نکاح متعہ کے متعلق عبداللہ بن عباسؓ اور انکے شاگردوں کا موقف

سلفی عالم ا،د احمد العمرانی نے ایک موسوعۂ لکھا ہے جس میں ابن عباس اور انکے مکی شاگروں کے تفسیری اقوال کو جمع کیا گیا ہے۔
سورۃ نساء کی آیت نمبر ۲۴ کے بارے میں وہ یوں نقل کرتا ہے۔
ابو نضرۃ نے روایت کیا ہے کہ میں نے ابن عباس سے نکاح متعہ کے بارے میں سوال کیا۔
انہوں نے کہا : کیا تم نے سورۃ نساء نہیں پڑھا ہے؟
میں نے کہا : ہاں۔
انہوں نے کہا : کیا تم اس میں یہ نہیں پڑھتے ہو : ﴿فما استمتعتم به منهن إلى أجل مسمى﴾ ترجمہ : اس لئے جن سے تم فائده اٹھاؤ ایک مقرر مدت تک۔
میں نے کہا : نہیں۔
انہوں نے جواب دیا : یہ آیت ایسے ہی تھی۔
⛔تفسیر ابن عباس – ا،د العمرانی // جلد ۱ // صفحہ ۴۰۴ – ۴۰۵ // رقم ۱۷۲۲ // طبع دار السلام قاھرہ مصر۔
⚠️واضح رہے کہ ﴿ إلى أجل مسمى ﴾ والی زیادت آج قرآن میں موجود نہیں جبکہ ابن عباس اسکو ایسے ہی پڑھا کرتا تھا۔
ابن عباس کے شاگرد مجاھد بھی اس آیت سے نکاح متعہ ہی مراد لیا ہے۔
چناچہ مولف نے ایک سند سے ابن ابی نبیح سے نقل کیا کہ مجاھد نے اس آیت ﴿فما استمتعتم به منهن﴾ کے بارے میں کہا کہ یہاں نکاح متعہ مراد ہے۔
⛔تفسیر مجاھد – ا،د،العمرانی // جلد ۴ // صفحہ ۱۷۹ // رقم ۸۷۶ // طبع دار السلام قاھرہ مصر۔
ابن عباس کے ایک خاص شاگرد سعید بن جبیر تو نکاح متعہ کرنے کو پانی پینے سے بھی زیادہ حلال سمجھتا تھا۔
چناچہ مولف میں سند سے نقل کیا ہے کہ عبداللہ بن عثمان بن حکیم نے فرمایا کہ مکہ میں ایک عرآقی عورت تھی جو بہت خوبصورت تھی۔ اسکا ایک بیٹا تھا جسکا نام ابن امیہ تھا۔ سعید بن جبیر اس عورت کے پاس بہت جاتا تھا۔
میں نے اس سے پوچھا : اے ابو عبداللہ (سعید بن جبیر) : آپ اس عورت کے یہاں زیادہ کیوں جاتے ہو؟
انہوں نے کہا : میں نے اسکے ساتھ وہ نکاح کیا ہے یعنی نکاح متعہ۔
سعید بن جبیر نے مجھے خبر دی کہ نکاح متعہ پانی پینے سے بھی زیادہ حلال ہے۔
⛔تفسیر سعید بن جبیر – ا،د العمرانی // جلد ۶ // صفحہ ۱۰۰ // رقم ۵۱۱ // طبع دار السلام قاھر مصر۔
اسی طرح باقی شاگروں (تابعین و تبع تابعین) میں بھی اسکی حلت کے بارے میں آرا ملتی ہے۔