عورت کے لئے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح متعہ کرنے کے جواز پر علماء اہل سنت کا نکتہ نظر.

ــــــــــــــــــــ
باکرہ عورت کے لئے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح دائمی کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ عورت بالعموم اپنے گھر میں رہتی ہے اور زیادہ تر لوگوں کی پہچان نہیں رکھتی ہے اس لئے اس کے ولی کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اس کا ایک ایسے مرد سے رشتہ ازدواج قائم کرے جو نکاح کے بعد اس کے وارث ہونے کے اعتبار سے بہترین کردار ادا کرے ‘ اس کے نان و نفقہ کے انتظامات سنبھالے اور اس کی ضروریات زندگی کو پورا کرے اور اس پر ظلم و ستم نہ کرے کہ جس کے بعد اس عورت کے لئے طلاق لینا بھی مشکل پڑ جائے کیونکہ نکاح دائمی کے بعد اس کے ولی پر وراثت کے حقوق ساقط ہو جاتے ہیں اس لئے رشتہ ازدواج کی بہتری کے حوالے سے اس کے اذن کو ضروری قرار دیا گیا ہے نیز اس کی وجہ ایک اخلاقی پہلو بھی ہو سکتا ہے البتہ صاحب عدت عورت کے لئے اذن ولی شرط نہیں ہے لیکن نکاح متعہ کے سلسلہ میں باکرہ عورت کے لئے اپنے ولی کی اجازت کا ہونا شرط ہے یا نہیں تو یہ علماء امامیہ کے درمیان ایک اختلافی مسلئہ ہے کیونکہ اولا احادیث کی رو سے اس کی حلت واضح طور پر نمایاں ہے جس میں عقد کے بعد صرف دخول کی حد تک ممانعت وارد ہوئی ہے جو حکم حرمت پر نہیں بلکہ کراہت پر محمول ہے تا کہ جب وہ کبھی نکاح دائمی کرے پھر اس کے شوہر کو اس کے بدکار عورت ہونے کا شک نہ ہو کہ اس نے نکاح سے قبل زنا کا ارتکاب کیا کیونکہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح متعہ کرنے سے یہ معاملہ لوگوں میں مخفی رہتا ہے الغرض بعض علماء امامیہ کے مطابق ولی کی اجازت شرط نہیں ہے لیکن دو احادیث کے مطابق بدون اذن ولی اس عمل کا مکروہ ہونا ثابت ہے البتہ حرمت پر کوئی دلیل وارد نہیں ہوئی ہے کیونکہ اس عقد میں مرد کے وارث ہونے کا کوئی معاملہ نہیں ہوتا ہے سوائے اولاد کے اور عورت کے نان و نفقہ کی ذمہ داریاں بھی اس کے ولی پر عائد ہوتی ہیں اور دوسری بات یہ کہ عقد متعہ زنا پر قابو پانے کے لئے حلال قرار دیا گیا ہے اس لئے عورت کے لئے اسے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر انجام دینے سے اخلاقی پہلو بھی متاثر نہیں ہوتا ہے کیونکہ اس طرح اسے شرمندگی کا سامنا بھی پڑ سکتا ہے مگر ایسی صورتحال میں وہ اس معاملہ کو اپنے قریبی رشتہ داروں اور اپنی علاقے کے لوگوں سے ظاہر نہ کرے اور گھومنے پھرنے کے لئے بھی ایک ایسے مقام کا انتخاب نہ کرے جہاں لوگوں کی زیادہ تر آمد و رفت رہتی ہے اور نہ اپنے علاقہ کے ارد گرد اشیاء خورد و نوش کے مقامات پر بیٹھے کیونکہ صورتحال کے واضح ہونے پر یہ عمل اس کی بدنامی کا موجب ہو سکتا ہے اور شوہر کے لئے بھی بہتر یہی ہے کہ وہ اسے گھومنے پھرنے کی غرض سے زیادہ دور دراز علاقوں تک نہ لے جایا کرے اور نہ اسے اپنے پاس رکھنے میں زیادہ تاخیر کرے بلکہ اس معاملہ کو دبا کر ہلکا رکھے تا کہ لوگوں کی نگاہوں میں عورت کی عفت باقی رہ جائے اور نہ اپنے دوست و احباب کو اس خبر سے مطلع کرے اور اگر اسے مقاربت کے لئے کوئی جگہ میسر نہ ہو پھر اسے وقتی طور پر جھاڑیوں کے پاس لے جانا تو بہتر ہوگا مگر اسے اپنے کسی عزیز کے گھر لے جانے سے اجتناب کرے تا کہ اس کا تقدس پامال نہ ہو اور نہ کوئی دوسرا فرد اسے بری نظر سے دیکھے کیونکہ اس طرح عجیب و غریب چہ مگوئیاں بھی ہو سکتی ہیں چنانچہ اس عقد کے جواز پر یہ روایت نقل کرتے ہیں محمد بن مسلم بیان کرتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
لا بأس بتزويج البكر إذا رضيت من غير إذن أبيها.
باکرہ عورت کے لئے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح متعہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
رسالة المتعة – الشيخ المفيد – الصفحة ١٠
اور اس طرح کی روایات اور تصریحات پر علماء مخالفین طعن و تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ عمل بدون اذن ولی حرام ہے جبکہ وہ اپنے آئمہ اربعہ و محدثین اور اسلاف کے اجماعی نکتہ نظر سے بے خبر ہیں کیونکہ ان کے مطابق جب اوائل اسلام میں نکاح متعہ حلال تھا تو اس وقت یہ عمل ولی کی اجازت اور گواہوں کے بغیر حلال سمجھا جاتا تھا چنانچہ اسی سلسلہ میں ان کے مشہور محدث اور محقق حافظ ابو عمر ابن عبد البر جو ابن حزم کے استاد اور سلفیوں کے روحانی باپ سمجھے جاتے ہیں اپنی کتاب تمہید میں لکھتے ہیں:
أجمعوا أن المتعة نكاح لا إشهاد فيه ولا ولي وأنه نكاح إلى أجل تقع فيه الفرقة بلا طلاق ولا ميراث بينهما.
اس بات پر اجماع و اتفاق قائم ہے کہ نکاح متعہ میں گواہوں کا ہونا اور ولی کی اجازت شرط نہیں ہے اور یہ نکاح وقتی طور پر ہوتا ہے جس میں مرد و عورت کے درمیان جدائی بغیر طلاق کے ہو جاتی ہے اور اس میں شوہر اپنی زوجہ کا وارث نہیں ہوتا ہے۔
التمهيد – ابن عبد البر – ج ١٠ – الصفحة ١١٦
اور ان کے دوسرے محقق ابو محمد مکی بن ابی طالب قرطبی (٤٣٧هـ) آیت متعہ کے بارے میں دو اختلافی آراء نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
و على القول الأول: النكاح إلى أجل بغير شاهد و لا ولي.
پہلے قول کے مطابق اس میں وقتی رشتہ کا حکم وارد ہوا ہے جو بغیر گواہ اور بغیر اذن ولی کے ہوتا ہے۔
الإيضاح لناسخ القرآن و منسوخه – الصفحة ٢٢١
اور ان کے تیسرے محقق ابو العباس احمد بن عمار مہدوی نے اپنی تفسیر “التحصيل ألفوائد كتاب التفصيل الجامع لعلوم التنزيل” میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا ایک قول نقل کیا ہے جس کو قرطبی نے اپنی تفسیر میں اس طرح نقل کیا ہے:
و حكى المهدوي عن ابن عباس أن نكاح المتعة كان بلا ولي ولا شهود.
مہدوی نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ نکاح متعہ بغیر اذن ولی اور بغیر گواہوں کے ہوتا ہے۔
تفسير القرطبي – القرطبي – ج ٥ – الصفحة ١٣٢
ــــــــــــــــــــ
تحریر : محمد بشیر توحیدی