اثباتِ شہادتِ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنِ الْعَمْرَكِيِّ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ أَخِيهِ أَبِي الْحَسَنِ ع قَالَ: إِنَّ فَاطِمَةَ ع صِدِّيقَةٌ شَهِيدَةٌ ۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں :
” سیدہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) صدیقہ اور شہیدہ ہیں “.
الکافی ج ۱ ، ص ۲۹۱ ، کتاب الحجہ ، باب مولد فاطمہ زہراء ع ، حدیث نمبر ۲
اردو حوالہ : الکافی ج ۳ ، ص ۴۷ ، ۴۸
—————
روایت کی صحت و تشریح :
اس روایت کو علامہ مجلسی رح نے صحیح قرار دیا ہے
الحدیث الثانی : صحیح
مراة العقول ، ج ۵ ، ص ۳۱۵
2 ) شیخ آصف محسنی نے اس روایت کو اپنی معجم الاحادیث المعتبرہ میں نقل کیا ہے
معجم الاحادیث المعتبرہ ، ج ۲ ، ص ۲۰۹ ، کتاب الامامة و الائمة
3 ) سید جعفر مرتضیٰ عاملی نے بھی اس روایت کی صحت کی تصدیق کی ہے
مأساہ الزہراء ، ج ۱ ، ص ۱۰۰ ، حدیث نمبر ۲۱
4 ) مرزا جواد تبریزی کے نزدیک بھی یہ روایت معتبر ہے
وهو ظاهر فی مظلومیتها وشهادتها …..
اور اس روایت سے سیدہ فاطمہ کی مظلومیت اور شہادت واضح ہے
صراة النجاة ، ج ۳ ،ص ۴۴۱
انہوں نے اپنی دوسری کتاب انوار الالھیة میں بھی اس روایت کی تصدیق کی ہے ، فرماتے ہیں :
و فی جزء الثانی من نفس الباب بسند معتبر عن الکاظم ع قال : پھر روایت نقل کرتے ہیں
انوار الالھیة ، ص ۱۵۴
5 ) محقق سید هاشم الهاشمی :
فهؤلاء ینکرون شهادة الزهراء علیها السلام یعنی ینکرون قول موسى بن جعفر علیه السلام من أنها صدیقة شهیدة …..
اور جو لوگ سیدہ کی شہادت کے انکاری ہیں وہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے اس قول کا انکار کرتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ ع صدیقہ و شہیدہ ہیں
حوار مع فضل الله حول الزهراء ، ص ۳۱
اس کے علاوہ علامہ تقی مجلسی رح ، علامہ صالح مازندرانی ، علامہ صادق روحانی اور دیگر علماء نے بھی اس روایت کی تصدیق کی ہے۔














محمد بن أحمد القمي المعروف ابن شاذان نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت سلمان فارسی ؓ سے کہتے ہیں کہ رسول اللّٰه (صلی اللّٰه علیه وآله وسلم) نے مجھ سے فرمایا :
” يا سلمان! من أحب فاطمة ابنتي فهو في الجنة معي، ومن أبغضها فهو في النار، يا سلمان! حب فاطمة ينفع في مائة مواطن أيسر تلك المواطن الموت، والقبر، والميزان، والمحشر، والصراط، والمحاسبة، فمن رضيت عنه ابنتي فاطمة رضيت عنه، ومن رضيت عنه رضي الله عنه، ومن غضبت عليه فاطمة غضبت عليه، ومن غضبت عليه غضب الله عليه، يا سلمان! ويل لمن يظلمها ويظلم بعلها أمير المؤمنين عليا (عليه السلام) ويظلم ذريتها وشيعتها..! “
اے سلمان ؓ ! جو بھی میری بیٹی فاطمہ ۜ سے محبت کرے گا وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا اور جو اس سے بغض رکھے گا وہ جہنم میں جائے گا، اے سلمان ؓ ! میری بیٹی فاطمہ ۜ کی محبت سو مقامات پر فائدہ دے گی جن میں سب سے آسان ترین موت، قبر، میزان، حشر، صراط، عرض اعمال اور حساب ہیں، پسجس سے میری بیٹی فاطمہ ۜ راضی ہے اس سے میں راضی اور جس سے میں راضی اس سے خدا راضی ہے، اور جس سے میری بیٹی ناراض ہے اس سے میں ناراض اور جس سے میں ناراض اس سے خدا ناراض ہے، اے سلمان ؓ ! ویل (ہلاکت) ہے اس پر جو ان (فاطمہ ۜ ) پر اور ان کے شوہر امیرالمومنین علی ؑ پر ظلم کرے، اور اس پر بھی جو ان کی ذریت پر اور ان کے شیعوں پر ظلم کرے ۔۔
مائة منقبة – محمد بن أحمد القمي – الصفحة ١٣٣،١٣٤


کشف الغمه میں علامہ اردبیلی ؒ نے جابر ابن عبداللّٰه الانصاری ؓ کی روایت نقل کی ہے کہ ان کا بیان ہے کہ حضرت فاطمه (سلام اللّٰه علیھا) رسول اللّٰه (صلى اللّٰه عليه وآله وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اس وقت آپ ؐ موت کی سختی میں تھے اس حال میں سیدہ ۜ نے اپنے آپ کو رسول ؐ پر گرا دیا اور گریہ فرمانے لگیں، اس وقت آپ ؑ نے آنکھیں کھولیں اور پھر فرمایا :
يا بنية أنت المظلومة بعدي، وأنت المستضعفة بعدى، فمن آذاك فقد آذاني، ومن غاظك فقد غاظني، ومن سرك فقد سرني، ومن برك فقد برني، ومن جفاك فقد جفاني، ومن وصلك فقد وصلني، ومن قطعك فقد قطعني، ومن أنصفك فقد أنصفني، ومن ظلمك فقد ظلمني، لأنك مني وأنا منك، وأنت بضعة مني وروحي التي بين جنبي، ثم قال (عليه السلام): إلى الله أشكو ظالميك من أمتي.
اے میری بیٹی میرے بعد تم مظلوم ہو جاؤ گی، اور میرے بعد تمھیں کمزور کر دیا جائے گا، جس نے تمھیں تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی، اور جس نے تجھے غصہ دلایا اس نے مجھے غصہ دلایا، اور جس نے تجھے مسرور کیا اس نے مجھے مسرور کیا، اور جس نے تمھارے ساتھ نیکی کی اس نے میرے ساتھ نیکی کی، اور جس نے تمھارے ساتھ بُرا سلوک کیا اس نے میرے ساتھ بُرا سلوک کیا، اور جس نے تمھارے ساتھ اچھا تعلق رکھا اس نے میرے ساتھ اچھا تعلق رکھا، اور جس نے تجھ سے تعلق توڑا اس نے مجھ سے تعلق توڑا، اور جس نے تمھارے ساتھ انصاف کیا اس نے میرے ساتھ انصاف کیا، اور جس نے تمھارے ساتھ ظلم کیا اس نے میرے ساتھ ظلم کیا، تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں، اور تم میرا جُز اور میرے پہلو میں میری روح ہو، پھر اس کے بعد آپ (صلى اللّٰه عليه وآله وسلم) نے فرمایا : میری امت میں سے جو تم پر ظلم کرے گا میں اس کی بارگاہ خداوندی میں شکایت کروں گا …
كشف الغمة – ابن أبي الفتح الإربلي – ج ٢ – الصفحة ٢٤٧

علامه شرف الدین الحسینی الاسترآبادی نے روایت نقل کی ہے کہ امام موسی بن جعفر (علیه السلام) نے اپنے والد ؑ سے حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللّٰه (صلی اللّٰه علیه وآله وسلم) نے امیرالمومنین علی بن ابیطالب ؑ، فاطمہ ؑ، حسن ؑ اور حسین ؑ سب کو جمع کیا اور دروازہ بند کر کے پھر فرمایا :
” يا أهلي ويا أهل الله! إن الله عز وجل يقرأ عليكم السلام، وهذا جبرئيل معكم في البيت، ويقول: إن الله عز وجل يقول: إني قد جعلت عدوكم لكم فتنة فما تقولون؟ قالوا: نصبر يا رسول لله لأمر الله وما نزل من قضائه حتى نقدم على الله عز وجل ونستكمل جزيل ثوابه فقد سمعناه يعد الصابرين الخير كله.. فبكى رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم) حتى سمع نحيبه من خارج البيت، فنزلت هذه الآية: * (وجعلنا بعضكم لبعض فتنة أ تصبرون وكان ربك بصيرا) *.. “
اے میرے اہل اور اہل اللّٰه، اللّٰه عزوجل تم پر سلام بیھجتا ہے، اور یہ جبرائیل ؑ اس گھر میں تمھارے ساتھ ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ اللّٰه تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے تمھارے دشمنوں کو تمھارے لئے آزمائش قرار دیا ہے، تم لوگ کیا کہتے ہو؟ اھل البیت (علیہم السلام) نے فرمایا : یا رسول اللّٰه (صلی اللّٰه علیه وآله وسلم) ہم اللّٰه کے لیے اللّٰه کے امر پر صبر کریں گے اور اللّٰه کی طرف سے معین فیصلوں پر ہم اللّٰه عزوجل کو مقدم رکھتے ہیں، اور اللّٰه کی طرف سے ملنے والے ثواب کو مکمل طور پر حاصل کریں گے، ہم نے اللّٰه سے سنا ہے کہ اللّٰه تمام خیر کو صبر کرنے والوں کے لیے شمار کرتا ہے، پس یہ سن کر رسول اللّٰه (صلی اللّٰه علیه وآله وسلم) گریہ کرنے لگے یہاں تک کہ آپ کی ہچکیاں گھر کے باہر سنی گئیں، پس اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی! ہم نے تم میں سے بعض کو بعض کے لیے آزمائش قرار دیا ہے کیا تم صبر کرو گے؟ تمھارا پرورگار حقائق کے رازوں کو جاننے والا ہے۔
تأويل الآيات – شرف الدين الحسيني – ج ١ – الصفحة ٣٨٩،٣٩٠

علامہ مجلسی ؒ نے شیخ کراجکی ؒ کی کتاب کنز الفوائد سے روایت نقل کی ہے کہ امام جعفر الصادق (علیه السلام) نے اپنے جد رسول اللّٰه (صلی اللّٰه علیه وآله وسلم) کی حدیث بیان فرمائی کہ آپ ؑ نے فرمایا :
ملــعــ ـون ملــعــ ـون من يظلم بعدي فاطمة ابنتي ويغصبها حقها ويقتلها ثم قال يا فاطمة البشرى فلك عند الله مقام محمود تشفعين فيه لمحبيك وشيعتك، فتشفعين، يا فاطمة لو أن كل نبي بعثه الله وكل ملك قربه، شفعوا في كل مبغض لك غاصب لك ما أخرجه الله من النار أبدا.
ملــعــ ـون ہے ملــعــ ـون ہے وہ شخص جو میرے بعد میری بیٹی فاطمہ (سلام اللّٰه علیها) پر ظلم کرے اور ان کا حق غصب کرے اور ان کو قتل کرے …… پھر فرمایا : اے فاطمه ۜ خوشخبری ہو پس تمھارے لیئے اللّٰه کے نزدیک مقام محمود ہے کہ جس مقام پر آپ اپنے چاہنے والوں اور شیعوں کی شفاعت کریں گی، اے فاطمه ۜ اگر تمام انبیاء کرام (علیه السلام) جن کو اللّٰه نے مبعوث کیا ہے اور تمام ملائکہ مقرب مل کر بھی آپ ۜ سے بغض رکھنے والوں اور آپ کے حق کو غصب کرنے والے سب کی شفاعت کریں تو بھی اللّٰه ان کو جہنم کی آگ سے نہیں نکالے گا ۔
بحار الأنوار – العلامة المجلسي – ج ٧٣ – الصفحة ٣٥٥
.
.
علامہ مجلسی ؒ نے روایت نقل کی ہے کہ عیسی الضریر نے امام موسی بن جعفر الکاظم (علیه السلام) سے نقل کیا کہ آپ ؑ نے اپنے والد ؑ سے نقل کیا کہ رسول اللّٰه (صلی اللّٰه علیه و آله وسلم ) نے جناب امیر ( علیه السلام) سے فرمایا :
انفذ لما أمرتك به فاطمة فقد أمرتها بأشياء أمر بها جبرئيل ، واعلم يا علي إني راض عمن رضيت عنه ابنتي فاطمة ، وكذلك ربي وملائكته ، يا علي ويل لمن ظلمها وويل لمن ابتزها حقها ، وويل لمن هتك حرمتها ، وويل لمن أحرق بابها ، وويل لمن آذى خليلها[١] ، وويل لمن شاقها وبارزها ، اللهم إني منهم برئ ، وهم مني برآء ، ثم سماهم رسول الله (ص) وضم فاطمة إليه وعليا والحسن والحسين : وقال : اللهم إني لهم ولمن شايعهم سلم ، وزعيم بأنهم يدخلون الجنة ، وعدو وحرب لمن عاداهم وظلمهم وتقدمهم أو تأخر عنهم وعن شيعتهم ، زعيم بأنهم يدخلون النار ، ثم والله يا فاطمة لا أرضى حتى ترضى ، ثم لا والله لا أرض حتى ترضى ، ثم لا والله لا أرضى حتى ترضى.
آپ کو جو فاطمہ (سلام الله علیها) کہیں آپ اس پر عمل کیجیئے گا کیونکہ میں نے فاطمه ۜ کو ان چیزوں کا حکم دیا ہے جس کا مجھے جبرئیل ؑ نے کہا اور اے علی ؑ! جان لیجیئے کہ میں اس سے راضی ہوں جس سے میری بیٹی فاطمہ ؑ راضی ہے اور اسی طرح اللّٰه اور ملائکہ بھی اس سے راضی ہیں ،
یا علی علیه السلام ! ویل ہے اس کے لیئے جو ان پر ظلم کرے، اور ویل ہے اس کے لیئے جو ان کے حق کو دھوکے کے ساتھ غصب کرے، اور ویل ہے اس کے لیئے جو ان کی ہتک حرمت کرے، اور ویل ہے اس کے لیئے جو ان کے در کو جلائے، اور ویل ہے اس کے لیئے جو ان کے خلیل کو اذیت پہنچائے، اور ویل ہے اس کے لیئے جو ان کو مشقت دے اور ان کے ساتھ مقابلہ کرے ، اے الله ! بتحقیق میں بیزار ہوں ان سے اور وہ مجھ سے بیزار ہیں ،
پهر رسول الله (صلی اللہ علیه وآله وسلم) نے ان کا نام لیا (یعنی نشاندہی کروائی) اور فاطمہ زہراء (سلام الله علیھا) کو سینے سے لگایا اور علی ؑ، حسن ؑ و حسین (علیھم السلام) کو بھی گلے لگایا اور فرمایا : پروردگار میں ان کے لیئے اور ان کے پیروکاروں کے لیئے سلامتی چاہتا ہوں اور ان کا ضامن ہوں کہ یہ جنت میں داخل ہو جائیں، اور جو ان سے اور ان کے شیعوں سے دشمنی رکھے اور ان پر ظلم کرے اور ان سے آگے بڑھ جائیں یا ان سے پیچھے رہ جائیں ان کا دشمن اور ان سے میری جنگ ہے اور ان کا بھی ضامن ہوں کہ وہ جہنم میں داخل ہو جائیں، پھر خدا کی قسم اے فاطمه ؑ! میں راضی نہیں ہوں جب تک تو راضی نہ ہو جائے، پھر خدا کی قسم میں راضی نہیں ہوں یہاں تک کہ تُو راضی نہ ہو جائے گی، پھر خدا کی قسم نہیں میں راضی نہیں ہوں جب تک تُو راضی نہ ہو جائے ۔۔
بحار الأنوار – العلامة المجلسي – ج ٢٢ – الصفحة ٤٨٥
