قارئین : یہاں پر دو روایات جو ناصبی شیعہ کتاب سےحضرت ابو طالب علیہ السلام کےعدم ایمان پر پیش کرتےہیں اسکا جواب دیتے ہیں۔
ناصبی کہتا ہے:


جواب: قارئین اصل کلام بحار الانوار جلد ۳۵ ص ۱۵۵ پر موجود ہے جس کا آغاز یوں ہوتا ہے:
[أقول:] وقال ابن أبي الحديد في شرح نهج البلاغة: اختلف الناس في إسلام أبي طالب فقالت الامامية وأكثر الزيدية: ما مات إلا مسلما، وقال بعض شيوخنا المعتزلة بذلك، منهم: الشيخ أبو القاسم البلخي وأبو جعفر الإسكافي وغيرهما، وقال أكثر الناس من أهل الحديث والعامة ومن شيوخنا البصريين وغيرهم: مات على دين قومه
میں (مجلسیؒ) کہتا ہوں کہ “ابن ابی حدید” اپنی کتاب شرح “نہج البلاغہ” میں فرماتے ہیں: لوگوں کے حضرت ابو طالب علیہ السلام کے اسلام کےحوالے سے مختلف نظریات ہیں”امامیہ اور اکثر زیدیہ یہ کہتے ہیں کہ آپ “مسلم” ہی انتقال ہوا اور یہی بات ہمارے بعض شیوخ معتزلہ بھی کہتے ہیں”جن میں ابو القاسم البؒی اور ابوجعفر الاسکافی سمیت دیگر ہیں۔اوراکثرمحدثین اورعوام لوگ اور ہمارے بصرہ کے شیوخ معتزلہ ودیگر کہتے ہیں کہ حضرت ابو طالب علیہ السلام اپنی قوم کے دین پر وفات پائی۔
اسکے بعد اس ہی”ابن ابی حدید” کا کلام نقل کرتے ہوئے یہ عبارت نقل کی جاتی ہے جس کو ناصبی نے نقل کیا:
وروى كثير من المحدثين أن قوله تعالى: (ما كان للنبي والذين آمنوا معه أن يستغفروا للمشركين ولو كانوا أولي قربى من بعد ما تبين لهم أنهم أصحاب الجحيم * وما كان استغفار إبراهيم لأبيه إلا عن موعدة وعدها إياه فلما تبين له أنه عدو لله تبرء منه (1)) الآية أنزلت في أبي طالب، لان رسول الله صلى الله عليه وآله استغفر له بعد موته. ورووا أن قوله تعالى: (إنك لا تهدي من أحببت (2)) نزلت في أبي طالب ورووا أن عليا عليه السلام جاء إلى رسول الله بعد موت أبي طالب فقال له: إن عمك الضال قد قضى فما الذي تأمرني فيه؟ واحتجوا بأنه لم ينقل أحد عنه أنه رآه يصلي، والصلاة هي المفرقة بين المسلم و الكافر، أن عليا وجعفرا لم يأخذا من تركته شيئا
یہ وہی روایات ہیں جس کو “ابن ابی حدید” اہلحدیث محدثین (اہلسنت)سے نقل کررہے ہیں اور یہ روایت عموماً اہلسنت محدثین ہی نقل کرتے ہیں، اس کے حوالہ ملاحضہ فرمائیں:
۱۞ [ سنن الکبریٰ للبیھقی – جلد ۱ – ص ٤٥٤ – رقم ١٤٥٢ ]
٢۞ [ مصنف ابن ابی شیبہ – جلد ۳ – ص ۳۲ – رقم ۱۱۸۴۰]
اور یہ پورا کلام شرح نہج البلاغہ جلد ۱۳ ص ۳۷ و ۳۸ پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
تبصرہ : قارئین یہاں پر “ابن ابی حدید” کے کلام کو دیکھیں کہ صریحا “شیوخنا” کا انتساب کرکے اپنے مذھب کا کھلے عام اعلان کررہا ہے کہ یہ “معتزلی” ہے اور پھر اس کے بعد وہ روایت بھی سنی محدثین سے نقل کررہا ہے تو یہ ہمارے خلاف دلیل کیسے؟
ناصبی نے دوسرا اعتراض نقل کیا:


جواب: قارئین ان(ناصبیوں)کے ترجمہ پر ہمیں عموماً کوئی اعتماد نہیں ہوتا ، کیونکہ کافی اور مثالوں میں انکی غلط بیانی واضح ہوچکی ہے، اصل عبارت یوں ہے:
” نزلت في أبي طالب (عليه السلام)، فإن رسول الله (صلى الله عليه و آله) كان يقول: ” يا عم، قل: لا إله إلا الله، أنفعك بها يوم القيامة “. فيقول: يا ابن أخي، أنا أعلم بنفسي. فلما مات، شهد العباس بن عبد المطلب عند رسول الله (صلى الله عليه و آله) أنه تكلم بها عند الموت، فقال رسول الله (صلى الله عليه و آله)، ” أما أنا فلم أسمعها منه، و أرجو أن تنفعه يوم القيامة ” “.
یہ آیت حضرت ابو طالب علیہ السلام کے حق میں نازل ہوئی کہ جب رسولﷺوآلہ نےفرمایا: اے چچا کہہ دیجئے لا الہ الا اللہ تاکہ آپ کو نفع پہنچا سکوں قیامت کے دن، تو حضرت ابو طالب علیہ السلام نے کہا اے بھتیجے! میں اپنی حالت بہتر جانتا ہوں چنانچہ جب انتقال ہو گیا تو حضرت عباس بن عبدالمطلب نے گواہی دی رسولﷺوآلہ کے پاس کہ انہوں نے موت کے وقت وہ کلمہ پڑھا تھا تو رسولﷺوآلہ نے کہا میں نے نہیں سنا ان سے، اور میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن ان کو فائدہ پہنچاوں۔
قارئین اس کے فوراً بعد یہ عبارت بھی ہے جو یوں ہے:
وقال صلى الله عليه وآله: لو قمت المقام المحمود لشفعت في أبي وأمي وعمي وأخ كان لي مواخياً في الجاهلية.
رسولﷺوآلہ نے مزید فرمایا : کہ جب میں مقام محمود پر کھڑا ہوں گا تو میں شفاعت اپنے والد، والدہ، اپنےچچا اور وہ بھائی جو جاہلیت میں میرا بھائی تھا کروں گا۔
حوالہ:[ تفسیر قمی – جلد ۲ – ص ٧٦٢ ، ٧٦٣]
تبصرہ: قارئین ثابت ہوا کہ یہ روایت کہیں بھی حضرت ابو طالب علیہ السلام کے کفر کو ثابت نہیں کرتی (نعوذباللہ)… بلکہ روایت کا تتمہ بتارہا ہے کہ رسول ﷺ وآلہ تو اپنے قریبی جن میں ان کے چچا ہے انکی بھی “شفاعت” کریں گے اور اسکے علاوہ خود عباس بن عبدالمطلب نے حضرت ابو طالب علیہ السلام کو کلمہ پڑھتے سنا اور رسولﷺوآلہ نے انکو نفع پہنچانے کا عزم بھی کیا، الفاظ روایت مدعا کے بالکل خلاف ہے اور دوسری بات یہ ہےکہ یہ تفسیر اہلبیت علیہم السلام سے مروی نہیں یعنی اس کا ابتدائی حصہ تو اس پر قطع نہیں کیا جاسکتا۔
باقی کتب شیعہ میں ایمان حضرت ابوطالب علیہ السلام کا اثبات ہے اصول کافی میں روایات ہیں اس کے علاوہ روایات کا جم غفیر علامہ مجلسیؒ کی کتاب بحار الانوار جلد ٣٥ میں امیر المؤمنین ع کے حالات کے ذیل میں تیسرے باب (نسبه وأحوال والديه عليه و عليهما السلام) میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔اور ہماری سابقہ دو پوسٹوں میں ملاحضہ فرمائیں ۔۔۔
فائنل تبصرہ: اسطرح جو اعتراضات لائے گئے الحمدللہ ان کا جواب دیا گیا۔ اور حضرت ابو طالب علیہ السلام کے ایمان و اسلام میں ہلکا سا بھی شبہ اہل ایمان میں سے کسی کو نہیں۔






.


.

حوالہ : [ اصول الکافی – جلد ٣ – صفحه ١٨ ، ١٩ ]

کیا تم نہیں جانتے کہ ہم محمدؐ کو موسیؑ کی طرح پیغمبر مانتے ہیں کہ گذشتہ آسمانی کتب میں انکے بارے میں بشارت دی گئی ہے۔
ایک دوسری حدیث میں نقل ہوا ہے کہ: وہ کیسے کافر ہو سکتے ہیں حالانکہ انھوں نے ان اشعار کو کہا ہے:
وہ (مشرکین) جانتے ہیں کہ ہم اپنی اولاد کو جھٹلانے والے نہیں ہیں اور باطل باتوں کی کوئی تاویل و توجیہ نہیں کی جا سکتی۔
وہ نورانی چہرہ (خدا کا نیک بندہ) ہے کہ جسکی برکت سے بادل برستے ہیں، وہ یتیموں کی فریاد رسی کرنے والا اور مسکین عورتوں کو پناہ دینے والا ہے۔
حوالہ : [ اصول الکافی – جلد ٣ – صفحه ٢٣ ]

حوالہ : [ اصول الکافی – جلد ٣ – صفحه ٢۴ ]

حوالہ : [ مراة العقول فی شرح اخبار آل الرسول – ج ۵ – ص ٢٣۵ ]

حوالہ : [ بحار الأنوار – جلد ٣۵ – صفحه ١١٣ ]

حوالہ : [ بحار الأنوار – جلد ٣۵ – صفحه ١١٣ ]

حوالہ : [ كنز الفوائد – جلد ١ – صفحه ١٨٣ ]

حوالہ : [ کتاب الغدیر – جلد ٧ – صفحه ٢۴٩ ]









.
ایمانِ ابوطالبؑ پرحملہ کرنیوالے ملعون کو جواب (حصہ ٣)
.
عن الصادق عن آبائه عليهم السلام ان امير المؤمنين کان ذات يوم جالسا في الرحبة، والناس حوله مجتمعون، فقام اليه رجل فقال: ياامير المؤمنين انت بالمکان الذي أنزلک الله به وأبوک معذب في النار؟ فقال له علي بن أبي طالب: مه فض الله فاک، والذي بعث محمدا بالحق نبيا لو شفع أبي في کل مذنب علي وجه الارض لشفعه الله فيهم، أبي معذب في النار وابنه قسيم الجنة والنار؟ ! والذي بعث محمدا بالحق نبيا ان نور أبي يوم القيامة ليطفئ أنوار الخلايق کلهم الا خمسة أنوار: نور محمد صلي الله عليه واله، ونوري، ونور الحسن، ونور الحسين، ونور تسعة من ولد الحسين، فان نوره من نورنا خلقه الله تعالي قبل ان يخلق آدم عليه السلام بالفي عام،
امام صادق (ع) نے اپنے والد گرامی سے نقل کیا ہے کہ ایک دن امیر المؤمنین علی (ع) مسجد میں بیٹھے تھے اور لوگوں ان کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک مرد نے کھڑے ہو کر کہا:
اے امير المؤمنين یہ کیا ہے کہ خداوند نے آپ کو اس مقام (خلافت و امامت) پر قرار دیا ہے، حالانکہ آپکے والد کو جہنم میں عذاب ہو رہا ہے ؟
امیر المؤمنین علی ع نے فرمایا: خدا تیری زبان کو قطع کرے ! اس خدا کی قسم کہ جس نے محمدﷺ کو مبعوث فرمایا ہے، اگر میرے والد تمام اہل زمین کے گناہوں کاروں کی شفاعت کریں تو خداوند اسکو قبول کر لے گا، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میرے والد آتش جہنم میں ہوں، حالانکہ انکا بیٹا جنت اور جہنم کو تقسیم کرنے والا ہے ؟ مجھے اس خدا کی قسم ہے کہ جس نے محمد ﷺ کو پیغمبری کے لیے مبعوث فرمایا ہے ، بے شک قیامت والے دن میرے والد کا نور سوائے پنجتن کے انوار خمسہ (نور محمد، نور علی، نور فاطمہ، نور حسن، نور حسین علیہم السلام) کے تمام انوار کو خاموش اور بے اثر کردے گا کیونکہ ان (ابوطالب) کا نور ہمارے نور سے ہےکہ جس نور کو خداوند نے حضرت آدم کی خلقت سے بھی دو ہزار سال پہلے خلق کیا تھا۔
حوالہ : [مائة منقبة – صفحہ ١٩٣ ]
: [ كنزالفوائد – صفحه ٨٠ ]
: [ الأمالي شيخ الطوسي – صفحه ۴۵٩ و صفحه ٩٧۵ ]
: [ الإحتجاج الطبرسي – جلد ١ – صفحه ٢٢٩ ]
: [ بشارة المصطفى(ص) لشيعة المرتضى(ع) – صفحه ٣١١ ]
: [ كشف الغمة في معرفة الأئمة – جلد ٢ – صفحه ٨٣ ]
: [ تأويل الآيات – صفحه ٣٩٣ ]
: [ التفسير الصافي – جلد ۴ – صفحه ٩٧ ]
: [ البرهان في تفسير القرآن – جلد ۴ – صفحه ١٩٢ ]
: [ نہج الاسرار – خطباتِ مولا علیؐ – صفحہ ٣۵٩ ]
حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ:

اگر ابو طالب کے ایمان کو ترازو کے ایک پلڑے میں اور دوسرے انسانوں کے ایمان کو دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو ابو طالب کا ایمان ان لوگوں کے ایمان سے وزنی دکھائی دے گا۔
حوالہ : [ بحار الأنوار – جلد ٣۵ – صفحه ١١٢ ]
حضرت امام باقر (ع) نے فرمایا ہے کہ:

امیر المؤمنین علی حضرت ابو طالب کی زندگی میں ہی حکم دیا کرتے تھے کہ انکی طرف سے حج انجام دیا جائے۔
حوالہ : [ بحار الأنوار – جلد ٣۵ – صفحه ١١٢ ]

رسول خدا ﷺ اپنے چچا ابو طالبؑ کی وفات کے بعد انکی میت کے پاس آئے اور فرمایا: اے چچا آپ نے بچپن میں میری تربیت کی اور یتیمی میں میری سرپرستی کی اور اب آپ نے میری نصرت و مدد کی، پس خداوند آپکو بہترین جزاء عطا فرمائے، پھر آپ ﷺ نے علی (ع) کو حکم دیا کہ انکو غسل دیں۔
حوالہ : [ الأمالي – صفحه ۴٠۴ ]

حضرت ابو طالب ع اصحاب کہف کی مانند ہیں کہ جنکے دل میں ایمان تھا لیکن ظاہری طور پر شرک کا اظہار کیا کرتے تھے ، اسی وجہ سے خداوند انکو دو برابر اجر عطا فرمائے گا۔
حوالہ : [ الكافي – جلد ٢ – صفحه ۴٦٢ ]

” میں آپ پر فدا جاؤں، میں ایمانِِ ابوطالبؑ کے بارے میں شک میں مبتلا ہوگیا ہوں۔”
تو امام نے لکھا :
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔۔ اما بعد ، ( امام نے آیت ذکر کی ) :
” جو مؤمنین کی راہ سے جدا راہ کی پیروی کرے گا تو ہم اسے اسی پر گامزن رہنے دیں گے اور پھر ہم اسے جہنم واصل کردیں گے (سورہ نساء – آیت ١١۵ ) “

حوالہ : [ کنز الفوائد – جلد ١ – صفحه ١٨٢ ، ١٨٣ ]










