حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر سے توسل کے حوالے سے اصحاب رسول کا عقیدہ!

امام دارمی اپنی مشہور تصنیف سنن دارمی میں سند صحیح سے اثر روایت کرتے ہیں:
.
حدثنا أبو النعمان ثنا سعید بن زید ثنا عمرو بن مالک النکری حدثنا أبو الجوزاء أوس بن عبد اللہ قال : قحط أہل المدینۃ قحطا شدیدا فشکوا إلی عائشۃ فقالت انظروا قبر النبی صلی اللہ علیہ و سلم فاجعلوا منہ کووا إلی السماء حتی لا یکون بینہ وبین السماء سقف قال ففعلوا فمطرنا مطرا حتی نبت العشب وسمنت الإبل حتی تفتقت من الشحم فسمی عام الفتق
.
●》حضرت ابو جوزاء تابعی فرماتے ہیں:
مدینہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلاء ہوگئے تو انہوں نے حضرت عائشہ سے شکایت کی آپ نے فرمایا کہ حضور کی قبر مبارک کے پاس کھڑے ہوجاو اور اس سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف اس طر ح کھولو کہ قبر انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ ہو راوی کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسا ہی کیا پس بہت بارش ہوئی حتی کہ خوب سبزہ اگ گیا اور مویشی اتنے موٹے ہوگئے کہ ایسا لگتا تھا کہ چربی سے پھٹ پڑیں گے ۔لہذا اس سال کا نام عام الفتق (سبزہ و کشادگی کا سال) رکھ دیا گیا
[سنن الدرامی وسندہ صحیح]
.
اس اثر کی تصحیح و تحسین درج ذیل محدثین و محققین نے کی ہے:
■1- ابن حجر العسقلاني : تخريج مشكاة المصابيح (ج5 / ص362): [حسن كما قال في المقدمة]
■2- محمود سعيد ممدوح : رفع المنارة ص203: قلت : هذا إسناد حسن إن شاء الله تعالى
■3- تقي الدين علي السبكي : شفاء السقام ص128: استدل بالحديث
■4- حسن بن علي السقاف: الإغاثة ص25: وهذا صريح أيضاً بإسناد صحيح
■5- ذكر العلامة السمهودي في خلاصة الوفا : إن من الأدلة على صحة التوسل بالنبي صلى الله عليه وسلم بعد وفاته ما رواه الدارمي في صحيحه عن أبي الجوزاء ثم ذكر الحديث
■6- المحقق شعيب الأرنؤوط : مسند احمد (ج6 / ص72) ح24478: مرفوعه صحيح لغيره “وهذا إسناد حسن” صحح السند (وليس المتن) المذكور كل من – والسند هو: أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ النُّكْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْجَوْزَاءِ أَوْسُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ:
■7- الحافظ الهيثمي : مجمع الزوائد (ج7 / ص392) ح13035: رواه أحمد والطبراني في الأوسط ورجاله رجال الصحيح، غير عمرو بن مالك النكري وهو ثقة.
■8- المحقق حمزة الزين : مسند احمد (ج17 / ص330): اسناده صحيح
■9- حسين سليم أسد الداراني : رجاله ثقات وهو موقوف على عائشة
تبصرہ!
مذکورہ اثر سے اس پر صحابہ کے متفقہ عمل سے اجماع ثابت ہوتا ہے کہ حضرت اماں عائشہ کے حکم پر قبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بطور وسیلہ اختیار کیا گیا بارش کے لیے!
وہابیوں کی کتاب اور کٹر شامی وہابی کی تصدیق کہ سند صحیح ہے۔
رسول خدا کی قبر سے توسل اور عمر کا اس عمل پر راضی ہونا۔ اب کہو عمر سمیت تمہارے صحابی بھی مشرک تھے؟؟؟
کتاب فتح الباری میں ابن حجر عسقلانی نے ایک صحیح حدیث نقل کی ہے۔
جس میں حضرت عمر کا ایک غلام نبی پاک سے استغاثہ کرتے ہوئے کہتاہے یا رسول اللہ اس امت کی مدد کریں ۔
تو اہل حدیث کے نزدیک حضرت عمر کا خادم مشرک ہوگیا اور اس عمل میں حضرت عمر نے مشرک کا ساتھ بھی دیا۔
کیا کہتے ہو حضرت عمر اور اس خادم کے اس عمل پر
اے شرک کے فیکٹری والے وہابیو؟