میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا کا تحقیقی جائزہ

اہلسنت ایک بات کو مشہور کردیتے ہیں پھر اسکی تحقیق بلکل نہیں کرتے جیسے ابوبکر کا سب سے پہلے اسلام لانا عمر کی خیالی بہادری اور عثمان کا دین کے لیے خدمات وغیرہ اور یہ لوگ اس بات کا بھی خوف نہیں رکھتے اور رسول اللہ سے جھوٹ منسوب کردیتے ہیں
اور آج ان کے ایسے یہ ایک جھوٹ کو آج اشکار کرونگا انشاءاللہ
تو اس من گھڑٹ حدیث کی ابتداء ترمذی شریف سے ہوتی ہے جسکا متن کچھ یو ہے
اہلسنت عالم ابو عیسی محمد بن عیسی ترمذی اپنی کتاب سنن ترمذی میں لکھتے ہیں
حدثنا سلمة بن شبيب، حدثنا المقرئ، عن حيوة بن شريح، عن بكر بن عمرو، عن مشرح بن هاعان، عن عقبة بن عامر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” لو كان بعدي نبي لكان عمر بن الخطاب “. قال: هذا حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث مشرح بن هاعان.
عقبہ بن عامر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف مشرح بن ہاعان کی روایت سے جانتے ہیں۔
تو ترمذی کی حدیث کا سارا دارومدار مشرح بن ہاعان پر ہے جسکی تفصیل درج ذیل ہے
اہلسنت کے جرح اور تعدیل کے امام ذھبی اپنی کتاب میزان الاعتدال میں مشرح کے متعلق لکھتے ہیں
اس نے حضرت عقبہ بن عامر کے حوالے سے روایات نقل کی ہیں یہ صدوقبے۔ ابن حبان نے ایسے لین قرار دیا ہے_ عثمان بن سعید نے یحییٰ بن معین کا یہ قول نقل کیا ہے : یہ ثقہ ہے۔ ابن حبان کہتے ہیں اسکی کنیت ابومصعب ہے_ اسنے عقبہ کے حوالے سے ایسی منکر روایات نقل کی ہیں جن کی متابعت نہیں کی گئی ہے جبکہ لیث ابن لہبیہ نے اس سے روایات نقل کی ہیں _ درست یہ ہے کہ جب یہ کسی روایت کو نقل کرنے میں منفرد ہو تو اسے متروک قرار دیا جائے گا _ عقیلی نے اسکا تذکرہ کیا ہے اور اسکے حالات میں صرف یہ بات بیان کی گئی ہے : یہ حجاز کے ساتھ مکہ آیا تھا اور اس نے خانہ کعبہ پر حملے کرنے کے لیے منجنیق نصب کرنے میں حصہ لیا تھا _
میزان اعتدال جلد 6 ص 422
امام ابن حجر العسقلاني اپنی کتاب تهيذيب التهذيب میں لکھتے ہیں:
وعلته : مشرح بن هاعان ، فإنه وإن وثقه ابن معين ، فقد قال ابن حبان : ” يروي عن عقبة مناكير لا يتابع عليها ، فالصواب ترك ما انفرد به ” .
اس حدیث کی سند میں مسئلہ مشرح بن ھاعان ہے، اسکو ابن معین نے ثقہ کہا ہے، اور ابن حبان نے کہا ہے کہ وہ عقبہ سے منکر احادیث بیان کرتا تھا اور کوئی اور سند نہیں ان احادیث کی جو اسکی حمایت کریں، تو بہتر ہے کہ وہ احادیث ترک کی جائیں جن میں وہی راوی ہے۔
(2) تهيذيب التهذيب، ج 10، ص 155
تو ترمذی کی حدیث سند کے اعتبار سے تو بلکل کبارا ہے لیکن اب ہم کچھ اہلسنت محدیثین کے اقوال ایسی حدیث کے متعلق نقل کریں گے
اہلسنت کے محدث البانی نے ترمذی شریف کی ضعیف حدیثوں پر کتاب لکھی جسکا نام ضعیف سنن ترمذی ہے اور اس میں اس حدیث کو شامل کیا کہ میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا
ضعیف سنن ترمذی رقم نمبر ۳٦٨٦
اسی حدیث کے متعلق اہلسنت عالم امام ابن جوزي اپنی کتاب الموضوعات (یعنی گھڑی ہوئی احادیث) میں لکھتے ہیں:
عَنْ مِشْرَحِ بْنِ هَاعَانَ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ قَالَ رَسُول الله قلى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ” لَوْ لَمْ أُبْعَثْ فِيكُمْ لَبُعِثَ عُمَرُ ” هَذَانِ حديثان لَا يصحان عَن رغول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. أما الأول: يحيى كَانَ من الْكَذَّابين الْكِبَار. قَالَ ابْن عدي: كَانَ يضع الحَدِيث، وَأما الثَّانِي فَقَالَ أَحْمد: وَيحيى بن عبد الله بن وَاقد لَيْسَ بشئ. وَقَالَ النَّسَائِيُّ: مَتْرُوكُ الْحَدِيثِ. وَقَالَ ابْن حبَان: انقلبت على مشرح صحائفه فَبَطل الِاحْتِجَاج بِهِ.
مشرح بن ھاعان نے عقبہ بن عامر سے روایت کی کہ اس نے کہا کہ رسول الله ﷺ نے کہا کہ اگر میں نہ بھیجا جاتا تو یقینا تم میں عمر کو مبعوث کیا جاتا (بطور نبی)۔ پھر ابن جوزي کہتا ہے: یہ احادیث رسول اللهﷺ سے صحیح سند سے ثابت نہیں ہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ اسکی سند میں یحیی ہے اور وہ بڑے جھوٹوں میں سے تھا۔ ابن عدي نے کہا کہ وہ احادیث گھڑتا تھا۔ اور دوسری بات کہ احمد بن حنبل اور یحیی نے کہا ہے کہ وہ کوئی چیز نہیں۔ امام نسائی نے کہا کہ وہ متروک ہے حدیث میں۔ ابن حبان نے کہا کہ اس سے حدیث نہیں نقل کی جا سکتی
الموضوعات، ج 1، ص 320
المنتخب من علل الخلال میں درج ہے کہ امام أحمد بن حنبل سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا گیا کہ “اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا” تو انہوں نے کہا:
فقال: اضرب عليه حديثة فإنه عندي منكر۔
اس حدیث کو کاٹ دو کیونکہ یہ میرے نزدیک منکر ہے۔
المنتخب من علل الخلال ص 190 اور 191
شیخ وصی اللہ بن محمد عباس فضائل صحابہ کی تحقیق میں اسی حدیث کے “میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا ” لکھتے ہیں
“یہ روایت اس حدیث کے ہم معنیٰ ہے جو پیچھے گزرچکی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب ہوتا _ اور اس روایت میں آپ(ص) عمر اس سے بھی بڑھ کر فضیلت دے رہیں کہ اگر مجھے منصب دسالت پر فائز نہ کیا جاتا تو عمر بن خطاب آخری پیغمبر بن کر آتے _ لیکن یہ روایت ضعیف ہے بلکہ امام بن الجوزی نے تو اسے موضوع (من گھڑٹ) کہا ہے
تخلیص نمبر 3 اسناد ضعیف اللالئ المصنوعۃ :۳۰۲/۱_ الفوائد المجموعۃ : ص ۳۳۷ _ الموضوعات لابن الجوزی :۳۲۰/۱.
اس ہی حدیث کی ایک اور سند ہے، جس میں ابو سعید ہے، اسکے متعلق امام الهيثمي نے مجمع الزوائد میں لکھا:
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ ، وَفِيهِ عَبْدُ الْمُنْعِمِ بْنُ بَشِيرٍ، وَهُوَ ضَعِيفٌ
اس حدیث کو طبرانی نے اپنی کتاب الأوسط میں نقل کیا ہے اور اس میں عبد المنعم بن بشیر ہے، اور وہ ضعیف راوی ہے۔
مجمع الزوائد، ج 9، ص 68
اس عبد المنعم بن بشیر کے متعلق میزان اعتدال میں یوں لکھا ہے
وعبد المنعم بن بشير متروك متهم ، قال ابن حبان: منكر الحديث جدا، لا يجوز الاحتجاج به. وقال الختلى : سمعت ابن معين يقول: ” أتيت عبد المنعم ، فأخرج إلي أحاديث أبي مودود ، نحوا من مائتي حديث كذب
عبد المنعم بن بشیر متروک اور متھم ہے، ابن حبان نے کہا کہ وہ منکر الحدیث ہے اور اس سے حدیث نقل نہیں کی جا سکتی امام الختلي نے کہا کہ میں نے امام ابن معین کو کہتے سنا کہ میں عبد المنعم کے پاس آیا اور اس نے مجھے ابو مودود کی احادیث دیکھائیں، اس میں 200 گھڑی ہوئی احادیث تھیں
ميزان الإعتدال، ج 2، ص 669
لہذا یہ دو اسناد اس حدیث کی شدید ضعیف ہیں اور ان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ ہم نے دو اسناد پر بات کی، البتہ یہ حدیث اور بہت سی اسناد سے آئی ہے، مثلا جلال الدین سیوطی اسکو اللألىء المصنوعة میں ایک سند سے لایا ہے مگر اس میں اسحاق بن نجیح ہے جو احادیث گھڑا کرتا تھا۔ اور مجھول راوی ہیں اس ہی طرح تاریخ بغداد میں خطیب بغدادی اس حدیث کو ایک اور سند سے لایا ہے پھر کہا ہے کہ یہ حدیث منکر ہے، اور سند میں مجھول راوی ہیں
طبرانی نے المعجم الکبیر میں ایک اور سند سے بھی یہ حدیث نقل کی ہے، ایک کا ہم ذکر کر چکے اوپر، دوسری سند میں احمد بن رشدین مصری ہے جو متهم بالوضع ہے یعنی احادیث گھڑتا تھا، اور اس ہی سند میں الفضل بن المختار ہے جو منکر الحدیث ہے۔
الفضل بن المختار متروک الحدیث
المعجم الکبیر جلد 17 ص 180
اس سند کا دوسرا روای راشدین اسکے متعلق ذھبی اپنی کتاب میزان اعتدال میں لکھتے ہیں
اس نے زہرہ بن معبد اور یونس بن یزید سے، جب کہ اس سے قتیبہ ‘ ابوکریب ‘ عیسیٰ بن مشرودا اور ایک مخلوق نے روایات نقل کی ہے ۔ امام احمد کہتے ہیں: یہ اس بات کی پرواہ نہیں کرتا تھا کہ یہ کس سے روایت نقل کررہا ہے ‘ البتہ وعظ و نصیحت سے متعلق روایات اس سے نقل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے _ انہوں نے یہ بھی فرمایا مجھے یہ امید ہے کہ یہ صالح الحدیث ہے_ یحییٰ بن معین کہتے ہیں: یہ کوئی چیز نہیں ہے’ امام ابوزرغہ کہتے ہیں یہ ضعیف ہے ۔ جوزجانی کہتے ہیں: اسکے پاس بہت سی منکر حدیث ہیں_ امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ نیک اور عبادت گذار تھا لیکن اسکا حافظہ بہت خراب تھا اور یہ قابل اعتماد نہیں ہے
امام نسائی کہتے ہیں یہ متروک ہے
میزان اعتدال جلد 3 ص 88 ، 89
اس ہی طرح اس حدیث کی مختلف اسناد ہیں مگر سب ضعیف یا موضوع ہیں، تو اس حدیث سے استدلال نہیں کیا جاسکتا فضیلت کا۔
اور اگر اب بھی کوئی شخص اس حدیث کو صحیح مانتا ہے تو یہ حدیث صاف اس بات کو ظاہر کر رہی ہے کہ عمر رسول اللہ کے بعد افضل البشر ہیں یعنی آپ کے مسلک کا اجماع بلکل باطل ہوگیا کہ ابوبکر اور سب سے افضل ہے اور اسی طرح ابوبکر کی خلافت بھی باطل ہوگئی کیونکہ ابوبکر سے بہتر شخص جس کو اللہ اپنا نمائندہ بناتا جو لوگوں پر اللہ کی راضا سے حکومت کرتا اگر رسول اللہ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوتا یعنی آپ نے ایک موضوع روایت کا دفاع کر کے اپنے مذہب کے تابوت میں کیل ٹھوک دیا
وسلام