https://asnaashar.wordpress.com/2022/01/30/%D8%AD/?fbclid=IwZXh0bgNhZW0CMTAAAR1Lniz9dGjFeHmkiZjNq8t0LYkN2-DdJqdDy4RNdCH1XAG_XBj0g8GdoTo_aem_AWZSdPFeQhCBItmS8p4oN86Ss3DeJWfZjtcUpKBbzRV42MZgc29X-xEr7VpGqzo7Z8jFaBPv_GlU82qaFf0ZERMD
.
سورہ یونس 87 موسی ع و ہارون ع کا گھر مسجد تھا وہ مسجد میں رہائش پذیر تھے یعنی وہ جس حالت میں بھی ہوتے ہوتے مسجد میں ہی تھے
مولا علی ع کے لیے جنابت کی حالت میں مسجد میں رہنا حلال تھا”
مولا علی ع کا دروازہ مسجد میں کھلا باقی صحابہ کے دروازے بند کر دیۓ گئے”
اہل سنت کی معتبر کتابیں


ان دونوں میں لکھا ہے
وقد ورد من طرق کثیرة صحیحہ ان النبی ﷺ لما امر بسد الایواب الشارعة فی المسجد الا باب علــــــے ع
یعنی اس روایت کے بہت زیادہ طرق ہیں جو صحیح ہیں
رسولﷺ نے حکم دیا جتنے بھی مسجد میں دروازے کھلتے ہیں سبکو بند کر دو سواۓ علــــــے ع کے”
وقد ورد ذلک فی حدیث طویل لابن عباسؓ اخرجہ احمد والطبرانی بسند جید”
یعنی اسکی سند معتبر ہے اور اسے احمد و طبرانی نے نقل کیا ہے”
وقد وقع فی بعض الطرق من حدیث ابوھریرة ان سکنی علــــــے ع کانت مع النبی ﷺ فی المسجد ۔۔۔۔۔۔
ابوھریرہ کہتا ہے رسولﷺ کے ساتھ علــــــے ع مسجد میں رہتے تھے”
وورد الحدیث ابی سعید شاھد
ابی سعید والی حدیث اسکی گواہ ہے”
البزار من روایة خارجة بن سعد عن ابیہ وروایة ثقات
یعنی مسند البزار نامی کتاب میں جس پر اگلی تحریر میں ہم بات کریں گے اس کتاب میں بھی روایت ہے
علــــــے ع کے علاوہ کسی صحابی کے لیے مسجد میں جنابت کی حالت میں مسجد مین رہنا حلال نہیں تھا
یہی حوالہ اہل سنت کی کتاب





ابن حجر اپنی کتاب النکت علی کتاب الصلاح روایت لایا
کہ علی ع اور اہل بیت ع حالت جنابت میں بھی مسجد میں رہ سکتے ہیں پیج 

اسکو ابن حجر نے مرسل قوی کہا ہے
سند پر بات ہو جاۓ
#پہلا راوی ابراہیم بن حمزہ
ابن حجر نے کہا ہے صدوق ہے
ابراهيم بن حمزة بن محمد بن حمزة بن مصعب بن عبد الله بن الزبير الزبيري المدني أبو إسحاق

#دوسرا راوی سفیان بن حمزہ

#تیسرا راوی کثیر بن زید
– كثير بن زيد الأسلمي أبو محمد المدني بن مافنه بفتح الفاء وتشديد النون
یہ مضبوط اور صدوق ہے

وقال البخاري: ثقة.
وثقات ابن حبان:
وثقات ابن شاهين،

محمد حیات الانصاری معجم الرجال والحديث میں
کثیر بن زید اور المطلب کی روایت کو صحیح کہا ہے
وقال الطبراني أيضا: حدثنا محمد بن علي الصالغ، حدثنا يعقوب بن حميد بن كاسب، ثنا سفين بن حمزة، عن كثير بن زيد، عن المطلب ابن عبد الله بن حنطب قال: لما أحيط بالحسين بن علي عليه السلام قال: ما اسم هذه الأرض؟ قيل: كربلاء فقال: صدق النبي صلى الله عليه وسلم: ” أنها أرض كرب وبلاء ” (3).
هذا حديث صحيح وفي هذا الباب عن أنس بن الحارث وأنس بن مالك وعلي بن أبي طالب وابن عباس وأم سلمة وعائشة وأم الفضل وأبي هريرة وأبي بكر وعمر وجماعة آخرين

ذھبی میزان الاعتدال میں لکھتا ہے
كثير بن زيد [د، ت، ق] الأسلمي المدني. عن سعيد المقبري.
قال أبو زرعة: صدوق،
ابوزرعة نے کہا صدوق ہے
وروى ابن الدورقي عن يحيى: ليس به بأس.
ابن دورقی نے یحیی کا قول نقل کیا ہے
اس میں کوئی حرج نہیں
وروى ابن أبي مريم، عن يحيى: ثقة.
ابن مریم نے یحیی کا قول نقل کیا ہے یہ ثقہ ہے
وقال ابن المديني:
صالح
ابن مدینی کہتے ہیں یہ صالح ہے
قال ابن عدي: لم أر بحديث كثير بأسا
ابن عدی کہتے ہیں میں کثیر کی نقل کردہ حدیث میں(کسی قسم کا کوئی) حرج نہیں سمجھتا

یاد رہے یحیی نے اسکے بارے دو قول ہیں
ایک وہ ثقہ ہے دوسرا اس میں کوئی حرج نہیں ہے
ہمیں یحیی کی توثیق ہی کافی ہے
#پانچواں راوی المطلب
ابن عساکر نے کہا ہے
المطلب بن عبد الله بن حنطب كان من وجوه قريش وأمه
یہ قریش کے اماموں میں سے تھا

المطلب بن عبد الله ابن حنطب القرشي المخزومي المدني أحد الثقات
ذھبی کہتا ہے یہ ثقہ لوگوں میں سے ہے

قال أبو حاتم : لم يدرك عائشة ، وعامة حديثه مراسيل ،
ابوحاتم کہتا ہے یہ حضرت عائشہ سے نہیں ملا
وقال أبو زرعة : أرجو أن يكون سمع منها
لیکن ابورزعة نے کہا ہے اس نے سماع کیا ہے
وثقه أبو زرعة والدارقطني
ابوزرعة اور دارقطنی نے کہا ہے وہ ثقہ ہے
مزی کتاب تھذیب الکمال کے حاشہ پر لکھتا ہے
قال الترمذي: وأنكر علي بن المديني أن يكون المطلب سمع من أنس (الترمذي – 2916) (4)
ترمذی نے کہا علی بن مدینی نے کہا ہے المطلب نے انس سے سماع کیا ہے

ذھبی تاریخ اسلام میں لکھتا ہے
المطلب بن عبد الله بن حنطب القرشي المخزومي)) عن عمر، وغيره مرسلا، وعن أبي هريرة، وابن عباس، وعبد الله بن عمرو، وجابر بن عبد الله، وجماعة، وعنه ابناه حكم، وعبد العزيز، وعبد الله بن طاوس، ومولاه عمرو بن أبي عمرو، وابن جريج، والأوزاعي، وزهير بن محمد التميمي، وآخرون، وثقه أبو زرعة والدارقطني، وكان مروان بن الحكم خاله، ويروي عن خاله الآخر أبي سلمة، قال أبو حاتم: لم يدرك عائشة، وعامة حديثه مراسيل، وقال أبو زرعة: أرجو أن يكون سمع منها. وقال ابن سعد: ليس يحتج بحديثه لأن ممن يرسل كثيرا.
ابن سعد کہتا ہے اسکی حدیث کو قبول نہیں کیا جاۓ گا
آگے ذھبی ابن سعد کی واٹ لگاتے ہوۓ
قلت: وفد على هشام بن عبد الملك، فوصله لقرابته بسبعة عشر ألف دينار. بقي إلى حدود العشرين ومائة، ولعله عاش بعد ذلك، فالله أعلم

المطلب بن عبد الله بن حنطب المخزومي المدني عن أبي هريرة وعائشة وأنس وعنه ابناه عبد العزيز والحكم والأوزاعي وثقه أبو زرعة والدارقطني
وقال أبو حاتم لم يدرك عائشة ولم يسمع من جابر
وقال ابنه عبد الرحمن بن أبي حاتم يشبه أن يكون سمع منه



مولا علی ع مسجد میں ٹھہر سکتے ہیں اور رہ سکتے ہیں یہ متن قرآن اور صحیح احادیث کے خلاف ہے جیسا کہ ثابت کرینگے۔
یعنی بقول اسکے مولا علی ع حالت جنابت میں مسجد میں نہیں رہ سکتے
ہم انشاءاللہ قرآن سے ہی ثابت کریں گے کہ رسولﷺ اور مولا علی ع کے ہی دروازے مسجد میں کھلے اور وہ حالت جنابت میں مسجد میں ٹھہر سکتے تھے ۔
کھٹمل سورہ نساء کی آیت پیش کر کے اپنی مرضی کا مطلب لے رہا ہے آیت ملاحظہ فرمائیں
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنۡتُمۡ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعۡلَمُوۡا مَا تَقُوۡلُوۡنَ وَ لَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیۡ سَبِیۡلٍ حَتّٰی تَغۡتَسِلُوۡا ؕ ۴۳۔اے ایمان والو! نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جایا کرو یہاں تک کہ تم جان لو کہ تم کیا کہ رہے ہو اور جنابت کی حالت میں بھی،
اب یہ کھٹمل اس آیت سے جنابت کی حالت میں مسجد میں نہ ٹھہرنا لے رہا جبکہ اس آیت میں ایسا کہیں بھی نہیں لکھا بلکہ یہاں بات نماز کی ہو رہی ہے کہ جنابت کی حالت میں نماز کے قریب بھی نہ جاؤ یہاں جنابت کی حالت میں مسجد میں نہ ٹھہرنا کہیں بھی نہیں لکھا
نماز تو انسان گھر بھی پڑھتا ہے سڑک کہنارے بھی میدان میں بھی پڑھتا ہے اس آیت میں مسجد میں نماز پڑھنے سے ہی منع نہیں کیا گیا بلکہ ہر جگہ ہی منع کیا گیا ہے کہ جنابت کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ۔ اس جاہل سے پوچھو یہاں جنابت کی حالت میں مسجد میں نہ ٹھہرنا کہاں لکھا ہے؟
چلیں جی اب چلتے ہیں اسکی اس بونگی کی طرف
مولا علی ع مسجد میں ٹھہر سکتے ہیں اور رہ سکتے ہیں یہ متن قرآن اور صحیح احادیث کے خلاف ہے جیسا کہ ثابت کرینگے۔
آئیں اب اس کھٹمل کی جہالت آپکو دکھاتا ہوں کہ یہ ایک نالائق جاہل انسان ہے
حضرت عمر کہتے تھے
وسكناه المسجد مع رسول الله صلى الله عليه وآله يحل له فيه ما يحل له *
یعنی مولا علی ع رسولﷺ کے ساتھ مسجد میں رہائش پذیر تھے اور انکے لیے مسجد میں وہ سب کچھ حلال تھا
جو رسولﷺ کے لیے حلال تھا۔
المستدرك – الحاكم النيسابوري – ج ٣ – الصفحة ١٢٥
هذا حديث صحيح الاسناد ولم يخرجاه
قال ابن كثير إسناده قوي۔
سند پر بحث فضول ہونگی کیونکہ قرآن موجود ہے
کیا حضرت عمر نے یہ بات سچ کہی کہ علی ع رسولﷺ کے ساتھ مسجد میں رہائش پزیر تھے؟
آئیں قرآن سے پوچھتے ہیں
امام رضا ع فرماتے ہیں
سورہ یونس آیت نمبر 87 ترجمہ تفسیر ابن کثیر
وَاَوۡحَيۡنَاۤ اِلَىٰ مُوۡسٰى وَاَخِيۡهِ اَنۡ تَبَوَّاٰ لِقَوۡمِكُمَا بِمِصۡرَ بُيُوۡتًا وَّاجۡعَلُوۡا بُيُوۡتَكُمۡ قِبۡلَةً
اور ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی کی طرف وحی بھیجی کہ اپنے لوگوں کے لئے مصر میں گھر بناؤ اور اپنے گھروں کو قبلہ (یعنی مسجدیں) ٹھیراؤ
اس آیت سے ہارون ع کی منزلت ظاہر ہوتی ہے
اور رسولﷺ نے تمام دروازوں کو بند کر کے علی ع کا دروازہ کھول کر ہارون محمدی یعنی علی ع کی فضیلت ظاہر کی اور رسولﷺ نے فرمایا
یہ مسجد کسی جناب والے کے لیے حلال نہیں سواۓ محمد و آل محمد کے۔
حضرت عمر کی بات پر قرآن کی آیت نص موجود ہے
کہ جیسے موسی ع و ہارون ع مسجد میں رہائش پزیر تھے ویسے ہی رسولﷺ اور علی ع مسجد میں رہائش پزیر تھے۔
جب رسولﷺ نے ایسا کیا تو لوگوں نے باتیں کیں
یارسول اللہ آپ نے علی ع کا دروازہ کھلا رہنے دیا اور ہمیں آپ نے باہر نکال دیا
رسولﷺ نے فرمایا
ما تركته وأخرجتكم ولكن الله عز وجل تركه وأخرجكم
میں نے اپنی مرضی سے علی ع کو نہیں رہنے دیا اور تمہیں اپنی مرضی سے نہیں نکالا اللہﷻ نے اسے رہنے دیا اور تمہیں نکال دیا
دراصل رسولﷺ نے اس عمل سے اپنی حدیث کا عملی ثبوت فراہم کیا
یا على عليه السلام أنت منى بمنزله هارون من موسى
یا علی تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے ہے جو ھارون ع کو موسی ع کے ساتھ تھی۔
جیسے موسی ع و ہارون ع کا گھر قبلہ مسجد بنا اور وہ اس میں رہائش پزیر تھے ویسے ہی رسولﷺ اور مولا علی ع رہائش پزیر تھے وہ ٹھہر سکتے تھے رہ سکتے تھے
خدا انسان کو تب ہی ہدایت دیتا ہے جب انسان خود ہدایت لیتا ہے اس کھٹمل سے کہوں گا خدا سے ہدایت لے تاکہ تجھے خدا ہدایت دے اور بغض علی ع تمہارے دل سے نکلے