نکاح متعہ حلالہ سے بہتر ہے (ابن تیمیہ)

ابن تیمیہ کے خاص شاگرد ابن قیم الجوزی اپنی کتاب میں نکاح متعہ و حلالہ پر بحث کرتے ہوئے یوں لکھتا ہے :
میں نے شیخ الاسلام (ابن تیمیہ) کو فرماتے ہوئے سنا۔ نکاح متعہ دس (بارہ) وجوہات کے بنا پر حلالہ سے بہتر ہے :
⭐پہلا – نکاح متعہ پہلے اسلام میں مشروع تھا جب کہ حلالہ کسی بھی زمانے میں مشروع نہ تھا۔
⭐دوسرا – نبی ﷺ کے زمانے میں صحابہ نے نکاح متعہ کیا لیکن صحابہ میں حلالہ کسی نے نہیں کیا۔
⭐تیسرا – نکاح متعہ صحابہ کے درمیان (رسول اللہ ﷺ کے بعد) مختلف فیہ رہا۔ عبداللہ بن عباس اس کو مباح قرار دیتا تھا اگرچہ کہا جاتا یے کہ انہوں نے بعد میں رجوع کیا تھا۔ عبداللہ بن مسعود نے بھی اسکو مباح قرار دیا۔ صحیحین میں آپ سے مروی ہے کہ آپ نے فرماتے تھے کہ ھم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوات پر ہوتے تھے اور ھمارے پاس عورتین نہ ہوتیں۔ پس ھم نے عرض کیا : کیا ھم خود کو خصی (castrate) نہ کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے ھم کو اس سے منع فرمایا اور پھر ھمیں عورت کے ساتھ کپڑے کے عوض ایک مقرر مدت تک نکاح کرنے کی اجازت دی (نکاح متعہ)۔ اسکے بعد عبداللہ بن مسعود نے تلاوت کی : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ (ترجمہ : اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ نے جو پاکیزه چیزیں تمہارے واسطے حلال کی ہیں ان کو حرام مت کرو) اور اسکے متعلق ابن عباس کا فتواہ کافی مشہور ہے۔
عروۃ کہتا ہے کہ مکہ میں عبداللہ بن زبیر کھڑا ہوا اور کہا : لوگوں کے دل کو اللہ نے اندھا کر دیئے ہے جس طرح انکی آنکھیں اندھی ہوئی ہیں۔ وہ متعہ کے بارے میں فتواہ دیتے ہیں۔ اس سے وہ عبداللہ بن عباس پر اعتراض کر رہے تھا۔ پس ابن عباس نے ندا دی کہ یہ آواز کیا ہے۔ بے شک تو نہایت ہی خراب ہے۔ بے شک ھم امام متقین کے زمانے میں متعہ کیا کرتے تھے۔ ان کا مقصد رسول اللہ ﷺ تھا۔ پس عبداللہ بن زبیر نے کہا : خود کو لگام دو۔ اللہ کی قسم اگر تم نے اسکو انجام دیا تو میں تمہیں سنگسار کروں گا۔
پس یہ نکاح متعہ کے بارے میں عبداللہ بن عباس و عبداللہ بن مسعود کے اقوال ہیں اور حلالہ کے بارے میں انکا کوئی قول نہیں ہے۔
⭐چوتھا – رسول اللہ ﷺ سے متعہ کرنے والے اور ممتوعہ (جس سے متعہ کیا جائے) کے متعلق لعنت کا ایک حرف بھی ورد نہیں جبکہ حلالہ کرنے والے اور جس سے کیا جائے دونوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ و صحابہ سے لعنت ورد ہوئی ہے۔
⭐پانچواں – نکاح متعہ کرنے والی عورت کے ساتھ درست مقصد ہوتا ہے. اسکا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ نکاح کی مدت تک اس کے ساتھ قیام کرے۔ لیکن حلالہ کرنے والے کا کوئی غرض نہیں ہوتا سوائے اس کے عورت کو اجرت پر دیا جائے اور اسکو بلے کا بکرا بنایا جائے۔ پس اسکا نکاح اسکے لے بے مقصد ہوتا ہے نہ عورت کے لے نہ ولی کے لے اور یہ ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ حسن (البصری) نے کہا : حدود الٰھی میں جہنم میں کیل جیسا ہے۔ یہ نام معنی کے مطابق ہے۔
شیخ الاسلام کہتا ہے کہ حسن بصری کی مراد یہ ہے کہ کیل کی وجہ سے کوئی چیز ٹھہر جاتی ہے۔ پس اسی طرح وہ عورت اس کے لے ٹھہرتی ہے اگرچہ خدا نے اسکو اس پر حرام قرار دیا ہے۔
⭐چھٹا – نکاح متعہ کرنے والا حلالہ کو اختیار نہیں کرتا ہے جیسے خدا نے حرام قرار دیا ہے۔ پس وہ دھونکہ دینے والوں میں سے نہیں ہے جیسا کہ لوگ خدا کو دھونکہ دیتے ہیں اسی طرح جس طرح وہ بچوں کو دھونکہ دیتے ہیں۔ وہ نکاح کرنے والا ہے ظاھری و باطنی طور پر۔ جبکہ حلالہ کرنے والا مکار و دھونکہ دینے والا ہے۔ وہ خدا کی آیات کو پیس پشت ڈالنے کی نیت سے اختیار کرتا ہے۔ اسلے اسکے متعلق سخت وعید و لعنت ورد ہوئی ہے جبکہ متعہ کرنے والے کے متعلق ایسی کوئی وعید ورد نہیں ہوئی ہے۔
⭐ساتواں : نکاح متعہ کرنے والا اپنے نفس کے کے عورت کو طلب کرتا ہے۔ اور نکاح کا راز و مقصود بھی یہی ہے۔ پس وہ اس کے نکاح سے اس کو خود کے لے حلال ہونے کا ارادہ کرتا ہے نہ کہ حرام طور پر۔ جبکہ حلالہ کرنے والا عورت کو اپنے نفس کے لے حلال کرنے کی نیت سے نہیں کرتا ہے بلکہ دوسرے شخص کے لے حلال کرنے کی نیت سے کرتا ہے۔ اس لے اسکا نام مُحَلل ہے۔ پس وہ کہاں جو خود کے لے حلال کرتا ہے ایک عورت پر قابو حرام طریقے سے اور وہ کہاں جو ایسا نہیں چاھتا کیونکہ محلل چاھتا ہے کہ غیر کے لے اس پر قابو پائے۔پس یہ خدا کی شریعت اور دین کے خلاف ہے اور برعکس اس بات کا جو نکاح چاھتا ہے۔
⭐آٹھواں – فطرت سلیم اور دل جو کہ جہل کے مرض کو اور تقلید کو قبول نہیں کرتے حلالہ سے اشد نفرت کرتے ہیں اور اسے بدرجہ اولٰی حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں حتیٰ عورتوں کی کثیر تعداد زنا کے برعکس اسکو سخت قبیح سمجھتی ہیں۔ جبکہ نکاح متعہ کو نہ فطرت اور نہ ہی عقل سلیم غلط سمجھتی ہیں۔ اگر اس میں قباحت ہوتی تو اسلام کے پہلے دور میں یہ مباح نہ ہوتا۔
⭐نؤاں – نکاح متعہ کی شباھت کرایہ پر لینے والی جانور کی طرح ہے کہ ایک مقرر مدت تک سواری کی جائے یا کوئی مکان کرایہ پر لیا جائے تاکہ کچھ مدت تک اس سے استفادہ کیا جائے اور سکونت اختیار کی جائے۔ یا کوئی غلام خدمت کے لے عاریۃ کیا جائے اور اسی طرح دیگر اور خرچ کرنے والے کے لے اس میں غرض درست ہوتا ہے لیکن جب اس میں وقت کا معیار داخل ہو تا یے تو اس سے نکاح کا مقصود زائل ہوجاتا ہے۔جس کا شریعت نے دمام و استمرار بطور وصف کے قرار دیا ہے اور یہ حلالہ کے خلاف ہے اور اس کی شباھت ان میں سے کسی کے ساتھ نہیں۔ اس لے صحابہ نے حلالہ کرنے والے کی مثال قصائی کے ساتھ کی ہے اور عورت کی مثال بلے کے بکرے کے ساتھ۔
⭐دسواں : اللہ نے یہ اسباب مقرر کئے ہیں خرید و فروخت، کرایہ داری، ہبہ اور نکاح اور ان اسباب کے لے لوازمات ضروری ہے۔ پس خریداری ملکیت کے لے قرار پایا ہے اور کرایہ داری نفع و فائدہ کے لے قرار دیا ہے اور نکاح قرار دیا ہے زواج اور مباشرت کے حلال ہونے کے لے جبکہ حلالہ کرنے والا (محلل) دین و شریعت کا مخالف اور حدود توڈنے والا ہے کہ اس نے نکاح کو طلاق شدہ فرج کا تبادلہ اور اسکے سبب اپنے لے حلال کرنے کے لے کیا اور نکاح سے اسکا مقصد وہ نہیں جو اللہ نے اسکے لے مشروع کیا تھا جوکہ عورت کا فرج حلال ہونا ہے (زواج و مباشرت)۔
اور جو اللہ نے اسکے لے حلال کیا ہے محلل کے لے اس سے کوئی غرض نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی دلچسپی بے شک اسکا مقصد یا ارادہ فقط و فقط دوسرا ہے اور وہ وجہ اسکے لے ہرگز جائر نہیں۔ اسکے لے اس نے کوئی راسطہ قرار نہیں دیا۔
⭐گیارواں – محلل منافق کے اقسام میں سے ہے کہ منافق اسلام کو ظاھر کرتا ہے جس سے اسلام کی بیعت ظاھری و باطنی طور پر مسلمان ہونے کا التزام کرتا ہے جبکہ وہ باطن میں اسکا پابند نہیں ہوتا ہے۔ اسی طرح محلل (حلالہ کرنے والا) شوہر ہونا ظاھر کرتا ہے اور وہ نکاح چاھتا ہے اور مہر قرار دیتا ہے اور عورت راضی ہونے کی گواہی دیتی ہے جبکہ باطن میں اسکے خلاف ہوتا ہے۔ وہ شوہر نہیں بنا چاھتا ہے اور نہ عورت کو اپنے لے بطور زوجہ بنانا چاھتا ہے اور نا ہی عقد نکاح کا خرچہ (مہر) چاھتا ہے اور نا ہی نکاح کے حقوق کی پاستداری کرتا ہے۔ وہ اپنے باطن کے خلاف ظاھر کرتا ہے۔ وہ اسکی کا طلبگار ہوتا ہے کہ خدا، حاضرین اور عورت جان رہے ہوتے ہیں کہ وہ طلاق دینے والا ہے۔ یہ مسئلہ اسی طرح ہے۔ وہ شوہر کے علاوہ ہے اور نہ ہی وہ عورت حقیقت میں اسکی ہوتی ہے۔
⭐بارھواں : نکاح محلل جاھلیت کے لوگوں کے نکاح کے ساتھ مشابہت نہیں رکھتا اور نہ ہی بیرون اسلام کے ساتھ۔ زمانہ جاھلیت کے لوگ اپنے نکاح میں مختلف افعال شنیعیہ (غلط) کے مرتکب ہوتے تھے مگر وہ حلالہ کے لے ہرگز راضی نہ ہوتے اور نہ ہی اسکو انجام دیتے۔
⛔اغاثۃ اللہفان من مصائد الشیطان – ابن قیم // صفحہ ۲۰۲ – ۲۰۳ // طبع مکتبہ توفیقیہ قاھرہ مصر۔
بشکریہ : Ali Misbah