معاویہ کے دور میں اہلبیت کے دوستوں کے ساتھ سلوک
سلیم بیان کرتے ہیں پھر تمام شہروں میں جناب علی ع کی ذات پر اور آپ کے اہلبیت کی ذات پر لع — ن شروع کر دی گئی۔ اور ان کے پیروکاروں پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ تمام مقامات سے زیادہ کوفہ کے لوگ اس کی لپیٹ میں آگئے۔کوفہ میں شی– عوں کی تعداد کافی زیادہ تھے۔ معاویہ نے زیاد بن سمیہ کو کوفہ کا گورنر مقرر کر دیا۔ بصرہ بھی زیادہ کے عملداری میں تھا۔ زیاد ان کو بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ اس نے شی– عوں کا قت– ل عام کیا ۔ معاویہ نے تمام قاضیوں اور گورنروں کو تحریر کیا کہ علی کے کسی پیروکارکی ، اور آپ کے اہلبیت کی نہ آپ کے دوستوں کی اور کسی اس کی جو علی کی فضیلت بیان کرتا ہو گواہی قبول نہ کرو۔ اور عثمان بن عفان کے ماننے والوں جو عثمان بن عفان کی فضیلت و مناقب بیان کرتے ہوں صرف ان کی مقدموں میں گواہی قبول کرو۔ ان کا خیال رکھو۔ ان کو سرکاری مجالس میں بلاو اور ان کی عزت کرو انہیں اپنے قرب میں جگہ دو۔ انہیں فضیلت بخشو۔ ہر اس شخص کا نام اور اس کے باپ کا نام مجھے لکھو جو فضائل عثمان بن عفان بیان کرتا ہو مزید معاویہ نے لکھا کہ دیکھو جس شخص پر یہ گواہی ثابت ہو جاۓ کہ وہ علی اور آپ کے اہلبیت کو دوست رکھتا ہے۔ایسے شخص کا نام رجسٹر ( انعام و اکرم کے مستحق لوگ) سے کاٹ دو۔ اس کی گواہی کو جائز قرار نہ دو۔ جس پر تمہیں شبہ ہو جاۓ اور پوری گواہی ثابت نہ ہو اس کو قت— ل کر دو۔ لوگوں پر ایک نئی مصیبت کا نزول ہو گیا۔ گورنروں نے محبان اہلبیت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو چن چن کر تہمت اور شبہ کی بنیاد پر تہ تی— غ کرنا شروع کیا۔ انتہا یہ ہوگئی کہ اگر کسی آدمی کے منہ سے نادانستگی میں کوئی ایسی بات نکل جاتی تو اس کی گر— دن ما– ر دی جاتی۔ یہ مصیبت عراق میں سب سے زیادہ کوفہ میں شدید طور پر نازل تھی۔ جب جناب امام حسن بن علی ع کی شہا— دت ہوئی تو اس ف– تنہ اور مصیبت نے ایک مسلسل سختی اور شدت اختیار کر لی۔ اللہ تعالی کے ہر دوست کو اپنی جان کا خطر– ہ تھا۔ ان کو یہ خوف لاحق رہتا تھا کہ کسی وقت وہ قت– ل کر دیا جاۓ گا یا دھتکارا جاۓ گا ۔ اللہ تعالی کا ہر دشمن اپنی محبت کو ظاہر کرتا تھا۔ اور اپنی بد– عت اور گمر– اہی کو اعلانیہ بیان کرتا تھا۔
کتابِ سلیم بن قیس صفحہ 316

