بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم
#روایت : ” عَلِيٌّ مَعَ الْقُرْآنِ، وَالْقُرْآنُ مَعَ عَلِيٍّ
لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ “.
آج جس روایت پر ہم کلام کریں گے وہ ھے
“علی قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی ؑ کے ساتھ ھے”
اس روایت میں ناصبیوں کی جرح کی کوئ حیثیت نہیں ھے
یہ محض اس روایت کو دو علتوں کی وجہ سے ضعیف قرار دیتے ہیں۔۔۔ آگے بڑھتے ہوئے ہم اس بات کو واضح کریں گے
تاریخ گواہ ھے کہ جب بھی آل محمد ؑ یا امیر المومنین علی ؑ کی بات آتی ھے تو یہ اپنے اصول حدیث کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں اور صحیح السند روایات کو موضوع اور ضعیف قرار دیتے ہیں۔۔۔۔
ہم نہ صرف اس کے رجال پر بات کریں گے بلکہ اس روایت کی متابعت اور شواہد بھی دیکھائیں گے ان شاء اللہ !
اس روایت کو امام حاکم نے المستدرک میں نقل کیا ھے
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَفِيدُ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نَصْرٍ، ثنا عَمْرُو بْنُ طَلْحَةَ الْقَنَّادُ الثِّقَةُ الْمَأْمُونُ، ثنا عَلِيُّ بْنُ هَاشِمِ بْنِ الْبَرِيدِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي ثَابِتٍ مَوْلَى أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَ الْجَمَلِ، فَلَمَّا رَأَيْتُ عَائِشَةَ وَاقِفَةً دَخَلَنِي بَعْضُ مَا يَدْخُلُ النَّاسَ، فَكَشَفَ اللَّهُ عَنِّي ذَلِكَ عِنْدَ صَلاةِ الظُّهْرِ، فَقَاتَلْتُ مَعَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ، فَلَمَّا فَرَغَ ذَهَبْتُ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَأَتَيْتُ أُمَّ سَلَمَةَ، فَقُلْتُ: إِنِّي وَاللَّهِ مَا جِئْتُ أَسْأَلُ طَعَامًا وَلا شَرَابًا وَلَكِنِّي مَوْلَى لأَبِي ذَرٍّ، فَقَالَتْ: مَرْحَبًا فَقَصَصْتُ عَلَيْهَا قِصَّتِي، فَقَالَتْ: أَيْنَ كُنْتَ حِينَ طَارَتِ الْقُلُوبُ مَطَائِرَهَا؟ قُلْتُ: إِلَى حَيْثُ كَشَفَ اللَّهُ ذَلِكَ عَنِّي عِنْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ، قَالَ: أَحْسَنْتَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” عَلِيٌّ مَعَ الْقُرْآنِ، وَالْقُرْآنُ مَعَ عَلِيٍّ لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ “.
هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ، وَأَبُو سَعِيدٍ التَّيْمِيُّ هُوَ عُقَيْصَاءُ ثِقَةٌ مَأْمُونٌ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ.
الحاكم النيسابوري، ابو عبدالله محمد بن عبدالله (متوفاى405 هـ)، المستدرك علي الصحيحين، ج3، ص134، تحقيق: مصطفي عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت الطبعة: الأولى، 1411هـ – 1990
#ترجمہ : “علی ع قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی ع کے ساتھ ہے
دونوں ایک دوسرے سے کبھی جدا نہیں ہوں گے حتیٰ کہ دونوں حوض کوثر پر پہنچیں گے”
ذھبی نے جو تخریج کی ھے مستدرک کی اس میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ھے
اس کے علاوہ طبرانی نے اس روایت کو “معجم الاوسط”
( جلد 5 ص 135 ح 4880 ) پر نقل کیا ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلے اس روایت کے رجال پر بات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو بکر محمد بن عبداللہ الحفید
یہ محمد بن عبداللہ بن یوسف ہیں اور محمد بن عبداللہ المھري کے نام سے مشہور ہیں
یہ احمد بن محمد بن نصر احمد بن یوسف بن خالد بن سالم بن زاویہ ,حسن بن عرفہ بن یزید عبداللہ بن احمد بن حنبل بن حلال سے روایت کرتے ہیں۔۔۔
جب کہ ان سے بکر بن محمد بن عبدالوھاب ،
حسان بن محمد بن احمد بن ھارون ,
حسن بن احمد بن محمد بن الحسن بن علی روایت کرتے ہیں
خطیب بغدادی : صدوق حسن الحدیث
ان پر کوئ جرح وارد نہیں
“تاریخ بغداد” ، خطیب بغدادی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد بن محمد بن نصر
یہ احمد بن محمد بن اللباد کے نام سے مشہور ہیں
ان کی کنیت ” ابو نصر ” ھے
ان سے احمد بن محمد بن حنبل بن حلال
فضل بن عمرو بن حماد سعید بن داود بن سعید روایت کرتے ہیں
جبکہ یہ احمد بن محمد بن سھل بن المبارک ,
حسین بن محمد بن عفیر محمد بن القاسم بن عبدالرحمن بن قاسم سے روایت کرتے ہیں
یہ مقبول راوی ہیں
ان پر کوئ جرح وارد نہیں
ملاحظہ ہو ” طبقات الحنابلہ “(جلد 1 ص 76 )
ابن ابی یعلی : جواھر المضعیہ فی طبقات الحنفیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمرو بن طلحہ القناد
یہ عمرو بن حماد بن طلحہ ہیں
عمرو بن حماد القناد کے نام سے شہرت رکھتے ہیں ان کی کنیت ” ابو محمد ” ذھے
یہ اسباط بن نصر عامر بن یساف ,علی بن ھاشم البرید سے روایت کرتے ہیں
جبکہ ان سے ابو زرعہ , یعقوب بن اسحاق روایت کرتے ہیں
ابن ابی حاتم : صدوق ( جرح و تعدیل)
ابن حبان نے ان کا ذکر اپنی کتاب ثقات میں کیا ھے
دارقطنی نے ان کا ذکر تابعین کی فہرست میں کیا ھے
یہ رجال مسلم میں سے ہیں
ابن منجویہ نے رجال مسلم میں ان کا ذکر کیا ھے
بخاری کہتے ہیں : صدوق فی الحدیث
“تاریخ الکبیر”
عثمان بن سعید “دارمی” کہتے ہیں
یححیی ابن معین کہتے ہیں : یہ ثقہ ہیں اور صدوق ہیں
ابن خلفون نے ان کا ذکر “المعلم بشیوخ “
و “بخاری ” اور “مسلم” میں کیا ھے
(تہذیب الکمال فی اسماء الرجال ج 22 ص 19)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علی بن ھاشم بن البرید
یہ علی بن ھاشم البریدی کے نام سے جانے جاتے ہیں
یہ بنی عائزہ کے غلام تھے
امام عجلی نے ان کا ذکر “کتاب الثقات” میں کیا ھے
یحیحی ابن معین : ثقہ
علی بن المدینی : صدوق یتشیع
ابن ابی حاتم الرازی : صدوق
احمد بن شیعب : نسائ لا بہ بأس
یہ بھی رجال مسلم میں سے ہیں
ملاحظہ ہو ” تاریخ بغداد”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ھاشم بن برید
یہ ھاشم بن برید الزبیدی کے نام سے مشہور ہیں
ان کی کنیت ” ابو علی ” ھے
یہ بھی شیعہ ہیں
ثقہ و صدوق
ابو حاتم ابن حبان : ثقہ
انہوں نے اپنی کتاب “الثقات ” میں ان کا ذکر کیا ھے
احمد بن حنبل : لا باس فیہ
ان میں کوئ حرج نہیں
ابن حجر : ثقہ فی الحدیث
یحیحی ابن معین : ثقہ
ان سے ابو داود نسائ ابن ماجہ نے روایات کو لیا ھے
“تہذیب الکمال فی اسماء الرجال”
( ج 30 ص 125 رقم 6536)
یہ امیر المومنین علی ؑ سے روایت کرتے ہیں
اور عبداللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں
جبکہ ان سے اعمش فضیل بن مرزوق روایت کرتے ہیں
ابن حبان نے ان کا ذکر ” الثقات ” میں کیا ھے
بخاری نے ” تاریخ الکبیر “میں ان کی روایات کو
حسن الحدیث قرار دیا ھے
قال نسائ : لیس بالقوی
نسائ کہتے ہیں : قوی نہیں
دارقطنی : متروک
یحیحی ابن معین : لیس بشئی
قال حاکم : ثقہ و مامون
(تاریخ بغداد جلد 14 ص 251)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
أبی بن ثابت مولی ابی ذر
مجھول
کتب رجال میں ان کا تذکرہ نہیں ملا !
اب اس روایت میں دو علتیں ہیں
ابو سعید عقیصی التیمی پر جرح ھے
اور ابی ثابت مجھول ہیں
لیکن یہ روایت شواہد اور متابعت میں قبول کی جاۓ گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔#اس_روایت_کے_شواہد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
أخبرنا :أبو جعفر محمد بن علي الشيباني ، بالكوفة من أصل كتابه ، ثنا : أحمد بن حازم بن أبي غرزة ، ثنا : أبو غسان ، ثنا : عبد السلام بن حرب ، ثنا : الأعمش ، عن إسماعيل بن رجاء ، عن أبيه ، عن أبي سعيد (ر) ، قال ابن أبي غرزة ، وحدثنا : عبيد الله بن موسى ، ثنا : فطر بن خليفة ، عن إسماعيل بن رجاء ، عن أبيه ، عن أبي سعيد (ر) ، قال : كنا مع رسول الله (ص) ، فانقطعت نعله فتخلف علي يخصفها فمشى قليلا ، ثم قال : إن منكم من يقاتل على تأويل القرآن كما قاتلت على تنزيله فاستشرف لها القوم ، وفيهم أبو بكر وعمر (ر) ، قال أبو بكر : أنا هو ، قال : لا ، قال عمر : أنا هو ، قال : لا ، ولكن خاصف النعل يعني عليا فأتيناه فبشرناه ، فلم يرفع به رأسه كأنه قد كان سمعه من رسول الله (ص) ، هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ، ولم يخرجاه
“علی ؑ تاویل قرآن پر جنگ کریں جیسے کہ تنزیل قرآن پر جنگ کی”
اس سے ثابت ہوتا ھے کہ علی قرآن کے ساتھ ہیں اس لیے وہ تاویل قرآن پر جنگ کریں گے !
حدثنا أبو بكر، محمد بن الحسين بن مصلح الفقيه بالري، ثنا محمد بن أيوب، ثنا يحيى بن المغيرة السعدي، ثنا جرير بن عبد الحميد، عن الحسن بن عبد الله النخعي عن مسلم بن صبيح، عن زيد بن أرقم، رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إني تارك فيكم الثقلين كتاب الله، وأهل بيتي، وإنهما لن يتفرقا حتى يردا علي الحوض. هذا حديث صحيح الإسناد على شرط الشيخين ولم يخرجاه.
حضرت زید بن ارقم فرماتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : “
میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں
(1) کتاب اللہ
(2) اپنے اہل بیت
اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے ، حتیٰ کہ یہ میرے حوض پر آئیں گے۔
(المستدرك للحاكم ،4711، طبعہ دارالحرمین بتحقيق الوداعى 47743/173 ، طبعہ دار التاصيل 47705/367)
اس روایت سے بھی واضح ھے کہ
علی ؑ قرآن کے ساتھ ہیں وہ حوض کوثر پر ایک ساتھ پہنچیں گے !
اس حدیث کی سند حسن ھے
اس لیے ذھبی نے اس کی تخریج کرتے ہوۓ اس کو صحیح قرار دیا ھے۔۔۔
اس کے علاوہ ابو سعید عقیضی جو کہ اس روایت میں چھٹا راوی ھے ، امیر المومنین علی ؑ کے ساتھ جنگ صفین میں بھی حاضر رہا ھے
اس لیے اس پر جرح کی گئ ھے
اس کے علاوہ جن لوگوں نے ان پر جرح کی ھے وہ ان کے زمانے کے نہیں
دارقطنی ،حاکم کے زمانہ کا ھے
جبکہ یحیحی ابن معین بھی ان کے زمانہ کا شخص نہیں ھے، کیونکہ یہ تابعین میں سے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ روایت شواہد اور متابعت میں کسی صورت بھی درجہ حسن سے کم نہیں !
اور اس روایت پر کی گئ جرح شواہد و متابعت کی بغیر مردود ہوگی !!
تـحقیق و تـخریج : سید ساجد بخاری:)


.
.
الْحَقُّ مَعَ ذَا، الْحَقُّ مَعَ ذَا
حق اس کے ساتھ ہے! حق اس کے ساتھ ہے!
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ الْمَكِّيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ، عَنْ صَدَقَةَ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ بَيْتِ النَّبِيِّ (ص) فِيْ نَفَرٍ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ، فَخَرَجَ عَلَيْنَا فَقَالَ: «أَلا أُخْبِرُكُمْ بِخِيَارِكُمْ؟» قُلْنَا: بَلَي. قَالَ: «خِيَارُكُمُ الْمُوفُونَ الْمُطَيِّبُونَ، إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْخَفِيَّ التَّقِيَّ»
قَالَ: وَمَرَّ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ: «الْحَقُّ مَعَ ذَا، الْحَقُّ مَعَ ذَا»
ترجمہ : ہم سے روایت کی محمد بن عباد مکی نے ان سے ابو سعید نے وہ صدقہ بن ربیع سے وہ عمارہ بن غزیہ سے وہ عبدالرحمن بن ابی سعید سے وہ اپنے باپ ( ابو سعید) سے کہ ان کے والد ( ابو سعید خدری ) نے کہا :
ہم مہاجرین و انصار کے ایک گروہ کے ساتھ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کے گھر ساتھ تھے چنانچہ رسول خدا ہمارے پاس آئے اور فرمایا:
«أَلا أُخْبِرُكُمْ بِخِيَارِكُمْ؟»
کیا میں تمھیں نہ بتاؤں کہ تم میں سب سے اچھے کون ہیں؟
ہم کہا : کیوں نہیں بتائیے
فرمایا: وہ جو ایفاء عہد کرتے ہیں جو پاک ہیں
اللہ ایسے بندے سے محبت کرتا ہے جو صاحب کرم اور متقی ہو۔
ابو سعید خدری کہتے ہیں :
اور علی بن ابی طالب گزرے تو رسول اللہ نے فرمایا :
الْحَقُّ مَعَ ذَا، الْحَقُّ مَعَ ذَا
حق اس کے ساتھ ، حق اس کے ساتھ ہے۔
تبصرہ : جناب رسول خدا ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) نے اسم اشارہ ” ذا ” استعمال فرمایا اور یہ بڑا لطیف اشارہ ہے کہ حق امیرالمومنین( علیہ السلام) کے ایسے ساتھ ہے گویا “جزء ما لا ینفق” ہے
نیز ایک ہی جملہ دو مرتبہ ارشاد فرمایا
پہلا جملہ تاسیسا دوسرا تاکیدا تھا
” ان ” حرف مشبہ بالفعل کا استعمال فرما سکتے تھے لیکن تکرار کو گوارا فرماتے ہوئے اس کو ترک کیا تاکہ بات دلوں میں راسخ ہو جائے تاکہ غیر متوجہ رہہ جانے والا متوجہ ہو جائے تاکہ بات تفصیلا و تکریرا پہونچے۔
ابو سعید خدری نے جس طرح حدیث میں منظر کشی کی ہے ایسا لگتا ہے صحابہ رسول اللہ کے خیمہ کے باہر واعظ و نصیحت کے کئے کھڑے تھے آپ ( علیہ السلام) اپنے خیمہ سے نکلے
پھر سب سے اچھے بندوں کی اوصاف کو بیان فرمایا
ایسا لگتا ہے جناب امیر ( صلوۃ اللہ و سلامہ علیہ ) وہاں پر نہیں تھے بلکہ ان آپ ( علیہ السلام) وہاں سے گزرے
اور رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کی نظر جیسے ہی آپ پر پڑی بے ساختہ پکارے :
حق اس کے ساتھ ہے ، حق اُس کے ساتھ ہے
صحابہ کو اشارہ کر کے بتلایا کہ اس سے منحرف نہ ہونا کیونکہ حق اس کے ساتھ چپکا رہتا ہے اس سے انحراف در اصل حق سے انحراف ہے اور حق سے انحراف در اصل خدا سے انحراف ہے۔
رجال سند :
مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ الْمَكِّيُّ:
بخاری مسلم ترمذی ابن ماجہ اور نَسائی کے رجال میں سے ہیں
توثیق : علامہ مزی لکھتے ہیں:
قال عَبد الله بن أحمد بن حنبل: سَأَلتُ أبي عن محمد ابن عباد المكي، فقال لي: حديثه حديث أهل الصدق، وأرجو أن لا يكون به بأس. قال: وسمعته مرة أخري ذكره فقال: يقع في قلبي أنه صدوق. وَقَال أبو زُرْعَة، عن يحيي بن مَعِين: لا بأس به. وذكره ابنُ حِبَّان في كتاب الثقات.
عبداللہ نے کہا کہ میں نے اپنے بابا ( احمد بن حنبل) سے محمد بب عباد مکی کے بارے میں پوچھا تو فرمایا : اس کی حدیث اہلِ صدق کی حدیث ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ اس سے کوئی ضرر نہیں۔
عبداللہ کہتا ہے میں ان سے کسی اور دفعہ سنا کہ فرمایا : میرے دل میں یہ بات واقعی ہوئی کہ وہ سچا ہے۔
ابو زرعہ ، ابن معین سے کہ ابن معین نے کہا : لا باس بہ
اور ابن حبان نے انہیں اپنی کتاب ثقات میں ذکر کیا۔
تهذيب الكمال، ج25، ص437، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت، الطبعة: الأولي، 1400هـ – 1980م.
نوٹ : ابن معین کی ” لا باس بہ” سے مراد ثقہ ہوا کرتی ہے۔
دوسرا راوی : أَبُو سَعِيدٍ عبد الرحمن بن عبد الله:
علامہ ذہبی اپنی کتاب الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة، ج1، ص633 میں انہیں “ثقہ” لکھتے ہیں:
عبد الرحمن بن عبد الله أبو سعيد مولي بني هاشم البصري الحافظ عن عكرمة بن عمار وشعبة وعنه أحمد والعدني ثقة توفي 197 خ س ق
الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة، ج1، ص633، رقم: 3238، تحقيق محمد عوامة، ناشر: دار القبلة للثقافة الإسلامية، مؤسسة علو – جدة، الطبعة: الأولي، 1413هـ – 1992م.
تیسرا راوی : صَدَقَةَ بْنِ الرَّبِيعِ:
ابن حبان نے انہیں اپنی کتاب ” الثقات ” میں لکھا ہے :
صدقة بن الربيع يروي عن عمارة بن غزية روي عنه أبو سعيد مولي بني هاشم
الثقات، ج8، ص319، رقم: 13657، تحقيق السيد شرف الدين أحمد، ناشر: دار الفكر، الطبعة: الأولي، 1395هـ – 1975م.
لیکن ان پر تساہل کا الزام ہے
لیکن علامہ ہیثمی انہیں ثقہ لکھتے ہیں:
رواه أبو يعلي ورجاله رجال الصحيح غير صدقة بن الربيع وهو ثقة.
اس حدیث کو ابو یعلی نے روایت کیا ہے اور اس حدیث کے رجال رجالِ صحیح ہیں سوائے صدقہ بن ربیع کے اور وہ ثقہ ہے۔
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج10، ص256، ناشر: دار الريان للتراث/ دار الكتاب العربي – القاهرة، بيروت – 1407هـ.
اس کے علاوہ علامہ محمد بن درویش اس روایت کو نقل کر ے کے بعد لکھتے ہیں:
رجاله رجال الصحيح غير صدقة بن الربيع، وهو ثقة.
اس حدیث کے رجال ، رجالِ صحیح ہیں سوائے صدقہ بن ربیع کے اور وہ ثقہ ہیں.
أسني المطالب في أحاديث مختلفة المراتب، ج1، ص249، تحقيق: مصطفي عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت، الطبعة: الأولي، 1418 هـ ـ 1997م.
چوتھا راوی : عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ:
علامہ مزی ان کا ترجمہ یوں نقل فرماتے ہیں:
قال عَبد الله بن أحمد بن حنبل عَن أبيه، وأبو زُرْعَة: ثقة. وَقَال إسحاق بن منصور، عن يحيي بن مَعِين: صالح. وَقَال أبو حاتم: ما بحديثه بأس، كان صدوقا. وَقَال النَّسَائي: ليس به بأس. قال محمد بن سعد: توفي سنة أربعين ومئة، وكان ثقة، كثير الحديث. إستشهد به البخاري في “الصحيح”، وروي له في “الأدب”وروي له الباقون.
عبداللہ بن أحمد نے اپنے بابا ( احمد بن حنبل سے ) اور ابو زرعہ سے کہ یہ ثقہ ہیں
إسحاق بن منصور يحيي بن معین سے کہ یہ ” صالح ” ہیں
اور ابو حاتم نے کہا : اس کی حدیث میں کوئی خرابی نہیں اور یہ صدوق تھے۔
نَسائی نے کہا : لیس بہ بأس۔۔۔۔۔۔الخ
تهذيب الكمال، ج21 ص260ـ 261، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت، الطبعة: الأولي، 1400هـ – 1980م
پانچوان راوی : عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ:
یہ ثقہ ہیں علامہ مزی نے ان کے ترجمہ میں لکھا :
قال النَّسَائي: ثقة. وذكره ابنُ حِبَّان في كتاب”الثقات”، وَقَال هو ومحمد بن عَبد الله بن نمير، وعَمْرو بن علي: مات سنة اثنتي عشرة ومئة. زاد ابن حبان: وهو ابن سبع وسبعين سنة. استشهد به البخاري في الصحيح، وروي له في الأدب. وروي له الباقون.
تهذيب الكمال، ج17، ص135، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت، الطبعة: الأولي، 1400هـ – 1980م.
چھٹا راوی : جناب ابو سعید خدری
صحابی ہیں اور فرقہ مخالف صحابی کی توثیق نہیں مانگتا۔


.
قرآن ناطق کی تعظیم قرآن سامت کی طرح کیوں نہیں کرتے؟
رسول خدا (ص) کا ارشاد گرامی ھے عَلِيٌّ مَعَ الْقُرْآنِ، وَالْقُرْآنُ مَعَ عَلِيٍّ لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ
علی ع قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی ع کے ساتھ ہے دونوں ایک دوسرے سے کبھی جدا نہیں ہوں گے حتیٰ کہ دونوں حوض کوثر پر پہنچیں گے
حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ
لمستدرك علي الصحيحين، ج3، ص134 ح 4566
رسول خدا (ص) نے واضع کردیا کہ قرآن علیؑ کے ساتھ ھے ۔ اس کا مطلب یہ ھے کہ علی اور قرآن ھم ردیف ھیں اسلیے قرآن صامت کی طرح قرآن ناطق کی تعظیم کی جائے کیونکہ دونوں نے اکٹھے حوض کوثر پر پہنچنا ھے
.