محمد بن حنیفہ کربلا میں حاضر کیوں نہیں تھے

محمد بن حنیفہ نے کیوں کربلا کی تحریک میں امام حسین{ع} کی مدد نہیں کی؟
یہ سوال اکثر کیا جاتا ہے، چنانچہ مذکورہ سوال میں بھی اس امر کی طرف اشارہ ہے، اس کا جواب واضح ھونے کے لئے اس مسئلہ پر چند زاویوں سے تحقیق کرنے کی ضرورت ہے:
۱- ایک نظریہ کے مطابق وہ امام {ع} کی ہجرت کے وقت بیمار تھے، ان کی بیماری کی نوعیت کے بارے میں اختلاف ہے- [1]
۲- دوسرا نظریہ قابل قبول اور منطقی تر ہے، اور وہ یہ ہے کہ امام {ع} نے اپنے بھائی کو مدینہ میں اپنی عدم موجود گی کے دوران ایک اہم ماموریت سونپی تھی، اس نظریہ کے بارے میں چند شواہد موجود ہیں:
الف} علامہ مجلسی اور علامہ محسن امین کہتے ہیں:
📝 امام {ع} نے اپنے بھائی کو مدینہ میں دشمنوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لئے مامور کیا تھا- جب حضرت امام حسین {ع} اپنے اہل و عیال کے ہمراہ مکہ کی طرف روانہ ھوئے، اپنے بھائی کو مدینہ میں ایک جاسوس کے عنوان سے رکھا تاکہ مدینہ میں دشمن کی ہر نقل و حرکت اور اقدام سے امام {ع} کو آگاہ کرتا رہے:
📜 ” آپ مدینہ میں میری آنکھ ھو اور ان کی نقل و حرکت کے بارے میں مجھے کسی چیز سے بے خبر نہ رکھنا-“[2]
یہ اس دلیل کا ایک ثبوت ہے کہ امام {ع} نے اپنے بھائی کو ایک اہم ماموریت سونپی تھی- قدرتی بات ہے کہ امام {ع}، اسلامی علاقوں کے ایک اہم شہر یعنی مدینہ منورہ میں کسی کو مامور فرماتے تاکہ وہاں کے حالات سے بے خبر نہ رہیں-
ب} دوسرا شاھد: محمد حنیفہ کے نام امام {ع} کا آخری خط ہے- مورخین کہتے ہیں: امام {ع} نے جو آخری خط تحریر کیا ہے، وہ آپ {ع} کے بھائی محمد حنیفہ کے نام تھا-
ابن قولویہ امام باقر{ع} سے یوں نقل کرتے ہیں:
📝 امام حسین {ع} نے کربلا سے محمد بن حنیفہ لو لکھا:
📜 بسم اللہ الرحمن الرحیم، حسین بن علی کی طرف سے محمد بن علی کے نام، اما بعد، گویا، دنیا نہیں ہے اور آخرت ہرگز نا بود ھونے والی نہیں ہے-[3]
اس لئے، اگر امام حسین {ع} اپنے بھائی کے کربلا کی تحریک میں شرکت نہ کرنے پر ناراض ھوتے، تو وہ ہرگز آخری خط انھیں نہ لکھتے-[4]
[1] ملا حظہ ھو: محمد بن الحنفیة، ص 109- 112، به نقل از شیخ جعفر، النقدی، السیدة زینب الکبرى، ص 9، چنان که مهنا بن سنان عن رجال علامة لاهیجی، ص 119 نسخه خطی، میں نقل کیا ہے-
[2] ملا حظہ ھو: مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، ج ۴۴، ص 329، مؤسسة الوفاء، بیروت، ۱۴۰۴ھ ؛ امین، سید محسن، أعیان الشیعة، ج 1، ص 588، دار التعارف للمطبوعات، بیروت.
[3] قمی، ابن قولویه، کامل الزیارات، ص 75، انتشارات مرتضویة، نجف، 1356ھ .
[4] – سوال نمبر ۱۲۷۸۸: کے جواب کا اقتباس
.
.
.
*جناب حنفیہ بن علی علیہ السلام اور کربلا*
کربلا کی تحریک میں محمد بن حنیفہ نے امام حسین{ع} کی مدد کیوں نہیں کی؟
یہ سوال اکثر کیا جاتا ہے، اس کا جواب واضح ہونے کے لئے اس مسئلہ پر چند زاویوں سے تحقیق کرنے کی ضرورت ہے:
۱-ایک نظریہ کے مطابق وہ امام {ع} کی ہجرت کے وقت بیمار تھے، ان کی بیماری کی نوعیت کے بارے میں اختلاف ہے- [محمد بن الحنفیہ، ص 109- 112]
۲-دوسرا نظریہ قابل قبول اور زیادہ منطقی ہے، اور وہ یہ ہے کہ امام {ع} نے اپنے بھائی کو مدینہ میں اپنی عدم موجودگی کے دوران ایک اہم ذمہ داری سونپی تھی، اس نظریہ کے بارے میں چند شواہد موجود ہیں:
الف}علامہ مجلسی اور علامہ محسن امین کہتے ہیں: امام {ع} نے اپنے بھائی کو مدینہ میں دشمنوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لئے مامور کیا تھا- جب حضرت امام حسین {ع} اپنے اہل و عیال کے ہمراہ مکہ کی طرف روانہ ہوئے، اپنے بھائی کو مدینہ میں ایک جاسوس کے عنوان سے رکھا تاکہ مدینہ میں دشمن کی ہر نقل و حرکت اور اقدام سے امام {ع} کو آگاہ کرتے رہیں:
” آپ مدینہ میں میری آنکھ ہیں اور ان کی نقل و حرکت کے بارے میں مجھے کسی چیز سے بے خبر نہ رکھنا-“[ بحار الانوار، ج ۴۴، ص 329]
یہ اس بات کا ایک ثبوت ہے کہ امام {ع} نے اپنے بھائی کو ایک اہم ذمہ داری سونپی تھی- قدرتی بات ہے کہ امام {ع}، اسلامی علاقوں کے ایک اہم شہر یعنی مدینہ منورہ میں کسی کو مامور فرماتے تاکہ وہاں کے حالات سے بے خبر نہ رہیں-
ب} دوسرا شاہد: محمد حنیفہ کے نام امام {ع} کا آخری خط ہے- مورخین کہتے ہیں: امام {ع} نے جو آخری خط تحریر کیا ہے، وہ آپ {ع} کے بھائی محمد حنیفہ کے نام تھا- ابن قولویہ امام باقر{ع} سے یوں نقل کرتے ہیں: امام حسین {ع} نے کربلا سے محمد بن حنیفہ کو لکھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم، حسین بن علی کی طرف سے محمد بن علی کے نام، اما بعد، گویا، دنیا نہیں ہے اور آخرت ہرگز نا بود ہونے والی نہیں ہے-[ کامل الزیارات، ص 75]
اس لئے، اگر امام حسین {ع} اپنے بھائی کے کربلا کی تحریک میں شرکت نہ کرنے پر ناراض ہوتے، تو وہ ہرگز آخری خط انھیں نہ لکھتے-
منابع:
محمد بن الحنفیة، ص 109- 112، به نقل از شیخ جعفر، النقدی، السیدة زینب الکبرى، ص 9، چنان که مهنا بن سنان عن رجال علامة لاهیجی، ص 119 نسخه خطی، میں نقل کیا ہے-
مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، ج ۴۴، ص 329، مؤسسة الوفاء، بیروت، ۱۴۰۴ھ ؛ امین، سید محسن، أعیان الشیعة، ج 1، ص 588، دار التعارف للمطبوعات، بیروت.
قمی، ابن قولویه، کامل الزیارات، ص 75، انتشارات مرتضویة، نجف، 1356ھ .
*اور بالفرض محال اگر یہ مان لیا جائے کہ جناب خنفیہ ع نے امام حسین علیہ السلام کی جان بوجھ کر مدد نہیں کی*
تو اس سے جناب حنفیہ کو فرق پڑنا تھا کیونکہ حق امام کے ساتھ ہوتا ہے
*حق امام کے ساتھ ہوتا ہے جہاں امام ہیں وہیں حق چاہے ساری دنیا ایک طرف ہو جائے اس سے فرق نہیں پڑتا*
یزیدیو کا مقصد صرف اہلبیت سے بغض اور دشمنی ہے جسکی وجہ سے یہ اس طرع کے شبہات ابھارتے ہیں
.
.
.
امام علی(علیہ السلام)کے فرزند محمد بن حنفیہ اور عبداللہ بن زبیر
📃 حضرت علی(علیہ السلام)کے شہید ہوجانے کے بعد لوگوں کو اپنے امیر و خلیفہ ہونے کی دعوت دینے کے لئے کھڑے ہوئے چنانچہ کچھ لوگ ان کے پاس جمع بھی ہوگئے اور ان کی شان و شوکت مستحکم ہوگئی تو انہوں نے امام علی(علیہ السلام)کے فرزند محمد بن حنفیہ کو اور اسی ان کے ساتھ بنی ہاشم کے دیگر سترہ اشخاص کو قید کرلیا اور انہیں جلانے کے لئے دروازہ پر بہت سی لکڑیاں جمع کردی تھیں اور ان میں آگ بھی لگا دی تھی لیکن مختار کا لشکر عین اسی وقت وہاں پہنچ گیا اس نے آگ بجھائی اورانہیں آگ سے نکالا ورنہ ابن زبیر تو اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا تھا
📚 تاریخ مسعودی، ج۳، ص ۷۶۔ ۷۷۔
📚 شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۲۰، ص ۱۲۷۔ ۱۲۸۔
.
.
.
ایک مقام پر امام حسین علیہ السلام نے محمد بن حنفیہ سے فرمایا:
📜 یٰاأَخی وَاللّٰهِ لَوْلَمْ یَکُنْ فی الدُّنْیٰا مَلْجَأً وَلاٰمَأْویً لَمٰابٰایَعْتُ یَزیدَ بْنَ مُعٰاوِیَةَ
📝 *اے میرے بھائی! اگر مجھے دنیا میں کوئی بھی جائے پناہ نہ ملے، تب بھی میں یزید ابن معاویہ کی بیعت نہیں کروں گا۔*
📚 موسوعہ کلماتِ الامام الحسین علیہ السلام ص ۲۸۹
.
.
.
مدینہ سے مکہ روانگی اور امام حسین ع کی محمد بن حنفیہ کو وصیت
جناب حسین ع اور محمد بن حنفیہ کے مابین مکالمہ ہوا
حسین ع نے جناب محمد بن حنفیہ کو نصیحت فرمائی کہ آپ مدینہ میں سکونت پذیر ہوں اور میری طرف سے ان کے حالات کی جستجو رکھیں اور ان کے کاموں میں سے کوئی چیز مجھ سے پوشیدہ نا رکھیں
پھر آپ نے دوات و کاغذ طلب فرمایا اور ایک وصیت نامہ تحریر فرمایا :
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
” وہ چیز ہے کہ جس کی وصیت کی حسین بن علی نے اپنے بھائی محمد کو کہ جو ابن حنفیہ کے لقب سے معروف ہے کہ حسین ع گواہی دیتا ہے خدائے یگانہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں کہ جس کا کوئی شریک نہیں اور محمد ص اس کے بندے اور رسول ہیں جو دین حق کو لے کر آئے ہیں حق کی جانب سے اور یہ کہ جنت دوزخ حق ہیں اور قیامت آنے والی ہے کہ جس میں کوئی شک نہیں اور خدا اٹھائے گا انہیں کہ جو قبروں کے اندر ہیں اور میں سیر وتفریح اور اظہار تکبر و بڑائی کے لئے نہیں نکل رہا بلکہ میں اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لئے خروج کررہا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ امر بالمعروف اور نہی از منکر کروں اور اپنے نانا اور باپ علی بن ابی طالب ع کی سیرت پر چلوں پس جو شخص مجھے قبول کرے حق کی قبولیت کے طور پر خدا یا زیادہ استحقاق حق رکھتا ہے اور جو مجھے ردکر دے تو میں صبر کروں گا ۔ یہاں تک کہ خدا میرے اور اس قوم کے درمیان حق کا حکم کرے اور وہ بہترین حکم کر نے والا ہے “.
یہ میری وصیت ہے تجھ سے اے بھائی دعا:
ومـاتـوفيقى الا بالله عليه
تو کلت و اليه انيب :
میری تو فیق نہیں مگر اللہ کی جانب سے ، اسی پر میں تو کل کرتا ہوں ۔اور اس کی طرف میری بازگشت ہے.
بحار الانوار ، ج ۴۴ ، ص ۳۲۹ ، ۳۳۰
نفس المہموم ، ص ۶۹
الفتوح ، ابن اعثم کوفی

.

.
.
امام حسین ع کا میدان کربلا سے محمد بن حنفیہ رض کے نام خط
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنِي كَرَّامٌ عَبْدُ الْكَرِيمِ بْنُ عَمْرٍو عَنْ مُيَسِّرِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (ع) قَالَ كَتَبَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ (ع) إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ مِنْ كَرْبَلَاءَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ (ع) إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ وَ مَنْ قِبَلَهُ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ أَمَّا بَعْدُ فَكَأَنَّ الدُّنْيَا لَمْ تَكُنْ وَ كَأنَّ الْآخِرَةَ لَمْ تَزَلْ وَ السَّلَامُ
امام باقر ع نے فرمایا امام حسین ع نے کربلا سے محمد بن حنفیہ رض کی طرف ایک خط لکھا :
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ۔ یہ خط محمد بن حنفیہ رض اور بنی ہاشم کے ان افراد کے لیے ہے جو محمد بن حنفیہ کو دوست رکھتے ہیں ۔ پس دنیا ختم ہوئی اور آخرت ہمیشہ کے لیے ہے والسلام ۔
کامل زیارات صفحہ 168 سند صحیح
محمد بن الحنفية ( محمد بن علي) ع
[۱/۱۲۰۰] توحيد الصدوق: عن ابن الوليد عن الصفار عن ابن أبي الخطاب عن ابن بشير عن الحسين بن أبي حمزة قال: سمعت أبا عبدالله ال يقول: قال أبيلانه محمد بن الحنفية كان رجلا رابط الجأش (أي قوي القلب) وأشـار بـيده وكـان يـطـوف بـالبيت فاستقبله الحجاج، فقال: قد هممت ان أضرب الذي فيه عيناك، قال له محمد: كلا إن الله تبارك اسمه في خلقه في كل يوم ثلاثمائة لحظة أو لمحة فلعل إحداهن تكفك عني.
امام صادق ع بیان کرتے ہیں کہ امام باقر ع نے اپنے ہاتھ کے ساتھ (اپنے دل کی طرف) اشارہ کرتے ہوۓ فرمایا: محمد بن حنفیہ ایک بہادر اور شجاع انسان تھے۔ وہ (ایک دفعہ ) بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے کہ حجاج کے ساتھ ان کا سامنا ہوا حجاج نے انہیں کہا: میں نے تہیا کیا ہے کہ تمھاری گر////دن اڑ///////ادوں۔ محمد نے اسے کہا: ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا۔ اللہ سبحانہ وتعالی کے اپنی مخلوقات میں ہر روز تین سولحظات یا لمحات ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے ان میں سے کوئی ایک لحظہ یا لمحہ تجھے مجھ تک پہنچنے سے روک لے ۔