واقعہ قرطاس

وقت وفات – نبی صلی اللہ علیہ و آل وسلم کا کاغذ قلم مانگنا اور عمر کا روکنا اور بارگاہ رسالت میں آوازیں بلند کرنا‼️
👈حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علالت نے طول پکڑا تو فرمایا: میرے پاس لکھنے کی چیزیں لاؤ تا کہ میں تحریر لکھ دوں تا کہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہو سکو۔ عمر نے کہا کہ نبی کریم ص پر مرض کا غلبہ ہے اور اللہ کی کتاب ہمارے پاس موجود ہے جو کافی ہے۔ اس پر اختلاف کیا گیا اور بڑا شور ہوا۔ فرمایا کہ میرے پاس سے اُٹھ جاؤ اور میرے پاس جھگڑا مناسب نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس یہ کہتے ہوئے باہر نکلے: ہائے مصیبت ایسی مصیبت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی تحریر کے بیچ میں حائل ہو گئی۔
📚(صحیح بخاری / انٹرنیشنل نمبرنگ : 114 ، 5669 ، 4432)
⛔ اگر اسی روایت کو آئینہ بنا کر دیکھیں اور اس روایت کے آئینہ پرڈالی گئی تاویل کی گرد کو ہٹا دیں تو بالکل صاف صاف منظر ہے، اللہ کے رسول کی خلاف ورزی کرنے کی جرات کرنے والے اور ان کے کلام کے مقصد کو موڑنے والے کوئی اور نہیں بلکہ عمر ابن خطاب ہیں، جو ایک طرف یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہمارے پاس قرآن ہے جو ہمیں کافی ہے، سوال یہ ہے کہ جس کتاب کا حوالہ دیکر وہ رسول ص کو قلم اور کاغذ دئے جانے سے روک رہے تھے اسی کتاب میں یہ آیت بھی موجود ہے کہ جو رسول دیں اسے لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رک جاؤ“۔ اس روایت میں قرآن کو کافی کہنے والا قرآن کی اس آیت کے بعد بھی رسول کی اس تحریر کو ( جو رسول تحریر کر کے دینا چاہتے تھے ) نہ خود لینا چاہتا ہے اور نہ لوگوں تک اس تحریر کو پہنچنے دینا چاہتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے اس سے رسول ص کو اذیت ہوئی اور اتنی اذیت ہوئی کہ رسول ص نے اپنے پاس سے چلے جانے کا حکم دیا۔ یہ اذیت دینے والے بھی عمر ابن خطاب تھے، نہ انہوں نے روکا ہوتا نہ نبی کے حجرے میں شور و غل ہوتا اور نہ رسول ص کو اذیت ہوتی ۔ بہرحال اس روایت سے ثابت ہے کہ رسول ص کو اذیت عمر ابن خطاب کے سبب سے پہنچی وہی جو قرآن کو کافی کہہ رہے تھے ۔ حالانکہ اس قرآن میں یہ آیت بھی موجود ہے کہ جو رسول ص کو اذیت پہنچائے وہ اللہ کی لعنت اور عذاب دونوں کا مستحق ہے۔ عمر ابن خطاب کے اس عمل سے رسول ص کو اذیت پہنچنے کے ساتھ ساتھ بقول ابن عباس یہ ایک بہت بڑی مصیبت تھی کیوں کہ وہ تحریر جو نبی ص لکھنا چاہتے تھے وہ نہ لکھی جاسکی۔ اور ظاہر ہے اگر وہ تحریر لکھ دی گئی ہوتی تو گمراہی نہ ہوتی، نتیجہ یہی ہے کہ گمراہی کا سبب نبی ص کی تحریر کو روک دیا جانا ہے اور تحریر کو روکنے کا سبب کوئی اور نہیں بلکہ یہی جناب فاروق تھے ۔ اہل عقل سوچیں کہ مسلمانوں کی گمراہی کا ذمہ دار قیامت تک کون رہے گا ؟؟
1️⃣یہ جمعرات کا دن تھا اور حضرت ابن عباس اتنا روئے کہ کنکریاں تر ہوگئیں اور کہا کرتے تھے سب سے بڑی مصیبت وہ شور اور اختلاف تھا جو رسولﷺ اور انکی تحریر کے درمیان حائل ہوا
2️⃣یہ حضرات ایسا اختلاف پہلے بھی کئی مرتبہ کرچکے تھے اسی لیے اللّہ پاک نے انکو متنبہ کرنے کیلئے آیات اتاریں
3️⃣اللّہ رب العزت نے اپنے محبوب سے اختلاف کرنے والوں کی شدید الفاظ میں سرزنش کی اور انکا ٹھکانہ جہنم بتایا۔
4️⃣ رسولﷺ کو اذیت دینے والوں کیلئے لانت کی گئی
5️⃣اللّہ جلا جلالہ نے اپنے نبیؐ کی ہر بات ماننے کا حکم دیا ہے
1📚صحیح بخاری کتاب العلم، مسند احمد بن جنبل
2📚صحیح بخاری تفسیر سورہ حجرات
3📚سورہ النساء 115 الانفال 13
4📚سورہ الاحزاب 57
5📚سورہ الحشر 7
.
.
حضرت جابر رض نے فرمایا :- عمر نے حدیث قرطاس میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کی۔
یاد رہے جو نبی کے مخالفت کرتا ہے اسکا ٹھکانہ جہنم ہے
قرآن کہتا ہے کہ نبی ص کے سامنے آواز تک بلند نہ کرو ورنہ تمہارے سارے اعمال ضاٸع ہوجاٸیں گے اور ابن تیمیہ کہتا ہے کہ اعمال کا ضاٸع ہونا کفر کی دلیل ہے۔ اور یہ واقعہ نبی ص کی وفات سے ایک دو دن پہلے کا ہی ہے
لمحہ فکریہ:)
اھل سنت کے جید امام امام ابوبکر محمد ابنِ اسحٰق متوفی 371 ھجری اپنی کتاب معانی
الاخبار میں لکھتے ہیں ♨️
🔥 حضرتِ عمر کا فرمانا ” اھجر الستفھموه”
فرمانا اس کا مطلب یہ نہیں ہے ، حضرتِ عمر
کا یہ گمان تھا، کہ شدت مرض کی وجہ سے
نعوذ باللہ، آپ کو ھذیان ھوگیا ہے بلکے وہ
جانتے تھے کہ آپ معصوم اور محفوظ ہیں
اسی وجہ سے انہوں نے ہمزہ الستفہام کے
ساتھ فرمایا ھے، گویہ یہ استفھام تو بیخی ہے
اور یہ ممکن ھے کہ عمر بن خطاب نے بربنائے
محبت اور شفقت فرمایا تھا،،
حوالہ 📚 شرحِ مشکل الاحادیث مذھب مختار
یعنی معانی الاخبار ابو بکر محمد بن اسحاق
ص 153 ♨️
اھجر معنی الٹی سیدھی اور فضول باتیں کرنا
الھجر معنی قبیح بے ہودہ کلام
حوالہ 📚 المعجم الوسیط اردو مکتبہ رحمانیہ
ص 1186 ،
نوٹ، حضرتِ عمر پر لگایا داغ ھذیان کا
لوگ صفائے کرتے ہوئے ھذیان معنی محبت
شفقت فرمایا تھا 🔥 یعنی رسولِ خدا ص
کو ھذیان کہہ کر محبت شفقت فرمائی تھی
.
واقعہ قرطاس کے خلاف ایک روایت کا تحقیقی جائزہ
.
اھل سنت کے پاس جب عمر بن خطاب کے دفاع میں کچھ نہیں بچتا ہے واقعہ قرطاس کے حوالے سے تو وہ مسند احمد بن حنبل کی ایک حدیث پیش کرتے ہیں جو اس طرح ہے کہ علی بن ابی طالبؑ فرماتے ہیں کہ :
” نبی ﷺ نے مجھے ایک تختی لانے کا حکم دیا تاکہ آپ اس میں ایسی ھدایات لکھ دیں جن پر عمل کرنے سے آپکے بعد امت گمراہ نہ ہو سکے۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو میں کاغذ لینے چلا جاؤں اور پیچھے سے نبی ﷺ کی روح پرواز کر جائے۔ اس لئے میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ آپ مجھے زبانی بتا دیجئے میں اسے یاد رکھوں گا تو آپ ﷺ نے فرمایا : میں نماز، روزہ اور غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔
⛔مسند احمد – احمد بن حنبل // جلد ۲ // صفحہ ۱۰۵ // رقم ۶۹۳ // طبع الرسالہ العالمیہ بیروت لبنان۔
اس حدیث سے اھل سنت یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہے کہ جس بات کو لکھنے سے عمر بن خطاب نے منع کیا تھا وہ علی بن ابی طالبؑ نے زبانی رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی لہذا یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا۔
ھم کہتے ہیں :
○ مسند احمد بن حنبل کے محقق شعیب الارنؤط (حنفی) نے اسکی سند کو ضعیف کہا ہے کیونکہ اس میں ایک راوی نعیم بن یزید موجود ہے جو مجہول تھا۔
○ اس روایت کو پاکستان کے اھل حدیث عالم غلام مصطفی ظہیر امنپوری نے بھی ضعیف کہا ہے۔
⛔وفاۃ النبی – نسائی مع شرح و تحقیق غلام مصطفی ظہیر امنپوری // صفحہ ۸۸ // طبع اسلامک بک کمپنی لاھور پاکستان۔
○اگر بلفرض مان بھی لیا جائے کہ نبی ﷺ نے علیؑ سے وہ بات ظاھر کی تھی پھر بھی عمر بن خطاب کا نبی ﷺ کے فرمان کی مخالفت کرنا اور کہنا کہ ھمارے لے قرآن کافی ہے اسکے گمراہ ہونے کی صریح دلیل ہے۔
.
.
.
اکثر بار بار اصرار کیا جاتا ہے اگر وہ تحریر ضروری تھی تو حضرت امیر المومنین ع کاغذ پیش کرکے کیوں نہ لکھوائی ؟
(جواب) یہ واقعہ وفات نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تین چار دن پہلے کا ہے اس وقت حضرت علی ع کی موجودگی ثابت ہی نہیں ہے روایت میں موجود ہے ٫٫فاختلف أهل البيت ؛ اس کی تشریح میں محقق علما نے تصریح کی ہے ملاحظہ ہوں
(1)علامہ بدر الدین العینی لکھتے ہیں
(وَفِي الْبَيْت رجال) ، أَي: وَالْحَال أَن فِي بَيت النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم رجال من الصَّحَابَة، وَلم يرد أهل بَيت النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم.
(اور اس گھر میں کچھ لوگ تھے) یعنی اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں صحابہ میں سے کچھ افراد تھے، نہ کہ اہل البیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم –
(عمدة القاري شرح صحيح البخاري ج6ص463 الرقم:4432)
(2)علامہ قسطلانی لکھتے ہیں
(فاختلف أهل البيت) الذي كانوا فيه من الصحابة لا أهل بيته -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
(پس گھر والوں نے اختلاف کیا) صحابہ میں سے جو اس وقت ہاں پر تھے وہ مراد ہے نہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل البیت علیہم السلام۔
(ارشاد الساري لشرح صحيح البخاري ج6ص463 الرقم:4432)
(3)الزرقانی محمد بن عبد الباقی لکھتے ہیں:
“فاختلف أهل البيت” الذين كانوا فيه من الصحابة, لا أهل بيته -عليه الصلاة والسلام؛؛
(پس گھر والوں نے اختلاف کیا) صحابہ میں سے جو اس وقت وہاں پر تھے وہ مراد ہے نہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل البیت علیہم السلام-
(شرح الزرقاني علي المواهب اللدينه ج12ص106)
(4)علامہ عبد الحق محدث الدہلوی لکھتے ہیں
فافهم. والمراد بأهل البيت من كان في البيت حينئذٍ، ولم يرد أهل بيت النبي -صلى اللَّه عليه وسلم-
جان لو؛ کہ یہاں اہل البیت سے مراد جو اس وقت گھر میں تھے وہ مراد ہیں، نہ کہ اہل البیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
(لمعات التنقیح فی شرح مشکاة ج9ص538)
(5)ابن حجر عسقلانی لکھتا ہے
فَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْبَيْتِ أَيْ مَنْ كَانَ فِي الْبَيْتِ مِنَ الصَّحَابَةِ وَلَمْ يُرِدْ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
(پس گھر والوں نے اختلاف کیا) صحابہ میں سے جو اس وقت وہاں پر تھے وہ مراد ہے نہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل البیت علیہم السلام-
(فتح الباری ج8ص135)
یہ پانچ علما کی گواہیاں کافی وافی شافی رہیں گی معلوم ہوا کہ یہاں اختلاف کرنے والے اہلبیت سے مراد اسکے عمومی لغوی معنی ہیں(گھر میں موجود افراد) نہ خاص اصطلاحی(وهم أهل الكسا)
.
.
.
حدیث قرطاس کتاب سلیم سے اور اہلسنت کتب سے
لیکن اہلسنت علماء نے یہاں کس قدر حدیث کے الفاظ میں ہیرا پھیرا کرنے کی کوشش کی۔
کہیں عمر کی جگہ لوگ لکھ دیا کہیں لفظ ھجر ( ہذیان ) کی جگہ بیماری کا غلبہ لکھ دیا ۔ جبکہ اصلی الفاظ یہ تھے
ان رجل لیھجر
استغفراللّٰہ
دو کتب کے سکین لگا رہا ہوں جو بہت پرانے ایڈیشن ہیں یہ کتابیں علامہ جوادی صاحب کی لائبریری میں جہاں سے بندہ حقیر کو سکین لینے کی اجازت ملی۔
اس میں الفاظ جو اصلی حدیث کے تھے اسکو اہلسنت مشہور بہت بڑے علماء نے نقل کیے تھے۔ جو موجودہ ایڈیشن میں الفاظ کی ہیرا پھیرا سے شائع ہوئے آپ نیا ایڈیشن بھی ساتھ میں دیکھ سکتے ہیں۔
حضرت عمر نے کہا
ان رجل الیھجر
نہ رسول نہ نبی بالکل بدتمیزی والے انداز میں اتنے سخت جملے بول دیے جو ایک مہذب انسان اپنے بڑے بھائی کو بھی نہ بولے۔
یاد رہے عرب میں کسی کو لفظ رجل کہنا جبکہ وہ سامنے کھڑا ہوا جبکہ آپ اسکو اچھی طرح جانتے ہوں بہت بری بات بداخلاقی سمجھی جاتی تھی۔
ہمیشہ اسکو ادب سے بلکہ کنیت سے پکارا جاتا تھا ۔
لیکن جب سامنے رسول خدا ہوں تو انکو تو اپنے دوستوں کی طرح بلانے کو بھی قرآن نے منع کر دیا تھا۔
بلکہ قرآن کی سورہ الحجرات کی شروع والی آیات میں آواز اونچی کرنے سے سارے اعمال ضائع ہونے کا اعلان صریح کر دیا تھا۔
کو
اور یہ آیت اتری بھی ان دونوں بزرگوں کی شان میں تھی۔( صحیح بخاری)
لیکنُ پھر بھی یہ لوگ باز نہ آئے اور نبی کے بستر مرگ پر ان سے نہایت گستاخی کر دی نہ صرف گستاخی بلکہ توہین رسالت کے مرتکب بھی ہوئے۔
اب سوچو کتاب سلیم جس میں سب کچھ وہ ایک جگہ جمع ہے جو آج آپکو شائد تیس کتابوں کی چھان بین کر کے ہزاروں احادیث میں ٹکڑوں کی صورت میں ملے۔ وہ آپکو ایک کتاب میں مل جائے تو آپکے مخالفین کو تکلیف تو ہوگی۔
✍️کلیم بوذر
حدیث قرطاس کی وضاحت (بحوالہ شیعہ کتب)
وبقي عنده العباس والفضل وعلي بن أبي طالب وأهل بيته خاصة. فقال له العباس: يا رسول الله، إن يكن هذا الأمر فينا مستقرا بعدك فبشرنا، وإن كنت تعلم أنا نغلب عليه فأوص بنا، فقال: (أنتم المستضعفون من بعدي) وأصمت، فنهض القوم وهم يبكون قد أيسوا من النبي صلى الله عليه وآله.
حضورﷺ کے پاس سے سب لوگوں کے چلے جانے کے بعد صرف حضرت عباس ؓ، فضل بن عباس ؓ، حضرت علی ؓ اور آپ کے اہل بیت رضوان اللہ عنہم اجمعین رہ گئے، تو حضرت عباس ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ اگر آپ کے انتقال کے بعد معاملہ خلافت ہمارے بارے میں مقدر ہوچکا ہے، تو آپ ہمیں اس کی خوشخبری سنائیں اور اگر آپ جانتے ہیں کہ امر خلافت کے حصول میں کامیاب نہ ہوں گے اور لوگ ہم پر زبردستی کریں گے تو آپ ابھی اس حق کی وضاحت فرماتے ہوئے قطعی فیصلہ فرما دیجئے، یہ سن کر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ تم لوگ میرے بعد کمزور ہوجاو گے یہ کہہ کر آپ خاموش ہوگئے، حاضرین یہ سن کر روتے ہوئے اٹھ گئے اور امر خلافت میں اپنے بارے میں قطعی فیصلہ کرنے سے متعلق آپ ﷺ سے نا امید ہوگئے۔
[الإرشاد – الشيخ المفيد – ج ١ – الصفحة ١٨۳]
.
.