اول جیش یغزون البحر کا جواب

قارئین کرام : اکثر ناصبی بخاری شریف سے ایک موضوع ( من گھڑت) حدیث سے فضائل معاویہ بن سفیان میں پیش کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں
بلاتمھید وہ حدیث یہ ہے 👇
حدثني إسحاق بن يزيد الدمشقي، حدثنا يحيى بن حمزة، قال: حدثني ثور بن يزيد، عن خالد بن معدان ان عمير بن الاسود العنسي، حدثه انه اتى عبادة بن الصامت وهو نازل في ساحل حمص وهو في بناء له ومعه ام حرام، قال عمير: فحدثتنا ام حرام انها سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول:” اول جيش من امتي يغزون البحر قد اوجبوا”، قالت: ام حرام، قلت: يا رسول الله انا فيهم، قال:” انت فيهم” ثم قال النبي صلى الله عليه وسلم:” اول جيش من امتي يغزون مدينة قيصر مغفور لهم”، فقلت: انا فيهم يا رسول الله، قال:” لا”.
ہم سے اسحاق بن یزید دمشقی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن حمزہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ثور بن یزید نے بیان کیا، ان سے خالد بن معدان نے اور ان سے عمیر بن اسود عنسی نے بیان کیا کہ وہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ کا قیام ساحل حمص پر اپنے ہی ایک مکان میں تھا اور آپ کے ساتھ (آپ کی بیوی) ام حرام رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ عمیر نے بیان کیا کہ ہم سے ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میری امت کا سب سے پہلا لشکر جو دریائی سفر کر کے جہاد کے لیے جائے گا، اس نے (اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت) واجب کر لی۔ ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے کہا تھا یا رسول اللہ! کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، تم بھی ان کے ساتھ ہو گی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے پہلا لشکر میری امت کا جو قیصر (رومیوں کے بادشاہ) کے شہر (قسطنطنیہ) پر چڑھائی کرے گا ان کی مغفرت ہو گی۔ میں نے کہا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔
*بخاری شریف کتاب الجھاد والسیر باب 53 نصاری سے لڑنے کی فضیلت*
فتح الباری میں عسقلانی نے لکھا ہے
مھلب نے کہا یہ حدیث معاویہ اور یزید کے مناقب کے بارے میں ہے
*حوالہ: کتاب فتح الباری*
جواب 👇
قارئین کرام: سب سے پہلے یہ روایت سند کے اعتبار سے موضوع اور من گھڑت ہے
کیوں اس روایت کے اندر تقریبا چھ راوی ہیں ان میں چار راوی اہل شام سے ہیں یعنی شام کے رہنے والے ہیں
پہلا راوی ہیں : اسحاق بن یزید دمشقی یہ شام کا رہنے والا تھا
آپ تمام تراجم دیکھ سکتے ہیں سب نے اس کو لکھا شامی ہے
تیسرا راوی: ❗ ثور بن یزید❗ یہ بھی شامی تھا مولا علی (ع) نے ان کے دادا کو جنگ صفین میں واصل جھنم کیا اس لیے کہتا تھا میں علی (ع) سے محبت نہیں کرتا ہوں یعنی ناصبی تھا
جیسا کہ ابن مزی نے تھذیب الکمال میں لکھا ہے
كان جده قتل يوم صفين مع معاوية فكان ثور إذا ذكر عليا قال لا أحب رجلا قتل جدي.
تھذیب الکمال فی اسماء الرجال ج4 ص 320 اسکین پیج میں دیکھ سکتے ہیں
پانچوان راوی ہے خالد بن معدان یہ بھی شامی تھا تمام تراجم نے اس کو شام لکھا ہے
چھٹا راوی ہے عمیر بن اسود یہ بھی شامی تھا اور معاویہ کا قاضی تھا
جیساکہ ابن منظور نے مختصر تاریخ تاریخ ابن عساکر میں زکر کیا
ابن سعد: وكان قليل الحديث، ثقةً. وقد كان معاوية ولاّه قضاء حمص
حوالہ: مختصر تاریخ ابن عساکر : ج19 ص 176
قارئین کرام: آپ نے دیکھا بخاری کے اس روایت میں چار راوی شام شھر کے رہنے والے تھے
اہل سنت کے عالم ابن کثیر میں اپنی کتاب البدایہ والنھایہ میں لکھا ہے
هم طائفة من اھل الشام من النواصب
ترجمہ( ابن کثیر لکھتا ہے) اہل شام میں سے ایک گروہ ناصبی تھا
کتاب البدایه والنھایه ج5 ص 230 اسکین پیج میں دیکھ سکتے ہیں
جیسا کہ ہم نے اوپر ثابت کیا اس روایت کو نقل کرنے والے اس میں چار اشخاص شامی ناصبی تھے جس ميں ایک ( ثور بن یزید ) مولا علی علیہ السلام کا نام لینا پسند نہیں کرتے تھا عمیر بن سوید معاویہ کا قاضی تھا اندازہ لگائیں جو معاویہ کا قاضی ہو وہ کیا ہوگا؟
🛑 *الحمد اللہ یہ ثابت ہوگیا بخاری کی روایت موضوع اور من گھڑت ہے* 🛑
دوسرااشکال:اس روایت پراس روایت کےمتن میں اضطراب ہے
کیوں کے ترمذی شریف میں جو روایت ہے وہ بخاری شریف کی روایت سے سند کے اعتبار سے ٹہیک ہے لیکن وہ متن کچھ اور ہے
ملاحضہ کریں
حدیث نمبر: 1645
حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، عن انس بن مالك، انه سمعه يقول: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخل على ام حرام بنت ملحان فتطعمه، وكانت ام حرام تحت عبادة بن الصامت، فدخل عليها رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما فاطعمته، *وجلست تفلي راسه، فنام رسول الله صلى الله عليه وسل* م، ثم استيقظ وهو يضحك، قالت: فقلت: ما يضحكك يا رسول الله؟ قال: ” ناس من امتي عرضوا علي غزاة في سبيل الله، يركبون ثبج هذا البحر ملوك على الاسرة او مثل الملوك على الاسرة “، قلت: يا رسول الله، ادع الله ان يجعلني منهم، فدعا لها، ثم وضع راسه فنام، ثم استيقظ وهو يضحك، قالت: فقلت: ما يضحكك يا رسول الله، قال: ” ناس من امتي عرضوا علي غزاة في سبيل الله “، نحو ما قال في الاول، قالت: فقلت: يا رسول الله، ادع الله ان يجعلني منهم، قال: ” انت من الاولين “، قال: فركبت ام حرام البحر في زمان معاوية بن ابي سفيان، فصرعت عن دابتها حين خرجت من البحر فهلكت، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وام حرام بنت ملحان هي اخت ام سليم وهي خالة انس بن مالك.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام حرام بنت ملحان کے گھر جب بھی جاتے، وہ آپ کو کھانا کھلاتیں، ام حرام رضی الله عنہا عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کے عقد میں تھیں، *ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے تو انہوں نے آپ کو کھانا کھلایا اور آپ کے سر میں جوئیں دیکھنے بیٹھ گئیں، آپ سو گئے،* پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو ہنس رہے تھے، ام حرام رضی الله عنہا کہتی ہیں: میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کو کیا چیز ہنسا رہی ہے؟ آپ نے (جواب میں) فرمایا: ”میرے سامنے میری امت کے کچھ مجاہدین پیش کئے گئے، وہ اس سمندر کے سینہ پر سوار تھے، تختوں پر بیٹھے ہوئے بادشاہ لگتے تھے“۔ راوی کو شک ہے کہ آپ نے «ملوك على الأسرة» کہا، یا «مثل الملوك على الأسرة» میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ سے دعا کر دیجئیے کہ اللہ مجھے بھی ان لوگوں میں کر دے، چنانچہ آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی، آپ پھر اپنا سر رکھ کر سو گئے، پھر ہنستے ہوئے بیدار ہوئے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کو کیا چیز ہنسا رہی ہے؟ فرمایا: ”میرے سامنے میری امت کے کچھ لوگ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے پیش کئے گئے“، آپ نے اسی طرح فرمایا جیسے اس سے پہلے فرمایا تھا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ سے دعا کر دیجئیے کہ مجھے ان لوگوں میں کر دے، آپ نے فرمایا: ”تم (سمندر میں) پہلے (جہاد کرنے) والے لوگوں میں سے ہو“۔ انس رضی الله عنہ کہتے ہیں: معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہما کے زمانہ میں ام حرام رضی الله عنہا سمندری سفر پر (ایک جہاد میں) نکلیں تو وہ سمندر سے نکلتے وقت اپنی سواری سے گر گئیں اور ہلاک ہو گئیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے
*قارئین کرام: اس روایت (ترمذی شریف)پر جو اعتراض وارد ہوتا ہے وہ متن پر ہے یعنی اس کے متن میں رسول خدا کی توھین ہے*
قارئین کرام: آپ نے اگر ترجمہ میں غور کیا روایت میں ہے رسول خدا (ص) ام حرام کی جھولی میں سر رکھ کر سو گے
یہ کیسے ممکن ہے رسول خدا( ص) ایک غیر محرم عورت کی جھولی میں سوجائے؟
دوسری بات: وہ عورت رسول خدا ( ص) کے سر میں جوئیں دیکھنے بیٹھ گئیں،ایک ناممکن بات ہے بلکہ اس روایت میں رسول خدا کی توھین ہے
❌ *لھذا یہ روایت توھین پر مشمل ہے جو ضعیف اور من گھڑت ہے*❌
تیسرا اشکال بخاری شریف کے روایت پر یہ ہے اس روایت یعنی(کہانی) میں تعارض ہے کیوں کے ناصبی کہتے ہیں اس لشکر کا امیر معاویہ بن سفیان تھا
لیکن مسند احمد بن حنبل میں صحیح السند کے ساتھ روایت ہے اس کا جنگ کا قائد منذر بن زبیر تھا ؟
اور اس روایت کو مصنف ابن ابی شیبہ نے بھی نقل کیا ہے ابی نعیم اصفھانی نے معرفت صحابہ میں نقل کیا ہے اس کے علاوہ کافی کتابوں میں موجود ہیں آپ روایت اسکین پیج میں دیکھ سکتے ہیں
تبصرہ اس روایت کے درمیان تعارض ہے ناصبی کہتے ہیں اس کا امیر معاویہ تھا لیکن امام احمد بن حنبل لکھتا ہے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے اس جنگ کا امیر منذر بن زبیر تھا جب روایت میں تعارض ہو تو اصولی قائدہ ہے (تعارض تساقط) جب دو روایتوں میں تعارض ہو تو دونوں کو طَرح کردیں
⭕آخری اشکال ⭕
1️⃣اگر ولو بالفرض تسلیم کریں روایت صحیح ہے پہر بھی اس روایت میں معاویہ بن سفیان کا نام نہیں ہے؟
2️⃣دوسری بات: یہ حکم عام ہے معاویہ دلیل خاص سے خارج ہوجاتا ہے
[دلیل]
جیساکہ بیعت رضوان ایک عام حکم ہے اور صحیح السند کے ساتھ ترمذی شریف میں روایت ہے 👇
عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يدخل النار أحد ممن بايع تحت الشجرة»:
*«هذا حديث حسن صحيح»*
جابر کہتا ہے رسول خدا (ص) نے فرمایا جس نے شجرہ کے نیچے بیعت کی ان میں سے کوئی جھنم میں داخل نہ ہوگا
ترمذی شریف :أبواب المناقب باب في فضل من بايع تحت الشجرة (حديث رقم: 3860 )
اب سوال پیدا ہے کیا اس عموم میں نبی اکرم (ص)کے تمام صحابی آجاتے ہیں؟
کیوں کے سیرت النبی ابن ھشام میں ہے سب صحابہ نے رسول کی بیعت کی سواء ایک دو کے
سیرت الحلبیہ جلد 3 ص 182
سوال: کیا نبی اکرم(ص) کے تمام صحابی جس جس نے بیعت کی وہ تمام اس حکم عام میں داخل ہیں؟ حالانکہ سب کو معلوم ہے اس میں کافی صحابی مرتد ہوگے تھے حوالہ: بخاری شریف
دوسرا سوال کیا حضرت عثمان کا قاتل عبدالرحمن بن عدیس بلوی بھی جنتی ہے جو بیعت رضوان میں تھے؟
حوالہ: استعیاب جلد 1 ص 840
یا ابن عدیس حکم خاص سے خارج ہوجاتا ہے حکم عموم سے؟
ولو بالفرض تسلیم کریں معاویہ اس حکم میں داخل ہے لیکن جیساکہ عبدالرحمن یا دیگر صحابی حکم عام سے خارج ہوجاتے ہیں اس طرح معاویہ بھی حکم عام سے خارج ہوجاتا ہے
(آخری بات) علامہ مناوی نے فیض القدیر میں لکھا ہے بخشش اس کی ہوگی جو اہل مغفرت ہو آگے لکھتا ہے یزید بن معاویہ اس حکم عام سے خارج ہوجاتا ہے کیوں کے اس نے امام حسین (ع)کو قتل کیا ہے
فتح القدیر جلد 3 ص109
میں کہتا ہوں جیسے یزید امام حسین سے جنگ کرکے اس حکم عام سے خارج ہوگے اس طرح معاویہ بن سفیان مولا علی ع سر جنگ کر کے اس حکم سے خارج ہوگے
نوٹ اس موضوع اور جعلی روایت کو وقت کے دامن میں گنجائش نہ ہونے کی صورت میں بلکل مختصر کیا ہے اگر موقعہ ملا تو ان شاءاللہ اس پر قسط ثانی بھی لکھیں گے
تحریر وتحقیق: سیف نجفی