مدرسة القائم ( پروردگار عالم اس ادارے کی کاوشوں کو قبول فرمائے یقینا یہ ادارہ انتہائی عمدہ کام کر رہا ہے ) نے ایک پوسٹ اپلوڈ کی جس کا اسکرین شاٹ آپ مندرجہ ذیل ملاحظہ فرما سکتے ہیں ۔
اس پوسٹ میں امام حسین ( علیہ السلام ) کی ولادت سے متعلق ایک حدیث پیش کی گئی ہے
ہم محض وہ عبارت پیش کرتے ہیں جس کی تصحیح مقصود ہے:
رسولِ خدا ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) نے فرمایا :
جبرئیل نے مجھے بتایا کہ بہت جلد میری امت حسین ( علیہ السلام ) کو قتل کر دے گی۔
یہ سن کر حضرت فاطمہ ( صلوة الله عليها )نے رونا شروع کر دیا اور اپنے لباس کو چاک کیا۔
تبصرہ : مندرجہ بالا ( جناب سیدہ سلام اللہ علیھا سے متعلق ) جملہ کی عربی ملاحظہ کیجیے :
فقال : إنّ جَبرئيل أخبرني أنّ اُمتي تقتل حسيناً ، فجزعتْ وشقّ عليها
اور اس عبارت کا درست ترجمہ یہ ہے :
فجزعت : جناب سیدہ( صلوت اللہ علیھا ) بے چین ہو گئیں۔
و شقّ علیھا
اور ( یہ امر ) ان پر شاق گزرا۔
ویسے شقّ کا معانی ” پھاڑنا ،چاک کرنا اور جدا جدا کرنے کے ہیں “
لیکن جب اس کا صلہ ” علی ” کے ساتھ آئے تو اس کے ہوتے ہیں: مشقت میں ڈالنا کسی امر کا شاق ( ثقیل ) ہونا۔
چنانچہ ” القاموس المحیط ” میں ہے:
شق : علیه الامر شقا و مشقةً : صعب و عليه اوقعه في المشقة
شق علیہ کا مطلب ہے اس پر امر سخت و ثقیل گزرنا
اور اس کے یہ بھی معانی ہے کہ اس امر نے اسے مشقت میں ڈال دیا۔
چنانچہ مدرسة القائم کے مترجم سے یہاں ترجمہ میں تسامح ہوا ہے۔ ( و اللہ اعلم )
شق الجیب او الثوب کے معانی ہونگے گریبان یا کپڑا چاک کر دینا۔
مکمل روایت مندرجہ ذیل ہے :
حدّثني أبي ؛ ومحمّد بن الحسن جميعاً ، عن محمّد بن الحسن الصّفّار ، عنأحمدَ بن محمّد بن عيسى ، عن ابن فَضّال ، عن عبدالله بن بُكَير ـ عن بعض أصحابنا ـ عن أبي عبدالله عليهالسلام « قال : دَخَلَتْ فاطمة عليهاالسلام على رَسول الله صلىاللهعليهوآلهوسلم ـ وعيناه تَدْمَع ـ فسألتْه : ما لكَ؟! فقال : إنّ جَبرئيل أخبرني أنّ اُمتي تقتل حسيناً ، فجزعتْ وشقّ عليها ، فأخبرها بمن يملك مِن ولدها فطابت نفسها وسكنتْ ».
نوٹ : سید الشہداء ( علیہ السلام) پر جزع کرتے ہوئے گریبان چاک کرنا جائز ہے اور یہ عمل سیدہ زینب ( صلوة الله و سلامه) علیھا کے بارے میں بھی ملتا ہے ( جس پر ہم سے سوال کیا گیا ہے اور ہم اس پر تفصیلا لکھیں گے ) لیکن روایت کے الفاظ کا یہ ترجمہ نہیں بنتا ۔
نوٹ 2 : ہم سے اس بارے میں سوال کیا گیا ہے نیز کیونکہ اس تحریر میں جناب سیدہ ( صلوة الله و سلامہ علیھا ) کی طرف ایک ایسے فعل کی نسبت دی گئی ہے جس کا روایت میں تذکرہ نہیں اس لیے ہمیں لکھنا پڑ گیا ورنہ ہم مدرسة القائم کی پوسٹس میں مختلف غلطیوں کے باوجود کچھ نہیں لکھتے کیونکہ یہ ادارہ انتہائی مخلص ہے۔ فجزاھم اللہ و حفظھم




