ــــــــــــــــــــ
اللہ تعالی نے نکاح متعہ کو قیامت تک کے لئے حلال قرار دیا ہے تا کہ زنا کاری اور برائی کا خاتمہ ہو سکے تو یہ عمل بہترین اور باعث فضیلت ہے جس کے جواز پر علماء امامیہ کا اجماع و اتفاق قائم ہے جس کی حلت پر متواتر اور کثرت سے احادیث وارد ہوئی ہیں اور اسی طرح تابعین میں سے جتنے بھی فقہاء مکہ تھے خواہ وہ غیر شیعہ ہوں وہ سب اس عقد کی حلت کے قائل تھے جیسا کہ ابن حزم نے المحلی میں اس کی واضح صراحت کردی ہے اور علماء مخالفین کتب شیعہ سے عقد متعہ کی حرمت پر دو روایات پیش کرتے ہیں جن کو نقل کرتے ہوئے جوابات بھی دیں گے:
پہلی روایت: ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
حضرت رسول خد صلی اللہ علیہ و آ لہ و سلم نے خیبر کے دن متعہ کو حرام قرار دیا تھا۔
(تھذیب الاحکام،جلد:۷،صفحہ:۲۵۱،روایت نمبر،۱۰)
اس روایت کے سلسلہ سند میں عمرو بن خالد الواسطی کا نام آیا ہے جو گروہ زیدیہ میں سے تھے جس کے زیدی ہونے پر علماء رجال کی تصریحات واضح ہیں اور مسند زید بن علی جس کو زیدیہ حضرت زید شہید (رح) کی طرف منسوب کرتے ہیں تو اس کا مرکزی راوی بھی یہی ہے جو علماء رجال کے نزدیک ضعیف اور کذاب ہے اور اس کتاب کو اختراع والا بھی یہی ہے جس کو زیدیہ ضلال نے شائع کیا ہے نیز اس کتاب میں آیا ہے کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے ایک شخص کو حکم دیا جو ماہ رمضان میں نماز تراویح پڑھاتے تھے کہ وہ لوگوں کو بیس رکعت نماز تراویح پڑھائے جبکہ یہ مخالفین کا نکتہ نظر ہے جس کے باطل ہونے پر علماء امامیہ کا اتفاق ہے کیونکہ نافلہ کو جماعت کے ساتھ پڑھنا جائز نہیں ہے اس لئے نماز تراویح بدعت ہے اور اس بدعت کا آغاز عمر عدوی نے کیا اور گروہ زیدیہ کے کافی نظریات مخالفین سے ملتے جلتے ہیں جیسا کہ وہ عقیدہ امامت اور عقیدہ عصمت کے منکر ہیں اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے لے کر حضرت امام مہدی علیہ السلام تک ہونے والے آئمہ اطہار علیہم السلام میں سے کسی ایک امام کی امامت کو تسلیم نہیں کرتے ہیں نیز نکاح متعہ کو بھی حرام سمجھتے ہیں اس کے علاوہ ان میں دیگر انحرافات بھی پائے جاتے ہیں اور یہ ضرورت دین یعنی عقیدہ امامت اور ضروریات مذہب شیعہ کا انکار کرنے کی وجہ سے گمراہ اور خارج از اسلام ہیں جن کے خلاف علماء امامیہ کے فتاویٰ واضح ہیں اور مذکورہ نکاح متعہ کی حرمت پر وارد ہونے والی روایت عمرو بن خالد الواسطی نے وضع کی ہے چنانچہ شیخ محمد باقر مجلسی اسی روایت کے ضمن میں لکھتے ہیں:
(الحديث العاشر). ضعيف أو موثق
فإن هذه الرواية الأظهر أنه من مفتريات الزيدية، كما يظهر من أكثر أخبارهم.
یہ حدیث ضعیف یا موثق ہے لیکن اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ روایت زیدیہ کی افتراعات میں سے ہے جیسا کہ ان کی اکثر روایات سے ظاہر ہوتا ہے۔
ملاذ الأخيارفي فهم تهذيب الأخبار – ج ۱۲ – الصفحة ۳۲
اور عمرو بن خالد الواسطی کو علماء مخالفین نے بھی ضعیف اور کذاب قرار دیا ہے اسی سلسلہ میں ان کی چند آراء نقل کرتے ہیں:
أحمد بن حنبل نے کہا:
یہ کذاب ہے جو زید بن علی اور ان کے آباء کے طریق سے من گھڑت احادیث بیان کرتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے۔
(تهذيب الكمال للمزي،جلد:۲۱،صفحہ:۶۰۵)
(الضعفاء الكبير للعقيلي،جلد:۳،صفحہ:۲۶۸)
یحیي بن معین نے کہا:
یہ شیخ کوفی کذاب ہے جو زید بن علی اور ان کے آباء کے طریق سے علی ابن ابی طالب سے روایت بیان کرتا ہے۔
(تاريخ ابن معين ، رواية الدارمي،صفحہ:۱۶۰)
إسحاق بن راهويه نے کہا:
یہ حدیث گھڑتا ہے۔
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم،جلد:۶،صفحہ:۲۳۰)
أبو زرعة الرازي نے کہا:
یہ حدیث گھڑتا ہے۔
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم،جلد:۶،صفحہ:۲۳۰)
أبوداؤد نے کہا:
یہ کذاب ہے۔
(تهذيب الكمال للمزي،جلد:۲۱،صفحہ:۶۰۶)
دارقطني نے کہا:
عمرو بن خالد ، ابوخالد الواسطی ، یہ کذاب ہے۔
(كتاب الضعفاء والمتروكين،صفحہ:۱۵۹)
بيهقي نے کہا:
عمرو بن خالد الواسطی یہ حدیث گھڑنے میں معروف ہے۔ (السنن الكبرى،جلد:۱،صفحہ:۳۴۹)
محمد بن طاهر ابن القيسراني نے کہا:
عمرو بن خالد ، یہ کذاب ہے۔
(ذخيرة الحفاظ لابن القيسراني:جلد:۲،صفحہ:۸۹۲)
ذهبي نے کہا:
محدثین نے اسے جھوٹا قرار دیا ہے۔
(الكاشف للذهبي،جلد:۲،صفحہ:۷۵)
ابن حجر نے کہا:
عمرو بن خالد الواسطی ، یہ کذاب ہے۔
(تلخيص الحبير لابن حجر،جلد:۱،صفحہ:۲۵۹)
ان کے علاوہ بھی متعدد علماء رجال نے اسے ضعیف اور کذاب قرار دیا ہے لہذا مذکورہ روایت ضعیف اور منگھڑت ہے جس کے منگھڑت ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) نکاح متعہ کو حلال سمجھتے تھے تو اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آ لہ و سلم نے خیبر کے دن یہ عقد حرام قرار دیا تھا پھر ابن عباس اسے حلال کیوں سمجھتے رہے جبکہ کبھی رجوع کرتے ہوئے اس سے انکار بھی نہیں کیا چنانچہ علماء مخالفین میں سے ملا علی القاری حنفی لکھتے ہیں:
قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: كَمَا أَعْمَى أَبْصَارُهُمْ، وَهَذَا إِنَّمَا كَانَ فِي حَالِ خِلَافَةِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ وَذَلِكَ بَعْدَ وَفَاةِ عَلِيٍّ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ فَقَدْ ثَبَتَ أَنَّهُ مُسْتَمِرُّ الْقَوْلِ عَلَى جَوَازِهَا وَلَمْ يَرْجِعْ.
ابن زبیر نے کہا جیسا کہ اس کی آنکھیں اندھی ہیں (ابن عباس پر طنز کیا حلت متعہ پر کہ وہ نابینا ہے) اور یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت علی کرم اللہ وجھه کی شہادت کے بعد عبد اللہ ابن زبیر خلیفہ بنا تو اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ابن عباس مستقل طور پر نکاح متعہ کے جواز کا فتوی دیتے رہے اور اس سے کبھی رجوع نہیں کیا۔
مرقاة المفاتيح – ملا علي القاري – ج ۶ – الصفحة ۲۹۰
اور عبد اللہ ابن زبیر حضرت امیر المومنین (ع) کی شہادت اور واقعہ کربلا کے بعد خلیفہ بنایا گیا یہ اسی دور کا واقعہ ہے جو کتب مخالفین میں مذکور ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے نزدیک ایک غیر شیعہ اور راہ حق سے بھٹکے ہوئے فاسد العقیدہ شخص کی روایت حجت نہیں ہے کیونکہ کتاب الله میں آیا ہے کہ “اگر کوئی فاسق تمہیں خبر دے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو” اسی نکتہ نظر کی وجہ سے فخر المحققین حلی ، مقداد بن عبد الله سیوری ، ابن فھد حلی ، شہید ثانی ، شیخ حسن بن شہید ثانی اور سید محقق صاحب مدارک الاحکام کے مطابق جو روایت موثق ہوتی ہے وہ بھی ضعیف ہے کیونکہ ان کے مطابق فاسق غیر عادل ہوتا ہے جس کی گواہی حجت نہیں ہو سکتی ہے۔
دوسری روایت: احمد بن محمد بن عیسی اشعری اپنے نوادر میں ابن ابی عمیر سے روایت کرتے ہیں انہوں نے ہشام بن حکم سے روایت کی ہے ان کا بیان ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے متعہ کے بارے میں فرمایا:
يفعلها عندنا إلا الفواجر.
ہمارے پاس یہ فعل انجام نہیں دیتا ہے سوائے فاجروں کے۔
(وسائل الشیعہ،جلد:۱۴،صفحہ:۴۵۶)
بعض علماء اس حدیث کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اس روایت کو احمد بن محمد بن عیسی کی کتاب النوادر سے نقل کیا گیا ہے جس میں بے تحاشہ روایات عقد متعہ کے جواز میں موجود ہیں اب مخالفین اس روایت کو اپنے سیاق و سباق سے نکال کر اس کا غلط استعمال کر کے اس سے عقد متعہ کو حرام ثابت کرنا چاہتے ہیں اس روایت میں لفظ “عندنا” استعمال ہوا ہے جس کا واضح مطلب ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ایک خاص وقت یا ایک جگہ کے حالات کے حوالے سے گفتگو کر رہے ہیں اس روایت اور اس میں “عندنا” کے لفظ کی مزید وضاحت دوسری روایات میں ہو جاتی ہے جہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اس خاص جگہ یا ایک خاص وقت میں سختی یا اور وجوہات کی بنا پر عقد متعہ کا رواج معاشرے سے ختم ہو چکا تھا اور اس وجہ سے ایسی عورتوں کا معاشرے میں اضافہ ہو گیا تھا کہ جن کا پیشہ ہی زنا کاری تھا اور ان زناکار عورتوں کے لیے سب کچھ برابر تھا کہ کوئی ان کے ساتھ آ کر براہ راست زنا کرے یا عقد متعہ کرے ان عورتوں کو بس پیسہ بنانا ہے اور یہ نہ عدت کی قید کی پابندی کریں گی اور نہ مدت کی قید کی چنانچہ ایسی زناکار عورتیں جو فاجرہ ہیں اور مدت و عدت کا خیال نہیں رکھتی ہیں ان سے متعہ کرنا حرام ہے یعنی مذکورہ حدیث میں ان لوگوں کی مذمت وارد ہوئی ہے جو زانی عورتوں سے متعہ کیا کرتے تھے لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث تقیہ پر محمول ہے اس معنی میں کہ حضرت زید شہید (ع) کی شہادت کے بعد ہشام بن عبدالملک کے معزول ہونے اور بنو امیہ کی سلطنت کے خاتمہ تک تقیہ کا زمانہ تھا کیونکہ ہشام بن عبدالملک ایک ظالم اور جابر حکمران تھا جو آئمہ اہل بیت (ع) سے دشمنی رکھتا تھا اور اسی دور میں حضرت صادق آل محمد (ع) نے اپنے اصحاب کو تقیہ پر حالات زندگی گزارنے کا حکم صادر کیا تھا کیونکہ ان کا آنحضرت (ع) کے پاس آنا جانا رہتا تھا اور دشمنوں کی طرف سے ان کے اصحاب کو کسی خاص معاملہ پر گرفتار کیا جا سکتا تھا پھر اسی طرح آنحضرت (ع) کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا تھا یہی وجہ ہے کہ اپنے شیعوں کے لئے شہر مدینہ میں نکاح متعہ کو حرام قرار دیا تھا ایک خاص وقت اور بعض مقامات کے لحاظ سے تا کہ اپنے آپ کو دشمنوں کے شر و قید سے محفوظ رکھا جا سکے پھر ظاہر ہے ایسی صورتحال میں نکاح متعہ کو رائج کرنا فسق و فجور میں شمار ہوگا اس لئے اس موقع پر شہر مدینہ میں یہ عقد کرنے والا ہر فرد حکم امام کی معصیت کا مرتکب ہونے کی وجہ سے فاجر کہلائے گا چنانہ عمار الساباطی بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے اور سلیمان بن خالد سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
قد حرمت عليكما المتعة من قبلي ما دمتما بالمدينة لأنكما تكثران الدخول علي فأخاف أن تؤخذا، فيقال: هؤلاء أصحاب جعفر.
میں نے تم دونوں پر نکاح متعہ کو حرام قرار دیا ہے جب تک یہاں اس شہر میں رہائش پذیر ہو کیونکہ تم کثرت سے میرے پاس آتے رہتے ہو اور مجھے خوف و اندیشہ ہے کہ تمہیں کہیں پکڑ لیا جائے پھر یہ کہا جائے گا کہ یہ جعفر بن محمد کے اصحاب ہیں۔
الكافي – الشيخ الكليني – ج ٥ – الصفحة ٤٦٧
اور ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ آنحضرت (ع) نے ان دونوں سے ارشاد فرمایا:
حرمت عليكما المتعة من قبلي ما دمتما تدخلان علي، وذلك لأني أخاف أن تؤخذا فتضربا وتشهرا، ويقال: هؤلاء أصحاب جعفر بن محمد.
میں نے تم دونوں پر نکاح متعہ کو حرام قرار دیا ہے جب تک یہاں (اس شہر میں) رہائش پذیر ہو کیونکہ تم کثرت سے میرے پاس آتے رہتے ہو اور مجھے خوف و اندیشہ ہے کہ تمہیں کہیں پکڑ لیا جائے ‘ مارا پیٹا جائے اور بدنام کیا جائے پھر یہ کہا جائے گا کہ یہ جعفر بن محمد کے اصحاب ہیں۔
خلاصة الإيجاز – الشيخ المفيد – الصفحة ٥٩
لیکن آنحضرت (ع) نے اس حکم کو بنو عباس کے دور حکومت میں واپس لے لیا تھا جب منصور دوانقی کو اقتدار حاصل ہوا کیونکہ اس زمانہ کے حالات کچھ قابو میں تھے اور اس کی مثال بالکل اسی طرح ہے جیسا کہ من لا یحضر الفقیہ میں ایک روایت وارد ہوئی ہے کہ آنحضرت (ع) نے ارشاد فرمایا کہ میرے والد نے فلاں پرندہ کا گوشت حرام قرار دیا تھا اور میں اسے حلال قرار دیتا ہوں پس اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حکم بھی ماضی میں تقیہ پر محمول تھا لیکن بنو امیہ کے دور حکومت کے بعد اسے بھی واپس لے لیا گیا اور اس کی ایک مثال یہ بھی ہے جیسا کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام نے اپنی توقیع مبارکہ میں ارشاد فرمایا “ملعون ملعون ہے وہ شخص جو لوگوں کے مجمع میں میرا نام لیتا ہے” کیونکہ اس زمانہ میں آنحضرت (ع) کو خطرہ لاحق تھا اس لئے تقیہ کا حکم رائج ہو گیا لیکن یہ حکم بھی زمانہ غیبت کبری کے داخل ہونے کے بعد واپس لے لیا گیا۔
ــــــــــــــــــــ
تحریر : محمد بشیر توحیدی
.
.
.
شیخ صدوق کی کتاب “ؑإثبات المتعة” سے شیخ مفید یہ روایت نقل کرتے ہیں:
وروى ابن بابويه بإسناده: ” أن عليا – عليه السلام – نكح بالكوفة امرأة من بني نهشل متعة ” .
اور ابن بابویہ اپنے سلسلہ سند کے ساتھ یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے کوفہ میں قبیلہ بني نهشل سے تعلق رکھنے والی ایک عورت سے نکاح متعہ کیا تھا۔
خلاصة الإيجاز – الشيخ المفيد – الصفحة ٢٥