باغ صدقہ کرنے پر خاتونِ جنت سیدہ فاطمہؑ کا مولا علیؑ کا دامن پکڑنا

خالد بن ربیع کہتے ہیں۔ کہ امیر المؤمنینؑ کسی کام کی خاطر مکہ گئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب گھر آئے تو حضرت زھرا سلام اللہ علیہا نے کہا کہ اےچچا زاد جو باغ میرے باپ آپ کے لئے آباد کیا تھا وہ آپ نے فروخت کیا؟ امیر المومنینؑ نے فرمایا کہ ہاں، سیدہؑ نے فرمایا کہ اسکی قیمت کہاں ہیں؟ امیرالمومنین نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کو دی کہ جنکے بارے میں میں نہیں چاھتا تھا کہ مجھ سے سوال ہوجائے، بی بی نےفرمایا کہ میں ، میرے دو بیٹے اور آپ بھوک کے شکار ہیں، کیا ایک درھم بھی ہم تک نہیں پہنچا؟ مولا علی کے دامن کو پکڑ لیا، مولاعلی نے کہا کہ اے فاطمہ مجھے چھوڑ دو، بی بی نے فرمایا کہ نہیں جبتک میرے باپ ہمارا فیصلہ نہ سنائیں۔
حضرت جبرائیلؑ رسول اللہ کے پاس آئے اورکہا کہ اے محمد ، اللہ تجھے سلام کہہ رہا ہے اور کہتا ہےکہ علی کو میرا سلام پہنچا دے اور سیدہ فاطمہؑ کو کہو کہ تم علی کا دامن پکڑنے کا حق نہیں رکھتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے حکم دیا ہےکہ تجھےکہہ دوں کہ تم علی کا دامن پکڑنے کا حق نہیں رکھتی سیدہؑ نے فرمایا کہ اللہ سے مغفرت چاھتی ہوں پھر ایسا نہیں کروں گی۔🚫
حوالہ : [ الصدوق الأمالی – صفحہ ٣٣٨ ٣٣٩ – روایت ١٠ ]
جواب:
اولا: اس روایت کی سند ایک سنی سند ہے نہ کہ شیعہ سند، یعنی احمدبن زیاد بن جعفر ھمدانی نے یہ روایت اہلسنت سے نقل کیا ہے، اس روایت کے تمام راوی اہل سنت ہیں،
ثانیا:اس روایت کی سند میں موجود احمد بن زیاد کے علاوہ تمام راویوں کے بارے میں شیعہ کی کتابوں میں کوئی توثیق نہیں ہے اور وہ راوی روایت کو نقل کرنے میں اعتماد کے قابل نہیں ہیں،
🍁 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ زِیَادِ بْنِ جَعْفَرٍ الْهَمَدَانِیُّ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَیْهِ قَالَ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سَهْلِ بْنِ إِسْمَاعِیلَ الدِّینَوَرِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ الصَّائِغُ قَالَ حَدَّثَنَا مُعَاوِیَةُ بْنُ هِشَامٍ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ رِبْعِیٍّ
روایت کی سند جیسے کہ ملاحظہ کی جاسکتی ہے عامی راویان سے پر ہیں۔
١) راوی عمر بن سہل بن اسماعیل :
اہلسنت کے نزدیک عظیم الشان امام اور حافظ ہیں۔
حوالہ : [ سیر اعلام النبلا – جلد ١٥ – ص ٣٣٧]
٢) راوی زید بن اسماعیل الصائغ :
زید بن اسماعیل الصائغ بھی اہل سنت کے امام محدث اور شیخ الحرم ہے۔
حوالہ : [ سیر اعلام النبلاء – جلد ١٣ – ص ١٦١ ]
٣) معاویہ بن ہشام :
معاویہ بن ہشام اہل سنت کے راویان میں سے ہے جب کہ شیعہ علم رجال میں ان کا کوئی آتا پتا نہیں اور مہمل ہے ۔
۴) سفیان ثوری :
سفیان ثوری ان لوگوں میں ہیں کہ جن کی شیعہ علمانےمذمت کی ہے، اور ان کو مذموم ٹھرایا ہے، البتہ یہ سنیوں کے ہاں قابل اعتماد ہیں، علامہ حر عاملی رحمۃ اللہ علیہ سفیان ثوری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ سفیان الثَوْری: مذموم جدّاً. “سفیان ثوری نہایت ہی مذموم انسان تھا”
حوالہ : [ الرجال للحر العاملی – ص١٣٢ ]
۵) عبدالملک بن عمیر :
عبدالملک بن عمیر امیرالمومنینؑ کے سخت ترین دشمنوں میں سے تھا، شیخ مفید اسکے بارے میں لکھتے ہیں کہ “عبدالملک بن عمیر شام کا رہنے والا اور امیرالمومنین کا سخت ترین دشمن تھا، وہ امیرالمومنین اور ان کی خاندان سے دشمنی میں مشہور تھا، اور ابوبکر اور عمر کے بارے میں خود سے جھوٹے فضائل اور امیر المومنین پر طعن کی روایات گھڑتا تھا۔”
حوالہ : [ الإفصاح فی إمامة أمیر المؤمنین علیه السلام – ص٢٢٠ ]
تبصرہ: یہ پوری روایت تقریبا مسلسل بالمجاہیل ہیں اور اصلا سنی روایت ہے چنانچہ ہم ایسی روایت کو قبول نہیں کرتے۔ پس یہ روایت انتہائی ضعیف روایت ہے