ملعون ابن ملعون مروان بن حکم

⚔ آج کل ملعون ابن ملعون مروان بن حکم کو بھی امیر المومنین بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، اس ملعون کی اصلیت آپ کے سامنے رکھتا ہوں⚔

1️⃣ حکم بن ابی العاص اور مروان پر لعنت بزبان رسول ص

.

6484 – حدثنا : ‏ ‏ابن نمير ‏ ، حدثنا : ‏ ‏عثمان بن حكيم ‏ ‏، عن ‏ ‏أبي امامة بن سهل بن حنيف ‏ ‏، عن ‏ ‏عبد الله بن عمرو ‏، ‏قال : ‏ ‏كنا جلوسا عند النبي ‏ (ص) ‏ ‏وقد ذهب ‏ ‏عمرو بن العاص ‏ ‏يلبس ثيابه ليلحقني ، فقال : ونحن عنده ‏ ‏ليدخلن عليكم رجل لعين ، فوالله ما زلت وجلا أتشوف داخلا وخارجا حتى دخل فلان ‏ ‏يعني ‏ ‏الحكم.

📚 مسند الإمام أحمد بن حنبل مسند المكثرين من الصحابة
مسند عبد الله بن عمرو بن العاص (ر) الجزء : ( 2 ) – رقم الصفحة : ( 163 )

3167 – حدثنا : محمد بن عبد الله الحضرمي ، ثنا : ضرار بن صرد ، ثنا : عائذ بن حبيب ، عن إسماعيل بن أبي خالد ، عن عبد الله المدني ، عن عبد الرحمن بن أبي بكر ، قال : كان الحكم بن أبي العاص يجلس عند النبي (ص) ، فإذا تكلم النبي (ص) اختلج أولا ، فبصر به النبي (ص) ، فقال : أنت كذاك ، فما زال يختلج حتى مات.

📚 الطبراني – المعجم الكبير – باب الحاء – الحكم بن أبي العاص بن أمية …الجزء : ( 3 ) – رقم الصفحة : ( 214 )

.

مروان وہ ہے جس کے بارے میں پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا تھا:

ھو الوزغ ابن الوزغ، الملعون ابن الملعون،

وہ ملعون ہے اور ملعون کا بیٹا ہے۔

📚 شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج 16 ص 47

.

رسول ﷺ کا مروان اور اس کے باپ حکم دونوں پر لعنت کرنا

حاکم نیشاپوری نقل کرتے ہیں :

📜 حدثنا علي بن محمد بن عقبة الشيباني ، ثنا أحمد بن محمد بن إبراهيم المروزي الحافظ ، ثنا علي بن الحسين الدرهمي ، ثنا أمية بن خالد ، عن شعبة ، عن محمد بن زياد ، قال : لما بايع معاوية لابنه يزيد ، قال مروان : سنة أبي بكر ، وعمر ، فقال عبد الرحمن بن أبي بكر : سنة هرقل ، وقيصر ، فقال : أنزل الله فيك : ( والذي قال لوالديه أف لكما ) الآية ، قال : فبلغ عائشة – رضي الله عنها – ، فقالت : كذب والله ما هو به ، ولكن ” رسول الله – صلى الله عليه وآله وسلم – لعن أبا مروان ومروان في صلبه ” فمروان قصص من لعنة الله – عز وجل – “

هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ، ولم يخرجاه .

(بحدف سند و اول متن)

📝 عائشہ کہتی ہے کہ رسول ﷺ نے مروان کے بابا جان اور مروان جب وہ اپنے بابا کے صلب میں تھا ان دونوں پر لعنت کی

📚 حوالہ: المستدرك على الصحيحين جلد ٨ ص ٢٥٨ و ٢٥٩

علامہ ابن حجر عسقلانی نے مروان اور اس کے باپ کے اوپر لعنت کے بارے میں کہا:

📜 وقد وردت أحاديث في لعن الحكم والد مروان وما ولد أخرجها الطبراني وغيره غالبها فيه مقال وبعضها جيد

📝 اور حکم اور اس کے بیٹے مروان کی لعنت پر روایات وارد ہوئیں ہیں جس کو طبرانی اور دیگر مصنفین نے نقل کیا ان میں سے اکثر کی صحت میں کلام ہے لیکن بعض روایات
(کی سند) بہترین ہے۔

📚 حوالہ: فتح الباری جلد ١٣ ص ٩ باب: قول النبي صلى الله عليه وسلم هلاك أمتي على يدي أغيلمة سفهاء

 

‏مروان کو حضورﷺ نے دیکھ کر فرمایا کہ یہ ملعون ابن ملعون ہے
*مختصر استدراك الذهبي على مستدرك الحاكم ـ ج 7
امام حاکم کے نزدیک۔صحیح اور زہبی کے نزدیک ایک راوی ضیعیف ہے
معاویہ کے بر سر اقتدار آنے کے بعد مروان کو مدینہ کا گورنر مقرر کیا گیا۔

.

2️⃣ مروان کا امام علیؑ و اہل بیت ع پر سب و شتم کرنا

.

📜 کان یسب علیا کل جمعة على المنبر وقال له الحسن بن على لقد لعن الله أباک الحکم وأنت فى صلبه على لسان نبیه فقال لعن الله الحکم وما ولد

📝 مروان منبر سے ہر جمعہ کو مولا علی ع پر لعن طعن کرتا تھا ، امام حسن علیہ السلام نے مروان کو کہا کہ اللہ نے اپنے نبی کی زبان سے تمھارے باپ اور تم پر لعنت کی ہے ، نبی نے فرمایا ہے کہ اللہ کی لعنت ہو حکم اور اس کے بیٹے پر [ مروان پر]

ابن کثیر کتاب البدایہ و النہایہ میں لکھتے ہیں :

📜 ومروان كان أكبر الأسباب في حصار عثمان لأنه زور على لسانه كتاباً إلى مصر بقتل أولئك الوفد، ولما كان متولیاً على المدینة لمعاویة كان یسب علیاً كل جمعة على المنبر . وقال له الحسن بن علي : لقد لعن اللہ أباك الحكم وأنت في صلبه على لسان نبیه فقال : لعن اللہ الحكم وما ولد واللہ أعلم .

📝 جب مروان مدینے کا گورنر تھا تو وہ علی ابن ابی طالب پر ہر جمعے کی نماز کے بعد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے منبر مبارک پر چڑھ کر سب (برا کہنا، گالیاں دینا)کیا کرتا تھا۔

📚 البدایہ و النہایہ، ج 8 ص 285

حافظ جلال الدین سیوطی نے اسی چیز کا ذکر عمیر ابن اسحق سے کیا ہے کہ :

📝 عمیر ابن اسحق سے مروی ہے کہ مروان ہم پر امیر تھا اور وہ علی ابن ابی طالب پر ہر جمعہ کی نماز کے بعد منبر رسول (ص) سے سب کرتا تھا جبکہ حسن اسے سن رہے ہوتے تھے لیکن کوئی جواب نہ دیتے تھے۔

📚 تاریخ الخلفاء، صفحہ 199

اور امام الذھبی بھی یہی بات لکھ رہے ہیں :

📝 مروان بن الحکم ہر جمعے کے خطبے کے بعد علی ابن ابی طالب پر سب کیا کرتا تھا . اور مروان کی اس سنت کو اسکے خاندان والوں نے جاری رکھا،

📚 تاریخ الاسلام، جلد دوم، صفحہ 288

.

صحیح مسلم میں روایت ہے کہ

📜 6382 حَدَّثَنَا قُتَیْبَةُ بْنُ سَعِیدٍ، حَ دَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ، یَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي، حَازِمٍ عَنْ – – سَھْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ اسْتُعْمِلَ عَلَى الْمَدِینَةِ رَجُلٌ مِنْ آلِ مَرْوَانَ قَالَ فَدَعَا سَھْلَ بْنَ سَعْدٍ فَأَمَرَہُ – – أَنْ یَشْتِمَ عَلِیًّا قَالَ فَأَبَى سَھْلٌ فَقَالَ لَهُ أَمَّا إِذْ أَبَیْتَ فَقُلْ لَعَنَ اللہَُّ أَبَا التُّرَابِ . فَقَالَ سَھْلٌ مَا كَانَ – – لِعَلِيٍّ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَیْهِ مِنْ أَبِي التُّرَابِ وَإِنْ كَانَ لَیَفْرَحُ إِذَا دُعِيَ بِھَا . فَقَالَ لَهُ أَخْبِرْنَا عَنْ قِصَّتِهِ لِمَ سُمِّيَ أَبَا تُرَابٍ قَالَ جَاءَ رَسُولُ اللہَِّ صلى اللہ علیه وسلم بَیْتَ فَاطِمَةَ فَلَمْ یَجِدْ عَلِیًّا فِي الْبَیْتِ فَقَالَ ” أَیْنَ ابْنُ عَمِّكِ ” . فَقَالَتْ كَانَ بَیْنِي وَبَیْنَهُ شَىْءٌ فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ فَلَمْ یَقِلْ عِنْدِي فَقَالَ رَسُولُ اللہَِّ صلى اللہ علیه وسلم لإِنْسَانٍ ” انْظُرْ أَیْنَ ھُوَ ” . فَجَاءَ فَقَالَ یَا رَسُولَ اللہَِّ ھُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ . فَجَاءَہُ رَسُولُ اللہَِّ صلى اللہ علیه وسلم وَھُوَ مُضْطَجِعٌ قَدْ سَقَطَ رِدَاؤُہُ عَنْ شِقِّهِ فَأَصَا بَهُ تُرَابٌ فَجَعَلَ رَسُولُ اللہَِّ صلى اللہ علیه وسلم یَمْسَحُهُ عَنْهُ وَیَقُولُ ” قُمْ أَبَا التُّرَابِ قُمْ أَبَا التُّرَابِ ”

📝 سہل روایت کرتے ہیں کہ مدینہ میں مروان کے خاندان میں سے ایک شخص حاکم ہوا اور اس نے سہل کو بلایا اور حکم دیا [فَأَمَرَہ أَنْ یَشْتِمَ عَلِیًّا] کہ وہ علی ابن ابی طالب کو گالی دے۔ سہل نے انکار کیا۔ اس پر وہ حاکم بولا کہ اگر تو گالی دینے سے انکار کرتا ہے تو کہہ لعنت ہو اللہ کی ابو تراب پر۔ ۔۔۔۔۔

علامہ ابن حجر مکی الھیثمی نے اپنی مشہور شیعہ مخالف کتاب ‘السوائق المحرقہ’ میں یہ صحیح روایت نقل کرتے ہیں :

بزاز کی روایت میں ہے کہ اللہ نے حکم [والد مروان] اور اسکے بیٹے پر لعنت کی لسان نبوی کے ذریعے سے۔

اور ثقہ راویوں کی سند کے ساتھ مروی ہے کہ جب مروان کو مدینے کا گورنر بنایا گیا تو وہ منبر پر ہر جمعے میں علی ابن ابی طالب پر سب و شتم کرتا تھا۔

پھر اسکے بعد حضرت سعید بن عاص گورنر بنے تو وہ علی پر سب نہیں کرتے تھے۔

پھر مروان کو دوبارہ گورنر بنایا گیا تو اس نے پھر سب و شتم شروع کر دیا۔

حضرت حسن کو اس بات کا علم تھا لیکن آپ خاموش رہتے تھے اور مسجد نبوی میں عین اقامت کے وقت ہی داخل ہوتے تھے

لیکن

مروان اس پر بھی راضی نہ ہوا یہاں تک کہ اس نے حضرت حسن کے گھر میں ایلچی کے ذریعے ان کو اور حضرت علی کو گالیاں دلوا بھیجیں۔

📚 السوائق المحرقہ

ان لفویات میں سے ایک یہ بات بھی تھی کہ ‘تیری مثال میرے نزدیک خچر کی سی ہے کہ جب اس سے پوچھا جائے کہ تیر باپ کون ہے تو وہ کہے کہ میری ماں گھوڑی ہے۔’

حضرت حسن نے یہ سن کر قاصد سے کہا کہ تو اسکے پاس جا اور اُس سے کہہ دے کہ خدا کی قسم میں تجھے گالی دے کر تیرا گناہ کم نہیں کرنا چاہتا۔ میری اور تیری ملاقات اللہ کے یہاں ہو گی۔ اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔ اللہ نے میرے نانا جان (ص) کو جو شرف بخشا ہے وہ اس سے بلند و برتر ہے کہ میری مثال خچر کی سی ہو۔

ایلچی نکلا تو جناب حسین سے اسکی ملاقات ہو گئی اور انہیں بھی اس نے گالیوں کے متعلق بتایا۔

حضرت حسین نے اسے پہلے تو دھمکی دی کہ خبردار جو تم نے میری بات بھی مروان تک نہ پہنچائی اور پھر فرمایا کہ:

‘اے مروان تو ذرا اپنے باپ اور اسکی قوم کی حیثیت پر بھی غور کر۔ تیرا مجھ سے کیا سروکار، تو اپنے کندھوں پر اپنے اس لڑکے کو اٹھاتا ہے جس پر رسول اللہ (ص) نے لعنت کی ہے’۔۔۔۔۔۔

📚 السوائق المحرقہ

اور عمدہ سند کے ساتھ یہ بھی مروی ہے کہ مروان نے عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تو وہ ہے جس کے بارے میں قرآن میں یہ آیت اتری: ‘جس نے کہا اپنے والدین سے کہ تم پر اُف ہے۔’۔۔۔۔ عبدالرحمن کہنے لگے: ‘تو نے جھوٹ کہا، بلکہ رسول اللہ )ص( نے تیرے والد پر لعنت کی تھی’۔

📚 السوائق المحرقہ
📚 تاریخ الخلفاء

.

3️⃣ مروان کا رسول اللّه کی سنت تبدیل کرنے پر ملعون ٹہرنا

.

186 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَیْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، كِلاَھُمَا عَنْ قَیْسِ بْنِ مُ سْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، – وَھَذَا حَدِیثُ أَبِي بَكْرٍ قَالَ أَوَّلُ مَنْ بَدَأَ بِالْخُطْبَةِ یَوْمَ الْعِیدِ قَبْلَ الصَّلاَةِ مَرْوَانُ فَقَامَ إِلَیْهِ رَجُلٌ – فَقَالَ الصَّلاَةُ قَبْلَ الْخُطْبَةِ . فَقَالَ قَدْ تُرِكَ مَا ھُنَالِكَ . فَقَالَ أَبُو سَعِیدٍ أَمَّا ھَذَا فَقَدْ قَضَى مَا عَلَیْهِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللََِّّ صلى اللَّ علیه وسلم یَقُولُ ” مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہِ فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وَذَلِكَ أَضْعَفُ الإِیمَانِ ” .

طارق بن شہاب کہتے ہیں: یہ مروان بن الحکم تها جس نے سب سے پہلے خطبے کو عید کی نماز پر مقدم کرنے کی بدعت جاری کی۔ ایک آدمی کهڑا ہوا اور کہنے لگا: ‘نماز خطبے سے پہلے ہونی چاہیے’۔ اس پر مروان نے کہا: ‘یہ چیز ترک ہو چکی ہے’۔ اس پر ابو سعید نے فرمایا: ‘اس شخص [مروان] نے وہی کچه کیا ہے جو فرض اس کے ذمے لگایا گیا تها۔۔۔۔

📚 صحیح مسلم، کتاب الایمان

.

ابو سعید خدری کہتے ہیں : ۔۔۔۔ جب عید کی نماز کا وقت ہوا تو مروان نے چاہا کہ وہ منبر پر چڑھ کر نماز سے قبل خطبہ دے۔

اس پر میں نے اُسے کپڑوں سے پکڑ لیا، لیکن اُس نے اپنے کپڑے جھٹکے سے چھڑا لیے اور منبر پر چڑھ کر اس نے خطبہ دیا۔

میں نے مروان سے کہا: ‘اللہ کی قسم تم نے رسول (ص) کی سنت تبدیل کر دی ہے’۔

اس پر مروان نے جواب دیا: ‘وہ دن گئے جن کا تم ذکر کر رہے ہو’۔ اس پر میں نے کہا کہ میں جو کچھ جانتا ہوں وہ اس سے بہتر ہے جو میں نہیں جانتا۔

اس پر مروان نے جواب دیا: ‘لوگ عید کی نماز کے بعد خطبہ سننے کے لیے نہیں بیٹھتے لہذا میں خطبہ عید کی نماز سے پہلے ادا کر لیتا ہوں’۔

📚 صحیح بخاری(انگریزی)، کتاب 15 ، حدیث76

.

دیوبند کے امام محمد انور شاہ کشمیری صحیح بخاری کی شرح ‘فیض الباری شرح صحیح بخاری’ میں لکھتے ہیں :

📜 ثم إن من السُّنة تقدیمَ الصلاةِ على الخُطبة. وإنما قَدَّمھا مراونُ على الصلاةِ لأنه كان یَسُبُّ علیًا رضي اللہ عنه

📝 سنت نبوی یہ ہے کہ نماز کو خطبے سے پہلے ادا کیا جائے، لیکن مروان بن الحکم نے خطبے کو نماز پر پہلے جاری کر دیا کیونکہ وہ خطبے میں علی (رض) کو برا بھلا کہتے تھے۔

📚 فیض الباری شرح صحیح بخاری، جلد 1، صفحہ 722 ، روایت: 954 ، کتاب العیدین

.

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الْمَوَالِي الْمُزَنِيُّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَوْهَبٍ عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةٌ لَعَنْتُهُمْ وَلَعَنَهُمْ اللَّهُ وَكُلُّ نَبِيٍّ كَانَ الزَّائِدُ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَالْمُكَذِّبُ بِقَدَرِ اللَّهِ وَالْمُتَسَلِّطُ بِالْجَبَرُوتِ لِيُعِزَّ بِذَلِكَ مَنْ أَذَلَّ اللَّهُ وَيُذِلَّ مَنْ أَعَزَّ اللَّهُ وَالْمُسْتَحِلُّ لِحُرُمِ اللَّهِ وَالْمُسْتَحِلُّ مِنْ عِتْرَتِي مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَالتَّارِكُ لِسُنَّتِي قَالَ أَبُو عِيسَى هَكَذَا رَوَى عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الْمَوَالِي هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَوْهَبٍ عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَحَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَوْهَبٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا وَهَذَا أَصَحُّ

ترجمہ:

عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’ چھ قسم کے لوگ ایسے ہیں جن پر میں نے، اللہ تعالیٰ نے اور تمام انبیاء نے لعنت بھیجی ہے: اللہ کی کتاب میں اضافہ کرنے والا، اللہ کی تقدیر کو جھٹلانے والا، طاقت کے ذریعہ غلبہ حاصل کرنے والا تاکہ ا س کے ذریعہ اسے عزت دے جسے اللہ نے ذلیل کیا ہے، اور اسے ذلیل کرے جسے اللہ نے عزت بخشی ہے،اللہ کی محرمات کو حلال سمجھنے والا ، میرے کنبہ میں سے اللہ کی محرمات کو حلال سمجھنے والا اور میری سنت ترک کرنے والا’۔
امام ترمذی کہتے ہیں: عبدالرحمن بن ابوموالی نے یہ حدیث اسی طرح ‘عن عبیداللہ بن عبدالرحمن بن موہب عن عمرۃ عن عائشۃ عن النبی ﷺ’ کی سند سے روایت کی ہے۔ سفیان ثوری ، حفص بن غیاث اور کئی لوگوں نے اسے ‘عن عبیداللہ بن عبدالرحمن بن موہب عن علی بن حسن عن النبی ﷺ’ کی سند سے مرسلاً روایت کیا ہے۔ یہ زیادہ صحیح ہے۔

جامع ترمذی حدیث نمبر: 2154

کتاب: تقدیرکے احکام ومسائل

تقدیر پر ایمان لانے کے معاملے کا بڑا ہونا

حکم: حسن

.

.

4️⃣ مروان قاتلِ (صحابی رسول) جناب حضرت طلحہ

.

اہل سنت کی معتبر کتب میں یحیی ابن سعید سے روایت ہے :

📝 جب طلحہ نے میدان جنگ سے پسپا ہونا شروع کیا تو اس وقت طلحہ کے لشکر کی صفوں میں مروان بن حکم بھی موجود تھا۔ مروان بن حکم اور بنی امیہ، طلحہ کو عثمان کا قاتل سمجھتے تھے۔ مروان نے طلحہ پر ایک تیر کھینچ کر چلایا، جس سے وہ بری طرح زخمی ہو گیا۔ پھر اس نے ابان )جو عثمان کا بیٹا تھا ( سے کہا: ‘میں نے تمہیں تمہارے باپ کے ایک قاتل سے نجات دلا دی ہے۔’ طلحہ کو بصرہ میں ایک اجڑے ہوۓ گھر میں منتقل کر دیا گیا جہاں اس کا انتقال ہوا۔

سنی حوالے :

1. طبقات ابن سعد، ج 3، ص 159
2. ابن حجر عسقلانی، الاصابہ، ج 3، ص 532
3. تاریخ ابن اثیر، ج 3، ص 244
4. اسد الغابہ، ج 3، ص 87
5. ابن عبد البر، الاستیعاب، ج 2،ص 766

.

حافظ ابن حجر الاصابۃ میں کہتے ہیں :

وأخرج أبو القاسم البغوي بسند صحيح عن الجارود بن أبي سبرة قال: لما كان يوم الجمل نظر مروان إلى طلحة، فقال: لا أطلب ثأري بعد اليوم، فنزع له بسهم فقتله.

(ابو القاسم البغوی نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے جارود بن ابی سبرہ سے کہ جنگ جمل کے دوران مروان بن حکم نے حضرت طلحہ کی طرف دیکھا اور کہا: میں آج اس دن کے بعد اپنا بدلا نہیں لوں گا پھر اس نے حضرت طلحہ کو تیر مار کر قتل کردیا۔)

اہلحدیث زبیر علی زئی نے اس روایت کو اپنی کتاب “فضائل صحابہ صحیح احادیث کی روشنی میں” صحیح کہا ہے

.

📜 5646 – حدثني : محمد بن ظفر الحافظ ، وأنا سألته ، حدثني : الحسين بن عياش القطان ، ثنا : الحسين ، ثنا : يحيى بن عياش القطان ، ثنا : الحسين بن يحيى المروزي ، ثنا : غالب بن حليس الكلبي أبو الهيثم ، ثنا : جويرية بن أسماء ، عن يحيى بن سعيد ، ثنا : عمي ، قال : لما كان يوم الجمل نادى علي في الناس : لا ترموا أحدا بسهم ، ولا تطعنوا برمح ، ولا تضربوا بسيف ، ولا تطلبوا القوم ، فإن هذا مقام من أفلح فيه ، فلح يوم القيامة ، قال : فتوافقنا ، ثم إن القوم ، قالوا : بأجمع : يا ثارات عثمان ، قال : وابن الحنفية امامنا بربوة معه اللواء ، قال : فناداه علي ، قال : فأقبل علينا يعرض وجهه ، فقال : يا أمير المؤمنين ، يقولون : يا ثارات عثمان ، فمد علي يديه ، وقال : اللهم أكب قتلة عثمان اليوم بوجوههم ، ثم إن الزبير ، قال : للأساورة كانوا معه ، قال : ارموهم برشق ، وكأنه أراد أن ينشب القتال ، فلما نظر أصحابه إلى الانتشاب لم ينتظروا وحملوا فهزمهم الله ، ورمى مروان بن الحكم طلحة بن عبيد الله بسهم فشك ساقه بجنب فرسه ، فقبض به الفرس حتى لحقه فذبحه فالتفت مروان إلى أبان بن عثمان وهو معه ، فقال : لقد كفيتك أحد قتلة أبيك۔

📚 الحاكم النيسابوري – المستدرك على الصحيحين
كتاب معرفة الصحابة (ر) – ذكر وقعة الجمل
الجزء : ( 3 ) – رقم الصفحة : ( 371 )

📜 12096 – حدثنا : أبو أسامة ، أنا : إسماعيل ، أنا : قيس ، قال : رمى مروان طلحة يوم الجمل بسهم في ركبته فمات ، فدفناه على شاطئ الكلاء ، فرآى بعض أهله ، أنه قال : الا تريحوني من هذا الماء ، فإني غرقت ثلاث مرات يقولها ، قال : فنبشوه ، فاشتروا له دارا من دار آل أبي بكرة بعشرة الآف فدفنوه فيها۔

📚 ابن أبي شيبة – الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار
كتاب الجنائز – في نبش القبور
الجزء : ( 3 ) – رقم الصفحة : ( 60 )

📜 – …. وروى خليفة في تاريخه من طريق إسماعيل بن أبي خالد ، عن قيس بن أبي حازم ، قال : رمى طلحة يوم الجمل بسهم في ركبته فكانوا إذا أمسكوها انتفخت وإذا أرسلوها انبعثت ، فقال : دعوها.

– …. وروى بن عساكر من طريق متعددة : أن مروان بن الحكم هو الذي رماه فقتله منها.

– …. وأخرجه أبو القاسم البغوي بسند صحيح ، عن الجارود بن أبي سبرة ، قال : لما كان يوم الجمل نظر مروان إلى طلحة ، فقال : لا أطلب ثأري بعد اليوم فنزع له بسهم فقتله.

– …. وأخرج يعقوب بن سفيان بسند صحيح ، عن قيس بن أبي حازم : أن مروان بن الحكم رأى طلحة في الخيل ، فقال : هذا أعان على عثمان فرماه بسهم في ركبته فما زال الدم يسيح حتى مات ، أخرجه عبد الحميد بن صالح ، عن قيس.

– …. وأخرج الطبراني من طريق يحيى بن سليمان الجعفي ، عن وكيع بهذا السند ، قال : رأيت مروان بن الحكم حين رمى طلحة يومئذ بسهم فوقع في عين ركبته فما زوال الدم يسيح إلى أن مات ، وكان ذلك في جمادى الأولى سنة ست وثلاثين من الهجرة ، وروى بن سعد : أن ذلك كان في يوم الخميس لعشر خلون من جمادى الآخرة وله أربع وستون سنة.

📚 ابن حجر العسقلاني – الإصابة في تمييز الصحابة – حرف الطاء المهملة
القسم الأول – الطاء بعدها اللام – 4285 – طلحة بن عبيد الله
الجزء : ( 3 ) – رقم الصفحة : ( 432 )

⚔مروان نے اھل سنت کے عشر مبشر والے صحابی طلحہ کو قتل کیا⚔

❄طبرانی نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ قیس بن ابی حازم نے فرمایا :

رأيت مروان بن الحكم حين رمى طلحة يومئذ بسهم فوقع في عين ركبته فما زوال الدم يسيح إلى أن مات

میں نے مروان بن حکم کو تیر پھینکتے ہوئے دیکھا جو حضرت طلحہ کے گھٹنے میں پیوست ہو گیا تھا ، جس کے باعث مسلسل خون بہتا رہا یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی

⛔معجم الکبیر – طبرانی // جلد ۱ // صفحہ ۷۲ // رقم ۲۰۱ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔

❄نور الدین ھیثمی نے اس روایت کے بارے میں یوں کہا :

اس کو طبرانی نے روایت کیا ہے اور اسکے تمام راوی صحیح ہے۔

⛔مجمع الزوائد – ھیثمی // جلد ۸ // صفحہ ۱۴۸ // رقم ۱۴۸۲۲ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔

⚠نوٹ : کچھ حضرات کہتے ہیں کہ قیس بن ابی حازم جنگ جمل میں شامل ہی نہیں تھا اسلے وہ حدیث الحواب کا بھی انکار کرتے ہیں جبکہ اس میں صراحت کے ساتھ قیس بن ابی حازم بول رہا ہے کہ اس نے خود دیکھا مروان ایسا کر رہا تھا جس سے مرسل والا اعتراض رفع ہوجاتا ہے۔۔۔الحمدللہ۔

❄ابن حجر عسقلانی نے طلحہ کے زیل میں یوں لکھا ہے :

خلیفہ بن خیاط نے اپنی تاریخ میں اسماعیل بن خالد سے جنہوں نے قیس بن ابی حازم سے روایت کیا ہے کہ جمل کے دن حضرت طلحہ کے گھٹنے میں تیر پھینکا گیا ، جب اس تیر کو روکتے تو گھٹنا پھول جاتا اور چھوڑتے تو گھٹنا ظاھر ہوجاتا ۔ آپ نے فرمایا : اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو ۔

ابن عساکر نے متعدد طرق کے ساتھ روایت کیا ہے کہ جس شخص نے حضرت طلحہ پر تیر پھینکا تھا وہ مروان بن حکم تھا ۔

اور ابی القاسم بغوی نے بھی صحیح سند کے ساتھ جارود بن ابی سبرہ سے روایت کیا ہے کہ مروان نے جمل کے دن جب حضرت طلحہ کو دیکھا تو کہنے لگا: آج کے بعد میں قصاص کا مطالبہ نہیں کروں گا ، پھر اس نے تیر پھینکا اور حضرت طلحہ کو قتل کردیا ۔

اور یعقوب بن سفیان صحیح سند کے ساتھ قیس بن ابو حازم سے روایت کرتے ہیں کہ مروان بن حکم نے لشکر کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا تو کہنے لگا : اس ( طلحہ) نے عثمان کے قتل میں اعانت کی تھی ، پھر تیر پھینک کر آپ کو زخمی کر دیا ، جس سے مسلسل خون جاری رہا حتی کہ آپ وصال فرما گئے ۔

اور عبدالحمید بن صالح نے قیس سے اور طبرانی نے یحیی بن سلیمان الجعفی سے وکیع کی اسی سند سے روایت کیا ہے کہ یحیی نے کہا : میں نے مروان بن حکم کو تیر پھینکتے ہوئے دیکھا جو حضرت طلحہ کے گھٹنے میں پیوست ہو گیا تھا ، جس کے باعث مسلسل خون بہتا رہا یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی ۔ یہ واقعہ جمادی الاول 36 ھجری میں ہوا ۔

❄ابن عماد حنبلی نے بھی اپنی کتاب میں ایسا ہی لکھا :

اور اس دن طلحہ بن عبیداللہ قرشی تمیمی قتل ہوا۔ کہا جاتا یے کہ مروان نے اسکو تیر سے قتل کیا کیونکہ اسکے دل میں اسکے خلاف بغض تھا۔ یہ دونوں جنگ (صفین) میں ایک ہی طرف تھے۔

⛔شذرات الذھب – ابن عماد حنبلی // جلد ۱ // صفحہ ۲۰۶ // طبع دار ابن کثیر دمشق شام۔

❄شمس الدین ذھبی نے مروان کے زیل میں بھی ایسا ہی لکھا ہے :

وله اعمال موبقة, نسال الله السلامة, رمى طلحة بسهم وفعل وفعل

اور اسکے اعمال کافی برے تھے۔ ھم اللہ سے اسکے لے سلامتی مانگتے ہیں۔ اس نے طلحہ کو تیر مارا اور کیا جو کرنا تھا۔

⛔میزان الاعتدال – ذھبی // جلد ۶ // صفحہ ۳۹۵ – ۳۹۶ // طبع مکتبہ رحمانیہ لاھور ھندوستان۔

.

5️⃣ مروان کا اہل بیت ع کے ساتھ سلوک

.

معاویہ کی وفات کے بعد یزید (لعین) نے مدینہ میں اپنے گورنر ولید بن عتبہ کو لکھا:

حُسین ، عبداللہ ابن عمر ، اور عبد اللہ ابن زبیر کو بیعت کے لئے سختی سے پکڑ لو اور اس میں نرمی نہیں کرنا حتیٰ کہ وہ بیعت کر لیں

📚 البدایہ والنہایہ ، جلد8 صفحہ 1004 ؛ نفیس اکیڈمی کراچی،

اس سلسلے میں ولید بن عتبہ نے مروان کو بلایا اور اُس سے مشورہ مانگا جس پر مروان نے کہا:

قبل اس کے کہ انہیں معاویہ کی موت کا علم ھو آپ اُنہیں بیعت کرنے کی دعوت دیں اور اگر انکار کریں تو قتل کردیں_

📚البدایہ والنہایہ ، جلد 8 صفحہ 1004 ؛ نفیس اکیڈمی کراچی،

.

📜 أن مروان بن الحكم الذي كان حاكما للمدينة من قبل معاوية بن أبي سفيان قد أرسله معاوية و معه منديل ملطخ بالسم و قال له أن عليه بأي تدبير يستطيعه أن يخدع جعده بنت الأشعث بن قيس زوجة الحسن حتي تقدم بعدها علي إزالة وجود الحسن من هذه الدنيا بواسطة هذا المنديل، وقل لها عني أنها إذا أرسلت الحسن إلي العالم الآخر وأتمت المهمة فإن لها خمسين ألف درهم و أنها ستكون زوجا ليزيد. فأسرع مروان بن الحكم إلي المدينة ليقوم بما قاله معاوية و سعي جاهدا إلي خداع جعدة التي كان لقبها (أسماء) التي انطلت عليها الحيلة و نفذت ما قاله معاوية و دست السم للإمام الحسن عليه السلام الذي سري في جسده فنقل إلي دار السلام۔

📝 مروان ابن حکم معاویہ کی طرف سے مدینہ کا والی تھا۔ معاویہ نے اسے ایک زہر آلود رومال دیا اور کہا کہ جیسے بھی ہو جعدہ بنت اشعث کو راضی کرو کہ وہ اس رومال کے ذریعے امام حسن کے وجود کو اس دنیا سے ختم کر دے اور اس سے کہو کہ اگر تم نے مہم کام کو انجام دیا تو میں تم کو 50 ہزار درہم دوں گا اور بہت جلد تمہاری شادی یزید سے کروں گا۔ مروان جلدی سے مدینہ آیا تا کہ معاویہ کے حکم پر عمل کر سکے۔

آخر کار مروان نے بہت ہی حیلے اور بہانوں سے جعدہ کو اس کام کے کرنے پر راضی کر لیا۔ جعدہ نے معاویہ اور مروان کے کہنے پر امام کو زہر دے کر شہید کر دیا۔

📚 (الأحمد نكري، القاضي عبد النبي بن عبد الرسول الحنفي الهندي، دستور العلماء أو جامع العلوم في اصطلاحات الفنون، ج4، ص50، تحقيق: عرب عباراته الفارسية: حسن هاني فحص، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت)

.

امام حسن علیہ السلام کا مروان لعنتی سے مکالمہ

مروان بولا اے حسن تم قریش کے لوگوں کو گالیاں دیتے ھو؟

آپ نے فرمایا پھر تیرا کیا ارادہ ھے ؟

مروان نے کہا خدا کی قسم میں تمہیں اور تمہارے باپ اور تمہارے گھر بھر کو وہ گالیاں دوں گا کہ کنیزیں اور غلام اسے گیت بنا لیں گے

امام حسن علیہ السلام نے فرمایا اے مروان مگر نہ میں نے تجھے گالی دی ھے اور نہ تیرے باپ کو گالی دی ھے

بلکہ اللہ تعالی نے اپنے نبی حضرت محمدؐ کی زبان سے تجھ پر لعنت کی ھے ، تیرے باپ پر لعنت کی ھے ، تیرے گھروالوں پر تیری ذریت پر اور تیرے باپ کے صلب سے جو لوگ تا قیامت پیدا ھوں گے ان سب پر لعنت کی ھے

خدا کی قسم اے مروان رسول پاکؐ کی اس لعنت سے جو انہوں نے تجھ پر اور تیرے باپ پر کی تھی نہ تو انکار کرسکتا ھے اور نہ وہ لوگ انکار کر سکتے ھیں جو اس وقت یہاں موجود ھیں

اور

اے مروان اللہ تعالی نے جو تجھے ڈرایا اس سے تیری سرکشی اور بڑھ گئی چنانچہ اللہ تعالی اور اس کے رسولؐ بے سچ کہا ھے کہ

( اور جب ہم نے آپ سے کہا کہ آپ کا پروردگار تمام انسانوں کو گھیرے ہوئے ہے اور ہم نے نہیں قرار دیا اس منظر کو جو ہم نے آپ کو دکھایا تھا مگر آزمائش کا ذریعہ اور اسی طرح اس درخت کو جو قرآن میں مورد لعنت ہے اور ہم انہیں خوف دلاتے ہیں مگر وہ ان میں اضافہ نہیں کرتا سوا بڑی سرکشی کے )

(سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر 60)

اے مروان سن حسب ارشاد رسولؐ شجرہ ملعونہ فی القرآن سے تو اور تیری ذریت مراد ھے

معاویہ بھی وھاں بیٹھا ھوا تھا وہ فورا” اٹھا اور آگے بڑھ کر امام حسن علیہ السلام کے منہ پر ھاتھ رکھ دیا اور بولا بس بس اے ابو محمدؑ

اس کے بعد امام حسن علیہ السلام نے اپنا لباس سمیٹا اٹھے اور باھر نکل آئے اور وہ مجلس بھی منتشر ھو گئی لوگ غیظ حزن میں بھرے ھوئے اور سیا روئی کے ساتھ متفرق ھوگئے

📚 حوالہ جات

1۔ تذکرۃ الخوص سبط ابن جوزی ص 114-116

2۔ احتجاج طبرسی ص 137-143

3۔ بحارالانوار جلد دھم ص 319

نوٹ :

حکم بن عاص لعنتی اور مروان لعنتی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعنت فرمائی ھے
اس کا تذکرہ ابن حجر مکی نے اپنی کتاب اصابہ فی تمیز اصحابہ میں بھی کیا ھے

نیز اس کا ذکر استیعاب فی معرفتہ الااصحاب و اسدالغابہ و طبقات ابن سعد میں بھی ھے

.

مروان ابن حکم

📝 شہادت امام حسن (ع) کے بعد اس نے آپ کی تشیع جنازہ میں شرکت کی، امام حسین (ع) نے پوچھا میرے بھائی کی حیات میں تم سے جو ہو سکتا تھا، وہ تم نے کیا لیکن اب تم ان کی جنازہ میں شریک اور رو رہے ہو ؟

مروان نے جواب دیا: میں نے جو کچھ کیا اس شخص کے ساتھ کیا کہ جس کی بردباری پہاڑ ( کوہ مدینہ کی طرف اشارہ ) سے زیادہ تھی۔

📚 تاریخ الخلفاء، ص 191
📚 شرح ابن ابی الحدید ج 16 ص 51

.

امام حسین علیہ السلام سے بیعت کی پہلی درخواست اور امام عالیمقام کا شدید انکار اور مروان کا کردار

ماہ رجب سنہ ۶۰ ہجری کے درمیان معاویہ ابن ابی سفیان ۸۰ سالہ عمر میں ہلاک ہوا اور یزید اس کی جگہ پر (پہلے سے بنائی گئی سازش کے عین مطابق) حاکم بن بیٹھا اور پھر بلا فاصلہ واليِ مدینہ ولید بن عُتبہ بن ابی سفیان کو ایک خط لکھا کہ کسی تأخیر کے بغیر حسین (علیہ السلام) سے بیعت لے لو اور اگر وہ بیعت نہ کریں تو سرتن سے جدا کرکے بھیج دو۔

ولید کو جیسے ہی یزید کا خط ملا، اُس نے مروان کے ساتھ مشورہ کیا۔

مروان نے کہا امام حسین (علیہ السلام) بیعت نہیں کریں گے،اگر میں تمہاری جگہ پر ہوتا تو انھیں قتل کردیتا۔

ولید کہنے لگا اے کاش دنیا میں میرا نام و نشان نہ ہوتا پھر امام حسین علیہ السلام کی طرف پیغام بھیجا کہ دارالامارہ میں آئیں۔

حضرت امام حسین علیہ السلام ۳۰ ہاشمی مسلح جوانوں کے ساتھ دارالامارہ کی طرف چل دیے

اور ان جوانوں سے فرمایا:

‘‘آپ لوگ دارالامارہ سے باہر ٹہرایں،اگر میری آواز بلند ہوئی تو دارالامارہ کے اندر آجانا’’

جب امام حسین علیہ السلام دارالامارہ میں داخل ہوئے تو والی مدینہ نے ہلاکت معاویہ کی خبرسنائی،

امام عالیمقام علیہ السلام نے جملۂ استرجاع (انّا للہ۔۔۔۔) زبان پر جاری فرمایا۔

ولید نے یزید کا خط پڑھ کر سنایا، امام حسین علیہ السلام نے فرمایا

‘‘مجھے نہیں لگتا کہ تم مخفی بیعت پر قناعت کرو’’

ولید نے کہا: جی ہاں؛امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ صبح تک فکر کرو،

ولید نے کہا: آپ تشریف لے جائیں۔

مروان نے ولید سے کہا: اگر وہ چلے گئے تو پھر کبھی بھی ہاتھ نہ آئیں گے جب تک بہت زیادہ خونریزی نہ ہو،ابھی ابھی اُنہیں قیدی کرلو تاکہ یاتو بیعت کرلیں اور یاقتل کردو۔

📚 مقتل خوازمی ج۱،ص۱۸۳

اس موقع پر شور اُٹھا، مروان نے تلوار کھینچ لی اور ولی سے کہا: حکم دو کہ انہیں قتل کر دیں

اس اثناء میں دارالامارہ کے دروازے کے پیچھے موجود ۳۰ ہاشمی جوان ایک دم ننگے خنجر لیے دارالامارہ کے اندر آپہنچے اور امام حسین علیہ السلام کی ہمراہی میں باہر چلے گئے۔

حضرت امام حسین علیہ السلام رات کے وقت حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مطہر پر حاضر ہوئے، گریہ کیا، اُن لوگوں کی شکایت کی جنہوں نے قدردانی نہیں کی اور امام علیہ السلام کا ساتھ نہیں دیا،

پھر عرض کی: میں آپ کے حرم سے مجبور ہوکر ہجرت کررہا ہوں ، پھر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجا، صبح ہوئی تو گھر واپس آئے۔
دوسری رات پھر امام حسین علیہ السلام اپنے جد بزرگوار کی قبر مطہر پر حاضر ہوئے، چند رکعت نماز ادا کی،ظہر کے نزدیک تک مناجات میں مشغول رہے اور لحظہ بھر کیلیے آنکھ لگ گئی،عالم خواب میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی،

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسین علیہ السلام کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور اُنہیں سرزمینِ کربلا میں ایک تشنہ لب گروہ کی ہمراہی میں شہید ہونے کی خبر دی۔ امام علیہ السلام نے عرض کی:مجھے(اپنے پاس ہی) ٹرمیالیں،خواب میں فرمایا:جنت میں کچھ ایسے درجات ہیں کہ شہادت کے بغیر آپ ان تک نہیں پہنچ سکیں گے (قارئیں کرام!واضح رہے کہ ان درجات سے مراد خاص درجات ہیں جو ان مقدس ہستیوں کےپیشِ نظر تھے چونکہ یہ ہستیاں جنت کی طلب میں نہیں ہوتیں بلکہ جنت تو ان کی مرضی کے مطابق ان کے چاہنے والوں کو عطا کی جاتی ہے اور یہ جنت کے مالک ہیں،ان حضرات کی معشوق ہستی کمال مطلق ہے اور اس کے انتہائی قریب ترین درجات پر پہنچنے کے لیے عاشق کو انتہائی خطر ناک مراحل سے گزرنا پڑتا ہےحضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کا اشارہ اُنہیں قرب کے درجات کی طرف ہے)۔

امام عالیمقام علیہ السلام نے اپنا خواب اپنے اہلبیت کو سنایا تو ان کی گریہ و زاری کی آوازیں بلند ہوئیں۔ امام علیہ السلام مدینہ سے نکلنے کے لیے تیار ہوگئے۔ تیسری رات اپنی والدہ ماجدہ کی قبر مطہر کے پاس آئے، وداع کیا،اسی طرح بقیع میں اپنے بھائی کی قبر پر آکر وداع کیا اور صبح گھر گئے۔

📚 با نقل از بحار ج۴۴،ص۳۲۹

.

.

.

6️⃣ تدفین امام حسن ع اور مروان کا کردار

.

جناب بلاذری نے اپنی کتاب انساب الأشراف اور جناب إبن أبی الحديد نے کتاب شرح نہج البلاغہ میں لکھا ہے کہ:

📜 وتوفي فلما أرادوا دفنه أبي ذلك مروان وقال: لا، يدفن عثمان في حش كوكب ويدفن الحسن ههنا. فاجتمع بنو هاشم وبنو أمية فأعان هؤلاء قوم وهؤلاء قوم، وجاؤوا بالسلاح فقال أبو هريرة لمروان: يا مروان أتمنع الحسن أن يدفن في هذا الموضع وقد سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول له ولأخيه حسين: هما سيدا شباب أهل الجنة. فقال مروان: دعنا عنك، لقد ضاع حديث رسول الله ان كان لا يحفظه غيرك وغير أبي سعيد الخدري إنما أسلمت أيام خيبر، قال: صدقت، أسلمت أيام خيبر، إنما لزمت رسول الله صلي الله عليه وسلم فلم أكن أفارقه، وكنت أسأله وعنيت بذلك حتي علمت وعرفت من أحب ومن أبغض ومن قرب ومن أبعد، ومن أقر ومن نفي، ومن دعا له ومن لعنه.

فلما رأت عائشة السلاح والرجال، وخافت أن يعظم الشر بينهم وتسفك الدماء قالت: البيت بيتي ولا آذن أن يدفن فيه أحد.

📝 جب امام حسن دنیا سے چلے گئے تو انھوں نے چاہا کہ اسے دفن کریں، مروان نے اس کام کی اجازت نہ دی اور کہا: نہ، عثمان حش کوکب (یہودیوں کا قبرستان) میں دفن ہو اور حسن یہاں پر ؟ بنی ہاشم اور بنی امیہ ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لیے اسلحہ ہاتھوں میں لے کر جمع ہو گئے، ابوہریرہ نے مروان سے کہا:

کیا تم حسن کے یہاں پر دفن ہونے سے منع کرتے ہو، حالانکہ تم نے رسول خدا سے سنا ہے کہ اسے اور اسکے بھائی حسین کو کہا تھا کہ: یہ دونوں جوانان جنت کے سید و سردار ہیں؟

مروان نے کہا: چھوڑو ان باتوں کو، رسول خدا کی حدیث ضائع و بھول گئی ہوتی کہ اگر تم اور ابو سعید خدری اسکو حفظ نہ کرتے تو، اے ابوہریرہ تم فتح خیبر کے وقت مسلمان ہوئے ہو، ابوہریرہ نے کہا ہاں تم صحیح کہتے ہو کہ میں فتح خیبر کے موقع پر اسلام لایا تھا، لیکن میں ہمیشہ پیغمبر کے ساتھ تھا اور ان سے دور نہیں ہوا، میں جانتا ہوں کہ رسول خدا کس سے محبت کرتے ہیں اور کس سے نفرت کرتے ہیں، کون ان کے نزدیک ہے اور کون ان سے دور ہے، کس کو انھوں نے مدینہ میں رہنے کی اجازت دی اور کس کو انھوں نے مدینہ سے باہر نکالا، کس کے لیے انھوں نے دعا کی ہے اور کس پر انھوں نے لعنت کی ہے، ان تمام باتوں کا مجھے علم ہے،

جب حضرت عائشہؓ نے اسلحہ اور مروان کو دیکھا تو ڈر گئی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شر و فتنہ بڑھ جائے اور خون خرابہ ہو جائے، تو اس نے کہا: یہ میرا گھر ہے ، میں کسی کو یہاں پر دفن کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔

📚 البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر ، أنساب الأشراف، ج1، ص389، طبق برنامه الجامع الكبير.

📚 إبن أبي الحديد المدائني المعتزلي، شرح نهج البلاغة، ج16، ص8، تحقيق محمد عبد الكريم النمري، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت / لبنان،

ابو الفداء نے اپنی کتاب تاريخ میں لکھا ہے کہ:

📜 وكان الحسن قد أوصي أن يدفن عند جده رسول الله صلي الله عليه وسلم، فلما توفي أرادوا ذلك، وكان علي المدينة مروان بن الحكم من قبل معاوية، فمنع من ذلك، وكاد يقع بين بني أمية وبين بني هاشم بسبب ذلك فتنة، فقالت عائشة رضي الله عنها: البيت بيتي ولا آذن أن يدفن فيه، فدفن بالبقيع، ولما بلغ معاوية موت الحسن خر ساجداً.

📝 (امام) حسن نے وصیت کی کہ مجھے رسول خدا کے پہلو میں دفن کیا جائے، جب وہ دنیا سے چلے گئے تو انھوں نے چاہا کہ انکی وصیت پر عمل کیا جائے، اس دور میں مروان (ملعون) معاویہ کی جانب سے مدینہ کا حاکم تھا، پس اس نے اس کام کے ہونے سے منع کیا، قریب تھا کہ اس بات پر بنی امیہ اور بنی ہاشم میں خون خرابہ ہو جائے، لہذا حضرت عائشہؓ نے کہا: یہ میرا گھر ہے، میں اجازت نہیں دیتی کہ وہ یہاں پر دفن ہو،

پس انھوں نے اس (امام حسن) کو بقیع میں دفن کر دیا، جب (امام) حسن کے دنیا سے جانے کی خبر معاویہ کو ملی تو اس نے (خوشی سے) سجدہ شکر ادا کیا۔

📚 أبو الفداء عماد الدين إسماعيل بن علي (متوفي732هـ)، المختصر في أخبار البشر، ج1، ص127، طبق برنامه الجامع الكبير

.

نقل ہوا ہے کہ

مروان نے کہا ہم ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گے کہ عثمانؓ شہر سے باہر دفن ہوا ہو اور حسن بن علی پیغمبر کے پہلو میں دفن ہو جائے۔ بنی ہاشم اور بنی امیہ میں لڑائی ہونے والی تھی لیکن امام حسین نے اپنے بھائی کی وصیت کے مطابق جھگڑے سے منع کیا۔ یوں امام حسن کا جنازہ بقیع لے جایا گیا اور فاطمہ بنت اسد کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔

📚ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص 82
📚بلاذری، انساب الاشراف، ج 3 ص 61
📚دینوری، الأخبار الطوال، ۱۳۶۸ش، ص۲۲۱؛

.

.

7️⃣ مروان بن حکم کی واجہ سے ہی حضرت عثمانؓ کے خلاف لوگ اُٹھے

.

جب حضرت عثمانؓ نے اپنے کہنے پر عمل نہیں کیا تو علی ( علیہ السلام ) ان پر بہت ناراض ہویے ان کو زسرزنش کی اور ان کے پاس سے چلے آیے ،

نایلہ فرافصہ کی بیٹی ( عثمان کی زوجہ) عثمان کے پاس آییں اور ان سے کہا کہ میں کچھ کہوں یا خاموش رہوں ؟

عثمان نے کہا : جو کہنا چاہتی ہو کہو :

تو انھوں کہا :میں نے علی اور تمہاری باتوں کو سنا ہے وہ تمہارے ساتھ کویی دشمنی نہیں رکھتے

لیکن

تم نے مروان کی پیروی کی ہے وہ تم کو جس طرف بھی گھومانا چاہتا ہے گھوما دیتا ہے ۔

تو عثمان نے کہا کہ میں کیا کروں ؟

تو اس نے کہا : کہ خدا و حدہ لاشریک کہ جس کا کویی شریک نہیں ہے اس پر بھروسہ کرو اور پہلے دونوں خلیفہ کی پیروی کرو

اگر تم مروان کی پیروی کروگیے تو وہ تمہیں قتل کرادے گا لوگوں کے دلوں میں مروان کی نہ ہی کوئی ہیبت و منزلت ہے اور نہ ہی لوگ اس سے محبت کر تے ہیں لوگ نے تم کو مروان کی وجہ سے چھوڑ دیا ہے ،

لہذا

تم پھر سے علی کے پاس قاصد بھیجو اور اپنے امور میں ان سے اصلاح کراو

کیونکہ ان کی تمہارے ساتھ رشتہ داری ہے وہ تم سے کنارہ کشی نہیں کرے گے ۔

عثمان نے علی ( علیہ السلام ) کے پاس قاصد بھیجا لیکن آپ نے آنے سے بالکل منع کردیا اور فرمایا : کہ میں نے ان سے کہد یا ہے کہ اب میں ان کے پاس نہیں جاوں گا ( ١) ۔

حوالہ جات:

📚 تاریخ الطبری : ج٤، ص ٣٦١،
📚 الکامل فی التاریخ : ج٢، ص ٢٨٤،
📚 البدایہ والنھایہ : ج٧، ص ١٧٢ ؛
📚 الجمل : ص ١٩٢،

.

مروان معاویہ بن یزید کا قاتل

معاویہ بن یزید نے چالیس دن حکومت کی، اس دوران اس کی خواہش رہی کہ وہ اقتدار حضرت حسین کے فرزند حضرت زین العابدین کے حوالے کردیں۔

جب مروان کو ان کے اس ارادہ کا علم ہوا اور سمجھے کہ حکومت بنو امیہ کے ہاتھ سے نکلنے والی ہے تو انہوں نے کسی سازش سے معاویہ بن یزید کو زہر دیکر شہید کردیا اور اقتدار پر مروان نے قبضہ کرلیا ۔

یہ وہی حکمران ہے جس کی غلط پالیسی اور کجروی کی وجہ سے حضرت عثمانؓ کی شہادت واقع ہوئی ۔ اس کے پاس خلافت کی مہر ہوا کرتی تھی ۔ گویا مروان عہد عہد عثمانی کے میر منشی تھے ۔

( حقائق السنن شرح جامع السنن للترمذی جلداول ص ۳۶۱ ) ۔

.

آل مروان (اموی) کا مولا علی ع پر لعن کرنے والی روایت میں اھلسنت کے معتبر ترین عالم محمد بن اسماعیل بخاری الجعفی کی کتاب میں تحریف✂

تحقیق: أبوعزرائیل

پہلے ملاحظہ کیجیے صحیح مسلم کی روایت بغیر تحریف کے👇🏻👇🏻👇🏻

6229 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: 👈 *اسْتُعْمِلَ عَلَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ مِنْ آلِ مَرْوَانَ قَالَ: فَدَعَا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا قَالَ: فَأَبَى سَهْلٌ فَقَالَ لَهُ: أَمَّا إِذْ أَبَيْتَ فَقُلْ: لَعَنَ اللهُ أَبَا التُّرَاب*ِ 👉 فَقَالَ سَهْلٌ: مَا كَانَ لِعَلِيٍّ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَبِي التُّرَابِ، وَإِنْ كَانَ لَيَفْرَحُ إِذَا دُعِيَ بِهَا، فَقَالَ لَهُ: أَخْبِرْنَا عَنْ قِصَّتِهِ، لِمَ سُمِّيَ أَبَا تُرَابٍ؟ قَالَ: جَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ فَاطِمَةَ، فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ، فَقَالَ «أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ؟» فَقَالَتْ: كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَيْءٌ، فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ، فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِإِنْسَانٍ «انْظُرْ، أَيْنَ هُوَ؟» فَجَاءَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ، فَجَاءَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ، قَدْ سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ شِقِّهِ، فَأَصَابَهُ تُرَابٌ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُهُ عَنْهُ وَيَقُولُ «قُمْ أَبَا التُّرَابِ قُمْ أَبَا التُّرَابِ»

ترجمہ : ابو حازم نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،کہا: کہ 👈مدینہ میں مروان کی اولاد میں سے ایک شخص حاکم ہوا تو اس نے سیدنا سہل رضی اللہ عنہ کو بلایا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گالی دینے کا حکم دیا۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے انکار کیا تو وہ شخص بولا کہ اگر تو گالی دینے سے انکار کرتا ہے تو کہہ کہ ابوتراب پر اللہ کی لعنت ہو👉۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ابوتراب سے زیادہ کوئی نام پسند نہ تھا اور وہ اس نام کے ساتھ پکارنے والے شخص سے خوش ہوتے تھے۔ وہ شخص بولا کہ اس کا قصہ بیان کرو کہ ان کا نام ابوتراب کیوں ہوا؟ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گھر میں نہ پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تیرے چچا کا بیٹا کہاں ہے؟ وہ بولیں کہ مجھ میں اور ان میں کچھ باتیں ہوئیں اور وہ غصہ ہو کر چلے گئے اور یہاں نہیں سوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا کہ دیکھو وہ کہاں ہیں؟ وہ آیا اور بولا کہ یا رسول اللہ! علی مسجد میں سو رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے، وہ لیٹے ہوئے تھے اور چادر ان کے پہلو سے الگ ہو گئی تھی اور (ان کے بدن سے) مٹی لگ گئی تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مٹی پونچھنا شروع کی اور فرمانے لگے کہ اے ابوتراب! اٹھ۔ اے ابوتراب! اٹھ۔

✂بخاری میں تحریف کردہ روایت✂
👇🏻👇🏻👇🏻
حدثنا قتيبة بن سعيد، قال: حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد، قال:”👈 (یہاں سے پورا متن غائب ہے) 👉جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بيت فاطمة فلم يجد عليا في البيت، فقال: اين ابن عمك؟ قالت: كان بيني وبينه شيء فغاضبني فخرج فلم يقل عندي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لإنسان: انظر اين هو، فجاء فقال: يا رسول الله، هو في المسجد راقد، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو مضطجع قد سقط رداؤه عن شقه واصابه تراب، فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسحه عنه، ويقول: قم ابا تراب، قم ابا تراب”.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، انہوں نے اپنے باپ ابوحازم سہل بن دینار سے،(⁉ ) انہوں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے دیکھا کہ علی رضی اللہ عنہ گھر میں موجود نہیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہارے چچا کے بیٹے کہاں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ میرے اور ان کے درمیان کچھ ناگواری پیش آ گئی اور وہ مجھ پر خفا ہو کر کہیں باہر چلے گئے ہیں اور میرے یہاں قیلولہ بھی نہیں کیا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے کہا کہ علی رضی اللہ عنہ کو تلاش کرو کہ کہاں ہیں؟ وہ آئے اور بتایا کہ مسجد میں سوئے ہوئے ہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ علی رضی اللہ عنہ لیٹے ہوئے تھے، چادر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو سے گر گئی تھی اور جسم پر مٹی لگ گئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جسم سے دھول جھاڑ رہے تھے اور فرما رہے تھے اٹھو ابوتراب اٹھو۔

.

شاہ عبدالعزیز اپنی مشہور شیعہ مخالف کتاب میں کہتے ہیں:

ہاں بخاری میں مروان سے البتہ روایت آئی ہے باوجودیکہ وہ نواصب میں سے تھا بلکہ اس بدبخت گروہ کا سرغنہ اور سربراہ تھا

حوالہ:[ تحفہ اثنا ء عشریہ، باب نمبر ۲، چوہترواں دھوکہ، صفحہ ۱۳۹، دار الاشاعت، کراچی، پاکستان۔]

.

امام عبد اللہ بن احمد بن حنبلؒ (المتوفی 290ھ) لکھتے ہیں:
ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺃﺑﻲ ﻗﺎﻝ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﻗﺎﻝ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺑﻦ ﻋﻮﻥ ﻋﻦ ﻋﻤﻴﺮ ﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﻗﺎﻝ ﻛﺎﻥ ﻣﺮﻭاﻥ ﺃﻣﻴﺮا ﻋﻠﻴﻨﺎ ﺳﺖ ﺳﻨﻴﻦ ﻓﻜﺎﻥ ﻳﺴﺐ ﻋﻠﻴﺎ ﻛﻞ ﺟﻤﻌﺔ ﺛﻢ ﻋﺰﻝ ﺛﻢ اﺳﺘﻌﻤﻞ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ اﻟﻌﺎﺹ ﺳﻨﺘﻴﻦ ﻓﻜﺎﻥ ﻻ ﻳﺴﺒﻪ ﺛﻢ ﺃﻋﻴﺪ ﻣﺮﻭاﻥ ﻓﻜﺎﻥ ﻳﺴﺒﻪ
عمیر بن اسحاق فرماتے ہیں: مروان بن الحکم چھے سال تک ہم پر امیر تھا، اور وہ ہر جمعہ کو منمبر پر علی رضی اللہ عنہ کو گلیاں دیتا تھا، پھر اس کو معزول کر دیا گیا اور حضرت سعید بن العاص رض کو دو سال کے لئے امیر مقرر کردیا گیا لیکن وہ گلیاں نہیں دیتا تھا پھر اس کو ہٹا کر واپس مروان کو امیر لگادیا اور وہ پھر سے گلیاں دیتا تھا۔
(العلل ومعرفة الرجال لأحمد رواية ابنه عبد الله: جلد 3 صفحہ 176 رقم 4781، وسندہ صحیح)
کتاب کے محقق دکتور وصی اللہ بن محمد عباس اسکی سند کو صحیح قرار دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب دیکھیں کہ مروان چھ سال تک امیر رھا وہ ہر جمعہ کو مولا علی رضی اللہ عنہ کو منبر سے گالیاں دیتا تھا۔ جب وہ معزول ہوگیا تو حضرت سعید بن العاص رضی اللہ کو امیر مقرر کیا گیا۔ وہ مولا علی ع کو گالیاں نہیں دیتے تھے۔ اسوجہ سے انکو دو سال میں ہی ہٹا کے پھر مروان کو دوبارہ امیر لگا دیا وہ پھر گالیاں دیتا تھا۔ اب آپ سوچٸیں مروان کو امیر لگایا کس نے تھا؟

.

🕸مروان بن حکم اسلام لانے کے بعد بھی گھر میں بت رکھا کرتا تھا🕸
امام اہل سنت ابو جعفر طحاوی (المتوفی ۳۲۱ھ) نے نقل کیا ہے :
حدثنا فهد قال ثنا محمد بن سعيد بن الأصبهاني قال ثنا محمد بن الفضل عن عمارة بن القعقاع عن أبي زرعة قال دخلت مع أبي هريرة دار مروان بن الحكم فإذا بتماثيل فقال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم قال الله عز وجل ومن أظلم ممن ذهب يخلق خلقا كخلقي فليخلقوا ذرة أو ليخلقوا حبة أو ليخلقوا شعيرة۔
ابی زرعۃ نے فرمایا کہ میں ابوہریرہ کے ساتھ مروان بن حکم کے گھر میں داخل ہوگیا اور وہاں بت تھے۔ تو ابوہریرہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے فرمایا : اور اس سے بڑا ظالم کون ہو گا جو مجھ جیسا پیدا کرے، پھر کیا وہ ایک ذرا پیدا کرے یا ایک دانہ پیدا کرے یا انہیں اناج پیدا کرے۔
⛔شرح معانی الاثار – ابوجعفر طحاوی // جلد ۴ // صفحہ ۴۶۷ // رقم ۶۹۲۵ // طبع شرکۃ القدس للنشر قاھرہ مصر۔
اس روایت کی سند بلکل صحیح ہے۔
حدثنا حفص بن عمر الدوري المقرئ عن عباد بن عباد، عن هشام بن عروة، عن أبيه قال:
قال الحسن- حين حضرته الوفاة-: [ادفنوني عند قبر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا أن تخافوا أن يكون في ذلك شر، فإن خفتم الشر فادفنوني عند أمي] وتوفي (الحسن) فلما أرادوا دفنه أبى ذلك مروان، وقال: لا يدفن (مع النبي!!! أيدفن) عثمان في حش كوكب ويدفن الحسن هاهنا؟!! فاجتمع بنو هاشم وبنو أمية، فأعان هؤلاء قوم وهؤلاء قوم، فجاؤا بالسلاح فقال أبو هريرة المروان:
يا مروان أتمنع الحسن أن يدفن في هذا الموضع؟ وقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم [يقول له ولأخيه حسين: هما سيدا شباب أهل الجنة.] فقال مروان: دعنا عنك، لقد ضاع حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم لو كان لا يحفظه غيرك وغير أبي سعيد الخدري وانما أسلمت أيام خيبر!!! قال: صدقت أسلمت أيام خيبر، ولكني لزمت رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم أكن أفارقه وكنت أسأله وعنيت (ظ) بذلك حتى علمت وعرفت من أحب ومن أبغض، ومن قرب ومن أبعد، ومن أقر ومن نفى، ومن دعا له ومن لعنه!!!
فلما رأت عائشة السلاح والرجال، وخافت أن يعظم الشر بينهم وتسفك الدماء قالت: البيت بيتي ولا آذن أن يدفن فيه أحد!!!
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے اپنے مرض الموت میں فرمایا اگر تمھیں کسی قسم کے فتنے کا اندیشہ نہ ہو تو پھر مجھے رسول اللہ ﷺ کے قریب دفن کرنا لیکن اگر تمھیں کسی فتنے کا خطرہ ہو تو پھر مجھے میری والدہ کے قریب (بقیع میں) دفن کرنا جب سیدنا حسن علیہ السلام کا وصال ہو گیا، چنانچہ جب لوگوں نے انھیں وہاں (روضہ انور میں) دفن کرنے کا ارادہ کیا، تو مروان نے مخالفت کی اور کہنے لگا:
یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب دفن نہیں ہو سکتے ، کیا عثمان (رضی اللہ عنہ) تو حش کوکب میں دفن ہوں اور حس(رضی اللہ عنہ ) کو یہاں (روضہ انور) میں دفن کیا جائے؟ پس بنو ہاشم اور بنو امیہ کے لوگ جمع ہو گئے چنانچہ انھوں نے بھی اپنے مدد گار بلا لیئے اور انھوں
نے بھی اپنے مددگار بلا لیے، جو ہتھیاروں کے ساتھ آن پہنچے ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے مروان سے کہا اے مروان کیا تو سیدنا حسن (علیہ السلام) کو یہاں دفن ہونے سے روکتا ہے ؟؟
جبکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ یہ اور انکے بھائی حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں
مروان نے کہا: چھوڑو یہ باتیں اگر آپ اور ابو سعید خدری احادیث کو یاد نا کرتے تو رسول اللہ ﷺ کی احادیث ضاٸع ہوجاتیں۔ لیکن آپ خیبر کے موقع پر اسلام لاۓ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:
تم نے سچ کہا کہ میں خیبر کے موقع پر اسلام لایا لیکن میں نبی اکرم کے ساتھ وابستہ ہوگیا، آپ سے کبھی جدا نا ہوا، میں آپ ﷺ سے سوالات پوچھا کرتا تھا اور آپ ﷺ کے جوابات کو محفوظ کر لیا کرتا تھا یہاں تک کہ میں نے جان اور پہچان لیا کہ نبی اکرم ﷺ نے کس سے محبت کی اور کس کو ناپسند کیا، کون آپ ﷺ سے قریب تھا اور کون آپ سے دور ہوا، کس کو آپ ﷺ نے رہنے کی اجازت دی اور کس کو نکالا، کس کے لیے آپ ﷺ نے دعا فرماٸی اور کس پر لعنت فرماٸی ۔ جب آم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ سلام اللہ علیہا نے لوگوں کو ہتھیاروں کے ساتھ دیکھا تو انکو اس بات کا خوف ہوا کے انکے درمیان فتنہ بڑھ جائے گا اور خون بہے گا تو آپ نے فرمایا یہ حجرہ میرا گھر ہے اور میں اس میں کسی کو دفن ہونے کی اجازت نہیں دیتی ۔
[كتاب أنساب الأشراف للبلاذري 3/60 وسندہ حسن]
رجال کا مختصر تعارف!
مصنف کتاب کا تعارف: البلاذري أبو بكر أحمد بن يحيى بن جابر
نوٹ: پہلے میرے زہن میں اس کتاب اور مصنف کے حوالے سے اعتراضات تھے لیکن اس پر تحقیق کرنے پر میرا دل اس طرف مطمئن ہوا ہے کہ اس کی عدالت و ضبط پر کوئی ایسا کلام نہیں ملا جس سے اسکی کتاب رد کی جا سکے۔ نیز متقدمین سے اس مصنف کی کوئی صریح دلیل نہیں ملتی لیکن یہ بات کوئی وزن نہیں رکھتی کہ بعد والوں نے اسکی تصانیف و ضبط کی توثیق کی ہے اور اسکی مذکورہ کتب تو مشہور و معروف ہے۔
امام ذھبی سیر اعلام میں انکے بارے فرماتے ہیں:
العلامة، الأديب، المصنف، أبو بكر أحمد بن يحيى بن جابر البغدادي، البلاذري، الكاتب، صاحب (التاريخ الكبير) .
یہ علامہ ادیب مصنف کتب، کاتب اور بنام تاریخ الکبیر کے مصنف ہیں
وكان كاتبا بليغا، شاعرا محسنا، وسوس بأخرة لأنه شرب البلاذر للحفظ.
یہ کاتب و بلیغ تھے اور اچھے شاعر تھے لیکن انکا حافظہ آخری ادوار میں بلاذر مشروب پینے کے سبب متاثر ہوا
[سیر اعلام النبلاء، برقم:۹۶]
اور انکی تصنیفات کے بارے کہتے ہیں:
وهو صاحب كتاب البلدان، صنفه وأحسن تصنيفه.
یہ کتاب البلدان کے مصنف ہیں اور انکی اچھی تصنیف ہیں
[تاریخ الاسلام برقم:۸۱]
نیز ایک مشہور ناصبی مصنف یاقوت حموی نے اپنی معروف تصنیف بنام معجم الأدباء میں البلاذري کا تعارف پیش کرتے ہوئے توثیق کرتا ہے
وكان أحمد بن يحيى بن جابر عالما فاضلا شاعرا راوية نسابة متقنا، وكان مع ذلك كثير الهجاء بذيء اللسان آخذا لأعراض الناس۔
احمد بن یحییٰ بن جابر عالم، فاضل، شاعر، متقن و ماہرِ علمِ الانساب تھے۔ لیکن اس کے باوجود وہ ایک غلیظ زبان کا بہت زیادہ استعمال کرنے والے شخص کے طور پر مشہور تھے، جو لوگوں کی عزت پر حملہ آور ہوتا۔
[:معجم الأدباء، ج۲، ص ۵۳۱]
سند کا پہلا راوی : حفص بن عمر أبو عمر الدوري [المقرئ
سئل أبي عنه فقال: صدوق.
[الجرح والتعدیل برقم:792]
سند کا دوسرا راوی: عباد بن عباد بن حبيب أبو معاوية الأزدي
البصري، الحافظ، الثقة، أبو معاوية.
[سیر اعلام النبلاء برقم:۷۷]
سند کا تیسرا راوی: هشام بن عروة بن الزبير
متفق علیہ ثقہ
نوت: کوئی یہ اعتراض کرے کہ بعض ناقدین نے تصریح کی ہے بعض اوقات یہ اپنے والد سے عن کے ساتھ تدلیس بھی کرتا تھا
تو اسکا جواب یہ ہے کہ جب یہ تیسری بار کوفہ گیا تو بعض روایات اس نے معنن ایسی بیان کی ہیں جن میں تدلیس تھی لیکن مذکورہ روایت میں اس سے روایت کرنے والا شاگرد بصری ہے نہ کہ کوفی!
سند کا چوتھا راوی: عروة بن الزبير بن العوام
متفق علیہ ثقہ
نیز اس روایت کی سند متصل ہے کوئی انقطاع کا بھی شبہ نہیں ہے اس تحقیق سے معلوم ہوا اس روایت کی سند حسن ہے۔
اور مروان جیسا لعن_تی شخص جس نے بغض اہل بیت میں فرمان رسولﷺ کو پھینک دیا اور حضرت ابو ھیرہؓ جیسے عظیم صحابی رسولﷺ پر ٹوٹ پڑا اور انکی گستاخی کی ۔۔۔۔
جن بیمار لوگوں کو اگر اہل بیت پر اسکی ہرزہ سرائی کےسبب غیرت نہیں آتی اور اسکا دفاع کرتے ہیں کم سے کم وہ مروان کا صحابہ کرامؓ کی گستاخی پر اسکی اصلیت جان لیں۔۔۔
.
.
.
🔥مروان بن حکم کا روضہ نبی ﷺ کی بے احترامی اور اصحاب نبی ﷺ پر سختی کرنا🔥
امام اہل سنت امام إبن أبي خیثمة نقل کرتے ہیں:
حدثنا إبراهيم بن المنذر، قال: حدثنا سفيان بن حمزة، عن كثير -يعني ابن زيد- عن المطلب، قال: جاء أبو أيوب الأنصاري يريد أن يسلم على رسول الله صلى الله عليه وسلم فجاء مروان وهو كذلك فأخذ برقبته، فقال: هل تدري ما تصنع؟ فقال: قد دريت أني لم آت الخدر ولا الحجر- ولكني جئت رسول الله، سمعت رسول الله عليه السلام يقول: لا تبكوا على الدين ما وليه أهله، ولكن ابكوا على الدين إذا وليه غير أهله
حضرتِ ابو ایوب انصاریؓ رسول ﷺ کے روضہ اقدس پر سلام کرنے آئے تو اتنے میں مروان آگیا اور اُس نے حضرتِ ابو ایوب انصاریؓ کو گردن سے پکڑا” اور کہا: تم کو معلوم ہے تم کیا حرکت کر رہے ہو ؟ حضرتِ ابو ایوب انصاریؓ نے فرمایا: مجھے معلوم ہے! میں کسی درخت اور پتھر کے پاس نہیں بلکہ رسول ﷺ وآلہ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں میں نے رسول ﷺ وآلہ کو سنا ہے آپﷺوآلہ نے ارشاد فرمایا: دین پر اُس وقت تک نہ رونا جب اس پر اہل لوگ حکمران ہوں البتہ اُس وقت رونا جب اِس پر نا اہل لوگ حاکم ہوں۔
⛔ التاریخ الکبیر – ابن ابی خیثمہ // جلد ۳ // صفحہ ۲۷ // رقم ۶۴۴۷ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
اس حدیث کی سند حسن لزاۃ ہے۔
کثیر بن زید حسن الحدیث راوی ہے جیسا کہ ذھبی (المتوفی ۷۴۸ھ) نے اسکے بارے میں یوں لکھا ہے :
كثير بن زيد الأسلمي أبو محمد المدني، عن المقبري، وطائفة، وعنه ابن أبي ذيك، وآخرون، قال أبو زرعة : صدوق فيه لين.
کثیر بن زید اسلمی، ابو محمد مدنی، یہ مقبری اور ایک جماعت سے روایت کرتا ہے اور اس سے ابن ابی ذیک اور باقی روایت کرتے ہیں۔ ابو زرعہ الرازی نے اسکے بارے میں کہا : یہ سچا تھا لیکن تھوڈی کمزوری تھی۔
⛔الکاشف – ذھبی // جلد ۲ // صفحہ ۲۰۳ // رقم ۴۶۳۱ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
اسی طرح مطلب بن عبداللہ بھی حسن الحدیث راوی ہے۔ جیسا کہ ابن حجر عسقلانی (المتوفی ۸۵۷ھ) نے اس طرح نقل کیا ہے :
المطلب بن عبد الله بن المطلب بن حنطب بن الحارث المخزومي صدوق كثير التدليس والإرسال
مطلب بن عبداللہ بن مطلب بن حنطب بن حارث مخزومی۔ یہ سچا راوی تھا لیکن کثرت سے تدلیس اور ارسال کرتا تھا۔
حاشیہ پر عبداللہ بن سالم البصری اور محمد امین مرغنی نے تدلیس کے حوالے سے یوں لکھا :
قلت : ما وصفه احد بالتدليس، ولا المصنف في جزئه عن المدلسين. انما قال ابن سعد : يرسل عن النبي ﷺ كثيراً و عامه اصحابه يدلسون.
میں کہتا ہوں : کسی نے بھی اسکو مدلس قرار دیا ہی نہیں اور نہ ہی مولف (ابن حجر) نے اپنے جزء (کتاب مدلسین) میں ذکر کیا مدلسین میں۔ بلکہ ابن سعد نے کہا : یہ نبی ﷺ نے مراسیل نقل کرتا اور انکے اصحاب سے تدلیس کرتا۔
⛔تقریب التہذیب – ابن حجر عسقلانی // صفحہ ۵۶۳ // رقم ۶۷۱۰ // طبع دار المنہاج ریاض سعودیہ۔
لہذا معلوم ہوا کہ اس پر ارسال کی جرح ہے اور اوپر والی روایت میں یہ خود رسول اللہ ﷺ سے نہیں بلکہ صحابی رسول اللہ ﷺ ابو ایوب انصاری نے روایت بیان کر رہا ہے۔
ایک اور اعتراض ہوتا ہے کہ کثیر بن زید عن مطلب اس میں وھم ہے جبکہ اصل میں کثیر بن زید عن داود بن ابی صالح ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ تو عرض ہے کہ کثیر بن زید عن مطلب بن عبداللہ والی روایات اہل سنت ذخیرہ میں بہت کثیر تعداد میں موجود ہے۔ ائمہ علل نے تو اس واسطے کو باقیوں سے زیادہ محفوظ قرار دیا ہے جیسا کہ ابو حاتم الرازی (التوفی ۳۲۷ھ) نے منقول ہے۔
⛔کتاب العلل – ابن ابی حاتم // جلد ۱ // صفحہ ۳۰۹ // رقم ۱۰۲۹ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
اسی سند کے ساتھ اس روایت کو امام طبرانی (المتوفی ۳۶۰ھ) نے اختصاراً نقل کیا ہے۔
⛔معجم الکبیر – طبرانی // جلد ۳ // صفحہ ۵۱ // رقم ۳۹۰۱ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
اس روایت میں مطلب بن زیاد کی متابعت بھی ایک اور راوی ” داود بن ابی صالح ” سے ملتی ہے جیسا کہ امام حاکم (المتوفی ۴۰۵ھ) نے اس کو اس زیادت کے ساتھ نقل کیا کہ ابو ایوب انصاری نے اپنا چہرہ نبی ﷺ کی قبر پر رکھا۔
امام حاکم نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد اسکو ” صحیح السند قرار دیا ہے”
امام ذھبی نے تلخیص میں موافقت کی۔
⛔مستدرک علی صحیحین – حاکم نیساپوری // جلد ۴ // صفحہ ۵۶۰ // رقم ۸۵۷۱ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
واضح رہے کہ خود ذھبی (المتوفی ۷۴۸ھ) تناقص کا شکار ہوگیا اور اپنی دوسری کتاب میں اسکے ایک راوی داود بن ابی صالح کے بارے میں کہا کہ ” اسکو نہیں جانتا”۔
⛔میزان الاعتدال – ذھبی // جلد ۳ // صفحہ ۱۴ // رقم ۲۶۲۰ // طبع مکتبہ رحمانیہ لاہور پاکستان۔
احمد بن حنبل (المتوفی ۲۴۱ھ) نے اسکو اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔
کتاب کے محقق شعیب الارنؤط نے حدیث پر ضعیف کا حکم لگایا اور وجہ داود بن ابی صالح کا مجہول ہونا اور کثیر بن زید پر کچھ علماء کی جرح۔
⛔مسند احمد بن حنبل – احمد بن حنبل // جلد ۳۸ // صفحہ ۵۵۸ // رقم ۲۳۵۸۵ // طبع الرسالہ العالمیہ بیروت لبنان۔
لیکن واضح رہے کہ اسی شعیب الارنؤط نے اسی کتاب میں ایک حدیث جس میں کثیر بن زید عن مطلب بن عبداللہ کا واسطہ تھا۔ اس پر اسناد حسن کا حکم لگایا۔
مسند احمد بن حنبل – احمد بن حنبل // جلد ۳۵ // صفحہ ۴۵۷ // رقم ۲۱۵۸۰ // طبع الرسالہ العالمیہ بیروت لبنان۔
لہذا معلوم ہوا کہ مروان بن حکم جو عثمان بن عفان کا داماد تھا وہ کس طرح بحثیت گورنر قبر نبی ﷺ کی بے حرمتی کرتا تھا اور اصحاب رسول اللہ ﷺ پر سختی کرتا اور ابو ایوب انصاریؓ نے اسکو نا اہل حکمران بھی قرار دیا۔
بشکریہ عبدالله الإمامي مع اضافہ۔
یہ سنت نبویؐ کے بارے کہتا تھا بھول جاوُ ان باتوں کو جو رسولﷺ نے فرمایا تھا۔۔۔
.
بسند صحیح بشرط شیخین رسول خدا نے (ص) نے فرمایا مروان بن حکم چھپکلی ابن چھپکلی ملعون ابن ملعون ھے
گرگٹ اور چھپکلی کو مارنا باعث اجر وثواب فعل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف حدیثوں میں اسے ماڈالنے کا نہ صرف حکم دیا ہے بلکہ پہلی مرتبہ مارنے پر زیادہ ثواب بتایا ہے۔
ارشاد نبوی ہے: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِقَتْلِ الْوَزَغِ وَسَمَّاهُ فُوَيْسِقًا۔ (صحیح مسلم، کتاب السلام، باب استحباب قتل الوزغ حدیث نمبر 2238 )
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’وزغ‘ کو قتل کرنے کا حکم دیا اور اسے ‘فاسق’ قرار دیا ہے۔
No photo description available.
.