بسم اللہ الرحمن الرحیم
رسول خدا ﷺ کی حدیث یا علی انت سید فی الدنیا و سید فی الاخرہ سے آپ کی افضلیت کا اثبات
اس روایت کو اھلسنت کے مشہور امام احمد بن حنبل ؒ نے اپنی کتاب فضائل الصحابہ میں نقل کیا ھے
احمد بن حنبل نقل فرماتے ہیں
1092 – حدثنا أحمد بن عبد الجبار الصوفي قثنا أحمد بن الأزهر نا عبد الرزاق قال انا معمر عن الزهري عن عبيد الله بن عبد الله عن بن عباس قال : بعثني النبي صلى الله عليه و سلم الى علي بن أبي طالب فقال أنت سيد في الدنيا وسيد في الآخرة من احبك فقد احبني وحبيبك
’حضرت عبد اﷲ بن عباس فرماتے ہیں میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری (یعنی علی کی) طرف دیکھ کر فرمایا اے علی! تو دنیا و آخرت میں سردار ہے۔ تیرا محبوب میرا محبوب ہے اور میرا محبوب اللہ کا محبوب ہے اور تیرا دشمن میرا دشمن ہے اور میرا دشمن اللہ کا دشمن ہے اور اس کیلئے بربادی ہے جو میرے بعد تمہارے ساتھ بغض رکھے۔
فضائل الصحابہ لاحمد بن حنبل ج 2 ص 624 الحدیث 1092
فضائل الصحابہ کے محقق وصی اللہ بن محمد عباس نے اس کے رجال کے بارے میں فرماتے ہیں
1092 رجال الاسناد ثقات و احمد بن الازھر بن منیع بن سلیط العبدی ابو الاذھر النیسابوری صدوق
ہم پھر بھی انتہائ مختصر ان رجال کا تعارف پیش کر دیتے ہیں
پہلےراوی
احمد بن الحسن بن عبدالجبار الصوفی
حافظ ذھبی ان کا تعارف کرواتے ہوۓ کہتے ہیں
الشیخ الثقہ المعمر ابو عبداللہ احمد بن الحسن بن عبدالجبار بن راشد البغدادی
یہ علی بن الجعد یحیی بن معین سوید بن سعید کے تلامذہ میں سے تھے جبکہ ابن حبان ابو احمد بن عدی ابو حفض بن الزیات جیسے محدثین کے شیخ ہیں
وثقہ ابو بکر الخطیب وکان صاحب الحدیث و اتقان
خطیب بغدادی کہتے ہیں یہ ثقہ متقن اور صاحب حدیث تھے
سیر اعلام النبلاء ج 14 ص 157
ابن حجر مشہور و ثقہ الدارقطنی
ابن حجر کہتے ہیں مشہور تھے دارقطنی نے کہا ثقہ ہیں
لسان المیزان الرقم 446
دوسرے راوی
احمد بن الازھر
حافظ ذھبی کہتے ہیں
یہ احمد بن الازھر ابن منیع بن سلیط الامام الحافظ الثبت ابو الازھر العبدی النیسابوری محدث خراسان فی زمانہ
یہ حافظ امام اور اپنے زمانے میں خراسان کے محدث تھے
یہ مشہور محدثین نسائ ابن ماجہ ابو حاتم اور موسی بن ھارون کے مشائخ میں سے تھے
قال النسائ والدارقطنی لابأس بہ
نسائ اور دارقطنی کہتے ہیں ان میں حرج نہیں ھے
قال ابو حاتم و صالح بن محمد صدوق
ابو حاتم و صالح بن محمد کہتے ہیں یہ حدیث میں صدوق درجے کے راوی ہیں
ذکرہ ابن حبان فی کتاب الثقات
تہذیب التہذیب ج 1 ص 14
ابو حاتم الرازی صدوق
تہذیب التہذیب ج 1 ص 14
جرح و تعدیل ج 2 ص 41
قال الحاکم ھذا مسلم فی الثقات
حاکم کہتے ہیں کہ یہ بات مسلم ھے کہ وہ ثقات میں سے تھے
تہذیب التہذیب ج 1 ص 14
3 تیسرے راوی عبدالرزاق بن ھمام ابن نافع ابو بکر الحمیری
عالم الیمن الثقہ
حافظ ذھبی نے ثقہ لکھا ھے یہ یمن کے عالم تھے
سفیان بن عینیہ معتمر بن سلیمان احمد بن حمبل ابن راھویہ یحیحی ابن معین اور علی بن المدینی کے مشائخ میں سے تھے
یہ بالاجماع ثقہ فی الحدیث تھے
سیر اعلام النبلاء ج 8 ص 564
چوتھے راوی معمر بن راشد
ذکر ابن حبان فی کتاب الثقات
وقال جان فقیھا متقنا حافظا
تہذیب الکمال ج 28 ص 303
ابن حجر ثقہ ثبت فاضل
تقریب التہذیب ج 1 ص 361
صح ذھبی
لسان المیزان ج 9 ص 427
5 پانچویں راوی زھری ییں
جو بالاجماع ثقہ محدث ہیں ابن شہاب زھری صحیحین بخاری و مسلم اور دیگر کتب کے راوی ہیں
ان کی ثقات پر اتفاق ھے
6 راوی عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ ہیں
ذھبی سیر اعلام میں فرماتے ہیں
عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ الامام الفقیہ مفتی المدینہ و عالمھا احد الفقھاء السبعہ اخو عبداللہ بن مسعود
قال الواقدی کان ثقہ عالما فقیھا کثیر الحدیث
قال ابو زرعہ ثقہ مامون
سیر اعلام النبلاء ج 4 ص 428
اسی روایت کو امام حاکم نیشاپوری نے اپنی مشہور زمانہ کتاب المستدرک علی الصحیحین میں نقل کیا ھے
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ نَظَرَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَيّ فَقَالَ : يَا عَلِيُّ أَنْتَ سَيِدٌ فِي الدُّنْيَا سَيِدٌ فِي الْآخِرَةِ حَبِيْبُکَ حَبِيْبِيْ وَ حَبِيْبِيْ حَبِيْبُ اﷲِ وَعَدُوُّکَ عَدُوِّيْ وَ عَدُوِّيْ عَدُوُّ اﷲِ وَ الْوَيْلُ لِمَنْ أَبْغَضَکَ بَعْدِيَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.وَقَالَ صَحِيْحٌ عَلٰي شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ
اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرائط پر صحیح ھے دیلمی نے مسند فردوس میں بھی اسی روایت کو نقل۔کیا ھے
أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 138، الحديث رقم : 4640، والديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 5 / 325، الحديث رقم : 8325.
حافظ ذھبی نے اس روایات پر تلخیص۔مستدرک میں جو کلام کیا ھے وہ بالکل۔متعصبانہ ہے کیونکہ اس رویات کے منکر اور من گھڑت ہونے کی کوئ دلیل نہیں دی
صرف یہ کہا کہ امام رزاق نے اس روایت کو احمد بن حنبل یا ابن معین وغیرہ کے سامنے کیوں بیان نہ کیا
اس کا جواب یہ ھے کہ اس دور میں ایسی روایات عمومی طور پر بیان کرنا بھی ہمت کا کام تھا کیونکہ وہ دور ایسا تھا کہ فضائل علی ؑ میں رویات بیان کرنے پر پابندی تھی
اگر انہوں نے بیان نہیں بھی کی تو اس سے روایت کی صحت پر کیا اثر پڑے گا کچھ بھی نہیں
اس کے برعکس امام حاکم فرماتے ہیں
یاعلیؑ أنت سید فی الدنیا والاخرة حدث ببغداد فی حیاة احمد بن حنبل و علی ابن المدینی و یحیحی بن معین فأنکرہ من أنکرہ حتی تبین للجماعة أن أبا الازھر یریء الساحة منہ وأن محلہ محل الصدق و الصادقین
اکمال تہذیب الکمال ج 1 ص 15
یہ حدیث یا علی انت سید فی الدنیا ولاخرة بغداد میں احمد بن حنبل علی بن المدینی اور ابن معین کے زمانے میں بیان ہوئ جبکہ کسی نے بھی اس پر منکر کی جرح نہیں کی
اس لیے یہ روایت بالکل صحیح ھے اور اصول حدیث کے مطابق قابل استدلال ھے
تحقیق سید ساجد بخاری النقوی