کیا مولا علیؑ کی تنگدستی کیوجہ سے آپ سے نکاح پر خاتونِ جنت سیدہ فاطمہؑ سخت روئیں؟

” نکاح پر ناراضگی شیعہ محدث شیخ طوسی رح لکھتے ہیں ۔ سیدہ فاطمہؑ شدید گریہ کرتی ہوئی آئیں کہ قریش کی عورتیں طعنہ دیتی ہیں تیرے بابا نے تیری شادی غریب سے کردی ہے
حوالہ : [ امالی صدوق – ص ٣١٨ ]
.
جواب : ناظرین کہا جناب زھراع کا گریہ کرنا اور کہا انکی مولائے کائنات امیرالمؤمنینؑ سے شکایت؟ دیکھئے خود موصوف نے جو اسکین لگایا ہے اس میں آگے روایت چلتی ہے:
” اس وقت رسول خدا ص نے فرمایا: اے فاطمہ ع! آپ کیوں اتنا گریہ کر رہی ہیں؟ آپ نے فرمایا: اے میرے بابا! قریش کی عورتیں مجھےطعنےدیتی ہیں کہ تیرےبابا نے تیری شادی اس شخص سے کی ہے جو غریب ہے، اس کے پاس کوئی مال دنیا نہیں ہے، جناب رسول خداؐ نے فرمایا اے فاطمہؑ! گریہ نہ کرو، خدا کی قسم، میں نے تیری شادی نہیں کی بلکہ تیری شادی خدا نے عرش پر کی ہے، جبرائیل اور میکائیل کو اس شادی پر گواہ قرار دیا ہے۔۔۔الخ
تبصرہ : ناظرین کہا کی بات کدھر جوڑی گئی؟ یعنی اعتراض تو قریشی خواتین کا تھا جو مولائے کائناتؑ سے بغض رکھتی تھیں اور خاتون جنتؑ کے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے؟ کہا انصاف ہے۔ جناب زھراع واقعا مولائے کائناتؑ سے بعنوان ولی و امام اور شوہر بہت محبت رکھتی تھی، تو یہ ایک طبیعی بات ہے کہ جب آپ کے محبوب کے خلاف بہت زیادہ پروپیگنڈا ہو تو دل تو غمگین ہوتا ہی ہے اور یہ رونا دراصل اس قبیل کے تھا نہ کہ نعوذ باللہ مولائے کائنات ع اور جناب صدیقہ طاہرہ ع کے آپسی معاملات میں خلل کی وجہ سے، اس روایت میں کوئی ہلکاسا بھی اشارہ اس معنی کی طرف نہیں جس طرح نواصب لے جانا چاہتے ہیں۔
ناظرین قریش اور دیگر صحابہ میں سے کافی سارے مولاعلیؑ کو بنظر محبت نہیں دیکھتے تھے، بلکہ مختلف مواقع پر اسکا اظہار ہوتا رہتا تھا۔ دیکھئے سنن ترمذی کی ایک روایت:
♨ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے ایک سریہ ( لشکر) روانہ کیا اور اس لشکر کا امیر علیؑ کو مقرر کیا، چنانچہ وہ اس سریہ (لشکر) میں گئے، پھر ایک لونڈی سے انہوں نےجماع کر لیا لوگوں نے ان پر نکیر کی اور رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے چار آدمیوں نے طے کیا اورکہا کہ رسول اللہؐ سے جب ہم ملیں گے تو علی نے جو کچھ کیاہے اسے ہم آپ کو بتائیں گے اور مسلمان جب سفر سے لوٹتے تو پہلے رسول اللہ ﷺ سے ملتے اور آپ کو سلام کرتے تھے، پھر اپنے گھروں کو جاتے، چنانچہ جب یہ سریہ واپس لوٹ کر آیا اور لوگوں نے آپ کو سلام کیا توان چاروں میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اورا س نےعرض کیا: اللہ کے رسول ! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ علی نے ایسا ایسا کیا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے منہ پھیر لیا، پھر دوسرا کھڑا ہوا تو دوسرے نے بھی وہی بات کہی جو پہلے نے کہی تھی تو آپ نے اس سے بھی منہ پھیر لیا پھر تیسرا شخص کھڑا ہوا اس نے بھی وہی بات کہی، تو اس سے بھی آپ نے منہ پھیر لیا، پھر چوتھا شخص کھڑا ہوا تو اس نے بھی وہی بات کہی جوان لوگوں نےکہی تھی تو رسول اللہ ﷺ اسکی طرف متوجہ ہوئے اور آپ کے چہرے سے ناراضگی ظاہر تھی۔ آپ نے فرمایا : ” تم لوگ علی کے سلسلہ میں کیاچاہتے ہو؟ تم لوگ علی کے سلسلہ میں کیاچاہتے ہو؟ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں ۱؎ اور وہ دوست ہیں ہراس مومن کاجو میرے بعدآئے گا.”
حوالہ : [ سنن الترمذی – جلد ٤ – ص ٤٩١-٤٩٢ ]
♨ ابن عبدالبر ابو موسی اشعری کے ترجمہ میں لکھتے ہے : ” ابو موسی اشعری امیر المؤمنین ع سے منحرف تھے۔”
حوالہ : [ الاستیعاب – جلد ٤ – ص ٣٢٧ ]