اہلسنت (سلفیوں) میں حدیث کو قرآن سے پرکھنے کا کوئی اصول نہیں

شیخ زبیر علی زئی اس اصول پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
« یہ اصول باطل ہے جیسے توفیق الباری کے آخر میں دلائل کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے »
« قرآن کے عموم اور ظاہر سے ٹکرا کر حدیث کو رد کرنے کا اصول من– کرین حدیث نے معتزلہ سے لیا ہے »
📗 [ صحیح البخاری کا دفاع – حافظ زبیر علی زئی – صفحہ – 192 – 193 ]
غلام مصطفیٰ زھیر امن پوری نے اس اصول کے رد پر پورا مضمون لکھ رکھا ہے :
موصوف لکھتے ہیں
« من— کرین حدیث کا خود ساختہ اصول باطل ہوا کہ حدیث کو قرآن پر پیش کیا جائے، اگر قرآن کے موافق ہو تو لے لی جائے اور اگر قرآن کے مخالف ہو تو چھوڑ دی جائے۔ خوب یاد رہے کہ کوئی صحیح حدیث قرآن کے مخالف نہیں ہوتی، ظاہری مخالفت ہو سکتی ہے، حقیقت میں کوئی مخالفت نہیں ہو سکتی، لہٰذا ایک صحیح، مرفوع اور متصل حدیث پیش کی جائے جو قرآن کے خلاف ہو، اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہم اس تعارض کو رفع کر دیں گے »
امامیہ کی کتب میں یہ اصول آئمہ اہلبیت ع نے خود دیا ہے :
[-/1] الكافي: عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد بن خالد، عن أبيه، عن النضر بن سويد، عن يحيى الحلبي، عن أيوب بن الحر قال: سمعت أبا عبدالله عليه السلام يقول: كل شئ مردود إلى الكتاب والسنة، وكل حديث لا يوافق كتاب الله فهو ز– خرف
امام جعفر صادق ع نے فرمایا ہر حدیث کتاب و سنت کی طرف پلٹائی جائے گی اور کر وہ شے جو کتاب الٰہی کے مطابق نہ ہو وہ بالکل با– طل ہے ۔
[-/7] رجال الكشي: محمد بن قولويه، والحسين بن الحسن بن بندار معا، عن سعد، عن اليقطيني، عن يونس بن عبد الرحمن … قال: حدثني هشام بن الحكم أنه سمع أبا عبد الله عليه السلام يقول: لا تقبلوا علينا حديثا إلا ما وافق القرآن والسنة
امام جعفر ع نے فرمایا ہماری طرف منسوب کوئی حدیث قبول نہ کرو جب تک وہ قرآن و سنت کے مطابق نہ ہو ۔