مولا علی علیہ السلام کی گود میں مولا محمدﷺ سر مبارک رکھے ہوۓ تھے تو مولا علے علیہ السلام نے نماز عصر نہیں پڑھی تو سورج کو آپکے لیے واپس لوٹا دیا گیا
اس حدیث کو طحاوی نے صحیح قرار دیا ہے
قاضی نے بھی الشفاء میں اسے صحیح کہا ہے
ابوذرعتہ نے اسے حسن قرار دیا ہے
امام سیوطی بھی اس حدیث کے حق میں تھے
امام ابن حجر بھی اسکی تائید کرتے
اور دوسروں نے بھی اسکی پیروری کی ہے

امام نسائی لکھتے ہیں
ابن مندہ ابن شاہین اور طبرانی نے ایسی سندوں کے ساتھ جو بعض شرط صحیح پر ہیں
طبرانی نے بسند حسن حضرت جابر سے روایت کی ہے

امام زرقانی فرماتے ہیں یہ بات بھی محل نظر ہے
کیونکہ اس حدیث کو ایک جماعت نے متعدد طریق کے ساتھ روایت کیا ہے

تو ایک بات کا پتہ چلا کہ اسکی ایک سند نہیں ہے یہ حدیث کہیں اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے
جیسے رزقانی نے فرمایا اس حدیث کو ایک جماعت نے متعدد طریق کے ساتھ روایت کیا ہے
کیونکہ وہ یہ بات جانتے تھے کہ اہل سنت کے ہاں
اگر ایک ہی روایت کی مختلف اسناد ہوں اور وہ بے شک ساری کی ساری ضعیف ہوں تب بھی وہ صحیح مانی جاتی ہیں کیونکہ وہ ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں
طحاوی نے کیا ہے یہ حدیث صحیح ہے اور اسکے راوی ثقہ ہیں احمد بن صالح فرماتے ہیں اہل علم کے لیے یہ بات مناسب نہیں کہ وہ اس حدیث کی مخالفت کریں

یہ حدیث امام سبکی امام ماوردی امام تقی الدین حصنی
علامہ ابن بحرق شافعی علامہ عبدالحکیم لکھنوی اور امام نبھانی کے نزدیک بھی صحیح اور ثابت ہے
کفایتہ الطالب فی مناقب علی ابن ابی طالب میں محمد بن یوسف الکھنی الشافعی لکھتے ہیں
بعض متاخرین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے اور کچھ لوگوں نے اسے موضوعات میں شمار کیا ہے
انہوں نے باطل دلیل سے اس کے ضعف پر استدلال کیا ہے

مولا علی علیہ السلام کی شان میں حدیث ہو
اور بنوامیہ کے کھٹمل اسے ضعیف اور موضوع نہ کہیں ہو ہی نہیں سکتا بنوامیہ کے حرام مال پر انکی نسلیں پلتی آ رہی ہیں