حدیث کے ایک ٹکڑے “ما انا عليه و اصحابي ” کا تحقیقی جائزہ

اھل سنت و اھل تشیع کتب میں ایک روایت ملتی ہے کہ اس مت کے ۷۳ فرقے ہونگے اور ان میں سے صرف ایک جنت میں جائے گا۔
جامع ترمذی کی ایک روایت میں اس ناجی فرقے کے بارے میں یوں کہا گیا ہے : ما انا عليه و اصحابي (جس پر میں اور میرے صحابہ ہونگے)۔
جامع ترمذی کے اھل حدیث محقق حافظ زبیر علی زائی نے اس روایت کے بارے میں یوں لکھا ہے :
” اسکی سند ضعیف ہے۔ اسکو حاکم نے مستدرک میں سفیان الثوری سے نقل کیا ہے۔ اس میں ابن انعم الافریقی مشہور ضعیف ہے اور اس روایت کے شواھد بھی ضعیف ہے۔”۔
⛔جامع ترمذی – ابو عیسی ترمذی // صفحہ ۷۸۸ // رقم ۲۶۴۱ // طبع دار السلام ریاض سعودیہ۔
حافظ زبیر علی زائی نے مشکاۃ المصابیح کی شرح و تحقیق لکھی ہے اس میں اس حدیث پر انہوں نے مفصل بحث کی ہے۔ وہ یوں لکھتا ہے :
-اسی سند ضعیف ہے۔
اس روایت کو امام ترمذی (مصور من المخطوطہ ۱/۱۷۲، وقال حسن غریب الخ) اور حاکم (۱/۱۲۹ ح۴۴۴) نے سفیان عن عبدالرحمان بن زیاد بن انعم الافریقی عن عبداللہ بن یزید عن عبداللہ بن عمرو (بن العاص) کی سند سے روایت کیا ہے۔
سفیان کی متابعت عیسی بن یونس، ابو اسامہ اور عبدہ بن سلیمان نے کر رکھی ہے – دیکھئے الضعفاء للعقیلی (۲/۲۶۲)۔
قاضی عبدالرحمان بن زیاد بن انعم الافریقی نیک انسان ہونے کے ساتھ حافظے کی وجہ سے ضعیف تھا۔ دیکھئے تقریب التہذیب ۳۸۶۲۔
جمہور نے اسکو ضعیف قرار دیا ہے – دیکھئے مجع الزوائد (۵/۵۶، ۸/۶۵، ۱۰/۲۵۰)۔
روایت مذکور میں ایک جملہ “ما انا علیہ و اصحابی” ہے جیسا کہ الضعفاء الکبیر للعقیلی (۲/۲۶۲) ترجمہ عبداللہ بن سفیان الخزاعی میں ایک بے اصل اور ضعیف شاھد بھی ہے۔ عبداللہ بن سفیان مذکور کو عقیلی نے ضعفاء میں ذکر کے (یعنی ضعیف کہ کر) کہا کہ : اس حدیث کی یحیی بن سعید انصاری سے کوئی اصل نہیں ہے (الضعفاء ۲/۲۶۲ ت۸۱۵)۔
تنبیہ : اگر کوئی کہے کہ عبداللہ بن سفیان الخزاعی الواسطی کو حافظ ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے تو عرض ہے کہ ھمیں کتاب الثقات میں عبداللہ بن سفیان مذکور کو ذکر نہیں ملا۔
شریعہ للاجری (۱/۴۳۳ ح۱۱۱)، مجروحین لابن حبان (۲/۲۲۶) اور الکبیر للطبرانی (مجمع الزوائد ۱/۱۵۶، ۷/۲۵۹) وغیرھم میں ابودرداء، ابو امامہ، واثلہ بن اسقع اور انس بن مالک سے ایک روایت میں آیا ہے :
“من کان علیٰ ما انا علیہ و اصحابی”۔
اس روایت کا راوی کثیر بن مروان شامی کے بارے میں یحیی بن معین نے فرمایا :
“قد رأيته كان كذاباً” – میں نے اسکو دیکھا۔ وہ بڑا کذاب (جھوٹا) تھا۔ (تاریخ بغداد ۱/۱۲ /۴۸۲ ت ۶۹۵۴ و سندہ صحیح)۔
عبداللہ بن یزید بن آدام دمشقی کی اس روایت کے بارے میں امام ابو حاتم الرازی نے کہا :
میں اسے (عبداللہ بن یزید) کو نہیں جانتا اور یہ حدیث باطل ہے۔ (الجرح و التعدیل ۵/۱۹۷)۔
معلوم ہوا یہ سند باطل و موضوع ہے۔
خلاصۃ التحقیق : “ما انا عليه و اصحابي” کے الفاظ صحیح یا حسن سند سے ثابت نہیں ہے۔
⛔اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح – حافظ زبیر علی زائی // جلد ۱ // صفحہ ۲۳۰ – ۲۳۱ // رقم ۱۷۱ // طبع مکتبہ اسلامیہ لاھور پاکستان۔