مــسلک حـنفی مـفتی اعـظم قسطنطنیہ شیخ سلـیمان بن ابراھیم القنـدوزی نـقشبندی حنفی
اپـنی کتاب ” یـنابیع المودۃ” میں لکھتے ہیں کہ

کہ ، میں نے امام مـحمد باقر علیہ سلام سے
عرض کـی،، اے ابن رسولِ خدا! بے شـک لوگ
کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نـے امامت کـو امام حسین علیہ سلام کی پشت میں رکـھا ہے
آپ ع نے ارشاد فرمایا:
” آئمہ کرام وہ نفوسِ قدسیہ ہیں ، جن پر رسول اللہ ص نے امامت کی ” نص” بیاں کی ، یہ بارہ
افـراد ہیں،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ جب
مجھے آسمانوں کی سیر کـرائی گئی تو میں نے
آئمہ کرام علیہ سلام کے اسماء کو عرش پر نور سے لکھا ہوا پایا،، یہ بارہ نام تھے،، ان میں پہلا
نام حضرتِ علی علیہ سلام کا تھا آپ کے دو فرزند ” حسنین کریمیں” علی زین العابدین ، محمد باقر ، جعفر صادق ، موسیٰ کاظم ، علی رضا ، محمد تقی ، علی نقی، حسن عسکری ،
اور محمد القائم الحجتہ المھدی علیہ سلام ،
پھر امام محمد باقر علیہ سلام نے ایک لمبی سانس لی اوع ارشاد فرمایا ” بے شک یہ امت
اپنے رب کے کلام کو نہیں سمجھتی جس نے
ان پر ہماری مودۃ واجب کی، اس کے بعد آپ علیہ سلام نے یہ اشعار کہے، 



حوالہ
ینابیع المودۃ از شیخ سلیمان بن ابراھیم الـبلخی قـــندوزی الحـنفی مفتی اعظم قسطنطنیہ اُردو ص نمبر 929 







دخل جندل بن جنادة بن جبير اليهودي على رسول الله (صَلّى اللهُ عليهِ وسَلَّمَ) فقال:
يا محمد أخبرني يا رسول الله عن أوصيائك من بعدك، لأتمسك بهم، فقال (صَلّى اللهُ عليهِ وسَلَّمَ):
أوصيائي الإثنا عشر، قال جندل:
هكذا وجدناهم في التوراة، وقال:
يا رسول الله سمهم لي، فقال (صَلّى اللهُ عليهِ وسَلَّمَ):
أولُهم سيد الأوصياء أبو الأئمة علي، ثم ابناه الحسن والحسين، فاستمسك بهم، ولا يغرنَّك جهل الجاهلين، فإذا ولد علي بن الحسين زين العابدين يقضي الله عليك ويكون آخر زادك من الدنيا شربة لبن تشربه.
فقال جندل:
وجدنا في التوراة وفي كتب الأنبياء إيليا وشبراً وشبيراً، فهذه أسماء علي والحسن والحسين، فمن بعد الحسين ما أساميهم؟ قال (صَلّى اللهُ عليهِ وسَلَّمَ):
إذا انقضت مدة الحسين، فالإمام إبنه علي ويلقب بزين العابدين، فبعده إبنه محمد يلقب بالباقر، فبعده إبنه جعفر يدعى بالصادق، فبعده إبنه موسى يدعى بالكاظم، فبعده إبنه علي ويدعى بالرضا، فبعده إبنه محمد يدعى بالتقي والزكي، فبعده إبنه علي ويدعى بالنقي والهادي، فبعده إبنه الحسن ويدعى بالعسكري، فبعده إبنه محمد يدعى بالمهدي والقائم والحجة، فيغيب ثمَّ يخرج، فإذا خرج يملأ الأرض قسطاً وعدلاً كما مُلئت جوراً وظلماً، طوبى للصابرين في غيبته، طوبى للمقيمين على محبتهم .
حوالہ : القندوزي الحنفي، ينابيع المودة، الباب: 76، ص: 442-443
اسی طرح اہل سنت کے ایک عظیم محدث امام جوینی جو امام الحرمین کے لقب سے مشہور ہیں انہوں نے بھی ایک طویل حدیث نقل کی ہے جس میں بارہ آئمہ معصومین علیہم السلام کے نام موجود ہیں اور وہ بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی…
جوینی مجاھد کی سند سے ابن عباس سے نقل کرتے ہیں :
قدم يهودي يقال له نعثل فقال:
يا محمد أسألك عن أشياء تلجلج في صدري منذ حين، فان أجبتني عنها أسلمت على يديك، قال (صَلّى اللهُ عليهِ وسَلَّمَ): سل يا أبا عمارة، فقال: صف لي ربَّك! فقال (صَلّى اللهُ عليهِ وسَلَّمَ): لا يوصف إلاّ بما وصف به نفسه، وكيف يوصف الخالق الذي تعجز العقول أن تدركه، والأوهام أن تناله، والخطرات أن تحدّه، والأبصار أن تحيط به، جلَّ وعلا عما يصفه الواصفون، ناءٍ في قربه، وقريب في نأيه، هو كيَّف الكيف، وأين الأين، فلا يقال له أين هو، وهو منقطع الكيفيَّة والأينونية، فهو الأحد الصمد كما وصف نفسه، والواصفون لا يبلغون نعته، لم يلد ولم يولد، ولا يكن له كفواً أحد، قال: صدقت يا محمد! فأخبرني عن قولك أنه واحد لا شبيه له، أليس الله واحداً والإنسان واحداً، فقال (صَلّى اللهُ عليهِ وسَلَّمَ): الله عزَّ وعلا واحد، حقيقي، أحديُّ المعني، أي لا جزء ولا تركيب له، والإنسان واحد ثنائي المعني، مركَّب من روح وبدن، قال:
صدقت فأخبرني عن وصيِّك من هو؟ فما من نبي إلاّ وله وصي، وإنَّ نبينا موسى بن عمران أوصى ليوشع بن نون، فقال (صَلّى اللهُ عليهِ وسَلَّمَ):
إنَّ وصيي علي بن أبي طالب، وبعده سبطاي الحسن والحسين، تتلوه تسعة أئمة من صلب الحسين، قال:
يا محمد فسمِّهم لي، قال (صَلّى اللهُ عليهِ وسَلَّمَ):
إذا مضى الحسين فابنه علي، فإذا مضى علي فابنه محمد، فإذا مضى محمد فابنه جعفر، فإذا مضى جعفر فابنه موسى، فإذا مضى موسى فابنه علي، فإذا مضى علي فابنه الحسن، فإذا مضى الحسن فابنه الحجة محمد المهدي، فهؤلاء إثنا عشر.
قال: أخبرني كيفية موت علي، والحسن، والحسين، قال (صَلّى اللهُ عليهِ وسَلَّمَ):
يُقتل علي بضربة على قرنه، والحسن يُقتل بالسم، والحسين بالذبح، قال:
فأين مكانهم؟ قال (صَلّى اللهُ عليهِ وسَلَّمَ):
في الجنة في درجتي، قال (صَلّى اللهُ عليهِ وسَلَّمَ):
أشهد أن لا إله إلا الله، وإنَّك رسول الله، وأشهد أنَّهم الأوصياء بعدك، ولقد وجدتُ في كتب الأنبياء المتقدمة، وفيما عهد إلينا موسى بن عمران (عَليهِ السَّلامُ) أنَّه إذا كان آخر الزمان يخرج نبيٌّ يقال له أحمد ومحمد، هو خاتم الأنبياء، لا نبيَّ بعده،
فيكون أوصياؤه بعده إثنا عشر، أولهم ابن عمه وختنه، والثاني والثالث كانا أخوين من ولده، وتقتل أمة النبي الأول بالسيف، والثاني بالسم، والثالث مع جماعة من أهل بيته بالسيف وبالعطش في موضع الغربة، فهو كولد الغنم، يُذبح ويصبر على القتل لرفع درجاته، ودرجات أهل بيته وذريته، ولإخراج محبيه وأتباعه من النار، وتسعة الأوصياء منهم من أولاد الثالث، فهؤلاء الإثنا عشر عدد الأسباط.
فقال (صَلّى اللهُ عليهِ وسَلَّمَ):
أتعرف الأسباط؟ قال:
ـنعم، إنَّهم كانوا إثنا عشر أولهم لاوي بن برخيا، وهو الذي غاب عن بني إسرائيل غيبة، ثمَّ عاد فأظهر الله به شريعته بعد اندراسها، وقاتل قرسطيا الملك حتى قتل الملك، قال (صَلّى اللهُ عليهِ وسَلَّمَ):
كائن في أمتي ما كان في بني اسرائيل، حذو النعل بالنعل والقذة بالقذة، وإنَّ الثاني عشر من ولدي يغيب حتى لا يُرى، ويأتي على أمتي بزمن لا يبقي من الإسلام إلا إسمه، ولا يبقى من القرآن إلاّ رسمه، فحينئذ يأذن الله تبارك وتعالى له بالخروج، فيظهر الله الإسلام به ويجدده، طوبى لمن أحبهم وتبعهم، والويل لمن أبغضهم وخالفهم
حوالہ : فرائد السمطین نویسنده : الحمویي الجویني، ابراهیم جلد : 2 صفحه : 134
.
.
.
.
اہل سنت عالم دین علامہ وحید الزمان کا بارہ ائمہ علیہم السلام کو ہی حقیقی خلفاء رسول ماننے کا اعتراف
مفسر قرآن اور شارح بخاری و مسلم علامہ وحید الزمان حیدر آبادی اپنی عقیدہ پر لکھی گئی کتاب ہدیۃ المہدی میں لکھتے ہیں:
ولو جرى الحرب بين سيدنا علي وبين معاوية في عصرنا لكنا مع علي ثم بعده مع إمامنا الحسن بن علي ثم بعده مع إمامنا الحسين بن علي ثم بعده مع إمامنا جعفر بن محمد الصادق ثم بعده مع إمامنا علي بن محمد الهادي التقي ثم بعده مع إمامنا الحسن بن علي العسكري النقي ثم إن بقينا إن شاء الله نكون مع إمامنا السيد محمد بن عبد الله المهدي الفاطمي المنتظر هؤلاء الأئمة الإثنا عشر هم الأمراء في الحقيقة إنتهت إليهم خلافة سيد المرسلين ورئاسة الدين المتين فهم شموس سماء الإيمان واليقين وأما ملوك بني أمية والعباسية فلم يكونوا أئمة الدين بل أكثرهم كانوا لصوصا متغلبين سفكوا دماء المسلمين وملأوا الأرض جورا وظلما وعدوانا كما ملأت في عهد النبي وخلفاءه الراشدين عدلا ونورا وإيمانا اللهم احشرنا مع هؤلاء الأئمة الإثنا عشر وثبتنا على حبهم إلى يوم النشر
اور اگر سیدنا علی اور معاویہ کے درمیان جنگ ہو تو ہم علی علیہ السلام کے ساتھ ہونگے۔ پھر ان کے بعد ہمارے امام حسن بن علی علیہما السلام کے ساتھ، پھر ان کے بعد ہمارے امام حسین بن علی علیہما السلام کے بعد۔ پھر ان کے بعد ہمارے امام جعفر بن محمد صادق علیہما السلام کے ساتھ۔ پھر ان کے بعد ہمارے امام علی بن محمد ہادی تقی علیہما السلام کے ساتھ، پھر ان کے بعد ہمارے امام حسن بن علی عسکری نقی علیہما السلام کے ساتھ۔ پھر اگر ہم باقی رہے ان شاء اللہ ہم اپنے امام سید محمد بن عبد اللہ مہدی فاطمی منتظَر کے ساتھ ہونگے۔ یہ بارہ امام ہی در حقیقت امراء ہیں جن تک سید المرسلین کی خلافت اور ریاستِ دینِ متینِ پہنچی ہے۔ پس یہ ایمان و یقین کے آسمان کے آفتاب ہیں۔ اور جہاں تک بنی امیہ اور عباسیہ کے بادشاہوں کی بات ہے تو وہ ائمہ دین نہ تھے بلکہ اکثر لوگ چور اور غلبہ پانے والے تھے جنہوں نے مسلمانوں کا خون بہایا اور زمین کو ظلم و جور سے بھرا جیسا کہ وہ عہد نبی اور خلفاء راشدین میں عدل و نور و ایمان سے پُر تھی۔ بار الہا، ہمیں ان ائمہ اثنا عشر کے ساتھ محشور فرما اور ہمیں ان کی محبت پر قیامت کے دن تک ثابت قدم رکھ۔
هدية المهدي، ص 103
لہذا انہوں نے نہ صرف یہاں ان بارہ ائمہ علیہم السلام کے حقیقی جانشین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کا اعتراف کیا ہے بلکہ ان کے اسماء مقدسہ کے ساتھ ان کی تصریح بھی فرمائی ہے۔ اپنی دوسری کتاب لغات الحدیث میں لکھتے ہیں:
مراد ان بارہ امیروں سے امرا ہیں جو امام مہدی کے بعد امام حسن اور امام حسین کی اولاد سے حکومت کریں گے جیسے حضرت دانیال پیغمبر کی کتاب میں ہے اور جن لوگوں نے مصداق اس حدیث کا خلفائے بنی امیہ اور عباسیہ کو ٹھہرایا ہے انھوں نے غلطی کی ہے چونکہ بنی امیہ اکثر ظالم غاصب اور جابر تھے اور عباسیہ کا عدد بارہ سے زیادہ تھا اہل سنت کے علماء ان میں تراش خراش کرتے ہیں اور خلفائے راشدین کے بعد کچھ لوگوں کو بنی امیہ میں سے لیتے ہیں کچھ عباسیہ میں سے جو ذرا اچھے اور عادل گزرے اور ہم نے ہدیۃ المہدی میں یہ لکھا ہے کہ ان بارہ امیروں سے ائمہ اثنا عشر (بارہ امامؑ) مراد ہیں اور امارت سے دینی پیشوائی اور سرداری مراد ہے نہ کہ حکومت ظاہری واللہ اعلم۔
لغات الحدیث، ج 1، ص 61
پس، اہل سنت عالم دین علامہ وحید الزمان صاحب – دیگر منصف اہل سنت علماء کی مانند – معترف ہیں کہ خلفاء اثنا عشر کی حدیث کا مصداق یہی بارہ ائمہ علیہم السلام ہیں اور اس کے بھی معترف ہیں کہ خلافت یہاں زمینی اقتدار کے معنی میں نہیں بلکہ دینی پیشوائی کے معنی میں ہے۔
بقلم: سید علی اصدق نقوی

