
ناصبی اعتراض : جب تین سو تیرہ حلالی شیعہ پیدا ہونگے تو امام مہدیؑ ظہور کریں گئے ، بدنام زمانہ دہشتگرد اپنی بدنام زمانہ کتاب میں لکھتا ہے کہ ” ظہور مہدیؑ کے وقت تین سو تیرہ شیعہ مومن ہونگے”


اس روایت سے ناصبی اپنی ناسمجھی ، کم فہمی و جہالت کی بناء پر یہ سمجھتے ہیں کہ امام کے مخلص شیعہ کی تعداد جب تین سو تیرہ ہوجائے گی تو ظہور ہوگا چونکہ ظہور ابھی تک نہیں ہوا لہٰذا ثابت ہوا کہ کسی زمانے میں بھی مدعیان تشیع میں اتنی تعداد کے مخلص شیعہ نہیں پائے گئے۔ بلکہ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر شیعہ غیر مخلص ہیں اوپر اوپر سے مدعی شیعیت ہیں حقیقی شیعہ نہیں ہیں۔ بے عقل اور بے علم ملاؤں کو معلوم نہیں ہے کہ مفہوم مخالف کا اعتبار نہیں ہوتا، اگر مفہوم مخالف کا اعتبار کیا جائے تو ” یقتلون الانبیاء بغير حق “ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ انبیاء کو قتل کرنے کا حق بھی ہو سکتا ہے “اى الفريقين احق بالامن” زیادہ حقدار تو مومن ہیں ۔۔۔ لیکن مفہوم مخالف کا اعتبار درست مان کر امن کا کچھ نہ کچھ حق کفار کا بھی تسلیم کرتا پڑتا ہے لہذا مفہوم مخالف کا اعتبار حماقت اور جہالت ہے۔
محولا بالا روایت سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ آپ کے اصحاب صرف تین سو تیرہ (٣١٣) ہوں گے باقی جھوٹ کے دعویدار ہوں گے، آپ کے مخلص شیعہ صرف تین سو تیرہ ( ٣١٣ ) ہوں گے اور یہ تعداد بھی ظہور کے قریب ہی پوری ہوگی ، مفہوم مخالف کا احمقانہ اعتبار کرنا قطعاً بے عقلی اور حماقت ہے اسطرح استدلال تو بالکل ان پڑھ ہی کرسکتا ہےکوئی پڑھا لکھا سمجھدار آدمی نہیں کرسکتا
اس روایت کے الفاظ من اصحابة اور “من اھل الاخلاص” میں من تبعیض کے لیے ہے یعنی اصحاب اور مخلص شیعہ تو لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں ہونگے لیکن یہ منتخب افراد اعلی درجہ کے عالم اور متقی آپؑ کے خصوصی نمائندے ہونگے جو عالمی اسلامی حکومت میں آپ کی طرف سے نمائندہ اور گورنر مقرر ہوں گے۔ ناصبی عقل سے کام لیتے ہوئے بتائیں کیا تمام صحابی مرتبہ میں برابر تھے ؟؟؟ تم نے بھی سابقین مہاجرین ، بدریین ، انصار ، صلح حدیبیہ تک دائرہ اسلام میں آنے والے، پھر فتح مکہ کے وقت آنے والے اور اس کے بعد حلقہ بگوش اسلام ہونے والوں کے مراتب اور طبقات بنا رکھے ہیں ۔۔ اگر ناصبی ملا اور اس کے پیروکاروں میں سوجھ بوجھ کی رمق باقی ہے تو اب پشیمان ہو کر تو یہ کرنی چاہئے لیکن افسوس انہوں نے عقل سے کام نہ لینے کی قسم اٹھا رکھی ہے، وہ یہ نہیں سوچتے کہ آخر دجال اور سفیانی نے برسر پیکار ہو کر اس کے بڑے لشکر کو شکست کون دے گا؟ امام مہدی کی قیادت میں ان کا عظیم لشکر ہی تو ہوگا ، جو خلص شیعوں پر مشتمل ہوگا ، ناصبی ملاں اور ان کے اتباع تو سفیانی اموی اور دجال کا ساتھ دیں گے جیسا کہ اب موجودہ عالمی صورت حال سے معلوم ہو رہا ہے۔
امام مہدی علیہ السلام کے تین سو تیرہ اصحاب کے مطلق إمام اہل السنة نعيم بن حماد نے اپنی کتاب “الفتن” میں ذکر کیا ہے ملاحظہ فرمائیں

ہم نے بیان کیا ولید بن مسلم نے اُنہوں نے روایت کیا ابو عبداللہ رحمہ اللہ تعالی سے، اُنہوں نے عبدالکریم ابی امیہ سے کہ محمد بن حنفیہ نے فرمایا کہ بنی العباس کا کالا جھنڈا نکلے گا پھر خراسان سے دوسرا کالا جھنڈا (یا جماعت) نکلے گا۔ جنکی ٹوپیاں کالی اور کپڑے سفید ہوں گے، انکے اگلے حصے پر ایک آدمی مقرر ہو گا جس کو شعیب بن صالح بن شعیب کہا جاتا ہے ، وہ بنو تمیم سے ہو گا ، پھر سفیانی کے ساتھی بھاگ کر بیت المقدس میں چلے جائیں گے، مہدی کے لئے اس کی بادشاہت آسان اور موافق ہوگی اور ان کی مدد (و فریاد رسی) کریں گے شام کے تین سو (300) آدمی، ان کے مروج اور حکومت مہدی کے حوالے ہونے کے درمیان بہتر72 مہینے ہوں گے۔
حوالہ : [ کتاب الفتن – صفحہ ٣٢۵ – روایت ٨٩۴ ]

ہم سے بیان کیا ہے حکیم بن نافع نے جراح سے، انہوں نے ارطاۃ ہے کہ انہوں نے فرمایا : جب لوگ مینی اور عرفات میں ہوں گے تو قبائل کے جمع ہونے کے بعد ایک پکارنے والا پکارے گا کہ خبردار ! تمہارا میر فلاں شخص ہے اس کے پیچھے ایک آواز آئے گی کہ اس نے جھوٹ بولا اور اسکےپیچھے دوسری آواز آئے گی کہ اس نے سچ کہا۔ لوگ آپس میں سخت لڑائی کریں گے ۔ ان کے بڑے ہتھیار پالان کے نیچے بچھائے جانے والے کمبل ہوں گے اور وہ کمبلوں والا لشکر ہو گا اور اس دوران تم آسمان میں سے ایک ہتھیلی ظاہر ہوتے دیکھو گے اور سخت لڑائی ہوگی۔ حق کے مددگاروں میں سے کوئی باقی نہیں بچے گا مگر اتنی تعداد میں جو اہل بدر کی تھی ( یعنی 313) پھر وہ اپنے امیر کی بیعت کے لیے روانہ ہو جائیں گے۔
حوالہ : [ کتاب الفتن – صفحہ ٣۵٦ – روایت ٩٨۵ ]

ہم سے بیان کیا ہے ابو یوسف مقدی نے، اُنہوں نے عبد الملک بن ابی سلیمان سے، اُنہوں نے عمرو بن شعیب سے، اُنہوں نے اپنے والد سے، اُنہوں نے اپنے والد سے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے ذی قعدہ (کے مہینے ) میں قبائل جمع ہوں گے اور حاجیوں کو لوٹا جائے گا۔ مٹی میں سخت جنگ ہوگی، اس میں مقتولین بہت زیادہ ہوں گے اور اس میں خون بہایا جائے گا یہاں تک کہ ان کا خون جمرہ عقبہ ( بڑا شیطان) پر بہے گا، یہاں تک کہ ان کا ساتھی بھاگے گا جسے رکن یمانی) اور مقام (ابراہیم) کے درمیان لایا جائے گا، پھر اس کی بیعت کی جائے گی حالانکہ وہ اُسے نا پسند کرے گا اور اُسے کہا جائے گا کہ اگر تو نے بیعت لینے سے انکار کیا تو ہم تیری گردن مار دیں گے، وہ اس کی بیعت کریں گے جو اہل بدر کی تعداد کے برابر ہوں گے۔ (یعنی ٣١٣) اس سے آسمان اور زمین کے رہنے والے راضی ہوں گے۔
حوالہ : [ کتاب الفتن – صفحہ ٣۵٦ ، ٣۵٧ – روایت ٩٨٦ ]

ہم سے بیان کیا ہے ولید بن مسلم نے ابو عبد اللہ سے، اُنہوں نے ولید بن ہشام معطلی ہے، اُنہوں نے آبان بن ولید بن عقبہ بن ابی معیط سےکہ اس نے حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سُنا ہے کہ آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ لوگوں کے مایوس اور منتشر ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ حضرت مہدی علیہ السلام کو بھیجے گا پھر اہل شام میں سے کچھ لوگ جن کی تعداد اصحاب بدر کے برابر (٣١٣) ہوگی مہدی علیہ السلام کی تلاش میں شام سے چلیں گے ، اور اندرون ملکہ دار صفا پہنچ کر انکی زبردستی بیعت کریں گے جو اس وقت مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد منبر پر تشریف لائیں گے۔
حوالہ : [ کتاب الفتن – صفحہ ٣۵٨ – روایت ٩٩٠ ]