلمان فارسی (رض) سے نقل ہوئی ہے کہ علی (ع) «صدیق الاکبر» اور اس امت کے «فاروق» ہیں؟ تو یہاں علمی دیانتداری کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جواباً عرض ہے کہ اہل سنت علماء کے ایک طبقے نے اس کی سند کو معتبر تسلیم نہیں کیا جبکہ صوفی سنی طبقہ اس روایت کو قبول کرتا نظر آتا ہے اور اسی وجہ سے اس پوسٹ سے ملحق وڈیو میں خود ایک سنت عالم دین ہی اس سندی بحث پر شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ جب اہل البیت/آل محمد (ع) کے فضائل (merits) کی بات آتی ہے تو یہ لوگ (مراد اہل سنت علماء) سندوں کی بحث لے آتے ہیں (تاکہ فضیلت قبول نہ کرنا پڑے)… تاہم ہم یہاں اہل سنت علماء میں سے جو اس حدیث کی سند کو معتبر نہیں مانتے، ان سے شکوہ و شکایت کرنے کی بجائے علمی و تحقیق انداز میں اسکا حل پیش کرچکے ہیں کہ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگرچہ ان کی معتبر کتب احادیث میں اس حدیث نبوی (ص) کی سند میں کوئی راوی ان کے نزدیک ضعیف بھی ہو، تب بھی اہل سنت ہی کی معتبر کتب احادیث کی دیگر کثیر معتبر (authentic and reliable) سندوں سے مروی روایات (احادیث و آثار) سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مولا علی (ع) کے بارے رسول الله (ص) اور اصحاب کرام (رض) کے اقوال میں واضح و روشن شہادتیں موجود ہیں کہ مولا علی (ع) سب سے پہلے اسلام (ایمان) لانے والے اور رسول الله (ص) کے ساتھ نماز پڑھنے والے «صدیق الاکبر» ہیں اور اس امت میں آپ (ع) ہی ہیں جو ہمیشہ حق اور فرقانی (قرآنى) سمت و موقف رکھنے کے سبب حق و باطل میں جدائی کا سبب بنتے ہوئے اس امت کے «فاروق» ہیں۔
آخر میں ہم اتمام حجت کے لئے خود مولا علی (ع) کا اپنے بارے یہ قول (دعویٰ) کہ آپ (ع) ہی «صدیق الاکبر» ہیں، اہل سنت کی احادیث نبوی (ص) کی 6 بڑی و معتبر کتب میں سے ایک، “سنن ابن ماجہ” سے “صحیح سند” (authentic and reliable chain of narrators) سے پیش کرتے ہیں اور مولا علی (ع) کا یہ دعویٰ خود برادران اہل سنت کی اس مذکورہ بالا حدیث نبوی (ص) «علی (ع) صدیق الاکبر ہیں» کی تائید و توثیق کرتا ہے کہ وہ واقعا الفاظ رسول (ص) ہی ہیں چاہے کسی کو اسکی سند پر اشکال بھی ہو… اہل سنت کی معتبر کتاب سے صحیح سند سے قول مولا علی (ع) ملاحظہ فرمائیں:
120 – حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الرَّازِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى قَالَ: أَنْبَأَنَا الْعَلَاءُ بْنُ صَالِحٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: «أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَأَخُو رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا الصِّدِّيقُ الْأَكْبَرُ، لَا يَقُولُهَا بَعْدِي إِلَّا كَذَّابٌ، صَلَّيْتُ قَبْلَ النَّاسِ لِسَبْعِ سِنِينَ»
ترجمہ:
عباد بن عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت علی (ع) نے فرمایا: «میں اللہ کا بندہ اور اس کے رسول (ص) کا بھائی ہوں، اور میں صدیق اکبر ہوں، میرے بعد یہ بات وہی کہے گا جو انتہائی جھوٹا ہے۔ میں نے دوسروں سے سات سال پہلے نماز پڑھی۔»
حوالہ:
سنن ابن ماجه – حدیث نمبر 120
سنن ابن ماجہ کی یہ حدیث عربی میں اون لائن پڑھنے کا لنک
سند کی بحث
اس روایت کی سند معتبر (authentic and reliable) ہے اور اس سلسلے میں ہم اس سند کی تحکیم کی چار مثالیں پیش کرتے ہیں کہ جن میں اس سند کو صحیح (یعنی معتبر) مانا گیا ہے۔ (نوٹ: ان چاروں مثالوں کے سکین امیجز اس پوسٹ کے ساتھ مہیا کر دئیے گئے ہیں)
پہلی مثال:
اس روایت کی سند کو اہل سنت امام، بوصیری (المتوفیٰ 839ھ) نے اپنی کتاب مصباح “الزجاجة في زوائد ابن ماجه” میں “صحیح” کہا ہے اور اس کی سند کے راویوں کو “ثقہ” کہا ہے۔ بوصیری کہتے ہیں:
هَذَا إِسْنَاد صَحِيح رِجَاله ثِقَات [۱۰]
دوسری مثال:
اہل سنت کے مشہور و معروف محدث، علامہ ابن حجر عسقلانی (المتوفیٰ 852ھ) نے اپنی کتاب “إتحاف المهرة” میں امام حاکم نیشاپوری (المتوفیٰ 405ھ) کی حدیث کی مشہور کتاب “مستدرک علی الصحیحین” میں منہال بن عمرو سے مروی اس روایت کی سند کے بارے لکھا ہے کہ امام حاکم نیشاپوری (حاکم = کم) نے اس روایت کی سند کو بخاری و مسلم کی شرط پر “صحیح” مانا ہے۔
صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِهِمَا [۱۱]
تیسری مثال:
سنن ابن ماجہ کی اس روایت کی سند پر محقق “عبد الفواد الباقی” نے تعلیق میں امام بوصیری اور حاکم نیشاپوری ہی کی تحکیم کو نقل کیا ہے جو کہ اس سند کو “صحیح” بتاتی ہے اور اس کے تمام راویوں کو “ثقہ” بتاتی ہے۔
چوتھی مثال:
سنن ابن ماجہ کی “دعوت اسلامی” کی جانب سے طباعت میں اس روایت کی سند کی تحکیم کے طور پر امام بوصیری اور حاکم نیشاپوری ہی کی تحکیم کو نقل کیا ہے جو کہ اس سند کو “صحیح” بتاتی ہے اور اس کے تمام راویوں کو “ثقہ” بتاتی ہے۔ [۱۲]
سنن ابن ماجہ کے علاوہ یہ روایت اہل سنت کی ان معتبر کتب احادیث و تاریخ میں اس سند کے ساتھ نقل ہوئی ہے:
– المصنف – ابن ابی شیبہ [۱۳]
– السنن کبری – نسائی [۱۴]
– المستدرك على الصحيحين – حاکم نیشاپوری [۱۵]
– جامع الأحاديث – سيوطی [۱۶]
– تاریخ طبری [۱۷]
– تاریخ ابن کثیر (البدایہ والنہایہ) [۱۸]
حاصل کلام
اگر امت میں متفق علیہ بنیادوں پر اہل سنت و اہل تشیع کی کتب احادیث کو سامنے رکھ کر معتبر کتب سے روایات کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات انتہائی واضح و روشن ہے کہ «صدیق الاکبر» اور «فاروق» کے القاب رسول الله (ص) نے مولا علی (ع) کو عطا فرمائے۔ اس سلسلے میں ہم نے شیعوں کی کتب کی بجائے صرف برادران اہل سنت کی کتب میں سے معتبر کتب احادیث سے دو اصحاب کرام (رض) حضرت ابوذر و سلمان (رض) سے نقل قول رسول الله (ص) پیش کیا کہ مولا علی (ع) سب سے پہلے اسلام (ایمان) لانے والے «صدیق الاکبر» ہیں اور مولا علی (ع) وہ «فاروق» ہیں کہ جن کے ذریعے حق و باطل میں فرق کیا جاتا ہے اور حق کو باطل سے جدا کیا جاتا ہے۔ انہی معنوں میں «صدیق الاکبر» (سب سے پہلے اسلام/ایمان لانے والے) اور «فاروق» (جس کے ذریعے سے حق باطل سے جدا کیا جائے) پر اہل سنت کے ہاں معتبر کتب میں معتبر سند سے روایات و شواہد موجود ہیں کہ جن میں اصحاب کرام (رض) نے مولا علی (ع) کو سب سے پہلے اسلام (ایمان) لانے والا اور سب سے پہلے رسول الله (ص) کے ساتھ نماز پڑھنے والا بتایا ہے اور اسی طرح خود رسول الله (ص) کی احادیث سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حق و قرآن (فرقان) ہمیشہ مولا علی (ع) کے ساتھ ہیں۔ تو کوئی ابہام یا اشکال باقی ہی نہیں رہتا کہ برادران اہل سنت کے ہاں بھی معتبر روایات میں مولا علی (ع) ہی “لفظاً و معناً” «صدیق الاکبر» اور «فاروق» کا اولین و منصوص مصداق بنتے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ ہماری تحقیق و تحریر کا مرکز متفق علیہ موقف و روایات ہیں، کسی ایک مسلک کا انفرادی موقف نہیں۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اہل سنت میں ایک طبقہ (صوفی سنی) اس حدیث رسول (ص) کو قبول کرتے ہے تو دوسرا اس حدیث نبوی (ص) کو اسکی سند کی ذیل میں قبول نہیں کرتا تاہم اس دوسرے طبقے کے اشکال کا ایک حل ان القاب کے معنی کو دیکھتے ہوئے دیگر معتبر روایات میں ان کے مصداق مولا علی (ع) کو پانا ہے جیسا کہ ہم نے دیکھا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ خود مولا علی (ع) کا اپنا قول معتبر سند سے اہل سنت کے ہاں متعدد معتبر کتب احادیث و تاریخ میں موجود ہے کہ جس میں امام علی (ع) نے اپنے «صدیق الاکبر» ہونے کا دعوی کیا ہے جو کہ قطعاً ثابت کرتا ہے کہ وہ حدیث رسول الله (ص) کہ جس کو اہل سنت کا ایک طبقہ قبول نہیں کرتا، أصلاً الفاظ رسول الله (ص) ہی ہیں۔ سو ہم متفق علیہ بنیادوں پر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ علمی بنیادوں پر اہل سنت کے ہاں بھی اہل تشیع کی طرح معتبر روایات میں جس ہستی کے لئے یہ القاب (صدیق الاکبر و فاروق) ثابت ہوتے ہیں، وہ ہستی «مولا علی علیہ السلام» ہی ہیں۔
آخر میں ہم اہل سنت کے ایک مشہور و معروف عالم دین، “شاہ عبد الحق محدث دہلوی” کی “کتاب اشعۃ اللمعات شرح مشکوۃ” سے ایک عبارت پیش کرتے ہیں کہ جو برادران اہل سنت کے لئے واضح کرتی ہے کہ اگرچہ ان کے ہاں دیگر ہستیوں کے لئے یہ دو القاب مشہور ہیں، تاہم متعدد اسناد پر مبنی روایات کے پیش نظر، علمی و نقلی بنیادوں پر، خود رسول الله (ص) نے یہ دو القاب مولا علی (ع) کو عطا فرمائے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
«صدیق اگرچہ لقب امیر المومنین ابی بکر شدہ رضی اللہ عنہ ولیکن معنی این منحصر نیست وروی وصادق است بر غیر او از صدیقان وسیوطی بطریق متعددہ در مناقب امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ آوردہ کہ این اول کسی است کہ ایمان آوردہ و اول کسی است کہ مصافحہ میکند روز قیامت واین صدیق اکبر و فاروق این امت است» [۱۹]
ترجمہ:
صدیق اگرچہ امیر المومنین ابوبکر رضی اللہ عنہ کا لقب بن چکا ہے لیکن اس کا معنی ان میں منحصر نہیں ہے۔ (یہ لقب) ان کے علاوہ دیگر صدیقین پر بھی صادق آتا ہے۔ علامہ سیوطی امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے مناقب میں متعدد سندوں کے ساتھ یہ روایت لائے ہیں کہ یہ (علی ع) سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں اور قیامت کے دن سب سے پہلے (رسول اللہ ص سے) مصافحہ کریں گے اور یہ (علی ع) «صدیق اکبر» ہیں اور اس امت کے «فاروق» ہیں۔
الهم صل على محمد و ال محمد
—————————-
حوالہ جات
[۱] 3735 – … رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ، يَقُولُ: «أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِيٌّ»… هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ترجمہ:
ایک انصاری شخص ابو حمزہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت زید بن ارقم (رض) کو فرماتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلے حضرت علی (ع) اسلام لائے… اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
حوالہ:
سنن الترمذي – حدیث نمبر 3735
اس روایت کو عربی میں اون لائن پڑھنے کا لنک
[۲] 14599 – وَعَنْ سَلْمَانَ قَالَ: أَوَّلُهَا إِسْلَامًا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
ترجمہ:
حضرت سلمان (رض) نے فرمایا: سب سے پہلے اسلام علی بن ابی طالب (ع) کا ہے۔
(پیثمی کہتے ہیں) اس (روایت) کو طبرانی نے روایت کیا ہے، اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔
حوالہ:
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد – نور الدين الهيثمي – ج 9 – صفحہ 102
اس روایت کو عربی میں اون لائن پڑھنے کا لنک
[٣] 4586 – … فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: … وَأُوحِيَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَصَلَّى عَلِيٌّ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ «صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»
صحيح
ترجمہ:
حضرت ابوذر (رض) نے فرمایا: … رسول اللہ (ص) پر پیر کے دن وحی نازل ہوئی اور منگل کے دن حضرت علی (ع) نے نماز پڑھی۔
(حاکم نیشاپوری کہتے ہیں) یہ حدیث صحیح الاسناد ہے مگر شیخین (بخاری و مسلم) نے اس کو نقل نہیں کیا۔
ذہبی نے اس حدیث کو التلخیص میں صحیح کہا ہے۔
حوالہ:
المستدرك على الصحيحين – حاکم نیشاپوری – ج 3 – صفحہ 121
اس روایت کو عربی میں اون لائن پڑھنے کا لنک
[۴] 15258 – وَعَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ: أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ الرِّجَالِ عَلِيٌّ، وَأَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ النِّسَاءِ خَدِيجَةُ.
رَوَاهُ الْبَزَّارُ، وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ.
ترجمہ:
حضرت ابو رافع (رض) فرماتے ہیں: مردوں میں سے سب سے پہلے اسلام علی (ع) لائے اور خواتین میں سے سب سے پہلے اسلام حضرت خدیجہ (ع) لائیں۔
(ہیثمی کہتے ہیں) اس (راویت) کو بزار نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی صحیح راوی ہیں۔
حوالہ:
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد – نور الدين الهيثمي – ج 9 – صفحہ 220
اس روایت کو عربی میں پڑھنے کا اون لائن لنک
[۵] 14601 – وَعَنْ حَبَّةَ الْعُرَنِيِّ قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا – عَلَيْهِ السَّلَامُ – يَضْحَكُ عَلَى الْمِنْبَرِ، لَمْ أَرَهُ ضَحِكَ ضَحِكًا أَكْثَرَ مِنْهُ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ، ثُمَّ قَالَ: … اللَّهُمَّ لَا أَعْتَرِفُ [أَنَّ] عَبْدًا [لَكَ] مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ عَبَدَكَ قَبْلِي غَيْرَ نَبِيِّكَ – ثَلَاثَ مَرَّاتٍ – لَقَدْ صَلَّيْتُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ النَّاسُ سَبْعًا.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو يَعْلَى بِاخْتِصَارٍ، وَالْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ، وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
ترجمہ:
حضرت حبہ عرنی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (ع) کو منبر پر ہنستے ہوئے دیکھا اور میں نے کبھی بھی آپ (ع) کو اس سے زیادہ ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ آپ (ع) کے دانت نظر آنے لگے۔ پھر آپ (ع) نے فرمایا: … اے ﷲ! میں نہیں جانتا کہ مجھ سے پہلے اس امت کے کسی اور فرد نے تیری عبادت کی ہو سوائے تیرے نبی (ص) کے، آپ (ع) نے یہ (جملہ) تین مرتبہ دہرایا (پھر فرمایا) تحقیق میں نے عامۃ الناس کے نماز پڑھنے سے سات سال پہلے نماز ادا کی۔
(ہیثمی کہتے ہیں) اس (روایت) کو امام احمد بن حنبل نے اور ابو یعلی نے اختصار سے روایت کیا ہے۔ اور بزار اور طبرانی نے الاوسط میں۔ اور اسکی سند حسن ہے۔
حوالہ:
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد – نور الدين الهيثمي – ج 9 – صفحہ 102
اس روایت کو عربی میں اون لائن پڑھنے کا لنک
[۶] 12027 – وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ – يَعْنِي الْخُدْرِيَّ – قَالَ: «كُنَّا عِنْدَ بَيْتِ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فِي نَفَرٍ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ، فَقَالَ: ” أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخِيَارِكُمْ؟ “. قَالُوا: بَلَى. قَالَ: ” خِيَارُكُمُ الْمُوفُونَ الْمُطِيبُونَ، إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْحَفِيَّ التَّقِيَّ “، قَالَ: وَمَرَّ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، فَقَالَ: ” الْحَقُّ مَعَ ذَا الْحَقُّ مَعَ ذَا» “.
رَوَاهُ أَبُو يَعْلَى، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
ترجمہ:
حضرت ابو سعید یعنی الخدری (رض) نے فرمایا: ہم بیت النبی (ص) میں تھے، مہاجرین و انصار کے گروہ میں، تو (رسول اللہ ص) نے فرمایا: کیا میں تمہیں وہ نہ بتاؤں جو تمہارے لئے بہتر ہے؟ انہوں نے کہا: جی۔ … علی بن ابی طالب (ع) وہاں سے گزرے تو (آپ ص نے) فرمایا: حق اس کے ساتھ ہے، حق اس کے ساتھ ہے۔
(پیثمی کہتے ہیں) اس (حدیث) کو ابو یعلی نے روایت کیا ہے، اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔
حوالہ:
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد – نور الدين الهيثمي – ج 7 – صفحہ 235
اس حدیث کو عربی میں اون لائن پڑھنے کا لنک
[۷] 4628 – … قَالَ: أَحْسَنْتَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: §«عَلِيٌّ مَعَ الْقُرْآنِ وَالْقُرْآنُ مَعَ عَلِيٍّ لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ»
هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ … وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ”
– صحيح
ترجمہ:
حضرت ام المومنین، جناب ام سلمہ (ع) نے فرمایا: میں نے رسول اللہ (ص) کو فرماتے سنا ہے: علی (ع) قرآن کے ساتھ اور قرآن علی (ع) کے ساتھ رہے گا اور یہ کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے حتی کہ یہ دونوں اکٹھے ہی میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گے۔
(حاکم نیشاپوری کہتے ہیں) یہ حدیث صحیح الاسناد ہے … لیکن (بخاری و مسلم نے) اس کو نقل نہیں کیا۔
ذہبی نے اس حدیث کو التلخیص میں صحیح کہا ہے۔
حوالہ:
المستدرك على الصحيحين – حاکم نیشاپوری – ج 3 – صفحہ 134
اس حدیث نبوی (ص) کو عربی میں اون لائن پڑھنے کا لنک
[۸] تَبٰرَکَ الَّذِیۡ نَزَّلَ الۡفُرۡقَانَ عَلٰی عَبۡدِہٖ لِیَکُوۡنَ لِلۡعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرَا (سورۃ الفرقان، آیت ١)
ترجمہ:
بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل فرمایا تاکہ وہ سارے جہاں والوں کے لیے انتباہ کرنے والا ہو۔
[۹] شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَانِ (سورۃ البقرة، آیت ۱۸۵)
ترجمہ:
رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور ایسے دلائل پر مشتمل ہے جو ہدایت اور(حق و باطل میں)امتیاز کرنے والے ہیں
[۱۰] (49) حَدثنَا مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل الرَّازِيّ حَدثنَا عبيد الله بن مُوسَى أَنبأَنَا الْعَلَاء بن صَالح عَن الْمنْهَال عَن عباد بن عبد الله قَالَ قَالَ على أَنا عبد الله وأخو رَسُوله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم
وَأَنا الصّديق الْأَكْبَر لَا يَقُولهَا بعدِي إِلَّا كَذَّاب صليت قبل النَّاس بِسبع سِنِين
هَذَا إِسْنَاد صَحِيح رِجَاله ثِقَات
حوالہ:
مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه – البوصيري – ج 1 – ص 20
اس عبارت کو عربی میں پڑھنے کے لئے اون لائن لنک
[۱۱] 14442 – حَدِيثٌ (كم) : أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَأَخُو رَسُولِهِ، وَأَنَا الصِّدِّيقُ الأَكْبَرُ … . الْحَدِيثَ.
كم فِي الْمَنَاقِبِ: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ. ح وَثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي دَارِمٍ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَبْسِيُّ، قَالا: ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، ثنا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْهُ، بِهِ. وَقَالَ:
-[466]- صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِهِمَا.
حوالہ:
إتحاف المهرة – ابن حجر العسقلانی – ج 11 – ص 465
اس عبارت کو عربی میں پڑھنے کے لئے اون لائن لنک
[۱۲] دعوت اسلامی کی مطبوعہ سنن ابن ماجہ میں اس حدیث کی سند پر تحکیم دیکھنے کے لئے اون لائن لنک
[۱۳] 32084 – حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ الصَّالِحِ عَنِ الْمِنْهَالِ عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُولُ: «أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَأَخُو رَسُولِهِ وَأَنَا الصِّدِّيقُ الْأَكْبَرُ , لَا يَقُولُهَا بَعْدِي إِلَّا كَذَّابٌ مُفْتَرٍ , وَلَقَدْ صَلَّيْتُ قَبْلَ النَّاسِ بِسَبْعِ سِنِينَ»
حوالہ:
مصنف – ابن أبي شيبة – ج 6 – صفحہ 368
اس روایت کو عربی میں اون لائن پڑھنے کا لنک
[۱۴] 8338 – أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ صَالِحٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: «أَنَا عَبْدُ اللهِ، وَأَخُو رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا الصِّدِّيقُ الْأَكْبَرُ، لَا يَقُولُهَا بَعْدِي إِلَّا كَاذِبٌ، صَلَّيْتُ قَبْلَ النَّاسِ بِسَبْعِ سِنِينَ»
حوالہ:
السنن الكبرى – النسائي – ج 7 – صفحہ 409
اس روایت کو عربی میں اون لائن پڑھنے کا لنک
[۱۵] 4584 – حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ الْعُمَرِيُّ، وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي دَارِمٍ الْحَافِظُ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَبْسِيُّ، قَالَا: ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، ثنا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَسَدِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: «إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ، وَأَخُو رَسُولِهِ، وَأَنَا الصِّدِّيقُ الْأَكْبَرُ لَا يَقُولُهَا بَعْدِي إِلَّا كَاذِبٌ، صَلَّيْتُ قَبْلَ النَّاسِ بِسَبْعِ سِنِينَ قَبْلَ أَنْ يَعْبُدَهُ أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ»
حوالہ:
المستدرك على الصحيحين – الحاکم نیشابوری – ج 3 – صفحہ 120
اس روایت کو عربی میں اون لائن پڑھنے کا لنک
[۱۶] 33550- عن عباد بن عبد الله قال: سمعت عليا يقول أنا عبد الله وأخو رسوله وأنا الصديق الأكبر لا يقولها بعدى إلا كذاب مفترى ولقد صليت قبل الناس سبع سنين
حوالہ:
جامع الأحاديث – السيوطي – ج 30 – صفحہ 463
اس روایت کو عربی میں اون لائن پڑھنے کا لنک
[۱۷] حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ التِّرْمِذِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْعَلاءُ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:
[سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُولُ: أَنَا عبد الله وأخو رسوله، وَأَنَا الصِّدِّيقُ الأَكْبَرُ، لا يَقُولُهَا بَعْدِي إِلا كاذب مفتر، صليت مع رسول الله قَبْلَ النَّاسِ بِسَبْعِ سِنِينَ]
حوالہ:
تاريخ الطبري – ج 2 – صفحہ 310
اس روایت کو عربی میں اون لائن پڑھنے کا لنک
[۱۸] ثُمَّ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُولُ: أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَأَخُو رَسُولِهِ وَأَنَا الصِّدِّيقُ الْأَكْبَرُ، لَا يَقُولُهَا بَعْدِي إِلَّا كَاذِبٌ مُفْتَرٍ، صَلَّيْتُ قَبْلَ النَّاسِ بِسَبْعِ سِنِينَ.
حوالہ:
البداية والنهاية – ابن کثیر – ج 3 – صفحہ 26
اس روایت کو عربی میں اون لائن پڑھنے کا لنک
[۱۹] حوالہ:
اشعۃ اللمعات شرح مشکوۃ (فارسی) – ج 4 – صفحہ 374
اشعۃ اللمعات شرح مشکوۃ (اردو) – ج 7 – صفحہ 473
نوٹ: اس حوالے کے فارسی و اردو دونوں سکین امیجز اس پوسٹ کے ساتھ مہیا کئے گئے ہیں اور فارسی سے اردو ترجمے میں مصافحہ رسول (ص) کی بجائے اللہ سے لکھا گیا ہے جو کہ غلط ترجمہ ہے اور دوسرا صدیق اکبر کی بجائے صرف صدیق ترجمہ کیا گیا ہے جو کہ غلط ترجمہ ہے۔






.
.
.
حــافظ زبــیر علــی زئــی و البانــی کـــی جہـــالـت

نویـــسندہ: أبــوعزرائیــل
قـــارئین وھــابــی منہــج پــر جــب ہمــاری نظـــر پڑتــی ہـــے، تـــب وہـــابی علمــاء کــا کثرتاً منہــج یــہ رہـــا ہــے کــہ فضــل علــی بــن أبــی طــالب (ع) میں وارد صحیح روایــات کــو کســی بــہی طرح کــرکے ضعیــف کہــا جائے یــا ثــابــت کــیا جــائــے ـ

ثبــوت:


ترجــمه بحــذف سند: امــام علــی (ع) نــے فرمایــا: مــیں اللّٰه کـا بنـدہ ہـوں، اور اس کــے رسـول صلـی اللّٰه علیـه وسلّم کـا بہــائی ہــوں ” میں صدیــق اکبــر ہوں”……………………..
نوٹ: اس روایـــت کــے متعلـــق حــافظ زبیــر علــی زئــی نــے ســرعام جہالــت دکہــائی ہــے 


















اســی طــرح حـــاکم نیــشاپـوری نــے اس روایــت کــو نــقل کــرکــے لکہــا ہــے کہ: یــہ روایــت بخــاری و مــسلــم کــی شـــرط پــر
صحیــح
ہــے



پــس ثــابــت ہــوا کــے یــہ روایــت ســوائــے جہـــالــت کـــے درســت ہــے ــ
والــسلام






صدیق علی علیہ السلام ہیں اور وہ تمام صدیقین سے افضل ہے
