امام باقر ع و محمد بن ابی بکر کے تعلقات اور فضیلت ابوبکر پر مولوی معاویہ کو منہ توڑ جواب

اہلسنت والجماعت کے مولانا صاحب کی کل باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی زوجہ اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی والدہ ماجدہ حضرت ام فروہ سلام اللہ علیہا حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر رض کی بیٹی تھی۔ اور یہ ابوبکر پر نانا تھے اسی لیے یہ بھی ابوبکر میں فضیلت اور اہلبیت ع کی محبت کا ثبوت ہے۔
اس کے جواب کے لئے ہم تین باتوں کی وضاحت کرے گے جس سے سارا مسئلہ واضح ہوجائے گا۔ قرآن مجیدحدیث میں معیار فضلیت کس چیز کو قرار دیا گیا ہے؟ حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کا مختصر تعارف ( جو بقول مولانا صاحب کے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے پر نانا تھے) اور محمد بن ابی بکر کا اپنے باپ کے بارے نظریہ کیا تھا؟ کیا قاسم بن محمد رضی اللہ عنہ (جو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے نانا جان تھے) سے مراد قاسم بن محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ ہیں یا پھر قاسم بن محمد رضی اللہ عنہ کوئی اور شخصیت ہیں؟
🌴اول : قرآن مجید کی کسی بھی آیت میں رشتے داری کو معیار فضلیت قرار نہیں دیا گیا بلکہ قرآن مجید کئی آیات موجود ہیں جس میں معیار فضلیت تقوی اور ایمان کو قرار دیا گیا ہم بطور نمونہ چند آیات پیش کرتے ہیں:
♨ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ- ترجمہ: بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔ (پ26 ، الحجرات : 13)
ّ♨ وٙ اللّٰهُ وَلِیُّ الْمُتَّقِیْنَ(۱۹) ترجمہ : اور اللہ پرہیزگاروں کا دوست ہے۔ (پ25 ، الجاثیۃ : 19)
♨ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ(۷) ترجمہ : بیشک اللہ پرہیزگاروں سے محبت فرماتا ہے۔ (پ10 ، التوبۃ : 7)
♨ فٙاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى٘- ترجمہ : پس سب سے بہتر زادِ راہ یقیناً پرہیزگاری ہے۔ (پ2 ، البقرۃ : 197)
قرآن مجید کی ان آیات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہےکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک فضلیت کا معیار تقوی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
♨ “تمہارا رب ایک ہے تمہارا باپ ایک ہےاور کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں ہے اور نہ عربی کو عجمی پر فضیلت ہے اور نہ گورے کو کالے پر فضیلت ہے، نہ کالے کو گورے پر فضیلت ہے مگر صرف تقوی ہے”.
حوالہ : [ معجم الاوسط – جلد ۳ – صفحہ ۳۲۹ – الحدیث ۴۷۴۹ ]
بغیر ایمان و تقویٰ کے رشتے داری کچھ فائدہ نہیں دے گی قرآن مجید میں حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیویوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لائیں تھیں اگرچہ وہ نبی کی رشتےدار تھیں مگر ایمان نہ لانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں جہنم کی وعید سنائی ہے اور ان کو رشتے داری نے کچھ فائدہ نہ دیا۔
♨ اللہ کافروں کے لیے ایک مثال بیان کرتا ہے نوح اور لوط کی بیوی کی ، وہ ہمارے دو نیک بندوں کے نکاح میں تھیں پھر ان دونوں نے ان کی خیانت کی سو وہ (نبی) اللہ کے غضب سے بچانے میں ان(بیویوں) کے کچھ بھی کام نہ آئے اور کہا جائےگا کہ دونوں دوزخ میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہو جاؤ۔ (سورہ تحریم آیت 10)
اس کے برعکس حضرت آسیہ سلام اللہ علیہا کو فرعون کی زوجہ تھیں اور نبی کی خونی رشتے دار نہیں تھی ( البتہ حضرت موسیؑ نے انہی کی گود میں پرورش پائی تھی ) یہ بی بی فرعون جیسے ظالم و جابر بادشاہ کے گھر رہتے ہوئے بھی اہل ایمان میں سے تھیں اور روایات میں ملتا ہے کہ انتہائی پرہیزگار تھیں قرآن مجید میں اس بی بی کے بارے میں ارشاد قدرت ہوتا ہے:
♨ ترجمہ : اور اللہ ایمان داروں کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال بیان کرتا ہے، جب اس نے کہا کہ اے میرے رب میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے کام سے نجات دے اور مجھے ظالموں کی قوم سے نجات دے”. (سورہ تحریم آیت 11)
🌴دوم : حضرت محمد بن ابی بکر رض کا مختصر تعارف
پورا نام : محمد بن عبداللہ بن عثمان
مشہور نام : محمد بن ابی بکر
والد کا نام : حضرت ابوبکر
والدہ کا نام : حضرت اسماء بنت عمیس سلام اللہ علیہا
تاریخ پیدائش : 25 ذی القعدہ 10 ہجری بمقام ذوالحلیفہ
صحابیت :
♨ حافظ ابن حجر عسقلانی صاحب نے لکھا کہ: ” ان کو (محمد بن ابی بکر) رؤیت (سرکار دو عالم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کا شرف) شرف حاصل ہے ٣٨ ہجری میں قتل ہوئے حضرت علی اس کی تعریف کیا کرتے تھے”.
حوالہ : [ تقریب التہذیب (اردو) ، جلد دوم ، صفحہ ٦٢ ]
اس کے علاؤہ ابن حبان ، ابو نعیم ، علامہ ذہبی نے تجرید اسماء الصحابہ میں اور اسد الغابہ میں ان کا ذکر طبقات صحابہ میں کیا گیا ہے حضرت علی علیہ السلام نے انکی پرورش کی حضرت اسماء بنت عمیس نے ابوبکر کی وفات کے بعد حضرت علی علیہ السلام سے شادی کی تو محمد بن ابی بکر انکے ربیب ہو گئے یہ یحییٰ بن علی اور عبداللہ بن جعفر کے اخیافی (جن کی ماں ایک ہو اور باپ مختلف یعنی سوتیلے بھائی) بھائی تھے یہ بڑے عبادت گزار اور صاحب فضل و علم تھے اس لئے امیر المومنین علیہ السلام اس کو پسند فرماتے تھے۔
♨ نہج البلاغہ خطبہ ۶۶ میں امام علیؑ فرماتے ہیں:محمد بن ابی بکر مجھے بہت محبوب تھا اور میرے ہاتھ کا پروردہ تھا۔
حوالہ : [ نہج البلاغہ – خطبہ ۶۶ – صفحہ ١٩٢ ]
محمد بن ابی بکر جسطرح سےاپنے والد اور خلیفہ سوم کے شدید مخالف اور ان سے براءت و بیزاری کا اظہار کرتے تھے اسی طرح سے خلیفہ دوم کے بھی شدید مخالف تھے اور انہیں بھی قبول نہیں کرتے تھے۔ امام باقرؑ سے روایت میں وارد ہوا ہے کہ
♨ امام باقرؑ فرماتے ہیں: محمد بن ابی بکر نےامام علیؑ کےہاتھوں میں اس شرط پر بیعت کی کہ وہ خلیفہ دوم سے بَری اور بیزار ہیں۔
حوالہ : [ رجال الکشی – صفحہ ۵٣ ]
♨ امام جعفر صادقؑ نے فرمایا کوئی ایسا گھرانہ نہیں ہے مگر ان میں انہی میں سے ایک نجیب و پاکیزہ فرد ہوتا ہے، برے گھرانوں میں نجیب ترین اور پاکیزہ ترین افراد میں سے ایک محمد بن ابی بکر ہیں۔
حوالہ : [ رجال الکشی – صفحہ ۵٣ ]
♨ حضرت عثمان کے قاتلوں میں ان کا شمار کیا جاتا ہے مصنف ابن ابی شیبہ میں ایک روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عثمان کے قتل کے وقت ان کی داڑھی کو پکڑا۔
حوالہ : [ مصنف ابن ابی شیبہ – ج١١ – صفحہ ٦٨٣ : تاریخ ابن اعثم کوفی – صفحہ ١٩۵ ]
🛑 جنگ جمل و صفین میں مولا علی علیہ السلام کے لشکر میں شامل تھے بہرحال ان تمام تاریخی حقائق سے یہ بات تو اظہر من الشمس ہو گئی کہ حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ حضرت علی علیہ السلام کے تربیت و پرورش کئے ہوئے بیٹے تھے حضرت علی علیہ السلام کے بیٹے یحییٰ بن علی اور حضرت جعفر ابن ابی طالب علیہ السلام کے بیٹے عبداللہ ابن جعفر کے سوتیلے بھائی تھے اور ہر موڑ پر جناب علی علیہ السلام کے ساتھ ان کی بیٹیوں کی فہرست میں شامل ہو کر ان کا ساتھ دے رہے تھے اور مولا علی ع انکی عبادت گزاری اور علم و فضل کی وجہ سے ان کی تعریف کیا کرتے تھے لہذا قطع نظر اختلاف کے حضرت قاسم بن محمد انہی کے یعنی محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے بیٹے تھے تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ ان کے گھرانے سے اہلبیت علیہم السلام رشتے داری قائم کرے کیونکہ ایک تو یہ گھرانہ (حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کا گھرانہ) محب اہلبیت علیہم السلام تھا دوسرا حضرت امام علی علیہ السلام کے ساتھ ان کی رشتے داری تھیں جیسے کہ بیان ہو چکا ہے کہ جناب امیر المومنین علیہ السلام اور حضرت اسماء بنت عمیس سلام اللہ علیہا سے جو اولاد ہوئیں تھی وہ حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے سوتیلے بھائی اور بہن تھے۔ محمد بن ابی بکر کے فضائل ملاحظہ فرمائیں
🌴سوم : کیا حضرت قاسم بن محمد (حضرت امام جعفر صادق ع کے نانا جان تھے ) حضرت محمد بن ابی بکر رض کے فرزند تھے یا پھر کوئی اور شخصیت؟
تو اس کے بارے میں شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ سید جعفر مرتضیٰ آملی صاحب کی تحقیق انیق یہ ہے کہ یہ قاسم بن محمد بن ابی بکر نہیں تھے مورخین کو مغالطہ ہؤا ہے وہ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
♨ ” مورخین کو یہ مغالطہ اس لئے ہوا کہ جب انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے نانا کا نام “قاسم بن محمد” دیکھا انہوں نے بوجہ شہرت اسے “قاسم بن محمد بن ابی بکر لکھ دیا”
حوالہ : [ احسن الجوابات – حصہ اول – صفحہ ٦۴ ]