مشرکین مکّه کو آنحضرت ﷺ اور حضرت ابو طالب ؑ کا جواب

ســیـد نــادر حـسـیـن نــقـوی
حضرت عقیل ؓ بیان کرتے ہیں کہ قریش کے لوگ ابو طالب ؑ کے پاس آئے اور کہا :
آپ کے بھتیجے نے ہماری مجلسوں اور ہماری مسجد ( کعبہ ) میں ہمارا جینا دو بھر کر دیا ہے لہذا آپ ؑ اسے روکیے،
تو ابو طالب ؑ نے کہا اے عقل ! محمد (ﷺ) کو میرے پاس لاؤ ۔ میں گیا اور آپ ؐ کو لے آیا،
تو ابو طالب نے آپ سے مخاطب ہو کر کہا :
” اے میرے بھتیجے ! تیرے چچا زاد بھائیوں کا خیال ہے کہ آپ ؐ انہیں ان کی مجلسوں اور ان کی مسجد میں تکلیف پہنچاتے ہو، آپ ؐ اس سے رک جائیں۔
اس پر رسول اللہ ﷺ نے اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی اور فرمایا :
” کیا تم اس سورج کو دیکھ رہے ہو ؟ قریش نے کہا : ہاں ! تو آپ ؐ نے فرمایا : میں تمہاری خاطر اس دعوت کو چھوڑ دوں اس کا تو مجھے اختیار ہی نہیں ہے ، خواہ تم میرے لئے اس کے بدلے سورج کا ایک شعلہ روشن کر دو “۔
ابو طالب ؑ نے کہا : میرے بھتیجے نے ہم سے کبھی جھوٹ نہیں کہا ، لہذا تم واپس چلے جاؤں “
طبرانی اوسط کے الفاظ ہیں
” الله کی قسم ! مجھے تو اس کا اختیار ہی نہیں کہ میں اس دعوت سے باز آ جاؤں جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں ، خواہ تم میں سے کوئی اس سورج کی آگ سے ( میرے لیے ) ایک شعلہ روشن کر دے “۔
رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس دو ٹوک جواب پر ابو طالب ؑ قریش مکہ سے کہنے لگے :
” الله کی قسم ! انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ، لہذا تم واپس چلے جاؤ” ۔
(مسند ابی یعلیٰ ، جلد 12 ، صفحہ 176، حدیث 6804، و اسنادہ قوی
المعجم الاوسط للطبرانی ، جلد 8 ، صفحہ 252 ، 253 ، حدیث 8553 و اسنادہ حسن لذاۃ
المعجم الکبیر للطبرانی ، جلد 17 ، صفحہ 174 ، حدیث 511)