والدہ گرامئ سیِّد سجاد ( صلوة الله و سلامه عليهما )
(نوٹ : یہ اس سلسلہ سے وابستہ تحاریر صرف شیعہ احباب کے لیے ہیں۔)
محمد بن حسن صفار القمی المتوفی 290 ھ ( رضوان اللہ علیہ ) :
آپ ( علیھا السلام) کا نام ” شاہ جہان ” تھا جنابِ امیر ( صلوة الله و سلامه علیه ) نے آپ ( علیھا السلام ) کا نام ” شَهْرَبَانُوَيْهِ ” رکھا۔
نوٹ : مندرجہ بالا خلاصہ علامہ صفار ( رضوان اللہ علیہ ) سے مروی ایک روایت سے مستفاد ہے جبکہ آپ ( رضوان اللہ علیہ) کا ذاتی رجحان معلوم نہیں ہو سکا بخلاف علّامَتَين( شیخ کیلنی و مفید ) کے کہ انہوں نے اپنے ذاتی تحقیق کے مطابق اسماء ذکر کیے ہیں۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ عَبْدِ اَللَّهِ بْنِ أَحْمَدَ عَنْ عَبْدِ اَلرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ اَلْخُزَاعِيِّ عَنْ نَصْرِ بْنُ مُزَاحِمٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شِمْرٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ بِابْنِةِ يَزْدَجَرْدَ عَلَى عُمَرَ وَ أُدْخِلَتِ اَلْمَدِينَةَ أَشْرَفَ لَهَا عَذَارَى اَلْمَدِينَةِ وَ أَشْرَقَ اَلْمَسْجِدُ بِضَوْءِ وَجْهِهَا فَلَمَّا دَخَلَتِ اَلْمَسْجِدَ وَ رَأَتْ عُمَرَ غَطَّتْ وَجْهَهَا وَ قَالَتْ آه بيروز بادا هُرْمُزُ قَالَ فَغَضِبَ عُمَرُ وَ قَالَ تَشْتِمُنِي هَذِهِ وَ هَمَّ بِهَا فَقَالَ لَهُ أَمِيرُ اَلْمُؤْمِنِينَ لَيْسَ لَكَ ذَلِكَ أَعْرِضْ عَنْهَا إِنَّهَا تَخْتَارُ رَجُلاً مِنَ اَلْمُسْلِمِينَ ثُمَّ اُحْسُبْهَا بِفَيْئِهِ عَلَيْهِ فَقَالَ عُمَرُ اِخْتَارِي قَالَ فَجَاءَتْ حَتَّى وَضَعَتْ يَدَهَا عَلَى رَأْسِ اَلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ فَقَالَ أَمِيرُ اَلْمُؤْمِنِينَ مَا اِسْمُكِ قَالَتْ جَهَانْ شَاهُ فَقَالَ بَلْ شَهْرَبَانُوَيْهِ ثُمَّ نَظَرَ إِلَى اَلْحُسَيْنِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ فَقَالَ يَا أَبَا عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ لَيَلِدَنَّ لَكَ مِنْهَا غُلاَمٌ خَيْرُ أَهْلِ اَلْأَرْضِ .
ترجمہ ( مستدَلَّہ عبارت کا ترجمہ )
عمر نے کہا : آپ ( اپنے لیے جس کو چاہیں) چن لیجیے۔ تو وہ آئیں یہاں تک اپنا ہاتھ امام حسین ( علیہ السلام ) کے سر پر رکھا ( یہ لغوی ترجمہ ہے ظاہر یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے سر کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا )، جناب امیر ( صلوة الله و سلامه علیہ ) نے ان ( مخدرہ ) سے پوچھا :
آپ کا نام کیا ہے؟ ( جوابا ) بیبی ( صلوة الله و سلامه علیھا ) نے فرمایا : “جہان شاہ”
جناب امیر ( صلوت اللہ و سلامہ علیہ ) نے فرمایا : بلکہ آپ کا نام تو ” شہربانویہ ” ہے
پھر جناب امیر ( صلوت اللہ و سلامہ علیہ ) نے امام حسین ( صلوت اللہ و سلامہ علیہ ) کی طرف دیکھ کر فرمایا : بے شک آپ کے لیے اس ( شہربانویہ) سے ایک ایسا لڑکا جنم لے گا جو زمین پر بسنے والوں سے افضل ترین ہوگا۔
بصائر الدرجات في فضائل آل محمد علیهم السلام ج ۱، ص ۳۳۵
حکم : از روئے سند یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ ” عمرو بن شمر ” ضعیف ہے علامہ نجاشی المتوفی 450 ( رضوان اللہ علیہ )نے ان کو ” ضعیف جدا” لکھا ( رجال النجاشي ص ٢٨٧ )
نیز علامہ حلی ( رضوان اللہ علیہ ) نے ان سے متعلق فرمایا : فلا أعتمد على شيء ممّا يرويه
چنانچہ اس نے جو روایت کیا میں اس پر چنداں اعتماد نہیں کرتا۔ (ترتيب خلاصة الأقوال في معرفة الرجال ج1 ص 321 )
شیخ کلینی المتوفی 329 ( رضوان اللہ علیہ ) :
آپ ( علیھا السلام) کی والدہ ماجدہ کا نام ” سَلامہ/ شھربانو” ہے۔
شیخ کلینی ( رضوان اللہ علیہ ) نے اپنی اصول میں ائمہ ( علیھم السلام ) کے موالید سے متعلق ابواب قائم کیے اور چوتھے امام ( صلوة الله علیہ ) کی ولادت سے متعلق باب لکھا جس کا ابتدائیہ ان الفاظ کے ساتھ ہے:
بَابُ مَوْلِدِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ
ہہ باب علی بن حسین کی ولادت کے بیان میں ہے۔
وُلِدَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ ع فِي سَنَةِ ثَمَانٍ وَ ثَلَاثِينَ وَ قُبِضَ فِي سَنَةِ خَمْسٍ وَ تِسْعِينَ وَ لَهُ سَبْعٌ وَ خَمْسُونَ سَنَةً وَ أُمُّهُ سَلَامَةُ بِنْتُ يَزْدَجِرْدَ بْنِ شَهْرِيَارَ بْنِ شِيرَوَيْهِ بْنِ كِسْرَى أَبَرْوِيزَ وَ كَانَ يَزْدَجِرْدُ آخِرَ مُلُوكِ الْفُرْسِ.
علی بن حسین ( علیھما السلام) کی ولادت 38 ھ میں ہوئی اور آپ( علیہ السلام ) کی شہادت 95ھ میں ہوئی ( اس حساب سے ) آپ (علیہ السلام ) نے 57 برس کی عمر پائی۔
آپ ( علیھا السلام ) کی والدہ ماجدہ ” سَلَامَةُ بِنْتُ يَزْدَجِرْدَ بْنِ شَهْرِيَارَ بْنِ شِيرَوَيْهِ بْنِ كِسْرَى أَبَرْوِيزَ ” ہیں
اور یزدجرد فارس کے بادشاہوں میں سے آخری بادشاہ تھا۔
الاصول من الکافی ج 1 ص 466
محشی نے لفظ ” سلامہ ” سے متعلق لکھا:
في بعض النسخ[ شهر بانويه].
اور کافی کے بعض نسخوں میں سلامہ کی جگہ ( شھربانو ) ہے۔
اس تصریح کے بعد معلوم ہوا کہ کافی کے نسخوں کے اختلاف کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ لفظ ” سھرںاںو ” کو بعض نساخ نے اہل سنت کی کتب پیروی میں ” سلافة ” لکھ دیا ہو لیکن یہ احتمال بلا دلیل ہے اور احتمال بلا دلیل پر اعتماد ممکن نہیں اس لیے عدل کا یہی تقاضا کہ کافی کے نسخوں کے مطابق ہم تک دو ناموں پر مطلع ہوئے
1 :- سلامہ
2 :- شھربانو
مزے کی بات یہ ہے کہ شیخ کلینی ( رضوان اللہ علیہ ) نے اس باب ( بَابُ مَوْلِدِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ) کے ذیل میں چھ رواتیں نقل فرمائیں اور کسی روایت اس نام ( سلامہ) کا ذکر نہیں جسے ابتدائیہ میں نقل کیا بلکہ پہلی روایت جو اس باب میں لائے ہیں اس کا متن وہی ہے ( کچھ اضافاجات کے ساتھ ) جو محمد بن حسن صفار قمی اپنی بصائر میں لائے ہیں۔
البتہ صفار قمی ( رضوان اللہ علیہ ) کہ روایت جناب امیر ( صلوت اللہ و سلامہ علیہ ) کی بشارت پر آکر ختم ہوتی ہے جبکہ شیخ کلینی کی روایت میں اس بشارت کے بعد مندرجہ ذیل اضافہ مرقوم ہے :
فَوَلَدَتْ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ ع وَ كَانَ يُقَالُ لِعَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ع- ابْنُ الْخِيَرَتَيْنِ فَخِيَرَةُ اللَّهِ مِنَ الْعَرَبِ هَاشِمٌ وَ مِنَ الْعَجَمِ فَارِسُ.
وَ رُوِيَ أَنَّ أَبَا الْأَسْوَدِ الدُّؤَلِيَّ قَالَ فِيهِ-
وَ إِنَّ غُلَاماً بَيْنَ كِسْرَى وَ هَاشِمٍ-
لَأَكْرَمُ مَنْ نِيطَتْ عَلَيْهِ التَّمَائِمُ
شہربانویہ ( صلوت اللہ و سلامہ علیها ) کے بطن سے امام زین العابدین متولد ہوئے اور امام ( علیہ السلام ) کو ” ابْنُ الْخِيَرَتَيْنِ ” ( دو چنندہ ہستیوں کا بیٹا ) کہا جاتا تھا کہ اللہ نے آپ ( علیھ السلام) کے لیے عرب میں سے ہاشم کو چنا اور عدم میں سے فارس کو۔
اور مروی ہے ابو الاسود دولی نے امام ( علیہ السلام) کی شان میں فرمایا:
اور بلاشبہ کِسری و ہاشم کے مابین جو ایک لڑکا ( بچہ ) ہے
وہ اس ( ہر بچہ ) سے زیادہ سخی ہے کہ جس پر تعویذات لٹکائے جاتے ہیں۔
شعر میں تمائم لفظ استعمال ہوا ہے
کہ یعنی یہ بچہ ہر اس بچہ پر شرفِ سخاوت رکھتا ہے کہ جس پر ” تمائم ” لٹائے جاتے ہیں
ہم نے اس کا ترجمہ تعویذات کیا ہے
علامہ ابن اثیر جزری لکھتے ہیں:
التمائم جمع تميمة و هي خزرات كانت العرب تعلقها على أولادهم يتقون بها العين بزعمهم.
ترجمہ: تمائم یہ تمیمة کی جمع ہے اور یہ وہ ( چھوٹی چھوٹی لکڑیاں ) ہوتی تھیں جنہیں عرب اپنی اولاد پر لٹکاتے( پہنا دیتے ) تھے تاکہ اپنی اولاد کو ( اپنے زعم کے مطابق ) نظر بد سے بچائین ۔
تبصرہ : ظاہر ہے کہ یہ تعویذات خوبصورت بچوں کے گلوں میں لٹکا دیئے جاتے تھے تاکہ وہ نظر بد سے محفوظ رہیں گویا ابو الاسود کہنا یہ چاہتے ہیں کہ عرب و عجم کے ملنے سے یہ جو حسین بچہ اس دنیا میں آیا ہے یہ ہر اس ( خوبصورت ) بچہ سے ممتاز ہے جس پر والدین تعویذات لٹکاتے ہیں ( و اللہ اعلم )
حکم : از روئے سند یہ روایت ( جسے علامہ کلینی رضوان اللہ علیہ ) نے روایت کیا ضعیف ہے کیونکہ ” عمرو بن شمر ” ضعیف ہے علامہ نجاشی المتوفی 450 ( رضوان اللہ علیہ )نے ان کو ” ضعیف جدا” لکھا ( رجال النجاشي ص ٢٨٧ )
نیز علامہ حلی ( رضوان اللہ علیہ ) نے ان سے متعلق فرمایا : فلا أعتمد على شيء ممّا يرويه
چنانچہ اس نے جو روایت کیا میں اس پر چنداں اعتماد نہیں کرتا۔ (ترتيب خلاصة الأقوال في معرفة الرجال ج1 ص 321 )
شیخ مفید المتوفی 413 ( رضوان اللہ علیہ ) :
آپ ( علیہ السلام ) کی والدہ گرامی کا نام شاہ زنان /شہربانو ہے۔
شیخ مفید المتوفی 413 ( رضوان اللہ علیہ ) نے الإرشاد میں ” شاہْ زنان” نام ذکر کیا ہے اور اسم گرامی ” شہربانو” کو صیغہ تمریض ” یُقال” سے ذکر کیا لیکن یہ لازم نہیں کہ ہر وہ بات جو صیغہ تمریض ” قیل یا یقال ” لے بعد نقل کی جائے ” ضعیف ” ہی ہو۔
الغرض شیخ مفید( رضوان اللہ علیه) نے لکھا :
وَ اَلْإِمَامُ بَعْدَ اَلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ اِبْنُهُ أَبُو مُحَمَّدٍ عَلِيُّ بْنُ اَلْحُسَيْنِ زَيْنُ اَلْعَابِدِينَ صَلَوَاتُ اَللَّهِ عَلَيْهِ وَ كَانَ يُكَنَّى أَيْضاً أَبَا اَلْحَسَنِ وَ أُمُّهُ شَاهْ زَنَانُ بِنْتُ يَزْدَجَرْدَ بْنِ شَهْرِيَارَ بْنِ كِسْرَى وَ يُقَالُ إِنَّ اِسْمَهَا شَهْرَبَانُو
اور حسین بن علی کے بعد ان کے فرزند ابو محمد علی بن حسین زین العابدین (صلوت اللہ علیہ ) امام ہیں اور آپ ( علیہ السلام ) کی کنیت ” ابو الحسن ” بھی ہے ۔ اور آپ ( علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ ” شاہ زنان بنت يَزْدَجَرْدَ بْنِ شَهْرِيَارَ بْنِ كِسْرَى ” ہے
اور کہا گیا ہے کہ آپ ( علیھا السلام) کا نام شَهْربانو ہے۔
الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد ج ۲، ص ۱۳۷
مذکورہ بالا بیان سے واضح ہوا کہ
والدہ گرامئ سید الساجدین ( صلوة الله عليهما ) کا نام شیخ مفید کے نزدیک ” شاہ زنان ” ہے۔
تبصرہ : مادر گرامئ سید الساجدین و زین العابدین( علیھما السلام ) کے اسم گرامی سے متعلق یہی وہ تین علماء ہیں کہ جن کے کلام کو بعد والے علماء نے نقل کیا ہے ۔
ہمارے نزدیک بیبی ( صلوة الله و سلامه عليها ) کا اسم گرامی شاہ زنان تھا جسے جناب امیر ( صلوت اللہ و سلامہ علیہ ) نے بدل کر( شھربانویہ) رکھا جسے لوگ شہربانو بھی پڑھتے ہیں۔
شیخ وحید خراسانی ( مد ظله العالی ) کی کتاب کہ جس کا ترجمہ سید تلمیذ حسنین رضوی ( اعلی اللہ مقامہ ) نے کیا اس میں امام ( صلوة الله و سلامه عليه) كی والدہ مکرمہ کا نام ( شاہ زنان ) لکھا گیا ہے۔ ( سیرت معصومین از شیخ وحید خراسانی ( مد ظلہ ) ص 271 )
اس امر پر ہمارے دیگر علماء کے عبارات بھی نقل کرنا چاہتا ہوں لیکن بخوف طوالت انہیں ترک کر دیا ہے۔







