تحریر : سید علی حیدر شیرازی
بنو امیہ اور بنو عباس کے ہاتھوں شیعان علی ع پر مظالم کی تاریخ کے ساتھ ساتھ اہل بیت ع کی علمی وراثت کو نقصان پہنچانے کی بھی ایک افسوسناک تاریخ رہی ہے
علم کے دشمن ہر دور میں تعلیمات دینِ آل محمد ع مٹانے میں کوشاں رہے ، ابتدائی ادوار میں تدوین حدیث پر پابندی لگوائی ، حتی کہ اگر کسی نے تدوین حدیث پر کام کرنا چاہا تو اسے مظالم کا نشانہ بنایا اور شیعہ علماء کے علمی آثار کو دنیا سے روپوش رکھنے کی پوری کوشش کی
ہم تاریخ میں ڈھائے گئے چند مظالم کا زکر کریں گے کہ کس طرح امت نے کتب اور کتابخانے جلائے

بغداد میں ابو جعفر محمد بن حسن طوسی کا کتب خانہ 385ھ تا 420ھ کئی مرتبہ جلایا گیا، آخری مرتبہ 448ھ میں اس طرح جلا کہ اس کا نام ونشان بھی نہ رہا۔
محمد بن حسن بن علی بن طوسی اپ کی کنیت ابو جعفر اور شیخ الطائفہ ہیں فقہ میں جہاں بھی شیخ کا لفظ اکیلا استعمال کیا جاتا ہے تو وہاں شیخ طوسی ہی مراد ہوتے ہیں
بغداد میں ہوئے فسادات میں آپ کا کتب خانہ بھی جلایا گیا
مرزا تنکابنی نے آپ کے حالات میں لکھا ہے کہ بغداد میں ہوئے فتنوں میں آپ کا گھر ، کتابیں ، اور وہ کرسی جس پہ بیٹھ کر آپ درس دیا کرتے تھے ، وہ سب جلا دی گئیں
قصص العلماء ، ص ۴۳۱
اس سانحہ کی وجہ سے شیخ طوسی رح کا قیمتی علماء خزانہ ضائع ہوگیا اور امت ان کی بعض قیمتی تصانیف سے محروم رہی

صاحب بن عباد ایک بہت مصروف عالم دین اور بلند پایا شاعر گزرے ہیں
آپ کے تعارف میں شیخ عبد الحسين الأميني کا کلام کافی و شافی ہوگا
علامہ امینی نے صاحب بن عباد پر ایک مکمل باب قائم کیا ہے ، فرماتے ہیں :
صاحب کافی الكفاة ابو القاسم اسماعیل بن ابو الحسن عباد بن عباس بن عباد بن احمد بن ادریس
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ قادر الکلام شاعر و ادیب کی شخصیت کا تجزیہ کرتے وقت تاریخ و تذکرہ کی مسلمہ شخصیتیں اپنی وقعت و عظمت کے باوصف تذکرہ نگاروں کو لکنت سے دو چار کر دیتی ہیں ، زبانیں خشک ہونے لگتی ہیں ، انہیں عظیم و وقیع شخصیتوں میں صاحب بن عباد بھی ہیں ، ان کی بلندی و کرامت کا آسانی سے احاطہ نہیں کیا جا سکتا بلکہ زندگی شخصیت کے مختلف رخوں کا الگ الگ تجزیہ کرنا پڑتا ہے، کبھی ان کا علم و فن کبھی ادب و انشائیہ نگاری ، کبھی سیاست و تدبر کبھی اصیل نجابت و عظمت ، اس طرح ان کے بے اندازہ شاداب فضائل کی کچھ احاطہ بندی ہو سکتی ہے ان کی معنوی و روحانی عظمت کا بھی اندازہ نہیں بند لگایا جا سکتا ، تذکرہ نگاروں نے ان کے خصائل پسند یا یدہ کا تھوڑا بلکہ دریا سے تھوڑے سے قطرہ ہی پر قناعت کیا ہے صاحب کی عظمت و شخصیت تمام معاشرتی میدانوں میں ممتاز ہے لیکن تاریخ نویسوں نے اشارتی حیثیت پر اکتفا کی ہے ان کے تذکرہ کا قدیم ترین ماخذ تعالی کی قیمۃ الدھر ہے جس میں ان کے او صفحات مختص کئے گئے ہیں۔
الغدیر ج 4 ، ص 54
آگے چل کر علامہ امینی رح نے آپ کے کتب خانہ کی مظلومانہ تاریخ کا نوحہ لکھا ہے
علامہ امینی فرماتے ہیں :
ان کا ایک عظیم وگراں بہا کتاب خانہ بھی تھا ، جس وقت والی خراسان نوح بن منصور سامانی نے اقتدار سنبھالا تو اپنے دربار میں بلا کر ہدایا و تحائف دینے کے بعد وزارت کی پیشکش کی ، صاحب نے معذرت کرتے ہوئے کہا میں اپنے اموال کو منتقل نہیں کر سکتا صرف میرے دفتر کا سامان اور کتب خانہ ہی اس قدر ہے کہ چار سو اونٹوں پر بار کر کے منتقل کیا جائے گا۔
معجم بیہقی کے بقول ان کا ری کا کتب خانہ ان کی عظمت کا گواہ صادق تھا بعد میں سلطان محمود بن سبکتگین نے کچھ حصہ کو جلا ڈالا
میں نے ان کے کتب خانہ کا معائنہ کیا تھا صرف فہرست دس جلدوں میں تھی۔
واقعہ یہ ہے کہ جب سلطان ” رے ” میں داخل ہوا تو اس سے کہا گیا کہ اس میں سبھی رافضیوں کی کتابیں ہیں اس نے حکم دیا کہ علم کلام سے متعلق تمام کتابوں کو جلا دیا جائے ، بیہقی کہتے ہیں تمام نفیس کتابیں جلا دی گئیں آثار شیعیت کو نذر آتش کرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس کتب خانہ کے منتظمین میں ابو بکر مقری اور عبد اللہ بن حسن اصفہانی جیسے لوگ تھے ۔
الغدیر ج 4 ، ص 58

ان کی کنیت ابونصر اور لقب بهاءالدوله ہے
یہ آل بويه کے وزراء میں سے تھے
ان کا مشہور زمانہ کتب خانہ دارالعلم کے نام سے مشہور ہے
سبط ابن جوزى نے متعدد علماء کے اس کتب خانے سے استفادہ کا زکر کیا کے
گذاشت و شيخ ابوبكر محمدبن موسى خوارزمى را نيز مأمور تدريس در آنجا كرد
مرآة الزمان فى تاريخ الاعيان الحقبة ، ج ۱۴، ص ۳۶۶
ياقوت حَمَوى نے ان کے کتب خانے سے متعلق لکھا ہے
ابومنصور خازن، از فقهاى شيعه، نيز كتابدار دارالعلم سابور بوده است. پس از درگذشت سابور نيز، شريف مرتضى علم الهدى اين كتابخانه را اداره مى كرد
شیعہ فقہا میں سے ایک ابو منصور خازن دارالعلم سابور کے کتابدار ( لائبریرین ) بھی تھے۔ سابور کی وفات کے بعد شریف مرتضیٰ عالم الہدی نے اس کتب خانے کا انتظام کیا۔
معجم الادباء ،ج ۵، ص ۲۳۷۶ ، ۲۳۷۷
فتح بن على بُندارى تاريخ دولة آل سلجوق میں اس کتب خانے کی آتش سوزی کا زکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں
دارالعلم و كتابخانه وى تا ۴۵۱ برپا بود، اما در اين سال، در هنگام حضور طغرل بيگ سلجوق در بغداد ، كتابخانه سابور آتش گرفت و بيشتر كتابهاى آن سوخت ہے
دارالعلم اور اس کا کتب خانہ 451 ھ تک قائم تھا لیکن اس سال بغداد میں ہوئے ہنگام میں طغرل بیگ سلجوق کی موجودگی میں سابور کی لائبریری میں آگ لگ گئی اور اس کی بیشتر کتابیں جل گئیں۔
تاريخ دولة آل سلجوق ص۲۰

آية الله شيخ محمّدحسين مظفّر فرماتے ہیں
سلطان محمود غزنوي: مرد متعصّب و خودخواه و متكبّر و مستبد، به جرم شيعي بودن و رواج علم و مكتب تشيّع در ري، لشگري جَرَّار بدانجا گسيل داشت، و اهالي ري را قتل عام نمود، و دستور داد تمام كتابهاي كتابخانه را بيرون كشيدند، در هر كدام نامي و اسمي از تشيّع و ولايت بود بر كناري انباشتند تا همچون تلّ عظيمي بر آمد، و همۀ آنها را طعمۀ حريق ساخت.
كتابخانۀ حلب و كتابخانۀ طرابلس را آتش زدند
سلطان محمود غزنوي ایک متعصب، خود غرض، متکبر اور جابر آدمی تھا ، اس نے شیعہ ہونے کے جرم میں اور رے میں شیعہ علوم و مکتب کو پھیلانے کے جرم میں جرار کی فوج کو وہاں بھیجا اور اس نے رے کے لوگوں کا قتل عام کیا، اور لائبریری میں موجود تمام کتابوں کو منگوایا۔
ان میں سے ہر شیعہ مصنف کا نام اور ولدیت کا نام نکلوایا ، ان کی کتب ایک طرف ڈھیر ہو گئیں یہاں تک کہ وہ ایک بہت بڑی پہاڑی کی مانند چڑھ گئیں ، پھر ان سب کو آگ کا شکار بنا دیا۔
تاريخ الشيعة ، ص 156
ان کتب خانوں کے علاوہ بغداد ، نیشاپور میں کئی مشہور کتب خانے نذر آتش کیے گئے یا کتب کو دریا برد کیا گیا جس میں کئی علمی کے قیمتی آثار بھی ضائع ہوگئے ، یوں ان بدبخت حکمرانوں اور ان کے لشکروں کے ہاتھوں امت نے علم کا نقصان برداشت کیا