مروان نے کہا اہل بیت ملعون ہیں

.

عبدالزهراء الغروی

.
حدثنا إبراهيم بن الحجاج السامي، حدثنا حماد بن سلمة، عن عطاء بن السائب، عن أبي يحيى، قال: كنت بين الحسين والحسن، ومروان يتشاتمان فجعل الحسنُ يكفُّ الحسين، فقال مروان: أهل بيت ملعونون. فغضب الحسن، فقال: أقلت: أهل بيت ملعونون؟ فوالله لقد لعنك الله على لسان نبيه صلى الله عليه وسلم وأنت في صلب أبيك)
[مسند أبي يعلى الموصلي، ج١٢، ص١٣٥، رقم الحديث ٦٧٦٤)
ترجمہ ( بحذفِ اسناد) ابو یحیی فرماتے ہیں کہ میں حسن و حسین کے پاس تھا کہ مروان ان دنوں کو شتم کر رہا تھا اور امام حسن امام حسین کو روکنا شروع کیا( کہ مروان کو جواب نہ دیں ) اتنے میں مروان نے کہا :
اَھلُ البَیتِ مَلعُونُونَ
اہل بیت ( نعوذ باللہ ) ملعون ہیں
امام حسن نے فرمایا: کیا کہا تم نے کہ اہل بیت ملعون ہیں؟!!
اللہ کی قسم اللہ نے اپنے نبی کی زبان پر تجھ پر لعنت کی جبکہ تو اپنے باپ کی صُلب میں تھا۔
اسناد : محقق حسین سلیم اسد نے اس روایت کی سند کو کے بارے میں لکھا:
(إسناده صحيح)
یعنی اس حدیث کی اسناد صحیح ہے
ایک ضمنی اعتراض کا جواب :
حماد بن سلمة کے بارے میں امام دار قطنی کا قول نقل کیا جاتا ہے کہ انہوں نے عطاء بن سائب سے بعد از اختلاط سنا لیکن جمہور محدثین نے حماد کی عطاء سے مرویات کو ” مستقیم” کہا ہے جن میں “علامہ طحاوی” بھی ہیں چنانچہ اس جمہور کے مقابلہ میں علامہ دارَقطنی کے قول پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
نیز یہ کہ مروان کا سبّ اور اہل بیت سے بغض سے متعلق اور بھی مروایات ہیں
اور اگر مختلط روای کی روایت کی کوئی متابعت تامہ یا قاصرہ ہی مل جائے صحیح مانی جائے گی۔
نیز یہ کی اسحاق بن راہویہ کے طریق سے بھی یہ حدیث مروی ہے جسے حافظ نے اپنی ” مطالب العالیة میں نقل کیا اور اس حدیث کی سند پر بھی محقق نے ” صحیح ” کا حکم لگایا۔
اس روایت کی سند پر جناب رجب علی صاحب نے ایک اشکال وارد کیا
رجب علی :
ضمنی اعتراض والی بات تو درست ہے لیکن اس سند پر اشکال ابو يحيى الاعرج ھے یا ابو یحییٰ النخعی.
الاعرج تو ثقہ ہے لیکن النحعی مجہول ہے. امام ذہبی نے بھی تعیین ابو یحییٰ نخعی سے کیا ہے اور مجہول کہا ہے.
دوسرے طرق بھی یہی بتاتے ہیں کہ یہاں نخعی مراد ہے نہ کہ الاعرج.
حدثنا أبو معمر، حدثنا جرير، عن عطاء بن السائب، عن أبي يحيى النخعي ” أن الحسن والحسين مر بهما مروان فقال….. [المقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي، برقم : ۱۷۹۲]
قال حماد بن سلمة، وجرير، عن عطاء بن السائب، عن أبي يحيى النخعي قال: كنت بين مروان، والحسن، والحسين، والحسين يساب مروان، فقال مروان: إنكم أهل بيت ملعونون، فغضب الحسن وقال: والله لقد لعن الله أباك على لسان نبيه وأنت في صلبه. أبو يحيى مجهول.
[تاريخ الإسلام – الذهبي – ج ٣ – الصفحة ٣٦٦ ]
.
الجواب :
.
کنیت “ابو یحیی” کے حامل فرد کی ” تعیین ” میں اختلاف ہے لیکن “علامہ ذہبی” کی “تاریخ الإسلام” میں ابو یحیی کے بعد ” النخعی ” ہے پھر اس پر علامہ ذہبی نے ” مجہول” کا حکم لگایا
اسی طرح ذہبی یہی روایت سیر اعلام النبلاء میں لائے اس کے الفاظ یوں ہیں
قال عطاء بن السائب عن ابی یحیی۔۔۔۔الخ
اس روایت میں ” نخعی” نہیں لیکن
روایت کے اختتام پر ذہبی لکھتے ہیں :
و ابی یحیی ھذا نخعی لا اعرفه
اور یہ ابو یحیی ” نخعی ” ہیں میں انہیں نہیں جانتا۔
علامہ ذہبی سے تسامح ہوا ہے وَلو یہ بات مان لی جائے کہ یہاں کہ ابو یحیی سے مراد ابو یحیی” النخعی” ہیں تو بھی وہ مجہول نہیں کہ یہ ” عمیر بن سعید النخعي الصُهباني” ہیں حافظ “تقریب” میں ان کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:
یکنی ابا یحیی کوفي ثقة
ابو یحیی ان کی کنیت ہیں “ثقہ” ہیں۔
نیز صاحبین( بشار عواد المعروف و شعیب الأرناؤوط ) نے حافظ کی موافقت کی ہے ( کما فی تحریر )
یہ کبار تابعین میں سے ہیں نیز امیر المؤمنون( صلوۃ اللہ و سلامه علیہ) سے سماع کیا ہے کما فی صحیح البخاری کتاب الحدود الرقم ٦٧٧٨
“عمر بن سعید النخعي قال سمعت أمير المومنين “
دوسرے صحابہ سے بھی روایت فرماتے ہیں جیسا کہ مزی نے لکھا :
رَوَى عَن: الحسن بْن عَلِيّ بْن أَبي طالب، وسبرة بْن أَبي سبرة الجعفي، وسعد بْن أَبي وقاص، والضحاك بْن قيس الفهري، وعَبْد اللَّهِ بْن مسعود، وعَبْد الرَّحْمَنِ بْن أَبي ليلى، وعلقمة بْن قيس النخعي، وعلي بْن أَبي طالب (خ م د عس ق) ، وعمار بْن ياسر، ومسروق بْن الأجدع، وأبي موسى الأشعري.
لیکن امیر المومنین سے کثرت سے روایت کرتے ہیں۔
سوائے ترمذی کے باقی صاحبانِ کتُب ستّہ ان سے روایت کی ہے۔
البتہ ابن حزم نے عمیر بن سعید کو ” مجہول” کہا
ابن حزم ظاہری لکھتا ہے :
مجهول وروى حديثين عن علي ما نعلم له غيرهما وكلاهما كذب۔
یہ مجہول ہیں انہوں نے امیر المؤمنین سے دو احادیث روایت کی ہیں ان دو روایات کے اعلاہ ہم ان کی احادیث سے واقف نہیں اور دونوں روایات گھڑی ہوئی ہیں۔
اس پر حافظ نے اپنی تھذیب التھذیب ج٣ ص ٣٢٦ پر ابن حزم کے اس قول پر تانیب فرمائی چنانچہ حافظ کے قول کا مفہوم لکھ رہا ہوں کہ:
یہ ابن حزم کا افراط ہے اس نے اپنی “ملل” میں ملائکہ صفت لوگو پر کلام کیا اللہ اس سے درگزر فرمائے نیز امیر المؤمنین سے سعید کی ایک اور روایت پر ہم مطلع ہوئے ہیں
آپ اس کی تفصیل اسکین پیج میں پڑھ لیجئے۔
حقیر ( عبد الزھراء ) کہتا ہے ابن حزم نے یہ لکھ کر انصاف کا خون کیا اور جس سرعت سے انہوں نے ان احادیث کو جھوٹا کہا کوئی محدث اس طرح سرعت سے کام نہیں لیتا و اللہ اعلم
الغرض اگر اس کو نخعی ہی مانا جائے پھر بھی وہ ہرگز ” مجہول” نہیں بلکہ ثقہ ہیں
اور بعید نہیں کہ علامہ ذہبی نے ابن حزم کی اثر کے تحت اس روایت کے ذیل میں اسے مجہول لکھ دیا ہو ورنہ خود ذہبی نے سیر میں انکا ترجمہ کچھ ان الفاظ میں نقل کیا :
عُمَيْرُ بنُ سَعِيْدٍ النَّخَعِيُّ الكُوْفِيُّ
شَيْخٌ، ثِقَةٌ، فَقِيْهٌ
و اللہ اعلم
یہ تو علامہ ذہبی کے کے حکم پر کلام تھا لیکن
ہماری مستدل روایت میں “نخعی” نہیں کیونکہ عُمیر بن سعید کا تذکرہ ہمیں ” عطاء بن سائب ” کے شیوخ میں نہیں ملا و اللہ اعلم
اگر کسی کے علم میں ہو تو ہمیں مطلع کرے۔
البتہ عطاء کے شیوخ میں جن دو افراد کی کنيت ” ابو یحیی” ہے وہ ہیں
1 :- سائب بن مالک ثقفی
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ ” عطاءِ مذکورہ ” کے والد ہیں
یہ ایک قابلِ احتجاج راوی ہیں حافظ نے انہیں تقریب میں “ثقہ” کہا ہے اور صاحبَین نے اس حکم میں انکی موافقت کی ہے۔
دوسری وہی ہیں جن کا جناب ” رجب علی ” صاحب نے تذکرہ فرمایا :
2 :- زیاد الاعرج المکي القرشي ابو یحیی
یہ بھی ثقہ ہیں حافظ نے ان کا ترجمہ کچھ ان الفاظ میں نقل فرمایا:
زیاد ابو یحیی المکي و یقال الکوفي الأعرج مشهور بكنيته ثقة من الثالثة ۔دس۔
ترجمہ: زیادہ ابو یحیی المکی اور کہا جاتا ہے کوفی
اعرج ” اپنی کنیت سے مشہور ہیں ” ثقہ ہیں تیسرے طبقہ میں سے ۔ ان سے ابوداؤد اور نسائی نے روایت کی ہے۔
اقول : صاحبین نے حافظ کے قول کی موافقت کی ہے
چنانچہ عطاء کے یہ وہ دو شیوخ ہیں جن کی کنیت ” ابو یحیی ” ہے اور دونوں ” ثقہ” ہیں قریب قیاس یہی ہے کہ یہ زیاد الاعرج ہوں جیسا کہ حافظ نے لکھا کہ اپنی کنیت سے یہی شہرت رکھتے ہیں مزید برآں جب کسی نام یا کنیت کی تعیین میں اختلاف ہو تو ” شہرت” تعیین میں مددگار ثابت ہوتی ہے الا یہ کوئی قرینہ اس کے خلاف ہو
نیز علامہ دولابی نے ” الکنی و الاسماء 1191 ” میں صراحت کہ :
و ابو یحیی الذي یروی عنه حسين و عطاء بن سائب اسمه زياد المكي
ترجمہ : اور ( وہ ) ابو یحیی جس سے حصین اور عطاء بن سائب روایت کرتے ہیں وہ زیاد المکی ہیں۔
اس کے اعلاوہ جدید تحکیم کرنے والوں نے بھی یہاں ” زیاد الاعرج” ہی مراد لیا چنانچہ ” المطالب العالية ” كے محقق نے بالجزم کہا :
قلت: ابو یحیی ھو زیاد المکی ( المطالب العالية ج١٨ ص ٢٥٦ )
میں کہتا ہوں ان ادلہ میں اہل انصاف کے لئے سامانِ تسکینِ قلوب ہے
لیکن اگر شکوک و شبہات ” دقت و احتیاط” کا لبادہ اوڑھے تا ایں قائم ہوں تو ہم کہتے ہیں ” عدمِ تعیین” یہاں مضر نہیں
کیونکہ ابو یحیی زیاد ہوں یا سائب تحکیم ایک ہی ہے اور یہ کہ یہ اثر ” صحیح ” ہے
کیونکہ دنوں روات ثقہ ہیں
عدمِ تعیین یا جہالت وہ مضر ہے جس سے احکامات پر فرق پڑتا ہو امّا جب حکم پر کوئی فرق نہیں پڑتا تو یہ مضر نہیں کیونکہ ثمرہ ” صحت و سقم ” اس کے باوجود بر آوار ہے ۔
اور اگر نخعی ہیں تو وہ ہرگز مجہول نہیں بلکہ ثقہ ہیں
مزید برآن مروان کے ملعون ہونے پر اس روایت کے متابعات و شواہد موجود ہیں۔
و اللہ اعلم
.
.
*مروان ، امیر المومنین علی بن ابی طالب ( علیہ السلام) کو گالیاں بکتا تھا*
عن عمیر بن اسحاق قال : کان مروان اميرا علينا ستّ سنین فكان یسبّ علیا کل جمعة ثم عزل ثم استعمل سعید بن العاص سنتین فكان لا یسبه ثم اعید مروان فكان يسبه ( العلل للامام احمد بن حنبل ج 3 ص 176 )
عمیر بن اسحاق کہتے ہیں: مروان ہمارا سات سال حکمران رہا اور وہ علی کو ہر جمعہ گالیاں دیتا تھا پھر وہ معزول کیا گیا اور سعید بن عاص دو سال آئے وہ اس ( علی ) کو گالیاں نہیں دیتے تھے پھر مروان کو پلٹایا گیا اور وہ علی کو گالیاں بکتا تھا۔
محقق وصي اللہ العباس : اسناده صحیح
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔