
حٙدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَطَّانُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو سَعِیدٍ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ السُّکَّرِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ حَسَّانَ الْعَبْدِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ یَحْیَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِیهِ عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ .

ابوهریره کہتے ہیں رسول خدا ﷺوآله نے صبح کی نماز پڑھی پھر محزون چہرہ کھڑے ہوئے ہم بھی محزون ہو کر ان کے ساتھ کھڑے ہوئے کر ان کے معیت میں حضرت فاطمه صلوات اللَّه علیها کے گھر پہنچے، میں نے دیکھا کہ على علیه السّلام گھر کے دروازے کے ساتھ زمین پر سوئے ہوئے ہیں پیغمبر اکرم ﷺ وآله بیٹھے اور ان امیر المؤمنین ع کی پیٹھ کو خاک سے صاف کرنا شروع کیا، اور کہاکہ اے ابوتراب اٹھو میرے ماں باپ تجھ پر قربان، پھر على علیه السّلام کے ہاتھ کو پکڑ کر فاطمه علیها السّلام کے گھر داخل ہوئے،.
ہم کچھ وقت گھر سے باہر انتظار کیا ہم نے بلند آواز کے ساتھ گھر سے ہنسی کی آواز سنی ، کچھ دیر بعد رسول خدا ﷺوآله خوشی کے ساتھ باہر آئے، ہم نے کہا یا رسول اللَّه گھر میں محزون داخل ہوئے تھے اور خوشی کے ساتھ باہر نکلے، وجہ کیا ہے؟
حضرتؐ نے فرمایا کہ کیسے مسرور اور خوش نہ ہو جاوں حالانکہ میں نے دو ایسے ہستیوں کے درمیان صلح کی جو مجھے تمام اہل زمین اور اہل آسمان سے زیادہ محبوب ہیں

حوالہ : [ علل الشرائع – جلد ١ – صفحہ ١۵٦ ، ١۵٧ ]
جواب : اس کی سند کے بیان کرنے والے ابوہریرہ ہے، موصوف کا شیعوں کے نزدیک کذاب اور غیر معتمد ہونا اظہر من الشمس ہے۔
اس روایت کی سند میں “حسن بن علی سکری” ، “حسین بن حسان عبدی” ، “عبد العزیز بن مسلم” ، ” یحیی بن عبدالله ” اور اسکے باپ مجاھیل ہیں یہ پوری سند تقریبا اہلسنت راویان سے بھری ہے۔
١) أبو سعيد الحسن بن علي السكري :

أبو سعيد الحسن بن علي السكري شیعہ علم رجال میں کوئی آتا پتا نہیں اور مہمل ہے۔
حوالہ : [ مستدركات علم رجال الحديث – جلد ٢ – ص ٤٥٤ ]

ابو سعید السکری کو علامہ ذھبی نے علامہ ، شیخ الادب اور صاحب تصنیف گردانا ہے۔
حوالہ : [ سیر اعلام النبلاء – جلد ١٣ – ص ١٢٧ ]

راوی عبدالعزیز بن مسلم شیعہ علم رجال میں یہ مجہول التوثیق ہے جبکہ علامہ ذھبی نے امام، عابد ربانی، ثقات میں سے لکھا ہے
حوالہ : [ سیر اعلام النبلاء – جلد ٨ – ص ١٩٢ ]

یحیی بن عبدالله شیعہ کے ہاں مجھول اور اہل سنت کے ہاں شدید ضعیف ہے

ابوہریرہ جو اہل تشیع کے نزدیک دشمنان اهلبیت ع میں سے ہے ، اور ان لوگوں میں سے ہے کہ جس نے پیغمبر (ص) اور اهل بیت علیهم السلام پر جھوٹ باندھا ہے، جیسا کہ مرحوم آیت الله نمازی شاهرودی اپنی کتاب مستدرکات میں لکھتے ہیں۔ ابوھریرہ صحابی جو کہ انتہائی جھوٹا ہے، هو الکذّاب المشهور۔
حوالہ : [ مستدرکات علم رجال الحدیث – جلد ٨ – صفحہ ۴٧۵ ]

پس یہ روایت بھی ضعیف ترین روایت ہے کہ جو قابل استناد نہیں ہے. علی کل حال اس قسم کی روایات کو بیان کرکے اس کے اگلے ہی صفحہ پر شیخ صدوق نے رح لکھا :

میری نزدیک یہ روایت معتبر نہیں اور نہ ہی یہ میرا اعتقاد ہے کہ امیر المؤمنین ع کو ابو تراب اس وجہ سے لقب ملا کیونکہ علی ع اور فاطمہ ع میں کبھی ایسی بات ہی نہیں ہوئی جسکی اصلاح رسول ص کو کرنی پڑے کیونکہ امیر المؤمنینؑ اوصیاء کے سردار ہیں اور جناب زھرا ع خواتین عالم کی سردار اور ہر دو نبی ص کے بہترین اخلاق کی پیروکار ہیں۔
حوالہ : [ علل الشرائع – جلد ١ – صفحہ ١٥٦ ]
تبصرہ: ناظرین جب خود مصنف نے روایت کو نہیں مانا اور پھر صحیح وجہ بیان کی اور اس روایت کی سند ضعیف ہے، تو اس سے استدلال کیسا؟