سوال یہ ہے کہ پاکستان میں چند صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ چھپا ہے جس کا نام فلسفہ عزاداری ہے
جس میں عبدﷲ ابن عباس اور عبدﷲ ابن جعفر کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ نافرمان ہیں میں اُس کتابچہ سے کچھ تحریر آپ کو لکھ رہا ہوں
شہدائے کربلا کی اہمیت کی وجہ یہ ہے چونکہ اس وقت یہ فیصلہ بہت سخت اور دشوار تھا اسی لئے ابن زبیر،ابن عمر،ابن جعفر،اور ابن عباس جیسےافراد اس قافلہ میں شامل نہ ہو سکے اور یہ سب ایک صف میں تھے ان میں کوئی فرق نہیں تھا کوئی یہ تصور نہ کرے کہ عبدﷲ ابن جعفر اور عبد ﷲ ابن عباس دوسروں سے الگ تھے جی نہیں ایسا نہیں ہے نا فرمانی نا فرمانی ہے چاہے وہ کوئی بھی کرے ان سب نے نا فرمانی کی تھی کسی میں بھی جرات نہیں تھی کہ حسین ابن علی کا ساتھ دے سوائے ان چند افراد کے۔
اب ہم جب تاریخ کو دیکھتے ہیں تو رسول خدا اور علی علیہ السلام کے فرامین ملتے ہیں جناب عبدﷲ ابن عباس اور عبدﷲ ابن جعفر کی عظمت کے بارے میں
کیا واقعی انہوں نے امام علیہ السلام کی نا فرمانی کی تھی۔ اگر کی تو کیا کی تھی آپ وضاحت کریں۔
اور وہ کربلا میں کیوں نہ جا سکے اسکی وجہ کیا ہے؟
والسلام
سید سفیر کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بسمہ تعالی
سلام علیکم
عبد اللہ بن جعفر کے بارے میں عباس قمی لکھتے ہیں :امام حسین علیہ السلام کربلا تشریف لے جاتے وقت وہ نابینا تھے لہذا وہ خود امام علیہ السلام کے ساتھ کربلا نہیں جا سکا لیکن اپنے دو بیٹوں کو امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلا بھیجے اور دونوں کربلا میں شہید ہوئے ۔
اگر عبد اللہ بن جعفر امام حسین علیہ السلام کے فرمان کے مخالف تھے تو اپنے بیٹوں کو شہید ہونے کے لئے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ کربلا نہیں بھیجتے ۔
بہر حال؛ اگر کوئی کربلا میں نہیں تھے تو اس کا ہرگزیہ مقصد نہیں ہے کہ وہ امام کے مخالف تھے یا انہوں نے امام کی اطاعت نہیں کی ہے ، امام حسین علیہ السلام کے بھائی محمد حنفیہ نے بھی اس معرکہ میں شرکت نہیں کی تھی کہ اس کی دو وجہ تھے :ایک تو یہ ان کے ہاتھ میں کچھ عارض ہوا تھا لہذا تلوار ہاتھ میں نہیں لے سکتے تھے اور جنگ نہیں لڑ سکتے تھے ، دوسری بات یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے خاص پلاننگ کے ساتھ انہیں مدینہ میں رکھا تھا اور انہیں یہ حکم فرمایا تھا کہ مدینہ کے حالات سے انہیں باخبر کرتے رہے اسی طرح کچھ دوسرے کام بھی انہیں کے سپر د کیا تھا ۔
اس لحاظ سے عبدا للہ بن جعفر یا نابینا ہونے کی وجہ سے یا آنکھ کی کمزوری کی وجہ سے یا کوئی اور خاص وجہ سے کربلا میں شریک نہیں ہوسکے اور ان کا شریک نہ ہونا امام علیہ السلام کے ساتھ مخالفت کی دلیل بھی نہیں ہے ان کے دو بیٹے محمد اور عون کربلا میں شریک تھے اور دونوں شہید ہوئے ( روز عاشورا محمد بن عبداللہ بن جعفر نے یزیدیوں کے دس(١٠) نفر کو اور عون بن عبداللہ نے اکیس(٢١) افراد کو واصل جہنم کیااور دونوں جنگ لڑتے لڑتے شہید ہوگئے )

اس لحاظ سے عبد اللہ بن عباس کا کربلا میں شرکت نہ کرنا بھی اما م حسین علیہ السلام کی اطاعت نہ کرنے کے معنی میں نہیں ہے واقعہ کربلا کے بعد انہوں نے یزید کے نام ایک خط لکھا ہے جس میں یزید کی اہانت کی ہے اور شہداء کربلا کے خون کے انتقام کی آروز کی ہے ۔
لہذا جو بھی کربلا میں شریک نہ تھے اس کا ہرگز یہ معنی نہیں ہے کہ وہ امام حسین علیہ السلام کے مخالف ہو بلکہ کچھ مسائل اور امور تھے جن کی وجہ سے یہ افراد کربلا میں شریک نہیں ہو سکے ہیں
والسلام

۔
۔


بسمه تعالى


.
.
.


1۔ انسان اور مختلف ادیان کے پیروکان مجموعی طور پر مختلف درجات اور مراتب رکھتے ہیں۔ بعض لوگ حق کے خلاف لڑنے والوں میں شامل ہیں جو اپنے گناہ کے تناسب سے جہنم کے عذاب اور سزا سے دوچار ہیں؛
بعض لوگ حق کو قبول کرتے ہیں اور ان کا ایمان جتنا گہرا ہوگا اور وہ جس قدر عمل میں پائیدار و استوار ہونگے اسی کے مطابق جنت کی نعمتوں سے بہرہ مند ہونگے۔ اس بات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ عبداللہ بن جعفر اور عبداللہ بن عباس شیعہ اکابرین کے نزدیک نہایت نمایاں اور قابل اعتماد شخصیات میں سے ہیں اور یہ دونوں امام حسین علیہ السلام سے بہت زيادہ محبت کرتے تھے۔
یہ دو نمایاں شخصیات اور عبداللہ بن زبیر و عبداللہ بن عمرکے درمیان نہایت بنیادی فرق موجود ہے۔
شیعہ رجال الحدیث کی کتب میں ان دو شخصیات کو قابل اعتماد قرار دیا گیا ہے۔
2۔ امام معصوم علیہ السلام کے فرمان کی عدم تعمیل اور نافرمانی جائز نہيں ہے لیکن اگر امام (علیہ السلام) نے حکم نہ دیا ہو تو امام (علیہ السلام) کا ساتھ دینا “واجب عینی” نہیں ہے تا ہم امام (علیہ السلام) کا ساتھ دینا اور اس راستے میں دشواریاں برداشت کرنا اور صعوبتیں جھیلنا، درجات کی رفعت و بلندی کا سبب ہے۔
3۔ جو لوگ مظلومیت کے میدان میں موجود ہوں اور مظلوم کی مدد کے لئے اقدام نہ کریں ان کا عذر قابل قبول نہيں ہے۔
لہذا عبداللہ بن جعفر اور عبداللہ بن عباس اور۔۔۔ کی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ہمراہی، واجب نہ تھی لیکن وہ ہمراہی کرتے تو ان کے اعلی مقامات مل سکتے تھے؛
بہرحال امام حسین علیہ السلام نے ان کو اپنا ساتھ دینے کا حکم نہيں دیا۔ گوکہ اگر وہ میدان کربلا میں حاضر ہوجاتے تو انہیں قطعی طور پر امام حسین علیہ السلام کی ندائے “هل من ناصر ینصرنی” پر لبیک کہنا چاہئے تھا۔
امام حسین علیہ السلام نے ان افراد سے کیا فرمایا:
1۔ عبداللہ بن عباس:
عبداللہ بن عباس امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں؛ آپ جو بھی حکم دیں گے میں وہی کروں گا۔
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:
تم مدینہ چلے جاؤ، میں مکہ میں قیام کروں گا، تم مدینہ کی خبریں مجھے پہنچایا کرو”۔

2۔ عبداللہ بن جعفر:
عبداللہ بن جعفر نابینا ہوگئے تھے چنانچہ وہ کربلا آنے سے معذور تھے لیکن انھوں نے اپنے دو بیٹے عون و محمد کو امام حسین (علیہ السلام) کے ساتھ، کربلا بھجوایا اور وہ دونوں میدان کربلا میں جام شہادت نوش کرگئے۔

[حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے شریک حیات اور جعفر طیار علیہ السلام کے بیٹے] عبداللہ بن جعفر کے بیٹے محمد نے کربلا کے میدان میں دس یزیدیوں کو ہلاک کردیا اور عون بن عبداللہ نے نے عمر سعد کے 21 سپاہیوں کو واصل ہلاک کرڈالا اور وہ دونوں عاشورا کے دن مقام شہادت پرفائز ہوئے۔

2۔ حرام سے اجتناب اور واجبات پر عمل، کم از کم توقع ہے جس کی ایک مسلمان سے توقع کی جاتی ہے۔ تا ہم اگر واجبات کے ساتھ مستحبات پر عمل کرے گا اور محرمات کے ساتھ مکروہات سے بھی پرہیز کرے گا تو یہ اس کے درجات کی بلندی کا سبب ہوگا گوکہ اگر انسان صرف واجبات پر عمل کرے اور حرام سے پرہیز کرے تو وہ مسلمانی کے درجے سے خارج نہيں ہوتا۔
.
.
.