“نبیؐ ابوبکر کو ان کی اولاد سمیت عمر کو ان کی اولاد سمیت اور عثمان کو انکی اولاد سمیت اور علی المرتضیٰ رضی اللہ ان کی اولاد سمیت موقع مباہلہ پر بلا کر ساتھ لائے”

1) راوی سعید بن عنبسة الرازی :
١- ابن معین نے سعید بن عنبسة الرازی کو کذاب کہا ہے۔
٢) ابن الجنید نے بھی اسے جھوٹا کہا ہے۔
٣) ابو حاتم کے نزدیک بھی یہ سچا نہیں ہے۔
حوالہ : [ لسان المیزان – الجزء الرابع – صفحہ ٦٩ ، ٧٠ ]
2) راوی الھیثم بن عدی الطائی :
١) امام بخاری نے کہا یہ قابل اعتماد نہیں ہے۔
٢) یحیٰی نے نزدیک بھی یہ قابل اعتماد نہیں ہے۔
٣) ابو داود کے نزدیک یہ کذاب راوی ہے۔
۴) نسائی نے اسے متروک الحدیث کہا ہے۔
حوالہ : [ لسان المیزان – الجزء اثامن – صفحہ ٣٦١ ]


حوالہ : [ روح المعانی – الجزء الثالث – صفحہ ١٩٠ ]
کمنٹ : ثابت ہوا کہ شیخین کو ساتھ ملانے والے روایات جھوٹ کے سوا کچھ نہیں اب ہم صحیح سند سے روایات پیش کرتے ہیں جس سے ثابت ہوگا کہ مباہلہ میں حضور ﷺوآلہ اپنے ساتھ کن پاک ہستیوں کو لے کر گئے تھے۔
آیت مباہلہ سورہ آل عمران کی آیت نمبر ٦١ ہے جو رسول خدا(ص) اور نجران کے نصارٰی کے درمیان ہونے والے مباہلے کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اصحاب کساء بطور خاص امام علی(ع) کے فضائل کو عیاں کرتی ہے۔

ترجمہ: چنانچہ اب آپ کو علم (اور وحی) پہنچنے کے بعد، جو بھی اس (حضرت عیسیؑ) کے بارے میں آپ سے کٹ حجتی کرے تو کہہ دیجیےکہ آؤ! ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں اور اپنی عورتوں اور تمہاری عورتوں اور اپنے نفسوں کو اور تمہارے نفسوں کو بلالیں پھر التجا کریں اور اللہ کی لعنت قرار دیں جھوٹوں پر۔
حوالہ : [ سورہ آل عمران – آیت ٦١ ]
شأن نزول : شیعہ اور سنی مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت رسول اکرم(ص) کے ساتھ نجران کے نصارٰی کے مناظرے کی طرف اشارہ کرتی ہے اہل سنت کے مفسرین زمخشری ، فخر رازی، بیضاوی اور دیگر نے کہا ہے کہ “ابناءنا” [ہمارے بیٹوں] سے مراد حسن(ع) اور حسین(ع) ہیں اور “نساءنا” سے مراد فاطمہ زہراءعلیہا السلام اور “انفسنا” [ہمارے نفس اور ہماری جانوں] سے مراد حضرت علی(ع) ہیں۔ یعنی وہ چار افراد جو آنحضرت(ص) کے ساتھ مل کر پنجتن آل عبا یا اصحاب کساء کو تشکیل دیتے ہیں اور اس آیت کےعلاوہ بھی زمخشری اور فخر رازی ، کے مطابق آیت تطہیر اس آیت کے بعد ان کی تعظیم اور انکی طہارت پر تصریح و تاکید کے لئے نازل ہوئی ہے۔ بہر حال رسول اللہ(ص) نے آیت مباہلہ کے نزول کے بعد نجران کے نصارٰی کو مباہلے کی دعوت دی اور آپؐ حکم پروردگار کے مطابق علی و فاطمہ اور حسن و حسین علیہم السلام کو ساتھ لے کر میدان مباہلہ میں حاضر ہوئے۔
حوالہ : [ تفسیر درمنثور – جلد ٢ – صفحہ ١٠٩ ، ١١١ ]
: [ الزمخشری – تفسیر الکشاف – ذیل سورة آل عمران آیت ٦١ ]
: [ الرازی – التفسیر الکبیر – ذیل سورة آل عمران آیت ٦١ ]
: [ البیضاوی – تفسیر انوار التنزیل واسرار التأویل – ذیل سورة آل عمران آیت ٦١ ]

حوالہ : [ صحیح مسلم شریف – حدیث ٦٢٢٠ ]
: [ جامع ترمذی – حدیث ٣٧٢۴ ]

تو رسول ﷺوآلہ نے حضرت علیؑ، حضرت فاطمہؑ، حضرت حسنؑ اور حضرت حسینؑ کو بلایا اور بولے! اے الله یہ میرے اہلبیت ہیں۔
امام حاکم نے اسے بخاری و مسلم کی ششرائط پر صحیح کہا ہے
حوالہ : [ المستدرک حاکم – جلد ۴ – صفحہ ٢٩٦ – روایت ۴٧١٩ ]

حوالہ : [ المستدرک حاکم – الجزء الثالث – صفحہ ١٦٣ ]

” جب میں دعا کروں تو تم آمین کہنا ” (یہ منظر دیکھ کر) عیسائیوں کے سب سے بڑے پادری نے کہا: اے نصرانیو! میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر اللہ چاہے توان (چہروں) کے لیے پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا دے چنانچہ ان سے ہرگز مباہلہ نہ کرنا ورنہ ہلاک وبرباد ہو جائو گےاور روئے زمین پر قیامت تک کوئی نصرانی نہیں بچےگا۔”
حوالہ : [ الکشاف – جلد اول – صفحہ ٣٦٢ ]














