اہلسنت ایسا مسلک ہے جن کے قول و فعل میں ہمیشہ تضاد اور منا///فقت رہی ہے۔ اہلبیتؑ کے متعلق انکے دعوے بہت بڑے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔
شمس الدین ذہبی جن کا اہلسنت میں بہت بڑا مقام ہے اپنی مشہور زمانہ تصنیف میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں:
ایسا شخص جو صحابہ خصوصاً ابوبکر عمر اور عثمان وغیرہ کی شان میں گستا//خی کرے یا اسکی طرف دعوت دے اس طرح کے راویوں کو نہ تو دلیل کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی انہیں کوئی بزرگی حاصل ہے اور اسکی روایات کو ہرگز قبول نہیں کیا جاسکتا۔
اب آتے ہیں دوسرے رخ کی طرف؛
اصحاب کا ذکر کریں تو ماویہ و مغیرہ اور مروان جیسے لوگ جو علی الاعلان اہلبیتؑ پر لعن طعن کرتے اور کرواتے تھے ان کے ہاں ایسے لوگوں کی عدالت ثابت ہے اور کئی سو روایات ان سے صحیحین میں موجود ہیں
اگر ان کے آئمہ جرح و تعدیل کی بات کی جائے تو ان میں اکثر ایسے ہیں جو مولا علیؑ سے کھلا بغض رکھتے تھے اور انکی تنقیص کرتے تھے لیکن انکی جرح و تعدیل پر روایات کو قبول یا رد کیا جاتا ہے مثلاً
الحافظ،الامام ابواسحاق ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی جو کہ مولا علیؑ کے متعلق جفاکار تھے اور انکی تنقیص کرتے تھے یہ موصوف رواة کی جرح و تعدیل پر فیصلہ کرتے ہیں، کیا توقع کی جاسکتی ہے ان سے؟؟!!
اہلبیتؑ سے محبت والے دعوے کیلئے ہمت اور جرآت کی ضرورت ہے، کھوکھلے دعووں سے مدعا ثابت نہیں ہوتا






