تحریر: سید علی اصدق نقوی
شیخ برقی قدس اللہ نفسہ نے المحاسن میں روایت نقل کی ہے:
عَنْهُ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ يَحْيَى الْحَلَبِيِّ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ قَالَ: قَالَ لِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع ۔۔۔ الخ
ابن مسکان کہتے ہیں: امام صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: میں سمجھتا ہوں کہ اگر تمہارے سامنے امام علی علیہ السلام کو گالی دی جائے تو تم گالی دینے والے کی ناک کھا سکتے ہو (یعنی اس کو مار ڈالو گے)۔ میں نے عرض کیا: جی ہاں، خدا کی قسم، میں آپ پر قربان جاؤں، میں بھی ایسا ہوں اور میرے گھر والے بھی۔ امام علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: ایسا نہ کرو، کیونکہ خدا کی قسم، میں کبھی کسی کو امام علی علیہ السلام کو گالی دیتے سنتا ہوں جبکہ اس کے اور میرے درمیان بس ایک ستون ہوتا ہے تو میں اس کے پیچھے چھپ جاتا ہوں۔ پس جب میں اپنی نماز سے فارغ ہوتا ہوں تو اس کے پاس سے گذرتا ہوں تو اس کو سلام کرتا ہوں اور اس سے ہاتھ ملاتا ہوں۔ (1)
ثقۃ الاسلام شیخ کلینی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ اِبْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَبِي اَلصَّبَّاحِ اَلْكِنَانِيِّ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ
ابو الصباح کنانی کہتے ہیں: میں نے امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا: ہمارا ایک پڑوسی ہے ہمدان میں جس کو جعد بن عبد اللہ کہا جاتا ہے۔ وہ ہمارے پاس بیٹھتا ہے تو ہم علی امیر المؤمنین علیہ السلام کا اور ان کی فضیلت کا ذکر کرتے ہیں تو وہ ان کی برائی کرتا ہے۔ تو کیا آپ مجھے اس کے متعلق اجازت دیتے ہیں؟ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اے ابا الصباح! کیا تم ایسا کرو گے؟ میں نے عرض کیا: ہاں، خدا کی قسم، اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں اس کے لیئے گھات میں بیٹھوں گا، پھر جب وہ وہاں آئے گا تو میں اپنی تلوار سے اس پر وار کروں گا اور اس کو گرا دوں گا یہاں تک کہ اس کو قتل کردوں۔ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اے ابا الصباح! یہ “فتک” ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتک سے منع فرمایا ہے اے ابا الصباح! اسلام نے فتک کو مقید کیا ہے، مگر اس کو چھوڑ دو کہ تم کسی اور کے سبب کفایت کرو گے۔۔۔ (2)
اگرچہ یہ روایت سندا قوی نہیں مگر فتک یعنی چھپ کر کسی کے انتظار میں رہنے اور اس کو قتل کرنے کی ممانعت پر اور احادیث بھی موجود ہیں (3)۔ اور ایسی کئی احادیث ہیں جن میں ائمہ علیہم السلام نے سب و شتم کرنے والوں سے درگزر کیا ہے جس کی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں۔ یہ اس ہی طرح ہے جیسے انبیاء علیہم السلام کو ان کی اقوام میں مجنون، مسحور وغیرہما قرار دیا لیکن انہوں نے کبھی بدلے میں شدت پسندی کا مظاہرہ نہ کیا۔ مگر ہاں، جب امام کے پاس حکومتی اقتدار ہو تو اس کے اختیار میں ہے کہ وہ ایسے افراد کو سزا دے کیونکہ یہ موجب اور باعثِ فساد در زمین ہوتے ہیں اور باین صورت ان کی سزا احادیث میں وارد ہے۔ ایک اور حدیث شریف میں وارد ہوا ہے:
۔۔۔ کسی شخص نے امام علیہ السلام سے کہا: اے فرزند رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں آپ سے تولّیٰ کرتا ہوں اور آپ کے بارے میں حق کہتا ہوں، اور میں نے سات افراد کا قتل کیا ہے جن کو امیر المؤمنین علیہ السلام کو گالی دیتے ہوئے سنا ہے، میں نے عبد اللہ بن حسن سے اس بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا تھا: تمہیں ان کا خون کرنے پر مؤاخذہ ہوگا دنیا اور آخرت میں۔۔۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اے ابا خداش! تمہیں چاہیئے کہ ہر فرد جس کو تم نے قتل کیا ہے اس کے عوض ایک بھیڑ کو مِنیٰ میں ذبح کرو کیونکہ تم نے بغیر اجازتِ امام علیہ السلام کے قتل کیا ہے، اور اگر تم نے امام کی اجازت سے ان کو قتل کیا ہوتا تو تم پر دنیا اور آخرت میں کوئی سزا نہ ہوتی۔ (4)
پس ثابت ہوا کہ امام علیہ السلام کا اذن ضروری ہے ایسے امر کی انجام دہی سے قبل، کیونکہ امام حکیم ہوتا ہے اور اس کو معلوم ہوتا ہے کہ کونسا فعل سب سے زیادہ حکمت والا ہے۔ نیز امام معصوم ہوتا ہے تو اس کا کوئی بھی قول و فعل ظلم پر مبنی ہونا محال ہے، لہذا وہ اس صورت میں ہی شرعی حد کے اجراء کا حکم دیں گے جب ان کو معلوم ہوگا کہ یہ فرد معاشرے میں فساد کا باعث ہے اور اب اس کے حق میں اور معاشرے کے حق میں بھی یہی بات بہتر ہے ورنہ یہ خود اپنی روح کو بھی فاسد کرے گا اور معاشرے میں بھی فسادات کا باعث بنے گا۔ لہذا یہ امرِ امام علیہ السلام ہے کہ وہ بالخصوص کسی کو قتل کردینے کا حکم دیں مصلحت اور حکمت اور رحمت اور عدل کے تحت تو اس میں کوئی قُبح نہیں ہے۔
نوٹ: بعض احادیث میں گستاخ کے قتل کا ذکر آیا ہے، مگر ان کی تشریح اور فہم پر فقہاء کے چند اقوال ہیں ہے۔ کچھ فقہاء امامیہ کے نزدیک زمانہ غیبت میں تمام شرعی حدود معطل ہیں کیونکہ ان کا اجراء و اقامہ فقط معصوم کر سکتا ہے (یہ قول اقلیت کا ہے)، جبکہ بعض کے نزدیک مجتہد جامع الشرائط ان شرعی سزاؤں (حدود) کو نافذ کر سکتا ہے اور بعض دیگر علماء کے نزدیک گستاخ کے قاتل کو کسی حاکم شرع سے رجوع کی ضرورت نہیں اور خود اس حد کو جاری کر سکتا ہے۔ جبکہ بعض ان روایات کو حکم ولائی ہونے کے تحت مقید مانتے ہیں نہ کہ مطلق، یعنی یہ خاص اجازت خاص افراد کے لیئے خاص صورتحال میں تھی کیونکہ امام علیہ السلام مخاطب سے بھی واقف تھے اور جس نے گستاخی کی اس سے بھی، اور اس سے کلی حکم اخذ کرنا درست نہیں۔ لیکن ہمارا ہدف فقہی احکام اخذ کرنا نہیں ہے اور یہ بحث فقہاء کے لیئے ہے جس کو ان ہی کے لیئے رہنے دیا جائے۔ بہر حال یہ احادیث آپ کو کتب اربعہ میں نیز وسائل الشیعہ کے ابواب دربارہ ارتداد اور گستاخی میں جمع شدہ ملیں گی نیز ہم ان دونوں موضوعات پر الگ تحاریر بھی لکھ چکے ہیں۔
امر یہاں تک ہے کہ اہل سنت میں سلفیہ کے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا اپنی کتاب میں کہنا ہے جو کہ لکھی ہی گستاخی کی حد پر گئی تھی:
فمن كان من المؤمنين بأرض هو فيها مستضعف أو في وقت هو فيه مستضعف فليعمل بآية الصبر والصفح عمن يؤذي الله ورسوله من الذين أوتوا الكتاب والمشركين
پس مؤمنین میں سے جو بھی ایسی سرزمین میں ہو جہاں وہ کمزور ہو یا ایسے وقت میں جہاں وہ کمزور ہو تو اس کو صبر اور درگزر کی آیت پر عمل کرنا چاہیئے اس کے متعلق جو اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیں اہل کتاب اور مشرکین میں سے۔ (5)
فوائد:
بعض مرویات میں ائمہ علیہم السلام نے گستاخ سے درگزر کرنے کو حتیٰ کہ ہاتھ ملانے اور اچھے سے پیش آنے کا ذکر کیا ہے۔
بعض فقہاء نے زمانہ غیبت میں شرعی حدود کے اقامہ کو معطل مانا ہے کیونکہ ان کے نزدیک معصوم ہی اس کو جاری کر سکتا ہے، اگرچہ دیگر فقہاء اس سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔
اسلام کی سب سے متشدد تعبیر یعنی ابن تیمیہ کے افکار میں بھی اتنی گنجائش ہے کہ جہاں انسان غیر مسلم سرزمین میں ہو یا جب اسلامی حکومت نہ ہو تو وہ درگزر سے کام لے بجائے گستاخ کو قتل کرنے کے۔
مآخذ:
(1) المحاسن، ج 1، ص 259 – 260
(2) الكافي، ج 7، ص 375
(3) مثلا، دیکھیئے: رجال الكشي، الرقم: 1013
(4) الكافي، ج 7، ص 379، تهذيب الأحكام، ج 10، ص 214
(5) الصارم المسلول على شاتم الرسول، ص 221