تاریخ ظہور پر نور مولانا و حبیبنا و امامنا موسی الکاظم صلوات الله عليه (بیس ذي الحجة ، ١٢٧ هجري )

تاریخ ظہور پُر نُور غلط طور پر ٧ صفر مشھور ہو گئی ہے ، اس کی وجہ ابن شہر آشوب کا المناقب میں اس تاریخ کو درج کرنا ہے . اور پھر المناقب سے ہی علما کا اسی تاریخ کی تخریج کرتے رہنا ہے ، اور یوں اس تاریخ کا مشھور ہو جانا ہے.
ابن شہر آشوب لکھتے ہیں :
“ولد بالابواء موضع بین مکه و المدینه یوم الاحد لسبع خلون من صفر سنه ثمان و عشرین و مائه”
المناقب جلد ٤ ، صفحہ ٣٢٣
یعنی “امام موسی کاظم صلوات الله علیہ کی ولادت با سعادت مقام ابواء پر ہوئی جو مکہ اور مدینہ کے وسط میں واقع ہے ، یہ اتوار کا دن تھا جبکہ صفر کی ساتویں تھی ، اور سال ١٢٨ ہجری تھا”
————-
اسی طرح دیگر مورخین کے بھی اقوال ہیں جو انہوں نے اپنی کتابوں میں درج کیے ہیں ، مگر یہ سب اقوال و تاریخی روایات ، احادیث آئمہ علیھم السلام کے مخالف ہیں ، کیونکہ حدیث امام حسن عکسری صلوات الله علیہ میں واضح طور پر آیا ہے کہ، مولا موسی کاظم صلوات الله علیہ کا ظہور پر نور ماہ ذي الحجة ، سن ١٢٧ ہجری میں ہوا تھا نہ کہ ماہ صفر ، سن ١٢٨ ہجری میں ، حدیث ملاحظه فرمائیں:
قال أبو محمد الحسن بن علي الثاني ( عليه السلام ) : ولد بالأبواء ، بين مكة والمدينة في شهر ذي الحجة سنة مائة وسبعة وعشرين من الهجرة.
دلائل الامامة، صفحہ ٣٠٣
ترجمہ ” امام حسن عسکری صلوات الله علیہ نے فرمایا ، امام موسی کاظم صلوات الله علیہ کی ولادت با سعادت مکہ اور مدینہ کے مابین واقع مقام ابواء پر ، ماہ ذی الحجہ میں ہوئی ، اور سو سال ١٢٧ ہجری تھا”
اسی طرح الکافی میں ابو بصیر سے صریح روایت بھی موجود ہے جس میں ابو بصیر نے واضح طور پر کہا ہے کہ مکہ میں ہم نے امام علیہ السلام کے ساتھ حج کیا تھا اور مدینہ واپسی کے دوران مقام ابواء پر ظہور پُر نور امام موسی کاظم صلوات الله علیہ ہوا ، طوالت سے بچنے کے پیش نظر روایت کا اول حصہ نقل کیا جاتا ہے .
عن أبي بصير قال : حججنا مع أبي عبد الله عليه السلام في السنة التي ولد فيها ابنه موسى عليه السلام ، فلما نزلنا الأبواء… الخ
الكافي، ج ١، الشيخ الكليني، ص ٤٣٣
ترجمہ :”بعد از اسناد ، ابو بصیر رہ کہتے ہیں کہ ، ہم نے مولا صادق آل محمد صلوات الله علیھم اجمعین کے ساتھ حج کیا ، اس سال میں کہ جس میں مولا ص کے فرزند ارجمند مولا موسی کاظم صلوات الله علیہ کی ولادت با سعادت ہوئی ، جب ہم مقام ابواء پر پہنچے … الخ “
مزید براں محدث برقی رہ نے اپنی کتاب المحاسن میں ، منہال قصاب سے روایت کی ہے ، ملاحظه فرمائیں .
عن منهال القصاب ، قال : خرجت من مكة وأريد المدينة فمررت بالابواء وقد ولد لأبي عبد الله موسى ( ع ) فسبقته إلى المدينة ، ودخل بعدى بيوم ، فأطعم الناس ثلاثا ، فكنت آكل فيمن يأكل ، فما آكل شيئا إلى الغد حتى أعود فآكل ، فمكثت بذلك ثلاثا
——————————
المحاسن، ج ٢، أحمد بن محمد بن خالد البرقي، ص ١٢٤
ترجمہ : “منہال قصاب کہتے ہیں کہ ، میں مکہ سے مدینہ جانے کے ارادے سے نکلا ، اور مقام ابواء سے گزرا ، جہاں امام صادق آل محمد صلوات الله علیھم اجمعین کے ہاں بیٹےؐ کی ولادت با سعادت ہوئی تھی ، میں آپ ص سے پہلے مدینہ پہنچ گیا ، اور میرے مدینہ پہنچنے کے ایک دن بعد امام علیہ السلام بھی مدینہ میں تشریف لے آئے ، اور تین دن تک لوگوں کو کھانا کھلایا ، اور میں نے بھی کھانے والوں کے ساتھ کھانا کھایا ، یہاں تک کہ اگلے دن تک کھانے کی حاجت نہ رہی یہاں تک کہ اگلا دن آیا تو پھر جا کر کھانا کھایا ، اور ایسا تین دن تک ہوا “
—————————————
ان احادیث شریف سے روز روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے کہ مولا موسی کاظم صلوات الله علیہ کا ظہور پر نور ، ماہ ذی الحجہ ١٢٧ ہجری میں ہوا ، اور سات صفر، ١٢٨ ہجری کی تاریخی روایات و اقوال غلط ہیں . تاہم ان احادیث میں ، ماہ ذی الحجہ کی تاریخ وارد نہیں ہوئی ہے لیکن اس متعلق تمام احادیث شریف کے قرائن پر غور و فکر کرنے سے اصحاب الحدیث نے تاریخ ظہور پر نورِ مولا ؐ کے بیس ذی الحجہ ہونے کا ہی افادہ کیا ہے. جسے اختصارا بیان کیا جاتا ہے.
قرینہ یہ ہے کہ امام علیہ السلام مکہ سے غدیر خم کے مقام پر تشریف لے گئے تھے. اتمام حج بیت ﷲ جل شانہ کے بعد غدیر خم پر جانا سنت آئمہ صلوات الله علیھم میں سے ہے ، تاکہ ولایت امیر المومنین صلوات الله علیہ کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے. ملاحظه فرمائیں حدیث شریف.
عن عبد الرحمن بن الحجاج قال : سألت أبا إبراهيم ( عليه السلام ) عن الصلاة في مسجد غدير خم بالنهار وأنا مسافر ، فقال : صل فيه فإن فيه فضلا وقد كان أبى يأمر بذلك
——————————
الكافي، ج ٤، الشيخ الكليني، ص ٥٦٦
ترجمہ : “ابن الحجاج کہتے ہیں کہ میں نے مولا ابو ابراہیم موسی کاظم صلوات الله علیہ سے سوال کیا مسجد غدیر میں صلاة پڑھنے کے متعلق دن کے وقت جبکہ میں حالت سفر میں ہوں، تو امام ص نے فرمایا ، مسجد غدیر میں صلاة پڑھا کرو بیشک اس میں بہت فضل ہے ، اور میرے ص باباؐ نے یہی حکم دیا ہے “
دوسری حدیث شریف ملاحضہ فرمائیں :
رواية أبان عن أبي عبدالله (عليه السلام) قال يستحب الصلاة في مسجد الغدير ، لأن النبي (صلى الله عليه و آله و سلام) أقام فيه أمير المؤمنين (عليه السلام) ، و هو موضع أظهر الله عزوجل فيه الحق
الكافي ج٤ ص٥٦٧
ترجمہ : “ابان کہتے ہیں کہ مولا صادق آل محمد صلوات الله علیھم اجمعین نے فرمایا کہ ، میں ص تاکید کرتا ہوں کہ مسجد غدیر میں صلاة پڑھا کرو ، کیونکہ یہیں پر رسول الله صلی الله علیہ وآلہ نے امیر المومنین صلوات الله علیہ (کی ولایت) کو قائم کیا تھا، اور یہی وہ جگہ ہے جس پر الله نے حق کو ظاہر کر دیا تھا. “
امام صادق آل محمد صلوات الله علیھم اجمعین جب مدینہ سے مکہ تشریف لے جاتے تھے، تب بھی غدیر خم تشریف فرما ہوتے تھے ، حدیث ملاحظه فرمائیں:
عن حسان الجمال قال : حملت أبا عبد الله ( عليه السلام ) من المدينة إلى مكة فلما انتهينا إلى مسجد الغدير نظر إلى ميسرة المسجد فقال : ذلك موضع قدم رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) حيث قال : من كنت مولاه فعلي مولاه
——————————
الكافي، ج ٤، الشيخ الكليني، ص ٥٦٦
ترجمہ : “حسن الجمال کہتے ہیں کہ ، میں نے مولا صادق آل محمد صلوات الله علیھم اجمعین کے ساتھ مدینہ سے مکہ کا سفر کیا ، جب ہم مسجد غدیر پر پہنچے ، تو امام نے مسجد غدیر کے بائیں جانب نظر مبارک کی اور فرمایا کہ یہی وہ مقام ہے جہاں رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے قدم مبارک رکھے تھے ، جس دم وہ ص فرما رہے تھے ، من كنت مولاه فعلي مولاه “
فلھذا ، ہم کہتے ہیں کہ مولا صادق آل محمد صلوات الله علیھم اجمعین نے رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی مثل ، 14 ذی الحجہ کو مکہ سے غدیر کی جانب سفر کیا ، جبکہ مقام ابواء مقام جحفه سے ٤٥ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ، اور غدیر خم مقام جحفه سے تقریبا ٧ کلومیٹر کی مسافت پر ہے ، یعنی مقام ابواء اور مقام غدیر خم میں ایک دن کی مسافت ہے ، اس حساب سے ، امام علیہ السلام بیس ذی الحجہ قبل از عصر ہی مقام ابواء پر پہنچے ہوں گے.
اور اگر یہ بھی کہا جائے کہ امام علیہ السلام مکہ سے غدیر خم تشریف نہ لے گئے ہوں تو؟ تب بھی یہ تاریخ بیس ذی الحجہ ہی بنتی ہے کیونکہ مکہ سے ابواء تک یہ پانچ دن کا سفر ہے ، البتہ غدیر نہ جانے کی صورت میں بیس ذی الحجہ کی رات ، یا زیادہ سے زیادہ بیس ذی الحجہ بوقت فجر مقام ابواء پر پہنچ چکے ہوں گے .
پس احادیث کریم کی روشنی میں ، امام موسی کاظم صلوات الله علیہ کا ظہور پرنور ، بیس ذی الحجہ ١٢٧ ہجری ہی ثابت ہوتا ہے ، اور سات صفر کے تاریخی اقوال اسی بنا پر رد ہوتے ہیں . مومنین کو چاہیے کہ اس تحقیق مختصر کو دیگر مومنین تک پہنچائیں تاکہ احادیث شریف کی مخالفت میں ، ایام عزا میں محض تاریخی اقوال کی بنا پر مبارکوں کا سلسلہ بند ہو سکے . خاص طور پر جب، کہ سات صفر کو ہی مولانا و امامنا حسن المجتبی صلوات الله علیہ کی شہادت کی تاریخی روایات بھی موجود ہوں .
تحریر و تحقیق : برادر عزیز جلال الدين محمد