اسماء بنت عمیس نے عمر کو کذاب کہا

مسلم بن حجاج نے اپنی سند سے ایک طویل حدیث نقل کی ہے جس میں حبش کی جانب ھجرت کرنے والوں کا ذکر ہے اور جب وہ مدینہ واپس آگئے :
۔۔۔۔اور اسماء بنت عمیسؓ حفصہ سے ملنے کو گئیں اور انہوں نے بھی نجاشی کے ملک میں مہاجرین کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ عمر بن خطاب حفصہ کے پاس آئے اور اسماء بنت عمیسؓ ان کے پاس موجود تھیں۔ عمر نے اسماءؓ کو دیکھ کر پوچھا کہ یہ کون ہے؟ حفصہ نے جواب دیا کہ یہ اسماء بنت عمیسؓ ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ جو حبش کے ملک میں گئی تھیں اور اب سمندر کا سفر کر کے آئی ہیں؟ اسماءؓ بولیں جی ہاں میں وہی ہوں۔ عمر نے کہا کہ ہم ہجرت میں تم سے سبقت لے گئے، لہٰذا رسول اللہ ﷺ پر تم سے زیادہ ہمارا حق ہے۔ یہ سن کر انہیں غصہ آ گیا اور کہنے لگیں ”اے عمر! اللہ کی قسم ہرگز نہیں، تم نے جھوٹ بولا ہے۔ تم تو رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھے، تم میں سے بھوکے کو کھانا کھلاتے اور تمہارے جاہل کو نصیحت کرتے تھے اور ہم ایک دور دراز دشمنوں کی زمین حبشہ میں تھے، اور ہماری یہ سب تکالیف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی راہ میں تھیں۔
⛔صحیح مسلم – مسلم بن حجاج // صفحہ ۱۱۰۱ // رقم ۶۴۱۰ // طبع دار السلام ریاض سعودیہ۔
اب اسی روایت کو ابو یعلی موصلی نے اسی سند سے نقل کیا ہے لیکن وہ ان الفاظ ” اے عمر! تم نے جھوٹ بولا ہے”۔ کے بدلے ” نہیں عمر” میں بدل دیا۔
⛔مسند ابو یعلی – ابو یعلی موصلی // جلد ۷ // صفحہ ۲۳۳ // رقم ۷۲۷۹ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
اب تحریف کے امام – محمد بن اسماعیل بخاری اس سے پیچھے کہاں ہٹ جاتے۔ انہوں نے اس پوری عبارت کو ہی حدیث میں سے غائب کر دیا۔
⛔صحیح بخاری – محمد بن اسماعیل بخاری // صفحہ ۷۱۷ // رقم ۴۲۳۰ // طبع دار السلام ریاض سعودیہ۔
آپ دیکھ سکھتے ہو کہ محدثین کتنے صادق و امین تھے کہ ھم تک دین کو اسی طرح پہنچایا جس طرح وہ چاھتے تھے بلکہ جہاں انکو لگا بات اپنے مطلب کے خلاف جا رہی ہے تو خود کو بدلنے کے بجائے حدیث کو ہی بدل ڈالا۔