جواب:
مختار کی شخصیت کے بارے میں ایک مہم سوال جو ہمیشہ سے ہوتا آ رہا ہے، وہ یہ ہے کہ مختار نے قیام عاشورا میں امام حسین (ع) کی کیوں مدد نہیں کی تھی، لیکن بعد میں ان حضرت کے قاتلوں سے انتقام لیا تھا ؟
جواب:
تاریخی اعتبار سے اور شیخ مفید و طبری نے صراحت سے لکھا ہے کہ:
جناب مسلم سفیر امام حسین (ع) کوفہ میں آنے کے بعد سیدھے مختار کے گھر گئے تو مختار نے انکا بہت احترام کیا اور رسمی طور پر انکی حمایت اور ساتھ دینے کا اعلان بھی کیا۔
الارشاد، ص 205؛
تاریخ طبری، ج 5، ص 355
بلاذری نے لکھا ہے کہ: مسلم مختار کے گھر آئے تھے۔
انساب الاشراف، ج 6، ص 376.
لیکن ابن زیاد کے مکارانہ طور پر بھیس بدل کر کوفہ میں آنے سے کوفہ کے حالات ایک دم سے بدل گئے، اسی وجہ سے جناب مسلم مختار کے گھر سے نکل کر جناب ہانی ابن عروہ کے گھر آ گئے۔
مختار جناب مسلم کے کوفہ میں آنے کے بعد آرام سے نہ بیٹھا اور وہ جناب مسلم کی بیعت کر کے کوفہ کے اطراف کے علاقے خطرنیہ چلا گیا اور وہاں جا کر جناب مسلم کے لیے افراد کو بیعت کے لیے جمع کرنے لگا، لیکن اچانک کوفہ کے حالات تبدیل ہونے کے بعد اور اہل کوفہ کے ابن زیاد کے سامنے تسلیم ہونے کے بعد، مختار دوباہ کوفہ واپس پلٹ آیا۔
ابن زیاد نے حکم دیا کہ امام حسین کو کوفہ میں آنے کی دعوت دینے والے اور مختار کی حمایت کرنے والے سب میری بیعت کریں، ورنہ سب کو قید کے پھانسی دے دی جائے گی۔
ابن اثیر نے لکھا ہے کہ:
مسلم اور ہانی کی گرفتاری کے وقت مختار کوفہ میں نہیں تھا اور وہ لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے کوفہ سے باہر گیا ہوا تھا اور جب اس نے جناب مسلم کے اسیر ہونے کی خبر سنی تو اپنے چند افراد کے ساتھ کوفہ واپس آیا۔
شہر میں داخل ہوتے وقت مختار اور اسکے ساتھیوں کا ابن زیاد کے مسلح افراد کے ساتھ سامنا ہوا اور لفظی گفتگو کے بعد انکے درمیان لڑائی شروع ہو گئی کہ جس میں اس مسلح گروہ کا سالار قتل ہو گیا اور پھر مختار نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہاں سے ادھر ادھر بھاگ جائیں، اسکے بعد دیکھیں گے کہ صورتحال کیا بنتی ہے۔
کامل ابن اثیر، ج 4، ص 169.
ابن زیاد کوفہ کے حالات پر قابو پانے اور جناب مسلم و ہانی کو شہید کرنے کے بعد، شدت سے مختار کی تلاش میں تھا اور اس نے مختار کو گرفتار کرنے پر انعام بھی مقرر کیا ہوا تھا۔
تـاریـخ طـبـری، ج 5، ص 381؛
کـامـل ابـن اثـیـر، ج 4، ص 36.
ابن زیاد ملعون کا جناب مختار کو گرفتار کرنا:
ہانی ابن جبہ نامی مختار کا ایک قریبی دوست عمرو ابن حریث کے پاس گیا اور مختار کے مخفی ہونے کی جگہ کا اسکو بتا دیا۔ عمرو نے اس شخص سے کہا کہ مختار سے کہو کہ ہوشیار رہے کہ ہم اسکے پیچھے ہیں اور وہ خطرے میں ہے۔
مختار عمرو ابن حریث کی حمایت کی وجہ سے ابن زیاد کے پاس گیا۔ ابن زیاد کی نگاہ جب مختار پر پڑی تو اس نے چيخ کر کہا تم وہی ہو جس نے ابن عقیل کی مدد کی تھی ؟ مختار نے قسم کھا کر کہا میں شہر کوفہ میں نہیں تھا اور کل رات بھی عمرو ابن حریث کے پاس تھا۔
مقتل الحسین (ع) ، ابی مخنف، ص 268-270.
ابن زیاد بہت غصے میں تھا، اس نے اسی حالت میں زور سے اپنی عصا کو مختار کی صورت پر دے مارا کہ جس سے اسکی ایک آنکھ شدید زخمی ہو گئی۔ عمرو کھڑا ہو گیا اور اس نے مختار کی حمایت کرتے ہوئے گواہی دی کہ وہ سچ کہہ رہا ہے۔ یہ سن کر ابن زیاد کو آرام آ گیا اور کہا:
اگر عمرو تمہاری حمایت میں گواہی نہ دیتا تو میں تمہاری گردن اڑا دیتا اور پھر اسکے حکم کے مطابق مختار کو زندان میں ڈال دیا گیا، مختار واقعہ عاشورا اور امام حسین (ع) کی شہادت کے وقت تک ابن زیاد کے زندان میں تھا۔
انـسـاب الاشـراف، ج 6، ص 376- 377
کامل ابن اثیر، ج 4، ص 116
مقتل ابی مخنف، ص 271
البدایة والنهایة، ج 8، ص 249
پس اس تفصیل کی روشنی میں واضح ہو گیا کہ قیام امام حسین (ع) اور واقعہ کربلا کے وقت مختار کے زندان میں ہونے اور شہر کوفہ کے حالات ہی ایسے تھے کہ وہ امام حسین (ع) کے قیام میں شریک ہی نہیں ہو سکتا تھا، نہ کہ وہ شریک ہی نہیں ہوا تھا۔
جناب مختار کا مزار اور زیارت نامہ:
شہر کوفہ میں مختار کا مزار زمانہ قدیم سے متبرک مقامات میں شمار ہوتا تھا۔ قبر مختار حضرت مسلم ابن عقیل کے صحن میں کوفہ کی مسجد اعظم میں ہے۔
تنزيه المختار، ص 14 ـ 13
علامہ امینی نے شہید ثانی کی کتاب مزار سے جناب مختار کے لیے ایک زیارت نامہ نقل کیا ہے اور اس زیارت نامے سے معلوم ہوتا ہے کہ قبر مختار زمانہ قدیم سے ہی شیعوں کی توجہ کا مرکز تھی اور ابن بطوطہ نے بھی اپنے سفر نامے میں اسی بات کا ذکر کیا ہے۔
رحله، ابن بطوطه، ص 232.
علامہ مجلسی نے جناب مختار کی شخصیت کے بارے میں لکھا ہے کہ:
مختار رسول خدا (ص) کے اہل بیت کے فضائل بیان کیا کرتا تھا اور حتی امیر المؤمنین علی (ع)، امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کے فضائل کو لوگوں میں پھیلایا کرتا تھا اور مختار کا عقیدہ تھا کہ رسول خدا (ص) کا خاندان ہی امامت اور حکومت کے لیے سب سے زیادہ مناسب ہے اور وہ اہل بیت (ع) پر ہونے والے مظالم اور مصائب کے بارے میں ہمیشہ غم و غصے کی حالت میں رہتا تھا۔
بحار الانوار، ج 45، ص 352.
جناب مختار کا سارا خاندان ہی رسول خدا (ص) کے اہل بیت کا عاشق اور مخلص خاندان تھا۔
التماس دعا۔۔۔۔۔
بدر علی