حضرت جابرؓ سے روایت ہے رسول اللّہﷺ نے خیبر کے دن حضرت عمرؓ کو علم(جھنڈا) عطا فرمایا: آپ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گئے لیکن آپ لوٹ کر آئے



آپ اپنے ساتھیوں کو اور آپکے ساتھی آپکو


کہہ رہے تھے۔







.
.
.


.
.
.


.
.
.
ابوبکر اور عمر کا جنگ خیبر میں واپس بھاگ آنا
ابوبکر اور عمر دونوں سے خیبر فتح نہیں ہوا اور وہ واپس بھاگ آئے (سوری واپس تشریف لے آئے بھائیوں کے بقول)
اسکے بعد رسول ص نے کہا کل میں علم اسے دونگا جو مرد ہوگا اللہ اور رسول کا چاہنے والا ہوگا, اسکے ہاتھ میں فتح ہوگی اور بھگ وڑا نہیں ہوگا

رسول اللّه نے ابوبکر کو علم دے کر بھیجا انہوں نے قتال کیا اور واپس بھاگ آئے اسکے بعد حضرت عمر کو علم دے کر لشکر کے ساتھ بھیجا وہ بھی بھاگ آئے اور لشکر انہیں اور وہ لشکر کو بزدل کہتے رہے

نوٹ : واضح رہے کہ جنگ میں دو ہی آپشن ہوتے ہیں مجاہد یا مار کر آتا ہے یا شہید ہوکر اس کے علاوہ صرف فراری/ بھگو ڑا ہوتا ہے




.
.
.
غزوہ احد کے بعد غزوہ حنین میں بھی۔۔۔۔ون، ٹو، تهری
حضرت صاحب سے پوچھا گیا بھاگ کیوں رہے ہیں؟


ابن کثیر نے غزوہ حنین میں بھاگنے والوں کو اسلامی بھگوڑوں کا خطاب دیا





سعد بن عبادہ کے بیٹے قیس بن سعد نے حضرت عمر کی داڑھی سے پکڑ کر کھا۔
میدان جنگ سے خوف سے بھاگ جاتے تھے۔۔
اور میدان امن میں شور کرتے ھو اور شیر بن جاتے ھو

حضرت عمرؓ کا غصہ مبارک

رسول اللّہﷺ نے غزوہ ذات السلاسل میں عمرو بن العاص کو امیر مقرر کرکے بھیجا اس لشکر میں حضرت ابوبکر اور عمر بھی شامل تھے۔
جب یہ لوگ مقامِ جنگ میں پہنچے تو حضرت عمر کو غصہ آگیا اور ان سے لکڑیاں لینے اور خود جلانے کا ارادہ کرلیا۔
لیکن حضرت ابوبکر نے ان کو روک دیا اور بتایا کہ رسولﷺ اللّہ نے انکو اس لیے امیر مقرر کیا ہے کیونکہ وہ جنگی امور تم سے بہتر جانتے ہیں۔ تو حضرت عمر ٹھہر گئے

صحیح الاسناد
