وسیلہ قرآن کی نگاہ میں
وسیلہ ، اہل بیت علیہم السلام کی نگاہ میں
تحریر : سید علی حیدر شیرازی
•┈┈•⊰✿⊱•┈┈•
وسیلہ کیا ہے ؟
توسل کسی چيز یا شخص کی قربت حاصل کرنے کیلئے کوئی کام انجام دینے کے ہیں۔
لسان العرب، ج 11، ص724، مادہ “وسل
اور اصطلاح میں “توسل” سے مراد حاجت برآری اور دعاء کی اجابت کے لئے بارگاہ رب العزت میں ، امور خیر اور صالح افراد، کو واسطہ قرار دینا ہے۔ فعل توسل میں انسان ـ دعا اور استغاّثے کے وقت ـ ایسی چیز کو اللہ کی بارگاہ میں پیش کرتا ہے جو اس کی توبہ اور دعاء کی قبولیت اور حاجات کی برآوردگی کا واسطہ بنے۔
احادیث و روایات سے واضح ہوتا ہے کہ خداوند عالم کی نگاہ میں مقرب ترین وسیلہ محمد و آل محمد ع کا وسیلہ ہے
•┈┈•⊰✿⊱•┈┈•

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَابۡتَغُوۡۤا اِلَيۡهِ الۡوَسِيۡلَةَ وَجَاهِدُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِهٖ لَعَلَّـكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اے ایمان والو! خدا سے ڈرتے رہو اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کرتے رہو اور اس کے رستے میں جہاد کرو تاکہ رستگاری پاؤ
(المائدہ آیت نمبر35)
خداوند عالم نے اپنے قرب کےلیے ذریعہ تلاش کرنے کا حکم دیا ہے
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِـيُـطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰهِ ؕ وَلَوۡ اَنَّهُمۡ اِذْ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ جَآءُوۡكَ فَاسۡتَغۡفَرُوا اللّٰهَ وَاسۡتَغۡفَرَ لَـهُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِيۡمًا ۞
ترجمہ:
اور ہم نے جو پیغمبر بھیجا ہے اس لئے بھیجا ہے کہ خدا کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے اور یہ لوگ جب اپنے حق میں ظلم کر بیٹھے تھے اگر تمہارے پاس آتے اور خدا سے بخشش مانگتے اور رسول (خدا) بھی ان کے لئے بخشش طلب کرتے تو خدا کو معاف کرنے والا (اور) مہربان پاتے
(النساء آیت نمبر64)
جَآءُوۡکَ: بارگاہ رسالت میں حاضر ہونا اور اسے اپنا وسیلہ اور واسطہ بنانا بارگاہ الٰہی میں اثر رکھتا ہے اور یہ عمل شرک نہیں ہے
•┈┈•⊰✿⊱•┈┈•

امام علی علیہ السلام رسول خدا ص کا وسیلہ اختیار کرتے تھے
محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد بن عيسى، عن أبي عبد الله البرقي، عن عيسى ابن عبد الله القمي، عن أبي عبد الله (عليه السلام) قال: كان أمير المؤمنين (صلوات الله عليه) يقول إذا فرغ من الزوال : ” اللهم إني أتقرب إليك بجودك وكرمك وأتقرب إليك بمحمد عبدك ورسولك وأتقرب إليك بملائكتك المقربين وأنبيائك المرسلين وبك، “.
امام صادق (ع) نے فرمایا:
امیر المؤمنین نماز ظہر کے مکمل ہونے کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے: خدایا میں تیری سخاوت و کرم کے وسیلے سے تیری قربت چاہتا ہوں اور تیرے بندے اور رسول حضرت محمد (ص) کے وسیلے سے، تیرے مقرب ملائکہ کے وسیلے سے اور تیرے انبیاء مرسلین کے وسیلے سے تیری قربت چاہتا ہوں
الكافي – الشيخ الكليني – ج ٢ – الصفحة ۳۰۰
اردو نسخہ ، ج ۵ ، ص ۱۸۴
علامہ مجلسی رح نے مذکورہ روايت پر ” حسن ” کا حکم لگایا ہے
باب الدعاء في أدبار الصلوات
الحديث الأول: حسن كالصحيح.
۔یہ روایت حسن ہے کہ جو صحیح روایت کی طرح معتبر ہے۔
مرآة العقول، ج ۱۲ ؛ ص ۳۳۵
—————–

حدثني محمد بن الحسن قال حدثني محمد بن الحسن الصفار عن الحسن ابن علي عن العباس بن عامر عن أحمد بن رزق الله عن يحيى بن العلاء عن جابر عن أبي جعفر عليه السلام قال: ان عبدا مكث في النار سبعين خريفا والخريف سبعون سنة قال ثم إنه سأل الله بحق محمد وأهل بيته لما رحمتني فأوحى الله عز وجل إلى جبرئيل أن أهبط إلى عبدي وأخرجه. قال يا رب كيف لي بالهبوط في النار؟ قال عز وجل اني أمرتها أن تكون عليك بردا وسلاما، قال يا رب فأعلمني بموضعه قال إنه في جب في سجيل قال فهبط جبرئيل على النار على وجهه فأخرجه فقال الله عز وجل يا عبدي كم لبثت في النار؟ قال ما أحصي يا رب فقال وعزتي لولا ما سألتني به لأطلت هوانك في النار ولكني حتمت على نفسي ألا يسألني عبد بحق محمدوأهل بيته إلا غفرت له ما كان بيني وبينه وقد غفرت لك اليوم.
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
انسان ستر خریف تک جہنم میں رہے گا اور ہر خریف ستر سال کا ہو گا لیکن جب وہ کہے گا اے پروردگار !
محمدو اہل بیت محمد ص کے حق کا واسطہ مجھ پر رحم فرما-تو اللہ حضرت جبرئیل علیہ پر وحی کرے گا نیچے جا کر میرے بندے کو آگ سے نجات دو-
حضرت جبریل کہیں گے اے پروردگار! میں کس طرح آگ میں اتروں؟ تو اللہ فرمائے گا کہ میں نے اسے حکم دیا ہے تجھ پر ٹھنڈی ہوجائے اور تجھے کوئی ضرر نہ پہنچائے-حضرت جبریل ع کہیں گے پروردگار!مجھے بتا تیرا بندہ کہاں ہے؟اللہ فرمائے گا وہ سجیل جیسے آگ کے کنویں میں ہے حضرت جبرئیل ع وہاں جا کر اسے آگ سے نکالیں گے-اللہ پوچھے گا میرے بندے کتنا عرصہ جہنم میں رہے ہو-وہ کہے گا پروردگار! اس کا شمار میرے بس میں نہیں-اللہ فرمائے گا مجھے اپنی عزت کی قسم اگر اس طرح سوال نہ کرتا تو میں تجھے جہنم کی ذلت وخواری میں ہی رکھتا لیکن چونکہ میں نے اپنے اوپر ضروری قرار دے رکھا ہے کہ جو بندہ محمد ص واہل بیت محمد ص کے حق کا واسطہ دے کر سوال کریگا تو میرے اور اسکے درمیان جتنے گناہ ہونگے معاف کردونگا۔آج میں نے تیرے بھی سب گناہ معاف کر دیئے ہیں-
ثواب الأعمال – الشيخ الصدوق – الصفحة , ۱۸۶ ، ۱۸۷
اردو نسخہ ، ۱۶۹




