الحواب کے مقام پر عائشہ بنت ابی بکر پر کتوں کا بھونکنا اور رسول اللہ ﷺ کی بشارت

جلال الدین سیوطی نے مسند عائشہ میں یوں نقل کیا ہے :
عائشہ کہتی ہیں کہ نبی ﷺ نے اپنی ازواج سے کہا کہ تم میں سے کون ہوگی جس پر الحواب کے مقام پر کتے بھونکیں گے۔ ایک دفعہ عائشہ رات کے وقت جو عامر کے تالابوں کے پاس سے گزر رہی تھی کہ ان پر کتے بھونکے لگیں۔ انہوں نے اس مقام کے بارے میں دریافت کیا۔ کہا گیا کہ یہ الحواب مقام کا تالاب ہے۔ وہ وہیں رک گئی اور کہا میرا خیال ہے کہ مجھے بالضرور واپس لوٹ جانا چاھے کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک دن ھم (ازواج) سے فرماتے ہوئے سنا : تم میں سے کسی کا اس دن کیا حال ہوگا جبکہ اس پر الحواب مقام کے کتے بھونکیں گے؟ لیکن عائشہ سے کہا گیا کہ مگر آپ تو اس وقت لوگوں کے درمیان صلح کرانے جا رہی ہیں۔
کتاب کے محقق وسیم عثمان نے حاشیہ پر اسکی سند پر مفصل بحث کی ہے اور ان لوگوں کے اعتراض کا جواب دیا ہے کہ اس میں قیس بن ابی حازم پر جرح موجود ہے بلکہ انہوں نے فرمایا کہ قیس بن ابی حازم ثقہ و فقیہ تھا۔
⛔مسند عائشہ بنت ابی بکر – جلال الدین سیوطی // صفحہ ۵۵ – ۵۶ // رقم ۱۲۱ // طبع اعتقاد پبلشنگ ھاؤس دھلی ھندوستان۔
اس روایت کو احمد بن حنبل نے اپنی سند سے قیس بن ابی حازم سے روایت کیا ہے۔
کتاب کے محقق شعیب الارنؤط نے اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے اور اسکے تمام راویوں کو رجال شیخین قرار دیا ہے۔
⛔مسند احمد – احمد بن حنبل // جلد ۴۰ // صفحہ ۲۹۸ – ۲۹۹ // رقم ۲۴۲۵۴ // طبع الرسالہ العالمیہ بیروت لبنان۔
حاکم نیساپوری نے اسکو اپنی کتاب میں قیس بن ابی حازم سے نقل کیا۔
⛔مستدرک علی صحیحین – حاکم نیساپوری // جلد ۳ // صفحہ ۱۲۹ – ۱۳۰ // رقم ۴۶۱۳ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
ابویعلی موصلی نے اسکو اپنی سند سے قیس بن ابی حازم سے نقل کیا ہے۔
⛔مسند ابو یعلی موصلی – ابو یعلی // جلد ۴ // صفحہ ۲۶۳ – ۲۶۴ // رقم ۴۸۴۸ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
ابن حبان نے اسکو قیس سے اسکو نقل کیا اور اسکی تصحیح بھی کردی۔
⛔الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان – ابن بلبان فارسی // جلد ۸ // صفحہ ۲۰۰ // رقم ۶۷۴۰ // طبع دار الفکر بیروت لبنان۔
ابن کثیر دمشقی نے بھی قیس بن ابی حازم والی روایت کو نقل کرنے کے بعد اسکی تصحیح کرتے ہوئے اسکو “صحیح بخاری و مسلم کی شرط پر قرار دیا”۔
⛔البدایۃ و النہایۃ – ابن کثیر // جلد ۱ // باب دلائل النبوۃ // صفحہ ۱۱۳۷ // طبع بیت افکاریہ عمان اردن۔
ابن حجر عسقلانی نے قیس کی روایت کو فتح الباری میں نقل کیا اور اسکی تصحیح کردی (بخاری و مسلم کی شرط پر)۔
اسکے علاوہ انہوں نے مسند بزار میں ابن عباس سے اسکا ایک شاھد بھی نقل کیا جسکے تمام راوی ثقہ ہیں۔
⛔فتح الباری فی شرح صحیح البخاری – ابن حجر عسقلانی // جلد ۱۳ // صفحہ ۶۹ // طبع مختبہ اشرفیہ دیوبند ھندوستان۔
نور الدین ھیثمی نے بھی قیس بن ابی حازم و عبداللہ بن عباس والی دونوں روایات کو نقل کرنے کے بعد انکی تصحیح کردی۔
⛔مجمع الزوائد – ھیثمی // جلد ۸ // صفحہ ۳۳۷ // رقم ۱۲۰۲۵، ۱۲۰۲۶ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
لہذا یہ روایت بلکل صحیح ہے اور اسکو جمہور اھل سنت محدثین نے تصحیح کی ہے۔ اسکے مقابلے میں بغض منکر الحدیث کا اس روایت کو ضعیف ثابت کرنا ایک غیر معقول عمل ہے۔